وقت کا کام ہے گزرنا ۔۔۔۔وقت کا پہیہ اپنے رفتار سے چلتا رہا ۔۔
ندا کے اپنے شوہر کے ظلم سہتے ہوے ۔۔سسکتے ہوۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحم اور شہروز کے درمیان ایک نامعلوم سی سرد جنگ چلتے ہوۓ
مدیحہ کا ان دونوں کا صلح كرواتے كرواتے الجھ کر رہ جانا
ارحم ۔مدیحہ ۔۔شہروز بڑ ے ہوتے ہوگیے ۔۔۔۔۔۔
لیکن مدیحہ کی کوئی بھی دوست نہی تھی ۔۔۔۔وجہ ار حم کی شدت پسندی تھی ۔مدیحہ اب سمجھ دار ہوتی جا رہی تھی ۔اسے ار حم کی بجا مداخلت بہت بری لگتی تھی ۔،۔۔وہ بھی آزاد رہنا چاہتی تھی ۔۔۔دوست بنانا چا ہتی تھی لکین ۔۔۔۔۔۔۔۔
مدیحہ اب 10 کے پپیرس دیکر فری ہوئی تھی سب کلاس میٹس الوداعی پارٹی میں شریک ہو رہے تھے ۔ہمیشہ کی مدیحہ نے انکار کر دیا تھا دیا کا بھی پارٹی میں فن کرنے کادل چاہ رہا تھا لیکن ارحم کے ہوتے ہوے ایسا ممکن نہی تھا ۔۔۔۔۔
ہمّت کر کے دیا نے ارحم سے پارٹی میں جانے کا پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خلاف تو قع ارحم نے اجا زت دے دی ۔۔۔
دیا بہت خوش ہوئی
“دیا ہمیشہ ایسے ہی رہا کرو ہنستی ہوئی مسکراتی ہوئی ۔،۔۔ارحم نے ایک جذب کے عا لم میں دیا کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔۔
دیا کو جیسے کرنٹ لگا اسنے فورا اپنا ہاتھ چھڑآیا
ارحم کو یہ حر کت بہت نا گوار لگی ۔ ۔۔۔۔۔
“تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑانے“ ار حم نے اسکے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑ تے ہوۓ پوچھا
سس سس سوری دیا کی آنکھوں میں تکلیف کی شدت سے آنسوں آ گیے
دیا کے آنسو اس کی کمزوری تھی ۔۔ارحم نے اسکے بال چھوڑے اور وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔۔
جب کے دیا وہی پر بیٹھتی چلی گیئی ۔۔۔۔۔
فیری ۔۔فیری ۔۔۔کیا ہوا تمھے کیوں رو رہی ہو ۔۔۔۔
شہروز نے اسکو روتے ہوۓ دیکھ کر بے چینی سے پوچھا ۔۔۔
“کچھ نہی ۔۔جاؤ تم یہاں سے ۔۔،۔۔۔۔۔۔““
شہروز چاہ کر بھی اب نہ کچھ کہ سکتا تھا نہ کچھ پوچھ سکتا تھا ۔۔۔وقت نے اور ارحم کے جذباتی پن نے ان دونوں کے درمیان ایک فاصلا کھڑا کر دیا تھا جسے شہروز بھی کم نہ کر سکا ۔۔۔۔۔۔
……………………
ڈرتے ڈرتے وہ ٹیبل تک آیی۔۔ ارحم کی غیر موجود گی پر سکوں کا سانس لیکر ناشتہ کرنے بیٹھ گیئی ۔۔۔۔۔۔
بیٹا بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔اعوان صاحب نے اپنی بیٹی کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔۔
بابا تھینک یو ۔۔۔۔۔۔۔
بابا میں جا رہی ہوں مری کلاس میٹ مجھے پک کرنے آ رہی ہے ۔۔۔
بیٹا ارحم کے ساتھ ۔۔۔؟؟؟
“اوفو بابا اب ہر جگہ ارحم کے ساتھ جانا ضروری نہی ۔۔۔۔““
اوکے بابا میں جا رہی دیا جلدی جلدی بولی مبا د ا ار حم نہ آ جائے ۔۔۔۔۔
لیکن یہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحم دیا کے انتظار میں گاڑ ی کے پاس کھڑا تھا ۔۔۔،۔۔
دیا کو دیکھ کر ارحم مبہوت سا اسے دیکھا جا رہا تھا ایک اپسرا کی طرح لگ رہی تھی بلکل ایک ڈول کی طرح ۔۔۔۔۔
چلیں ۔۔دیا اسے اس طرح کھوے ہوۓ دیکھ کر بولی ۔۔۔۔۔
ہاں ہاں چلو ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا بہت خوش تھی بہت فن کر رہی تھی ۔۔۔۔فرسٹ ٹا ئم دیا بہت اچھا فیل کر رہی تھی ارحم کا کوئی بھی ڈر ننہی تھا ۔۔۔۔۔۔
گا ئز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”آج کی پارٹی کو چار چاند لگانے والی دیا ہیں فرسٹ ٹا ئم اسکول کے کسی ایونٹ میں شرکت کی ہے ۔۔۔سب سے پہلے مدیحہ اسٹیج پر آ کر کوئی پو ئم ، سونگ یا کچھ لائنز بولیں گی ۔۔۔۔۔““
مس فرخندا نے بھی دیا کو ٹہوکا دیا کے وہ جائے اسٹیج پر ،۔۔۔
اسٹیج پر اسکا نام لیکر اسے بلایا جا رہا تھا ۔تالیؤں کے ذبردست شور میں پر اعتماد انداز میی سٹیج پر گئ ۔۔۔۔
“یہ لائنز آل کلاس میٹس کے لئے کے ہمیشہ خوش رہو ۔۔۔کسی بھی پریشانی کو خود پر حا وی مت کرو ۔۔۔۔۔۔
لڑکیوں..
خوش رہا کرو لڑکیوں..
کسی بھی Tension کو خود پہ حاوی مت کیا کرو..
کوئی Problem ہمیشہ کے لئے نہیں ہے..
سب ٹھیک ہو جائے گا..
بس ہمت نہیں ہارنی..
سمجھی ناں..
میتھ بھی سمجھ آ جائے گا..
پاس بھی ہوجاؤ گی..
چلے جائیں گے Face کے یہ Pimples بھی..
ویٹ بھی ٹھیک ہو جائے گا..
روٹی بھی گول بن جائے گی..
سالن میں بھی نمک next time ٹھیک ہوگا..
اللّٰه بھی مل جائے گا۔۔
اور اللّٰه کی چاہت و محبت بھی..
جس نے دل دکھایا ہے.. ان کو معاف کردو..
دیکھنا سب ٹھیک ہوجائے گا اک دن..
بس تم خوش رہا کرو..!!
سب نے دیا کو بہت داد دی آج کا دن دیا کے لئے بہت خا ص تھا بہت خآ ص ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے دونوں بڑھے ہوتے گئے ۔ ارحم کا والہانہ پن بڑھتا گیا ۔ دیا تھوڑا ڈتی بھی تھی لیکن دل میں دیکھ دیکھ کہ ایک بات بیٹھ گئی تھی کہ اب ارحم جو ساتھ ہی آنے والی زندگی گزارنی ہے۔
اور ایک بات یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی جب کسی کے ساتھ منسلک ہوتی ہے اس کے ساتھ رشتہِ ازدواج میں بندھ جاتی ہے تو اس سے اندر ہی اندر محبت کرنے لگتی ہے ۔ اسی طرح دیا بھی ارحم کو چاہتی تھی لیکن … ۔ ۔۔ وہ ارحم کی طرح اپنی محبت ظاہر نہیں کر سکتی تھی۔۔ لیکن اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ شادی کے بعد ارحم پہ حق جتائے گی ۔ جیسے اب وہ جتاتا ہے بلکل اسی طرح ۔ وہ بھی اس سے اظہار کرنا چاہتی تھی وہ بھی اسے کہنا چاہتی تھی کہ وہ یونی میں کسی لڑکی سے بات نہ کرے ۔ وہ بھی چاہتی تھی ارحم کو اپنا پابند کرنا۔لیکن وہ کچھ کہہ نہیں پاتی تھی۔ بس سب ارمان اپنے دل کے دریچے میں بند تھے۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے سب ارمانوں پہ اوس پڑنے والی ہے۔
شہروز ندا بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا ۔ ندا بیگم اس کا سر دبا رہی تھی ۔ ایک دم پوچھا ۔۔ آج کل میرا بیٹا کھویا کھویا رہتا ہے آخر کیا بات ہے شہروز۔۔؟ کن خیالوں میں ہو اپنی امی کو بھی نہیں بتاؤ گے کیا؟
آپ تو جانتی ہیں نا امی ! میرے دل کا حال سب آپ کے سامنے ہے۔۔۔ مجھے مدیحہ سے اتنی محبت ہے اسے دیکھ کے میں ہنستا ہوں۔ میری فیری میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے وہ۔۔۔۔۔
ندا بیگم یہ سن کر مسکرانے لگی کہ اسی وقت دھاڑ سے دروازہ کھلا اورملک شہباز اندر آئے ۔ اور طیش میں بولے تم لوگوں کے لئے کماتا ہوں اور تم ماں بیٹا یہاں یہ کر رہے ہو۔ یہ کہتے ہی ندا کے منہ پی زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔ بے حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(گالی) عورت ! یہ تربیت کی ہے تم نے میرے بیٹے کی ۔ ہاں تم شہہ دے رہی ہو میرے بیٹے کو ۔ تمہارا حساب تو میں گھر ا کر کرتا ہوں۔
یہ کہتے وہ فوراً شکیل اور اعوان صاحب کے گھر گئے۔ وہی جاتے ہی انہے ارحم ملا۔ اور وہ شدید غصے میں اونچی اونچی بولنے لگے۔۔ کہاں تمہاری وہ …….(گالی) کزن۔۔۔ میرے بیٹے پہ ڈورے ڈال رہی ہے حرافہ!!! ایسے ہی اور بھی گالیاں بکی۔ تبھی دیا پارٹی سے واپس گھر آیی ۔ اور شہباز صاحب باہر جا رہے تھے وہی رکے اور کہاں گھٹیا لڑکی باہر بھی حسن کا جال دکھا کر لڑکے پھنساتی ہے۔۔۔
دیا تو یہ الزام سن کہ ہکابکا رہ گئی۔۔۔ تبھی ارحم اس تک آیا اور اسے کمرے میں لے گیا ۔ سب جو کہ شور سن کہ ا چکے تھے پیچھے کو لپکے۔۔ ارحم نے کمرے میں جاتے ہی دیا جو زمین پہ پھینکا اور دروازہ بند کیا ۔ اور بولا۔۔ میں نے جب جب ہاتھ لگایا تم نے مجھ سے فاصلہ برتا۔۔ اب پتا چلا رنگ رلیاں منا رہی تھی ۔۔ حلال رشتہ راس نہیں آیا نا اس لئے۔۔۔ تجھ جیسیوں کو اپنی اوقات پہ رکھنا چاہیے ۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہی وہ دیا کی طرف بڑھا ۔۔دیا نے ار حم کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا اسکی آنکھوں میں آنسوں آگیے تھے خوف سے وہ کانپ رہی تھی لیکن ارحم کو پروا ہی کہاں تھی وو جنون اور غصے میں ہوش و حواس کھو چکا تھا اسنے دیا کے بازو کو کس کر پکڑا اور ایک ہاتھ سے اسکے چہرے کو ۔۔۔۔۔۔۔۔تم اس شہروز کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوۓ ایک زور دار تھپڑ لگایا اور مسلسل دیا کو اذیت دینے لگا
دیا کی چیخوں میں اضافہ ہو گیا۔۔ سب باہر کھڑے روتے روتے چیخ رہے تھے۔ اور دروازہ توڑنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ زہرہ بیگم مسلسل چابیاں تلاش کر رہی تھی اور مسلسل رو رہی تھی۔ باہر کھڑی مریم اپنی بیٹی پہ ہوتا ظلم سوچ کر ہی روئے جا رہی تھی۔ اعوان صاحب اور شکیل صاحب نے چوکیدار ساتھ مل کے بہت کوشش کی بلآخر دروازہ توڑنے میں کامیاب ہو گیے
۔۔۔جیسے ہی ار حم کا ہاتھ دیا کےدو پٹے تک پہنچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دروازہ دھڑ سے کھلا اور اعوا ن صاحب اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر وہیں گرتے چلے گیے ۔۔
شکیل اپنے بھائی کی طرف بڑ ھے اور زہرہ۔ ارحم کی طرف ۔۔
ارحم کے اگلے الفاظ نے سب کے پیروں تلے زمین کھنچ لی ۔۔۔۔
میں ارحم بقا ئمی ہوش و حواس مدیحہ اعوان کو طلا ق دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔
یہ الفاظ تھے یا زہر میں بھجے ہوۓ تیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اعوان صاحب کی آنکھیں بند ہوتی چلی گیئی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیی…………..
زہرہ شکیل نے ارحم کو اشتعال.میں تھپڑ مارتے ہوۓ گھر سے باہر نکلنے کو کہا ۔۔۔۔۔۔۔
چا چو چا چو ۔۔۔۔۔۔۔ارحم کی آنکھیں خوف سے پھیل گیئی جب اسنے اعوا ن صاحب کو اس حالت میں دیکھا
“نکلو تم گھر سے“ شکیل نے ارحم کو اعوان کے پاس بھی نہی آنے دیا ۔۔۔۔۔۔۔
جبکے مدیحہ بھی اپنے ابو کی حالت دیکھ کر وہیں گرتی چلی گیئی ۔۔۔۔۔۔۔
دیا دیا ۔۔۔۔۔۔
کس نے ایمبو لینس کو کال کی ۔کس نے اعوان کو سٹر یچر پر لیٹا یا ۔۔مدیحہ کو ہوسپٹل کون لیکر گیا ؟؟۔۔۔وہاں پر موجود افراد سن بیٹھے ہوۓ تھے کے اچانک یہ کیا ہو گیا ۔۔۔۔شکیل کی سوچوں کی طرح امبولینس اپنے راستے پر رواں دواں تھی ۔
۔شکیل صاحب سے اپنی نازوں پلی بھتیجی کی حالت نہی دیکھی جا رہی تھی ۔۔۔۔اپنے بھائی کا سوچ کر انکا دل ہول رہا تھا ۔۔۔۔وہ ایک دم ہی بوڑھے شکستہ لگنے لگے ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اس آستین کے سانپ سے بھی مل کر آتا ہوں اسکی تو ایسی کی تیسی ۔۔۔۔ہمیشہ منع کیا تھا لکن پھر بھی میری بات نہی مانی ۔۔۔۔۔میری بات نہ ماننے کا انجام دکھاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
ارحم اشتعا ل سے شہروز کے گھر گیا لیکن دروازے پر لگا ہوا تالا اسکا منہ چڑا رہا تھا ۔۔۔غصے سے اسکی رگیں اور بھی تن گیں ۔۔۔۔۔دروازے کو ٹھو کر مارتے ہوۓ وو واپس اپنے گھر آ گیا ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
پورا راستہ سب روتے رہے ۔ شکیل صاحب کا دل پھٹنے کو تھا ۔ مریم کو لگ رہا تھا کہ وہ خود پر جائیں گی ایک طرف نازوں پلی بیٹی تو دوسری طرف سر کا سائیں ۔۔۔۔۔ زہرہ بیگم خود کو چور محسوس کر رہی تھی۔ انکی اولاد نے اتنی کم ظرفی دکھائی۔۔۔
ہوسٹل کا وہ دس منٹ کا رستہ ان سب کے لئے پل صراط بن گیا تھا۔ بلآخر جلدی سے دونو۔ کو ہوسپٹل ایڈمٹ کیا۔ سب دل ہی دل میں دعاگو تھے۔ دیا کو ایمرجنسی جبکہ اعوان صاحب کو آئی سی یو میں داخل کر لیا گیا۔ دو گھنٹے گزر گئے تھے لیکن ڈاکٹر ابھی کچھ نہیں بتا رہے تھے۔
اسی طرح اور کچھ دیر گزر گئی اور دیا کو ہوش آ گیا لیکن وہ ایک بہت بڑے صدمے میں تھی کہ آخر اس کے ساتھ کیا ہو گیا ۔ اب بھی اس درندے کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے اور اس کی وہ حرکت۔۔۔۔۔
ایک دم اس نے محسوس کیا کہ سب یہاں موجود ہیں لیکن اس کے بابا نہیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ سب ہوں لیکن اسکا سہارا موجود نا ہو۔ جب زہرہ بیگم سے پوچھا تا پتا چلا کہ اعوان صاحب کی طبیعت کچھ خراب ہے اس لئے ایڈمٹ ہیں ۔ لیکن آخر کب تک چھپاتے۔
تب ہی ڈاکٹر وارڈ سے باہر آئے اور سوگوار لہجہ میں کہا : ہمیں معاف کر دیں لیکن ہم اعوان صاحب کو نہیں بچا پائے۔ ہی از نو مور۔۔
یہ سن کر وہاں موجود سب پے ایک بجلی سی گری۔ مریم پہ تو ناگہانی افت ٹوٹ پڑی ۔ بیٹھے بیٹھے جانے کس کی نظر لگ گئی۔ دیا کو جب پتا چلا کہ اس کے بابا نہیں رہے تو وہ ایک بار پھر بے ہوش ہو گئی۔
ہوش آیا تو ارد گرد دیکھا کمرہ خالی تھا۔ نیچے سے رونے کی آوازیں ا رہی تھی۔ جیسے ہی سیڑھیوں سے نیچے آئی نیچے اعوان صاحب کی میت پڑی تھی اور سب انہیں دفنانے کے لیے لے جا رہے تھے۔ تبھی اس نے چیخ ماری رکو کہاں لے جا رہے کو سب میرے بابا کو۔ چھوڑو چھوڑو ۔۔
تبھی شکیل صاحب نے کہا کہ دیا کو اس کے بابا کا آخری دیدار کروا دیا جائے۔ جیسے ہی کپڑا ہٹایا دیا نے دیوانہ وار چیخیں مارنا شروع کی۔ ایسے ہی تو نہیں کہتے کہ بیٹیوں سے باپ کے جنازے کی رونق ہوتی ہے۔ دیا نے رونا شروع کیا تو ہر کسی کو ساتھ رلایا ۔ ہر آنکھ اشکبار تھی ایک بار پھر جنازہ اٹھایا گیا تو وہ اپنے باپ کی میت کی طرف لپکی ۔۔۔ بابا ۔ چھوڑو نا لے کے جاؤ انہے۔۔ میں مر جاؤں گی۔ میرے بابا کو نا لا کے جاؤ اور یہی کہتے کہتے وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی
تبھی مریم نے دیکھو دیا ہمیں اب ہمت کرنی ہے ارحم نے جو کیا اب تمہاری زبان پہ نا آئے اس سے شادی کو بھول جاؤ سب ختم ۔۔۔۔۔۔ اب ہم یہاں نہیں رہے گے میں اپنا سامان اور سندیں سب کاغذات کے لئے ہیں۔ اٹھو ہم یہاں سے دور چلے جائے گے ۔ دیا کچھ دیر کو سن ہوئی اور کہاں امی جو زیور آپکے ہیں وہ لے لیں ہمارا حق ہے وہ میں چادر لے لوں۔
ایک منٹ امی ۔۔ابو کی ڈا ئری بھی لے لوں ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی مریم باہر گئی دیا نے کاغڈ پکڑا اور لکھنا شروع کیا ۔۔۔۔
“ارحم ۔۔۔ تم نے مجھے جو گالی دی وہ بھی قبول ۔۔۔ زندگی برباد کر دی وہ بھی قبول ۔۔۔ الزام لگائے معاف کیا ۔۔۔ عزت روندھ دی وہ بھی قابل معافی۔۔۔ لیکن تم نے میرے بابا کو مارا ہے قاتل ہو تم۔۔۔ معاف نہیں کروں گی تمہے۔۔ تم تڑپو گے تب بھی نہیں کرونگی۔ روز محشر کا حساب رہا۔ پل صراط پہ کھڑی ملوں گی ۔“
اس کے ساتھ ہی وہ کاغذ میز پہ رکھتی چادر لیتے ہوئے چل پڑی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں جائنگے ہم ؟؟؟دیا نے اپنی امی سے پوچھا کیوں کے وہ جانتی تھی کی اس شہر میں انکا اپنا کوئی نہی ہے ۔۔۔۔۔۔
اللّه کی زمین بہت بڑ ی ہے ۔۔مری ایک بوا ہیں اب میں صرف ان پر ہی بھرو سا کر سکتی ہوں انکے پاس چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
کچے علا قوں سے گزر تے ہوۓ بوا کے گھر پہنچے ۔۔۔۔انہو ں نے بہت گرم جوشی سے دونوں کا استقبا ل کیا اور انکے حالت جان کر بہت غم زدہ ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دوستیاں بھی کیا کمال ہوتی ہیں
کئی دل اور اک جان ہوتی ہیں
پورے گروپ کی مشہوری سارے جہاں میں ہوتی ہے
کوئی ایک پاگل تو دو کے دماغی توازن خراب ہوتے ہیں
ایک سمجھنے والا ہو تو باقی انجان ہوتے ہیں
دل کے سبھی نواب ہوتے ہیں
جیب میں ڈھلی نہیں اور باتیں ہزار ہوتی ہیں
کوئی ایک عقل کی بات کردے تو باقی ہنس ہنس کے ہلکان ہوتے ہیں
چُن چُن کے دوست بناتے ہیں مگر سارے ہی بیکار ہوتے ہیں
لاکھ غم ہوں لیکن ساتھ ہر بار ہوتے ہیں
خوشیوں کے خریدار نہیں مگر مسرت والی دکان کے دکاندار ہوتے ہیں
کچھ دوستیاں بھی کیا کمال ہوتی ہیں
کئی دل اور ایک جان ہوتی ہیں