وجئے نے اپنی ماں کی زبان سے اس کی شادی سے متعلق دونوں خدشات سن لئے تھے اور سوچ رہا تھا بھان متی کی بات میں کس قدر سچائی ہے۔ کئی مرتبہ مسائل کا حل ہمارے سامنے موجود ہوتا ہے لیکن ہم اس کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ وہ سوچ رہا تھا کنگنا کا ذکر اپنے والدین سے کر دینے کا یہ بہترین موقع ہے ورنہ اگر ان لوگوں نے اپنے لئے کسی بہو کا انتخاب کر لیا تو سنگین مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ سائیکل کے دونوں پہیوں کی ہوا بیک وقت نکل جائے گی۔
چندریکا نے ریوتی کی مدد سے راجن کو دوکان پر روانہ کیا اور کافی بنا کر اپنے بیٹے کے پاس آ بیٹھی۔ وہ جانتی تھی کہ راجن کے دوکان میں پہنچنے سے قبل کمار وہاں سے نہیں نکلے گا۔ ان تیس سالوں میں وہ کمار کی رگ رگ سے واقف ہو چکی تھی۔ وجئے نے دفتر جانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ گرم گرم کافی کے گھونٹ لیتے ہوئے بولا ممی مجھے لگتا ہے کہ پاپا ٹھیک کہتے ہیں۔
یہ جانے بغیر کہ وہ کمار کی بات کی تائید کر رہا ہے چندریکا بولی دیکھو تم اپنے پاپا کی بہت زیادہ حمایت نہ کیا کرو میں اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ وہ کتنا ٹھیک اور کیا غلط کہتے ہیں۔ مجھے سب پتہ میں تیس ۰۰۰۰۰۰۰
مجھے پتہ ہے ممی کے آپ تیس سال سے ان کے ساتھ ہیں اور ۲۸ سال سے میری پرورش کر رہی ہیں۔ یہ ایک طویل دورانیہ ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ آپ آرام کریں اور آپ لوگوں کی خدمت کی جائے۔
بیٹے کی زبان سے اپنے دل کی بات سن کر چندریکا کا دل باغ باغ ہو گیا۔ وہ بولی بیٹے تمہارے پاپا کو بھی ایسا لگتا ہے کہ اب میں بوڑھی ہو گئی ہوں لیکن ایسا نہیں ہے۔ میں اب بھی تمہاری اور اپنی بہو کی خدمت کر سکتی ہوں۔ چندریکا کی آنکھوں میں شفقت کے تارے جھلملا رہے تھے۔
ممی آپ نے جن خدشات کا ذکر کیا وہ بجا ہیں لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے؟
چندریکا بولی تم کیا کہنا چاہتے ہو میں نہیں سمجھی بیٹے۔
در اصل پہلے زمانے میں جو مسائل والدین حل کے ہوئے تھے اب بچے خود انہیں حل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
چندریکا اب بھی وجئے کا اشارہ نہیں سمجھ سکی لیکن اس بیچ کمار کمرے میں داخل ہو گیا۔ وہ بولا او ہو میں تو اپنے ساتھ ایمبولنس لانے والا تھا لیکن یہاں تو ناشتہ ہو رہا کافی کا دور چل رہا ہے۔ اگر یہ سب بیماری کی حالت میں ہوتا ہے تو ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۔
چندریکا نے مڑ کر دیکھا اور بولی یہ کباب میں ہڈی کہاں سے آ گئی؟
کمار بولا ہڈی نہیں سبزی۔ میں آتے آتے لوکی اپنے ساتھ لے آیا تاکہ دوبارہ دوکان جانے کی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔
چندریکا بولی اچھا کیا۔ کم از کم بڑھاپے میں کچھ تو سمجھ آنے لگی ہے خیر یہ سبزی باورچی خانے میں رکھو۔ میں ابھی آتی ہوں۔ اس کے بعد وہ وجئے سے بولی بیٹا اب تو کچھ دیر آرام کر پھر اگر ضرورت ہوئی تو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔
وجئے کو افسوس تھا بات ادھوری رہ گئی اور ایک اچھا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کی طبیعت سنبھل چکی تھی لیکن دفتر جانے کا خیال وہ اپنے دل سے نکال چکا تھا۔ اس نے فون پر اطلاع دے دی کہ آج اس کی طبیعت ناساز ہے۔ وہ دفتر نہیں آئے گا اگر کوئی ضروری کام ہو تو ای میل کر دیا جائے، وقفہ وقفہ سے میل دیکھتا رہے گا۔
باورچی خانے کے اندر چندریکا نے کمار سے کہا دیکھو اب ہمارا بیٹا جوان ہو گیا وہ ہماری باتیں سمجھنے لگا ہے اس لئے آپ اپنی زبان پر لگام رکھا کریں۔
کمار بولا بھئی میں نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارا بیٹا جوان ہو گیا ہے اب اس کی شادی ہو جانی چاہئے تاکہ ۰۰۰۰۰۰
پھر وہی فضول بات۔ در اصل مجھے لگتا ہے آپ کی بات سے اس کی دلآزاری ہو گئی۔ وہ کہہ رہا تھا میرے خدشات بجا ہیں، زمانہ بدل گیا ہے۔ آج کل والدین کے بجائے ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ہاں ہاں میں سمجھ گیا لیکن تم نہیں سمجھیں۔
کیا؟ میں نہیں سمجھی کیا مطلب؟
جی ہاں آخر تم ایک معمولی سبزی فروش کی بیوی جو ہو اس لئے اپنے ہونہار انجینئر بیٹے کی بات کیسے سمجھ سکتی ہو؟
چندریکا منہ بگاڑ کر بولی تم بھی تو سبزی فروش کے سبزی فروش ہی رہے۔ اگر کلکٹر بن جاتے تو میں بھی کلٹرائن بن جاتی۔ اس میں سارا قصور آپ کا ہے؟
جی ہاں بھاگوان جب بھی کوئی قصور ہوتا ہے وہ میرا ہی ہوتا ہے اس لئے کہ اس پر میری اجارہ داری ہے۔ اس دوران میں کلکٹر تو نہیں لیکن ایک ہونہار کمپیوٹر انجینیر کا باپ ضرور بن گیا لیکن تم رہیں وہی گھامڑ کندۂ نا تراش۔
اچھا تو کیا میرے وجئے کی ماں ہونے میں کوئی شک شبہ ہے؟
طبعی حیثیت سے تو تمہارے ماں ہونے کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا لیکن اس کا عقلی باپ میں ہوں اس لئے اس کے اشاروں کنایوں کو سمجھتا ہوں۔
اچھا اگر آپ سمجھتے ہیں تو مجھے بھی سمجھانے کی زحمت گوارا کریں۔
بھئی بات صاف ہے اس نے تمہارے لئے بہو ڈھونڈ لی ہے اور غالباً رہائش کا بھی انتظام کر لیا ہے۔
اچھا یہ تو بڑی خوشخبری ہے لیکن اس نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟
اس نے یہ بات مجھے نہیں بلکہ تمہیں ہی بتائی لیکن اس کو سمجھنے کیلئے جس عقل کی ضرورت۰۰۰۰۰۰۰۰
پھر وہی جھگڑے والی بات؟
اچھا بابا غلطی ہو گئی۔
لیکن آپ نے جو سمجھا ہے وہ غلط بھی تو ہو سکتا ہے۔ اس کی تصدیق کیسے ہو گی؟
وہ میں کر لوں گا۔ تم اس کی فکر نہ کرو۔
بڑے آئے فکر کرنے والے۔ میں سب جانتی ہوں۔
ٹھیک ہے تم یہ تو جانتی ہو نا کہ لوکی کیسے پکائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ تمہارا بیٹا کیا کھاتا ہے؟
جی ہاں بالکل جانتی ہوں۔
تو پھر اس کام لگ جاؤ اور جو کر سکتی ہو کرو بلاوجہ سوچنے سمجھنے کے بکھیڑے میں نہ پڑو۔ کیا سمجھیں؟
کمار کی باتوں نے چندریکا کا دل خوش کر دیا تھا لیکن اسے اطمینان نہیں ہو رہا تھا کہ یہ سب سچ ہے یا بس کمار کی خام خیالی ہے۔ ویسے وہ جانتی تھی کہ پیشے سے سبزی فروش ہونے کے باوجود کمار نہایت زیرک اور ذہین آدمی ہے۔
کمار نے وجئے کی پیشانی پر ہاتھ رکھ پوچھا بیٹے بخار تو نہیں ہے؟
جی نہیں پاپا مجھے نہیں لگتا۔
زبان کا ذائقہ کیسا ہے؟
معمولی سی کڑواہٹ ضرور ہے لیکن ٹھیک ہے۔
اچھا یہ بتاؤ کہ ہمیں اپنی بہو سے کب ملا رہے ہو؟
وجئے اس اچانک حملے کیلئے تیار نہیں تھا۔ اس نے چونک کر پوچھا کیا؟ دروازے کی اوٹ سے چندریکا یہ سب سن رہی تھی۔
کمار نے قہقہہ لگا کر پوچھا میرا مطلب تھا ہونے والی بہو سے کب ملا رہے ہو۔ اب اتنی بات تو تمہیں سمجھنی چاہئے۔
آپ ۰۰۰۰۰آپ جب مناسب سمجھیں ۰۰۰۰۰میں ۰۰۰۰۰میرا مطلب ہے ۰۰۰۰۰۰کبھی بھی۔
کیا وہ تمہارے ساتھ دفتر میں کام کرتی ہے؟
جی ۰۰۰۰۰جی نہیں ۰۰۰۰۰۰وہ کام نہیں کرتی ۰۰۰۰۰۰وہ کالج میں پڑھتی تھی ۰۰۰۰۰میرا مطلب ہے۔
سمجھ گیا اور گھر کہاں ہے؟
مڈ ویسٹ ریلوے اسٹیشن کے قریب۔
کیا؟ وہ تو بہت دور مضافات میں ہے؟ کیا وہ لوگ مڈویسٹ میں رہتے ہیں؟
جی ۰۰۰۰۰۰جی نہیں ۰۰۰۰۰۰۰وہ تو سینٹرل لندن میں رہتی ہے۔ اپنے والدین کے ساتھ۔
اور مڈ ویسٹ؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰ہاں اچھا سمجھ گیا۔ مڈویسٹ میں تم نے گھر دیکھ لیا ہے بہت خوب۔ تو ہم لوگوں کو اپنے نئے گھر میں کب لے کر چلو گے؟
وجئے نے اپنا پرانا جواب دوہرا دیا۰۰۰ آپ ۰۰۰۰۰آپ جب مناسب سمجھیں ۰۰۰۰۰میں ۰۰۰۰۰میرا مطلب ہے ۰۰۰۰۰۰کبھی بھی۔ وجئے کو کو خوف تھا کہ اگر یہ لوگ آج ہی تیار ہو جائیں تو اس گھر کنجی کنگنا کے پاس ہے۔ یہ راز ابھی افشاء نہیں ہوا تھا کہ وہ مکان کنگنا کے والد کھنہ صاحب کا ہے۔
کمار بولا ویسے کوئی جلدی نہیں ہے کسی اتوار کو چلے چلیں گے۔
اس جملے کو سن کر وجئے کی جان میں جان آئی لیکن باہر کھڑی چندریکا مایوس ہو گئی۔ وہ آج ہی دونوں کام کرنا چاہتی تھی۔ اپنی ہونے والی بہو سے بھی ملنا چاہتی تھی اور اپنے بیٹے کا گھر بھی دیکھنا چاہتی تھی۔ در اصل وہ بھول گئی تھی وجئے نے بیماری کے سبب چھٹی لی ہے اور سچ بھی یہی تھا کہ اپنے والد سے بات کرنے کے بعد وجئے کی طبیعت سنبھل گئی تھی۔ اس کے باوجود دفتر جانے کا موڈ نہیں تھا۔
کمار نے کہا ٹھیک ہے بیٹے تم آرام کرو میں دوکان پر جاتا ہوں۔
وجئے بولا شکریہ پاپا اور بستر پر لیٹ گیا۔ اب اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ مستقبل کے حسین خواب سجا رہا تھا۔
وجئے کے سامنے اب دو مراحل تھے۔ ایک تو کنگنا سے اپنے والدین کی ملاقات کرو انا اور دوسرے اپنا نیا گھر ان کو دکھلانا۔ اس کو یقین تھا کہ کنگنا انہیں پسند آ جائے گی لیکن گھر والا معاملہ ذرا ٹیڑھا تھا۔ نہ اِس گھر میں کنگنا کیلئے جگہ تھی اور نہ اُس گھر میں والدین کیلئے گنجائش تھی خیر زندگی چکی کے ان دو پاٹ کے درمیان گھوم رہی تھی۔ وجئے نے جب اپنے والدین کی خواہش کا ذکر کنگنا سے کیا تو وہ بولی اس بابت تم اپنے باس سے بات کرو اور گھر کی چابی بھی لے کر اپنے پاس رکھ لو تاکہ وقتِ ضرورت اپنے والدین کو لے جا سکو۔ اس سے پہلے کہ وجئے کھنہ صاحب سے بات کرتا کنگنا نے یہ بات ان کے گوش گزار کر دی تاکہ وہ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔
وجئے نے جب ان سے ذکر کیا تو کھنہ صاحب نے بڑی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے کمار کا فون نمبر لیا اور تمام تکلفات کو ایک جانب رکھ کر اپنے دوست و احباب کے ساتھ کوٹھی پر آنے کی دعوت دے دی۔ کمار کو کھنہ صاحب کی خوش مزاجی بہت پسند آئی۔ اتوار کی دوپہر میں کمار، چندریکا، راجن، ریوتی اور سنجے کا قافلہ وجئے کے ساتھ کمار صاحب کی کوٹھی میں پہنچ گیا۔
بھان متی نے ان سب کی بہت خاطر مدارات کی۔ کنگنا بھی بڑے احترام کے ساتھ پیش آئی اور سب کا دل جیت لیا۔ اس نشست میں کھانے پینے کے بعد شادی کا مہورت بھی طے کر دیا گیا۔ ریوتی سنجے کے ساتھ ساتھ وجئے کو اپنا بیٹا مانتی تھی۔ وہ بہت خوش تھی کہ وجئے کا بیاہ ایک نہایت پر وقار خاندان میں ہونے جا رہا تھا۔ چندریکا کو یقین تھا کہ سنجے کی بھی شادی اسی طرح طے ہو گی اور دونوں بیٹے اپنا اپنا گھر بسائیں گے۔
اس تقریب کے ایک ہفتہ بعد جب وجئے اپنے والدین کو لے کر مڈویسٹ پہنچا تو وہ لوگ راستے میں ہی بیزار ہو گئے۔ ایک تو وہاں پہنچنے کیلئے انہیں دو مرتبہ ٹرین بدلنا پڑا دوسرے ریلوے اسٹیشن سے گھر کا فاصلہ اور وہاں کا سونا پن یہ سب کمار اور چندریکا کیلئے بہت تکلیف دہ تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو اس کی وسعت نے ان کی مایوسی میں اضافہ کر دیا۔ گھر چونکہ بند تھا اس لئے وہاں بیٹھنے کیلئے چند کرسیاں اور باورچی خانے میں صرف چائے کا سامان تھا۔ بسکٹ اور نمکین وجئے اپنے ساتھ لیتا آیا تھا۔
وجئے جب اپنے والدین کیلئے چائے بنا رہا تھا چندریکا نے کمار سے پوچھا۔ یہ ہمارا بیٹا شہر سے دور کس جنگل میں چلا آیا ہے؟ ہم یہاں کیسے رہیں گے؟
کمار بولا ہم یہاں کیوں رہیں گے؟ ہم اپنے گھر میں رہیں گے۔ یہاں تو وہ کنگنا کے ساتھ رہے گا۔
لیکن وہ بھی اس ویران سنسان علاقہ میں کیسے رہے گا؟
یہ بھی انسانوں کی بستی ہے۔ یہاں بہت سارے لوگ آباد ہیں۔ جیسے دوسرے لوگ رہتے ہیں ویسے وہ بھی رہے گا۔
لیکن اتنی دور آنا جانا بھی تو ایک مسئلہ ہے؟
لیکن ہم جیسے غریب لوگوں کیلئے شہر کے اندر مکان لینا تو درکنار اس کا کرایہ ادا کرنا بھی مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان علاقوں میں آ کر بس گئے ہیں۔ وجئے جوان ہے اس کیلئے فی الحال سفر میں دقت نہیں ہے۔ تم اس کی فکر نہ کرو۔
چندریکا بولی لیکن آپ کنگنا کے بارے میں نہیں سوچتے؟ اپنے وجئے کے باعث وہ وسط لندن کی شاندار کوٹھی سے نکل کر اس گھونسلے میں آ کر کیا خوش رہ سکے گی؟
یہ سوال کمار کو پچیس سال قبل کے ماضی میں لے گیا۔ وہ بولا چندریکا تم بھول گئیں وہ دن جب تم اپنا دیس، اپنے لوگ، اپنا گھر سنسار چھوڑ چھاڑ کر ایک اجنبی دیس میں چلی آئی تھیں۔ ہم لوگ راجن کے پرانے خستہ حال مکان کے پچھواڑے میں ایک چھپر نما جھونپڑے میں رہتے تھے۔ سردیوں کی رات کاٹے نہیں کٹتی تھی۔ برف باری کے سبب دروازہ نہیں کھلتا تھا لیکن اس کے باوجود کیا تم خوش نہیں تھیں؟
چندریکا خاموشی کے ساتھ خلاء میں دیکھ رہی تھی۔
راجن نے کہا بولو چندریکا چپ کیوں ہو؟ کیا تم اس زمانے میں افسردہ تھیں؟
چندریکا کے پاس کمار کے سوالات کا جواب نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ کمار کو جواب کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ وہ تو صرف یاددہانی کی خاطراستفسار کر رہا تھا۔ چندریکا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ محبت کے آنسو، عقیدت کے آنسو، رفاقت کے آنسو۔
وجئے نے چائے کی پیالیاں ایک ننھی سی تپائی پر رکھ دیں۔ اس کے پاس ایک رکابی میں بسکٹ اور نمکین رکھ دیا۔ پہلی بار وجئے اپنے والدین کی خدمت کر رہا تھا اور کیوں نہ کرتا۔ وہ اس کے گھر جو آئے تھے۔ وہ اس گھر میں مہمان تھے لیکن وجئے خود ان کے گھر میں مہمان نہیں تھا۔ یہ معمہ وجئے کی سمجھ سے باہر تھا کہ اگر وہ ان کے گھر میں مہمان نہیں تھا وہ اس کے اپنے گھر میں مہمان کیسے ہو گئے تھے؟ کمپیوٹر انجینیر کی حیثیت سے ہر سوال کا جواب وہ پہلے گوگل سے پوچھتا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ یہ کوشش بے سود ثابت ہو گی۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو گوگل بابا کو بھی لا جواب کر دے گا۔
چائے سے فارغ ہونے کے بعد دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے وجئے نے پوچھا پاپا آپ کو یہ گھر کیسا لگا؟
کمار بولا بیٹے جب میں تمہاری عمر کا تھا تو میرا گھر اتنا اچھا نہیں تھا۔
چندریکا بولی اُس عمر کی چھوڑو اِس عمر میں بھی آپ کا مکان میرے بیٹے کے گھر سے اچھا نہیں ہے۔
وہ دونوں جھوٹ بول رہے تھے لیکن اس جھوٹ پیچھے چھپا سچ یہ تھا کہ نادانستہ طور پر گھروں کی تقسیم مکمل ہو چکی تھی۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ اور سارے فریق اس پر راضی ہو گئے تھے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...