(Last Updated On: )
معید رشیدی(دہلی)
کچھ فسانے تھے، حقیقت تو نہیں تھی اتنی
دشتِ امکاں میں بغاوت تو نہیں تھی
اِن دنوں تارِنفس اتنے پریشاں کیوں ہیں
قریہء جاں میں شرارت تو نہیں تھی اتنی
اُس کے ماتھے پہ چمکتے تھے کئی وصل کے چاند
زندگی ہجر کی صورت تو نہیں تھی اتنی
فرطِ جذبات میں احساس سسکتا تھا کہیں
تُو بھی تنہائی قیامت تو نہیں تھی اتنی
مجھ میں صحرا کوئی آباد ہے برسوں سے معیدؔ
اس بیاباں میں تمازت تو نہیں تھی اتنی