غرض مادھو ہر ایک کوچہ و بازار کی سیر کرتا ہوا راجا کی ڈیوڑھی پر پہنچا تو دیکھتا کیا ہے کہ راجا محل بڑا عالیشان سونے کا ہے اور جواہر اس پر اس بہتات سے جڑا گویا کیلاش پروت سے جگمگا رہا ہے اور دروازے پر عامل و فوجدار جگہ جگہ کے اور راجے پنڈت ملک ملک کے حاضر ہیں۔ جو حکم پاتا ہے وہ حضور کے حجرے کو جاتا ہے۔ یوں ہر ایک جا نہیں سکتا۔
یہ حال دیکھ کر ہوا اداس اور راجا کے ملنے کی چھوڑی آس۔ ناچار وہاں سے پھرا اور گلی کوچے کا رستہ لیا۔ دن کو تو بے حواس چاروں طرف پھرتا اور رات کو رو رو آہیں بھرتا۔ روز و شب جی پر دکھ سہتا پر اپنا درد دل کسی سے نہ کہتا۔ پھر کتنے دنوں کے بعد اسے معلوم ہوا کہ ایک مہا دیو کا مندر بلور کا بنایا ہوا ہے کہ اس میں راجا بکرما جیت ہمیشہ پوجا کو آتے ہیں۔
بے تابی سے گھبرا کر وہاں گیا اور اس کی دیوار پر یہ دوہرا لکھا:
نہ راجا رام چندر ہے جسے سیتا کا فراق ہوا تھا، نہ راجا نل جسے دمینتی سے جدائی ہوئی تھی، نہ راجا پنڈر ہے جو اربسی سے بچھڑا تھا۔ راجا بھرتری بھی نہیں جو پنگلا سے جدا کا ہو جوگی ہوا تھا۔ یہ سب کے سب جہاں سے برہ کا جوگ کرکے اٹھ گئے، اب کون ہے جو میرا دکھ سمجھے اور رنج کو دور کرے۔ اور وہاں سے گیا۔ اتنے میں راجا بکر ماجیت پوجا کے واسطے آئے اور پوجا پرکرما (بیکرما) کے واسطے مندر کے گرد گھومنے لگے تو دیکھتے کیا ہیں کہ ایک دوہرا مندر کی دیوار پر لکھا ہوا ہے۔ اسے پڑھ کر بولے کہ “میرے شہر میں کوئی ایسا بروگی آیا ہے جو برہ کی آگ سے آٹھ پہر جلتا ہے”۔
پھر اپنے مصاحبوں سے کہا: “وہ لوگ بڑے عجیب طرح کے بیوقوف اور نادان ہوتے ہیں جو اپنا دل پرائے ہاتھ دے، کسو کی شرم و حیا نہیں کرتے اور سب کچھ چین اپنا چھوڑ کر برہ کے دکھ بھرتے ہیں”۔
یہ کہہ کر حکم کیا کہ “دیکھو! وہ برہی کہاں ہے؟ میرے شہر میں جو کوئی دکھی رہے گا مجھے (ساکا بند بکرم) گوبند بکرم کون کہے گا۔ مجھ کو یہی چاہیے کہ جس وقت آفت زدہ دکھیا کو پاؤں یا سنوں تو اس کا دکھ درد دور کروں۔ تم میں سے جو کوئی اسے ڈھونڈ لائے گا تو بہت سا انعام پائے گا”۔
پرائے دکھ کو وہی جانتا ہے جس پر دکھ پڑا ہو اور جو اپنے دست قدرت کے وقت محتاج کی دست گیری کرتا ہے اسے محتاجی کبھی پیش نہیں آتی۔
حاصل یہ کہ وہ راجا دکھ کا دور کرنے والا اور دیا کا سمندر تھا۔ پرائی پیڑ سن کر منہ اس کا پیلا ہو گیا۔ پل پل دل میں چنتا کرنے لگا اور کھانا پینا چھوڑ کر کہا: “جب تک وہ شخص نہ ملے گا یوں ہی رہوں گا”۔
یہ سنتے ہی زن و مرد اس کی تلاش کے واسطے راجا کے حضور میں آئے، تب سبھوں کو اس نے برہ بیوگی کے لچن بتائے۔ پھر تو وے ہر کوچہ و بازار میں گھر گھر، در در متلاشی ہو، جا بہ جا پھرنے لگے۔ اور ایک کٹنی بھی گیان متی نام اس کی تلاش میں نکلی تھی۔
ڈھونڈتی ڈھونڈتی مہا دیو کے مندر پاس آپہنچی اور اتفاقاً مادھو بھی وہاں وارد تھا۔ دیکھتی کیا ہے کہ ایک شخص ہے کہ تن و توش اُس کا تحلیل ہو کر بدن خشک ہو گیا ہے اور آنسو آنکھوں میں بھر بھر لاتا ہے اور گھڑی گھڑی ٹھنڈی ٹھنڈی سانس لیتا، اداس اور بے حواس بیٹھا ہے۔ کبھی گاتا کبھی بین بجاتا، کبھی روتا اور کبھی کام کندلا کا نام لے لے پکارتا۔ لباس گلے کا میلا۔ سر کے بال بڑھے ہوئے۔ نہایت بری حالت، رنگ زرد ہے، خون بدن میں نہیں۔ گوشت گھل کر ہڈی چمڑہ رہ گیا ہے اور ناتوانی سے یہ نوبت پہنچی ہے کہ پاؤں سے سر ملتا ہے۔
یہ احوال دیکھ گیان متی نے اپنے دل میں کہا: “ہو نہ ہو یہ وہی شخص ہے کہ جس کے دکھ سے راجا کو دکھ ہے۔ اسی سوچ میں کھڑی تھی کہ اتنے میں دس بیس سکھیاں اس کی اور بھی ڈھونڈتی ہوئیں وہاں آن پہنچیں۔
تب اُن سے ان نے کہا: “یہ وہی ہے جس کو سب رنڈی مرد ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ غرض اب یہی بہتر ہے کہ اسے یہاں سے ہاتھوں ہاتھ حضور میں لے چلو کہ ہمارے راجا کو سکھ ہو”۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...