انتساب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی بیٹی مروا رشید کے نام
*************************************
کچھ معمول کے بارے میں
میری غزلوں کا پہلا مجموعہ “حیرت” جنوری 2023 میں برقی کتاب کی شکل میں شائع ہوا تھا بعد ازاں مارچ 2023 میں کتابی صورت میں اشاعت پذیر ہوا۔اس مجموعہ کی کل 88 غزلیں تھیں اور ہر غزل چار چار شعروں پر مشتمل تھی اس طرح یہ مجموعہ اردو غزل کا پہلا مجموعہ بن گیا جس کی ہر غزل چار شعروں پر محیط تھی اس کا دیباچہ جناب ضمیر قیس نے لکھا اور فلیپ طارق اسد اور رفیق سندیلوی نے تحریر کئے۔مجموعی طور پر یہ مجموعہ بہت پسند کیا گیا۔۔۔۔ “معمول” اس سفر کا دوسرا پڑاؤ ہے یہ غزلیں بھی ایک خاص کیفیت میں یکِ بعد دیگرے نازل ہوئیں جیسے غزل وارد ہوتی میں اسے فیس بک پر پوسٹ کر دیتا اور دوسرے دن وال سے اوجھل کر دیتا اس طرح ان غزلوں کی فیڈ بیک ملتی رہی مجھے تقویت ملی کہ میں صحیح سمت سفر کر رہا ہوں میں یہاں غزل کے بے پناہ شاعر ضمیر قیس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انہوں نے میری غزلوں کو ناقدانہ نظر سے دیکھا اور اپنی گرانمایہ رائے سے نوازا جس کی بدولت غزل کا دوسرا پڑاؤ ممکن ہوا۔۔۔جناب خالد اقبال یاسر اور برادرم رفیق سندیلوی کا۔ بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ناچیز کے کلام پر خامہ فرسائی فرمائی۔۔۔ آخر میں ان تمام احباب خصوصاً کاشف اسرار کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے سراہا اور میرا حوصلہ بڑھایا۔
رشید سندیلوی
************************************
“معمول” رشید سندیلوی کی غزلوں کا دوسرا مجموعہ ہے اس سے قبل “حیرت” خاصی داد پا چکا ہے۔رشید سندیلوی نے ہمیشہ دھیمے انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ ان کا لہجہ متین و سلیس پیرائے میں ڈھل کر ایمائیت اور تہداری کی منزل پر جا پہنچا جس سے تغزّل کا رنگ اور بھی چمک گیا۔ اُن کی غزلوں میں متنوع احساسات سے معمور ایک فرد کی زندگی کا قلبی اور ذہنی نقشہ مرتب ہوتا ہُوا نظر آتا ہے اور یہی وہ نقطہ ہے جو اُن کی غزل کو روحِ عصر سے جُوڑتا ہے اور اُسے آج کی غزل بناتا ہے۔”معمول” کی غزلیں توانا متحرک اور تازہ دم ہیں تاثیر اور برجستگی ان کا بنیادی وصف ہے اسی سبب ان کا غزلیاتی سفر جو “حیرت” سے شروع ہوا تھا وہ “معمول” میں آگے بڑھتا دکھائی پڑتا ہے ۔ میری نیک تمنائیں اور دعائیں ان کے ساتھ ہیں یقین کامل ہے کہ یہ مجموعہ بھی کامیاب و کامران ہو گا۔
رفیق سندیلوی
*************************************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...