(Last Updated On: )
کچھ ہم مزاج خطۂ مرعوب ہے یہی
شاید اسی لیے ہمیں محبوب ہے یہی
اتنا نہ غور کر کہ ترا دل ہی ٹوٹ جائے
اس نازنین دہر کا اسلوب ہے یہی
اس خواب کے صلے میں یہ ساری اذیتیں
سہ لے، کہ آدمی کے لیے خوب ہے یہی
ہستی ہے ایک سلسلہ رد و قبول کا
یعنی صلیب و صالب و مصلوب ہے یہی
ٹھہرے گناہ گار جو سب سے ہو بے گناہ
کارندگان عدل کو مطلوب ہے یہی
دیکھو! ہم اس کی زد میں خس و خاک ہو چلے
دستِ قضا میں وقت کا جاروب ہے یہی
چلئے اسے یہ کاغذ خالی ہی بھیج دیں
لکھا گیا نہ ہم سے، وہ مکتوب ہے یہی
ایمان مستقیم رہا کفر کے طفیل
اس بے وفا سے واقعہ منسوب ہے یہی
٭٭٭