حمایت علی شاعر
(ایک خط مورخہ ۱۷اگست مطبوعہ ’ہائیکو انٹرنیشنل کراچی‘ ستمبر،اکتوبر ۲۰۰۰ء)
اتفاق سے اردو کی اپنی کوئی صنف سخن نہیں۔ سبھی اصناف باہر آئی ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس کشادہ دامنی کے باوجود ہماری شاعری اپنے گرد و پیش حتی کہ اپنے پاس پڑوس سے بھی بیگانہ رہی۔ علاقائی زبانوں کی وہ اصناف جو سہیلیوں کی طرح بچپن سے جوانی تک اردو کے ساتھ رہیں اس کی زندگی کی رفیق نہیں بن سکیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان سے ہمارا تعلق رسمی رہا، ہم انہیں پوری طرح جان نہ سکے ۔ اردو کو جو محبت فارسی سے رہی ہے ، مذہبی زبان ہونے کے باوجود عربی سے بھی نہیں رہی۔ ’عربی الفاظ‘ بھی فارسی کی معرفت ہماری زبان کا حصہ بنے ۔ اس کا سبب بھی شاید یہ ہو کہ ’فارسی حکمران‘ زبان تھی چنانچہ جب فارسی کی جگہ انگریزی نے لی تو ہم اس کی طرف متوجہ ہو گئے اور پھر کئی شعری اصناف مثلاً فری ورس (آزاد نظم) بلینک ورس(نظم معریٰ) سانِٹ حتیٰ کہ پروز پرئم(نثری نظم) تک ہماری شاعری میں در آئی۔ مغرب کی لگن میں ہم نے لمرک اور ترائلیے کو بھی اپنانے کی کوشش کی مگر موضوع اور ہیئت کی پابندی کی بناء پر ان سے رشتہ استوار نہ ہو سکا۔
اب ہم ’ہائیکو‘ کی طرف متوجہ ہیں۔ یہ جاپانی صنف سخن ہے ۔ جاپان ہم پر ’حکمران‘ تو نہیں مگر صنعتی اور معاشی لحاظ سے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے اس لیے اس سے متاثر ہونا ہماری نفسیات کا تقاضا ہے ۔ ہائیکو سے بھی ہم انگریزی کے ذریعے متعارف ہوئے ہیں۔ مگر جاپانی کونسلیٹ کی حوصلہ افزائی سے کچھ لسانی حجابات بھی اٹھے اور کچھ جان پہچان مزید بڑھی۔ اب اسے قدرت کی ستم ظریفی کہئے کہ ایک ایسی صنف ’ماہیا‘ کے نام سے پنجابی میں بھی ہے یہ اور بات کہ برسوں کی شناسائی کے باوجود پنجاب کے اردو شعراء نے بھی اس کی طرف توجہ نہیں دی تھی ۔ ہائیکو کے آئینے میں جب ماہیا کا چہرہ جھلکا تو ہماری’قومی غیرت‘ جوش میں آئی اور ہم اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ ماہیا کو چونکہ ’سرکار کی سرپرستی‘ حاصل نہیں ہے اس لیے ابھی کم لکھی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی مستند مثالیں بھی زیادہ نہیں ہیں ۔ برسوں پہلے چراغ حسن حسرت نے موسیقار برکت علی خاں کی فرمائش پر دو ایک ماہیے اردو میں لکھ دیے تھے بس اسی پر مشق ہو رہی ہے ۔ اب حیدر قریشی جیسے صاحب علم شعراء نے اس کی ہیئت پر روشنی ڈالی اور حسرت صاحب کے ’ماہیا‘ کو غلط ٹھہرایااور جب یہ بتایا کہ صنف سخن سہ مصرعی نہیں بلکہ ڈیڑھ مصرعی(۱) ہے تو لوگ چونکے کہ یہ تو مختصر ترین پیمانہ شعر ہے ۔ غزل کے شعر سے بھی مختصر۔۔۔
’ہائیکو کے بارے میں بھی ہم برسوں لاعلم رہے جب کہ اسے اردو میں متعارف ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ۔ ماہنامہ’ساقی‘ (دہلی) کا ’جاپانی ادب نمبر‘جنوری۱۹۳۶میں شائع ہوا تھا اور بحوالہ مرزا حامد بیگ (اردو میں ہائیکو نگاری مطبوعہ ’فنون‘ مئی اکتوبر ۱۹۹۴ء ) حمید نظامی (بانی روزنامہ ’نوائے وقت‘ ) جو بطور شاعر معروف نہیں مگر پہلی بار ان کے ترجمہ شدہ سات عدد ہائیکو’ہمایوں ‘ (لاہور) کے اکتوبر ۱۹۳۸ء کے شمارے میں شائع ہوئے اور پھر وقفے سے ان کے متعدد ترجمہ شدہ ہائیکو’ہمایوں‘ میں ۱۹۴۰ء تک چھپتے رہے ۔ اسی دور میں میرا جی کا بھی ایک ترجمہ شدہ ہائیکو ملتا ہے ۔ یاد گار کے طور پر نوٹ کر لیا ہے ملاحظہ فرمائیں
ہرکارہ سیاں لایا
جوہی کے پھولوں کی ڈالی
اور سندیسہ بھول گیا
مگر یہ تمام تراجم ’ہائیکو‘ کی ہیئت کے مطابق نہیں تھے۔ اس کے بعد بھی قاضی سلیم (تحریک جولائی ۱۹۶۶ء ) تصدق حسین خالد(مکاں لامکاں، مطبوعہ ۱۹۷۶ء )عبدالعزیز خالد (غبار شبنم مطبوعہ ۱۹۷۸ء )تک کسی نے بھی ’ہائیکو‘ کی تکنیک کے مطابق نہیں لکھا۔ گویا کوئی اس سے واقف ہی نہیں تھا۔ آج سے پندرہ یا سترہ سال پہلے ۱۹۸۳ء جاپان کونسلیٹ نے کراچی میں ہائیکو مشاعروں کا آغاز کیا تو اس وقت تک(مجھ سمیت) کوئی شاعر اس کی ہیئت کو نہیں جانتا تھا ۔ چنانچہ میں نے مشاعرے میں اپنی ’ثلاثیاں‘ پڑھ دیں ۔ پروفیسر احمد علی نے ’ہائیکو‘ کے بارے میں جو مضمون پڑھا۔ کراچی کے شعراء کسی حد تک اس صنف کے بارے میں واقف ہوئے ۔ پھرجاپان کونسلیٹ نے ہدایات دیں اور اصرار کیا کہ ۵۔۷۔۵سلے بلز میں لکھ کر لایا کریں ورنہ زحمت نہ کریں۔ اس کے باوجود ابھی تک اکثر شعراء تین مساوی یا تین من مانے چھوٹے بڑے مصرعے لکھ کر رسالوں میں چھپواتے ہیں او راسے ’ہائیکو‘ کہنے پر اصرا ر بھی کرتے ہیں۔ کچھ شعراء البتہ ایسے ہیں جنہوں نے ’ہائیکو‘ کی خاطر جاپانی زبان سیکھی جن میں محمد امین، رئیس علوی اور وضاحت نسیم شامل ہیں ۔ مگر آخرالذکر دونوں (شاعر اور شاعرہ) کو ’ہائیکو‘ کے نام پر بھی اعتراض ہے ، وہ اسے ’ہائیک‘ کہتے ہیں۔
جہاں تک میرا تعلق ہے میں بھی ’ہائیکو‘ اور ’ماہیا‘ کے بارے میں یہی کہوں گاکہ ’زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم‘۔میں مختلف مضامین کی روشنی میں یہ سمجھ سکا ہوں کہ ’ہائیکو‘ ۵۔۷۔۵سلے بلز (دوحرفی اصوات) میں تین معریٰ مصرعوں کے اشتراک کا نام ہے اور اس کا مخصوص موضوع مناظر فطرت کی عکاسی اور معنی آفرینی ہے ۔
اردو ادب کی بدنصیبی کہ ’ہائیکو‘ پر لکھنے والے ’نقاد‘ بھی جاپانی زبان نہیں جانتے ۔ بیشتر لاعلم شعراء اپنی ’غلطی‘ کو ’جدت‘ سے تعبیر کرتے ہیں یا اسے ’اردو ہائیکو‘ کا نام دے کر خوش ہو لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ رسالوں سے کتابوں تک غلط تحریروں کا انبار لگ گیا ہے اور جاپانی سفارت خانہ خوش ہے کہ اردو میں ہائیکو رواج پا چکی ہے ۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ طالب علموں کے لیے لکھی ہوئی کتابوں میں بھی ان (ملکی اور غیر ملکی) اصناف سخن کی تعریف صحیح نہیں لکھی جاتی۔
دوسری زبانوں سے استفادہ اچھی بات ہے بشرطیکہ ہماری معلومات درست ہوں۔ ان کی زبانوں کی اصناف سخن ہمارے پاس ’امانت‘ ہوتی ہیں۔ اس ترمیم و تنسیخ کا ہمیں کوئی حق نہیں۔ ایسی کوشش ہماری لاعلمی یا خیانت کے مترادف ہو گی ۔ ملکی اور غیر ملکی اصناف سخن میں فارسی کی اصناف کے علاوہ صرف فری و رس (آزاد نظم) اردو شاعری کا حصہ بن سکی، باقی تمام اصناف ابھی تک نامانوس ہیں یا ہماری علمی کے نتیجے میں غلط لکھی جا رہی ہیں ۔ ’ہائیکو‘ کے بارے میں دلاور فگار نے اپنے انداز میں ایک پتے کی بات کہہ دی تھی
ہمیں شعور کہاں ہے کہ ’ہائیکو‘ لکھیں
خود اپنی ’کو‘ نہیں آتی، پرائی ’کو‘ لکھیں
حمایت علی شاعرؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱)’ماہیا کی ہئیت کا مسئلہ‘ارشد محمود ناشاد،مطبوعہ ماہنامہ ’شام و سحر‘لاہور،اگست ۱۹۹۷ء
پنجابی لوک گیت ماہیا صدیوں سے سینہ بہ سینہ رائج چلا آ رہا تھا۔ اسے لکھنے کی کوئی روایت تھی ہی نہیں۔ تحریری طور پر جب لوک سرمائے کو جمع کرنے کا خیال آیا تب اسے تحریری ہیئت دی گئی۔ یک مصرعی، ڈیڑھ مصرعی اور سہ مصرعی تینوں ہیئتیں مختلف اوقات میں اپنائی گئیں اس لئے کسی ایک کو قبول کر کے باقیوں کو رد کرنے کا اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ سہ مصرعی تحریری ہیئت کے بارے میں یہ ضرور کہوں گا کہ اب ماہیے کی لے سے اس کے اتار چڑھاؤ کی تین حالتوں کی نشاندہی کے بعد شواہد اس ہیئت کے حق میں زیادہ ہوگئے ہیں۔ گویا (۱) کے لے کی تین حالتوں کی بنیاد پر، (۲) سہ مصرعی ہیئت میں زیادہ ہرا بھرا دکھنے کی بنیاد پر (۳) پنجابی میں سہ مصرعی ہیئت کے بیشتر نمونوں کی بنیاد پر اور (۴) اردو میں مقبولیت کی بنیاد پر ماہیے کی سہ مصرعی تحریری ہیئت ہی مروج ہیئت بنتی ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی ماہیا نگار اصل وزن کو ملحوظ رکھتے ہوئے ماہیے کو ڈیڑھ مصرعی ہیت میں لکھے، چاہے ایک ہی لمبے مصرعہ کی ہیئت میں لکھے، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ماہیا نے جس طرح اپنی لے کے ذریعے اپنے وزن کا تعین خود کیا ہے ویسے ہی اس کی تحریری ہیئت بھی اس کی لے کے ذریعے سے خود بخود رائج ہوتی جائے گی جو ہیئت اسے مناسب نہیں لگے گی از خود قصہ ء پارینہ بن جائے گی۔ ڈیڑھ مصرعی ہیئت پر بے جا اصرار کرنے والوں کو بھی اس کا یقین ہونا چاہئے۔ (ماہیے کی تحریری ہئیت از حیدر قریشی مطبوعہ : ماہنامہ ’’سخنور‘‘ کراچی، شمارہ اپریل ۱۹۹۹ء)
حمایت علی شاعر