” کچھ سمجھ نہیں آتا کہ آخر ہو کیا رہا ہے ۔” نفیسہ نے غصّے سے ادھر ادھر ٹہلتے ہوئے کہا ۔ وہ سب اس وقت سیما کی حویلی میں موجود تھے ۔
” آخر کوئی ہمارے پیچھے کیوں پڑا ہوا ہے ہم نے تو کسی کو کوئی تکلیف بھی نہیں پہنچائی ۔ ” یہ زوبیہ تھی جو سعاد کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ۔
” برائی اپنے وجود سے صرف شر بانٹتی ہے ۔” عالیہ جو اب تک خاموش تھی ایک دم بول پڑی ۔” اور اس برائی کو روکنے کے لئے ہمیں کچھ کرنا ہوگا ۔”
” لیکن ہم کریں گے کیا ۔؟” مہمت نے پوچھا ۔
” ہم نہیں ۔” عالیہ کسی گہری سوچ میں تھی ۔” عفرا کرے گی۔ ”
عفرا ایک صوفی جن کی بیٹی تھی اور سیما لوگوں سے اس کے تعلقات بہت اچھے تھے ۔ نفیسہ اور عالیہ نے باقی لوگوں کو حویلی میں ٹہرا لیا اور خود اس سے ملنے چلیں گئیں ۔ جب عفرا کو سیما کی موت کا علم ہوا تو اسے بہت صدمہ پہنچا لیکن اگلے ہی لمحے اس کا صدمہ غصّے میں تبدیل ہو گیا ۔ اس نے قسم کھائی کہ وہ کسی بھی قیمت پر یہ معمہ حل کرے گی ۔ وہ نفیسہ اور عالیہ کو لے کر اپنی لائبریری میں آ گئی ۔
” سب سے پہلے تو ہمیں یہ پتا کرنا ہے کہ وہ ہے کون جو سعاد لوگوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے ۔” اتنا کہہ کر عفرا نے ایک کتاب کھولی اور کچھ بنا لکیر کے صفحے لے کر کرسی پر بیٹھ گئی ساتھ ہی ایک پانی کا پیالہ بھی میز پر رکھا ہوا تھا ۔ عالیہ اور نفیسہ نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔
” کیسے پتا چلے گا ۔؟” نفیسہ نے پوچھا ۔
” دیکھو ہم جانتے ہیں کہ جو شخص کفر پر مرے یا بری موت یا پھر کوئی جادوگر مرے تو اس کی روح لوگوں کو پریشان کرتی ہے کیوں کہ اسے عالم برزخ میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ ایسے لوگ مرنے کے بعد دوسروں کو تنگ کرتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ داسو کی ناپاک روح ہی ہے جو ان لوگوں کو پریشان کر رہی ہے ، کیوں کہ
ایمان و عمل کے اعتبار سے ہر ایک کی روح کے لئے الگ جگہ مقرر ہے ، قیامت آنے تک وہیں رہے گی ، کسی کی عرش کے نیچے کسی کی اعلی لیین میں اور کسی کی چاہ زمزم میں کسی کی اس کی قبر پر اور کافروں کی روح قید ہوتی ہے کسی کی چاہ برہوت میں کسی کی سجیین میں کسی کی اس کے مرگھٹ یا قبر پر ۔
( قانون شریعت : حصّہ اول )۔”
عفرا نے اتنا کہہ کر کتاب کھولی ۔ ” اس کتاب سے میں ایک استخارہ کروں گی اگر واقعی وہ داسو ہوا تو ہمیں پتا چل جائے گا ۔” ورق ورق الٹتے وہ اپنے مطلوبہ صفحے پر آئی ۔ کتاب میں سے ایک نقش دیکھ کر بنا لکیر والے صفحے پر اتارا پھر کتاب بند کرتے ہوئے اس صفحے کو پانی میں ڈالا ۔
” اگر یہ صفحہ آگے پیچھے ہوا تو مطلب ہوگا کہ واقعی وہ داسو ہے اگر دائیں بائیں ہوا تو یہ ہمارے قول کی نفی ہوگی ۔” اتنا کہہ کر اس نے زیر لب کچھ پڑھا اور اسے کاغذ پر پھونک دیا ۔ کاغذ چند لمحے تو اپنی جگہ پر رہا لیکن آہستہ آہستہ وہ آگے پیچھے ہونے لگا ۔ عالیہ نے نفیسہ کو دیکھا جس کے چہرے پر سنجیدگی اور پریشانی ظاہر ہونے لگی تھی ۔ کاغذ تین مرتبہ آگے پیچھے ہوا اور پھر پانی سے بھرے پیالے میں ڈوب گیا لیکن ڈوبتے ہی وہ کاغذ غائب ہوگیا اور پانی کا رنگ خون کی طرح سرخ ہو گیا ۔
” یہ داسو ہی ہے ۔” عفرا کے لہجے میں تپش تھی ۔ اچانک کھڑکیاں زور زور سے ہلنے لگیں ۔ لائٹ جلنے بند ہونے اور کمرے میں موجود کانچ کے سامان ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگے پھر انہیں کسی بھیانک قہقہے کی آواز سنائی دینے لگی ۔
” تم نہیں جانتے میں کون ہوں ۔۔۔” عفرا نے چلا کر کہا ۔” میں عفرا نیاز تمہاری ناپاک روح کو دوزخ میں بھیجنے کی ہمّت رکھتی ہوں ۔” اتنا کہہ کر اس نے زیر لب کچھ پڑھ کر ہواؤں میں پھونک ماری تو کسی کی مکروہ سی چیخ فضا میں گونج گئی ۔ یہ آواز اتنی شدید تھی کہ عالیہ اور نفیسہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر میز کے پاس بیٹھ گئیں جب کہ عفرا خود بھی چیخ اٹھی تھی ۔ چند لمحوں کا عمل تھا اور پھر ہر طرف سکوت چھا گیا ۔ آواز بند ہو گئیں اور روشنی بھی واپس آ گئی ۔عالیہ نے عفرا کو دیکھا جو لڑکھڑا گئی تھی ۔ اس نے جلدی سے اٹھ کر سہارا دیا ۔
” وہ بہت طاقتور ہو گیا ہے ۔ میرا عمل کچھ دیر کے لئے شاید اسے کمزور کر چکا ہو لیکن میں زیادہ دیر تک اسے روک نہیں سکوں گی ۔” عفرا کرسی پر بیٹھ گئی ۔
” جسم کو قید کیا جا سکتا ہے لیکن روح کو نہیں اور روح بھی ایسی جو انتہائی ناپاک اور شر سے مرصع ہو ۔” نفیسہ نے سر جھٹکا ۔
” لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھ سکتے ۔” عالیہ نے دونوں کو دیکھا ۔” ان لوگوں کی زندگی خطرے میں ہے ۔”
” ہم سیما کا بدلہ لیں گے لیکن اس طرح نہیں ۔۔۔” عفرا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
***
صوفی نیاز شاہ ۔۔۔ جن تھے ۔ عفرا نے انہیں تمام حالات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ۔
” بابا یہ بہت ضروری ہے اگر سیما نے ان کی مدد نہ کی ہوتی تو میں کبھی آپ سے نہیں کہتی ۔”
” میں تمہارے احساسات سمجھ سکتا ہوں ۔” اتنا کہہ کر انہوں نے سامنے پڑے صفحوں پر مختلف لکیریں کھینچنی شروع کیں اور پھر ان میں کچھ عدد لکھے ۔ کافی دیر یہ سلسلہ چلتا رہا صوفی صاحب کچھ حساب کرتے پھر زیر لب کچھ پڑھ کر صفحے پر پھونکتے اسی طرح وہ کافی دیر کرتے رہے یہاں تک کہ انہیں مطلوبہ جواب مل گیا ۔
” ناممکن کی حد تک ایک مشکل امر ۔۔۔” انہوں نے عفرا کو دیکھا ۔” تم جانتی ہو کہ روحیں کبھی مٹتی نہیں ہاں انہیں کسی دور جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے تاکہ لوگوں کو ان کے شر سے نجات دے دی جائے ۔”
” میں سمجھی نہیں ۔؟” عفرا نے پوچھا ۔
” داسو کی پیدائش پر وقت کے ایک عظیم جادوگر نے اسے دعا دی تھی کہ جب تک اس کا جادو اثر رکھے گا تب تک اسکی روح دوسروں کو پریشان کرے گی ۔۔۔ اس لئے اگر تم چاہتی ہو کہ داسو سے چھٹکارا ملے تو پہلے اس عظیم جادوگر کے وقت میں جاؤ اور اسے دعا دینے سے قبل قتل کر دو ۔” صوفی صاحب اتنے آرام سے کہہ رہے تھے جیسے یہ کوئی معمولی کام ہو ۔
” بابا جانی ۔۔۔” عفرا حیران ہوئی ۔” کوئی وقت کو پیچھے کیسے کر سکتا ہے ۔؟ ”
” مجھے بولنے دو ۔” ان کی آنکھوں میں ہلکا سا غصّہ اتر آیا ۔” اس جادوگر کا نام نارائن تھا اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۔۔۔ بس سو دو سو سال ہوئے ہوں گے ۔۔۔ پھر جب وہ قتل ہو جائے گا تو داسو کمزور ہو جائے گا اور ہم اسے آسانی سے دور کر سکیں گے ۔۔۔ وہ اپنے جادو کے زور پر کم عمر دکھائی دیتا تھا لیکن ۔۔۔۔”
” لیکن کیا ۔؟”
” لیکن شرط ہے کہ کوئی آدم زاد ہی وقت کے دھارے کے پیچھے جا سکتا ہے کوئی جن زاد نہیں ۔ تم اگر ان مشکلات کا حل چاہتی ہو تو انہیں یہیں لے آنا ۔”
” بہتر ۔۔” عفرا نے سر جھکا لینے میں ہی عافیت جانی ۔
***
” میں جاؤں گا وقت کے پیچھے ۔” حارث نے عفرا کی بات سنتے ہی کہا ۔ وہ سب اس وقت حویلی میں جمع تھے اور عفرا انہیں صوفی صاحب کی باتیں بتا رہی تھی ۔
” یہ اتنا آسان نہیں جتنا تمہیں لگ رہا ہے ۔” عالیہ نے اسے ٹوکا ۔ ” وہ جادوگر اپنے وقت کا عظیم جادوگر تھا اس کا مقابلہ کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔”
” مجھے لگتا ہے پہلے ہمیں صوفی صاحب سے بات کر لینی چاہئے پھر کوئی فیصلہ کرتے ہیں ۔” مہمت نے کہا تو وہ لوگ خاموش ہو گئے ۔ اگلے ہی دن وہ لوگ صوفی صاحب کے سامنے حاضر تھے ۔
” تو تم جانا چاہتے ہو وقت کے اس پار ۔؟” انہوں نے حارث کو بغور دیکھا ۔
” جی ۔” اس کا سر جھکا ہوا تھا ۔
” دیکھو حارث ۔۔ تمہیں وہاں پہنچا دینا میرا کام ہے لیکن اگر تمہاری وہاں موت واقع ہو جاتی ہے تو یہاں بھی تمہاری زندگی ختم ہو جائے گی اس لئے خوب سوچ لو ۔”
” میں سوچ چکا ہوں ۔”
” ٹھیک ہے ۔۔۔ پہلے میں تمہیں سب بتاتا ہوں کہ تمہیں جانا کہاں ہے ۔” صوفی صاحب نے حارث ، مہمت اور عفرا کو روک لیا باقی سب کو جانے کے لئے کہا ۔ اب ان چاروں کے علاوہ کمرے میں کوئی نہیں تھا ۔
” میں تمہیں جہاں بھیجوں گا وہاں وقت بہت پیچھے ہوگا راجاؤں کا دور ۔۔۔ تم جب آنکھ کھولو گے تو خود کو پائل کے کمرے میں پاؤ گے ۔” صوفی صاحب آہستہ آہستہ اسے سمجھا رہے تھے ۔
” پائل ۔؟”
” یہ ایک شہزادی ہے ۔۔۔ اسی کی مدد سے تمہیں نارائن کو قتل کرنا حصے وہ ایک اچھی تیرانداز بھی تھی اور مخفی علوم بھی جانتی تھی ۔” صوفی صاحب کہہ رہے تھے ۔” تم اسے میرا نام بتا دینا کہ میں نے تمہیں بھیجا ہے باقی وہ خود سمجھ جائے گی ۔”
” ٹھیک ہے ۔” حارث تیار تھا ۔ صوفی صاحب اس کے مقابل زمین پر بیٹھ گئے اور مہمت کو کہا کہ وہ حارث کے پیچھے بیٹھ جائے ۔ عفرا صوفی صاحب کے پیچھے بیٹھی تھی ۔ صوفی صاحب زیر لب کچھ پڑھنے لگے تو حارث پر غنودگی سی چھانے لگی ۔ اس کا سر ڈول رہا تھا اور آنکھیں بے اختیار بند ہوتی چلی گئیں اور اس کا وجود لڑھک گیا ۔
” یہ تو بے ہوش ہو گیا ہے ۔” مہمت نے اس کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے کہا ۔ صوفی صاحب نے اثبات میں سر ہلایا اور مسلسل زیر لب کچھ پڑھتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔
***