مبارکہ کی یادوں اور باتوں کا سلسلہ جاری ہے۔جہاں ادبی احباب نے اپنے تبصروں،مضامین اور تاثرات سے نوازاہے وہیں بعض عزیزواقربا نے بھی اپنے بے ساختہ جذبات کا اظہار کیا ہے۔پانچوں بچوں کی اپنی اپنی یادوں نے بھی سماں باندھ دیا ۔ میرے ۲۹ سال پہلے لکھے گئے خاکہ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘کے دوسرے حصہ کے بر وقت لکھے جانے اورروزنامہ ’’نوائے وقت‘‘کے سنڈے میگزین میں دو اقساط میں اہتمام کے ساتھ چھپنے سے اسے وسیع پیمانے پر پڑھا گیااور قارئین نے اس پر اپنے تاثرات سے بھی نوازا۔مذکورہ بالا سارے سلسلہ نے تحریک کی تو مبارکہ کی کچھ اور یادیں،کچھ اور باتیں بھی ذہن میں آنے لگیں۔سو مزید جوتھوڑا بہت ذہن میں آرہا ہے،بیان کر دیتا ہوں۔
رضوانہ نے لکھا ہے:’’ دادی جان کی طرح امی بھی لڑائی جھگڑے سے دور بھاگتی تھیں۔‘‘
اسے پڑھنے کے بعد عثمان نے مجھ سے ذکر کیا کہ باجی نے تو اپنی بات صرف اولاد تک محدود رکھی ہے لیکن میں نے تو اپنی ساری زندگی میں امی کو کسی سے جھگڑا کرتے نہیں دیکھا۔نہ کسی ہمسائی سے،نہ کسی ملنے جلنے والی سے،نہ کسی رشتہ دار سے،کسی سے بھی امی کو جھگڑاکرتے نہیں دیکھا۔
عثمان کا یہ نکتہ دل کو لگا۔چنانچہ پھر میں نے سارے بچوں سے کہا کہ ذہن پر زور دیں کہ زندگی میں کبھی مبارکہ کو کسی سے،کسی سے بھی لڑتے جھگڑتے دیکھا؟ ۔۔۔۔سب کی طرف سے یہی جواب ملا کہ امی کو کبھی کسی کے ساتھ جھگڑا کرتے نہیں دیکھا۔پھر بعض قریبی عزیزوں سے یہی سوال کیا، وہاں سے بھی یہی جواب ملاکہ نہیں،کبھی جھگڑا کرتے نہیں دیکھا۔اور اب میں سارے عزیزو اقارب کے لیے یہ بات کہتا ہوں کہ کسی عزیز کو زندگی کے کسی مقام پر مبارکہ کا جھگڑالو عورت کا روپ دیکھنے کا موقعہ ملا ہو تو ضرور بتائے۔ جھگڑوں اور فتہ و فسا د سے دور رہنے کی یہ ایک اہم اورقابلِ قدر خوبی ہے جو مبارکہ کے مزاج کا حصہ تھی۔ہمارے محلوں کے ماحول میںخواتین کا لڑنا جھگڑنا عام معمول رہا ہے،پھر ہمارے اپنے رشتہ داروں میں بعض بڑی ’’بہادر‘‘قسم کی خواتین رہی ہیں جو گندی زبان استعمال کرنے کے ساتھ مارپیٹ تک کرنے سے دریغ نہیں کرتی تھیں۔ایسی بزرگ خواتین سے بھی مبارکہ نے کوئی فیض حاصل نہیں کیا۔بس اپنی پھوپھی (میری امی) کی طرح اعراض،صبراور خاموشی کے ساتھ فتنہ و فساد سے گریز کرتی رہیں۔
گندی زبان کے معاملے میں بھی مبارکہ نے ہمیشہ محتاط زندگی گزاری۔بلکہ اب یاد آرہا ہے کہ ایک زمانے میں مجھے پنجابی اسٹیج شو اور بعض اردو کامیڈی شو کافی پسند تھے۔شروع میں مبارکہ نے یہ سب تھوڑا سا دیکھا لیکن وہ جلد ہی ایسے پروگراموں سے متنفر ہو گئیں۔ بعض شوز میں ذو معنی اور بعض میں کھلم کھلا فحش گوئی اتنی زیادہ تھی کہ مبارکہ ٹی وی والے کمرے سے ہی اُٹھ گئیں۔میں نے
ایک آدھ بار اصرار کرکے بلانا چاہا تو ہنستے ہوئے کہنے لگیں ایسے پروگرام بچوں کے ساتھ تو کیا دیکھنا، میاں بیوی کا بھی ایک ساتھ دیکھنا غیر اخلاقی لگ رہا ہے۔۔۔۔۔ایسے پروگرامز میں قابلِ احترام رشتوں کی تضحیک بھی مبارکہ کو سخت نا پسند تھی۔اگر ہمارے کامیڈینز اپنے شو زمیں ان دو بڑے عیوب پر قابو پالیں تو آج بھی وہ ورلڈ کلاس کامیڈی کر سکتے ہیں۔ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرامز کے آجانے کے بعد ان عیوب پر کچھ قابو پایا گیا ہے لیکن ابھی مزید توجہ کی اشد ضرورت ہے۔اور اس کے ساتھ ہی یہ بات طے ہے کہ مبارکہ میں یہ بڑی اہم خوبی تھی کہ وہ خواتین کے روایتی جھگڑوں سے ہمیشہ دور رہیں اور کبھی مذاق میں بھی کسی کے ساتھ گندی زبان میں بات نہیں کی۔ہاں میرے ساتھ بے تکلفانہ کلام کرناالگ معاملہ ہے،لیکن اس میں بھی کسی گندی زبان کے استعمال کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔جیسا کہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں مبارکہ کی میرے ساتھ یہ بے تکلفی بس اتنی ہی ہوتی تھی کہ پتہ نہیں چلتا تھا بیٹے سے مخاطب ہیں یا شوہر سے؟
شعیب نے اپنی یادوں میںدرست لکھا ہے کہ:
’’ ابو مجھے اپنی سلطنت کا ولی عہد کہتے تھے اور امی ابو کی سلطنت کا مذاق اڑایا کرتی تھیں۔‘‘
میری بادشاہت اور میری سلطنت کا صرف مذاق ہی نہیں اُڑایا جاتا تھا بلکہ مبارکہ اس سلطنت کا حدودِاربعہ ایسے انداز میں بیان کرنے لگتیں کہ جی چاہتا سب تخت و تاج چھوڑ کر کسی جنگل کی راہ لی جائے۔
مبارکہ نہانے کی بہت زیادہ عادی تھیں۔ہر روز نہیں تو دوسرے روز ضرور نہاتیں۔میں اس معاملہ میں کافی سست ہوں۔مبارکہ نہانے کا کہتیں تو میں بات بدل دیتا۔ایک بار جب زیادہ اصرار کیا تو میں نے انہیں جوگندر پال کے ناول ’’پار پرے‘‘ کا یہ اقتباس پڑھ کر سنایا۔
’’تم ایک نہاتی بہت ہو بی بی‘‘
’’تم جو نہیں نہاتے بابا۔تمہارا نہانا بھی نہ نہا لیا کروںتو تمہارے قریب کھڑا ہو کے سانس لینا بھی دشوار ہو جائے۔‘‘
ایک بار مبارکہ نہا کر باتھ روم سے نکلیں،میں سامنے ڈرائنگ روم کے صوفہ پر بیٹھا ہوا تھا۔
تولیہ سے سر کے بالوں کو خشک کرتی ہوئی مبارکہ بیگم کہنے لگیں۔’’تُسّی وی نہا لَو۔‘‘
میں نے اپنی لہر میں ہنستے ہوئے جواب دیا ’’سُکّا ای؟‘‘
اور پانچ بچوں کی ماںکچھ شرماتے،کچھ مسکراتے اورکچھ بڑبڑاتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔
شادی کے شروع کے چند سال ہم لوڈواور بارہ ٹہنی کھیلا کرتے تھے۔لیکن میں ہر بار مبارکہ سے ہار جاتا تھا۔مسلسل ہارنے کے نتیجہ میں ان گیمز سے بیزاری ہونے لگی اور میں مبارکہ کے ساتھ کھیلنے سے گریز کرنے لگا تومبارکہ میری بے زاری کی وجہ کو بھانپ گئیں۔چنانچہ ایک بار مبارکہ جان بوجھ کر گیم ہارنے لگیں۔تب میں نے کہا لوگ جیتنے کے لیے تو تھوڑی بہت ’’بئی مانی‘‘ کر جاتے ہیں لیکن مبارکہ بیگم! آپ ہارنے کے لیے اتنی بڑی ’’بئی مانی‘‘کرنے لگی ہیں۔یہ نہیں چلے گا۔بہر حال پھر میں نے ان گیمز کے معاملہ میں مستقل طور پر ہتھیار ڈال دئیے۔مبارکہ سمیت کسی سے بھی کھیلنا بند کر دیا۔
’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘کا دوسرا حصہ چھپنے کے بعد سارے عزیزواقارب،دوست احباب اور ادبی قارئین نے نہ صرف تحریر کو سراہا بلکہ سنڈے میگزین میں اس کی پیش کش کے انداز کو بھی بہت پسند کیا۔صرف ایک عزیزہ نے ہلکا سا کہا کہ جب تحریر اتنی اچھی ہے تو ساتھ تصویریں چھپوانے کی کیا ضرورت تھی۔میں نے کہا کہ اس مسئلہ کے تین پہلو ہیں ،میرے ساتھ ان پر گفتگو کر لیں۔وہ اس طرف تو نہیں آئیں لیکن میرا جی چاہ رہا ہے کہ اس مسئلہ پر اپنا موقف واضح کر دوں۔
ایک پہلو یہ ہے کہ تصویر کی شرعی حیثیت وہی ہے جو شراب کی ہے۔جب خانہ کعبہ سے بتوں کو توڑ کر نکالا گیا تب خانہ کعبہ کی دیواروں پر بنائی ہوئی تصویروں کو بھی صاف کر دیا گیا تھا۔ان تصویروں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت بی بی مریم کی تصویریں بھی شامل تھیں۔گویا تصویریں ہٹائی گئیں تو مردوزن سب کی ہٹائی گئیں۔میرے ایک دوست نے ایک بار اُس زمانے کی تصویر اور آج کے زمانے کی تصویر کے فرق کو واضح کیا کہ تب انسانی ہاتھوں سے تصویر بنائی جاتی تھی۔اب جدید ٹیکنالوجی کے باعث کیمرے سے بنائی جاتی ہے۔تب اس دوست سے میں نے عرض کی تھی کہ جو شراب منع کی گئی تھی وہ بھی انسانی ہاتھوں کی بنائی ہوتی تھی۔اب جدیدٹیکنالوجی کے باعث مشینوں کے ذریعے شراب تیار ہوتی ہے۔پھر اب مشینی تصویرکی طرح مشینی شراب کوبھی جائز قرار دے دیا جائے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ فی زمانہ جب بعض مذہبی رہنماؤں نے تصویر کے لیے گنجائش نکالی کہ بلادیورپ میں تصویر دیکھ کر رائے قائم کر لیتے ہیں کہ اس میں راستبازی اور قوت قدسی کہاں تک ہے؟
ایک خاص غرض کو جواز بنایا گیا لیکن بعد میں اس خاص غرض کو عام غرض کی تصویروں سے بھی زیادہ ارزاں کر دیا گیا۔ٹی وی چینلز نے تو سارے مذہبی رہنماؤں کو بھی اسکرین پر متحرک کر دیا۔اب کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ تصویر کی توسیع متحرک تصویر کی شرعی حیثیت کیا ہے اور یہ بھی نہیں کہا کہ کیمرے کے سامنے آنے سے پہلے مذہبی رہنماؤں کا میک اپ کرانا جائز ہے یا نہیں؟
تیسرا پہلو یہ ہے کہ زمانے کے بدلتے تقاضوں کے مطابق اگر تصویر کا جواز نکل ہی آیا ہے تو اس میں بھی سامنے کی بات ہے کہ ہر مردوزن کے سرکاری و غیر سرکاری دستاویزات میں،شناختی کارڈ،
پاسپورٹ،انشورنس کارڈ،غرض ہر ڈاکومنٹ میں مردہو یا عورت ہر ایک کی تصویر سجی ہوئی ہے۔یہ کوئی چھُپی ہوئی تصویریں نہیں ہیں۔اگر یہاں تک ساری خواتین کی تصویریں موجود ہیں تو کسی اخباریا رسالے میں کسی خاص موقعہ پر کسی خاتون کی تصویر چھپنے میں کیا حرج ہے۔
آپ شف شف کہہ رہے ہیں،خیر ہے کہتے رہئے۔ہم صاف صاف شفتالو کہہ رہے ہیں، اس کا بھی برا مت منائیے۔ کل تک سینما کو شرمناک برائی سمجھنے والے مذہبی طبقے،آج دیکھ رہے ہیں کہ اب ہر مردو زن کی مٹھی میںپوری دنیا کے ماضی و حال کا پورا سینما موجود ہے۔لیکن مجال ہے کسی نے اس کا نوٹس لیا ہو۔خواتین کی تصویر کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔
مبارکہ ذاتی طور پر پردہ کرتی تھیں۔لیکن اس میں چہرہ کھلا رہتا تھا۔ان کی تصویریں ۱۹۹۱ء سے چھپ رہی ہیں۔پاکیزہ رسالے میں،میرے انٹرویوز کی کتاب میں،کتاب’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ کے سرورق پر،مبارکہ کے جی میل اوروٹس ایپ اکاؤنٹس میں۔۔۔۔میری انٹرنیٹ البم میں۔۔۔وہ اپنے پردے کے باوجود ان تصویروں کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتی تھیں۔خوش ہوتی تھیں۔اور اب بھی ان کی تصویریں چھپ رہی ہیں تو کسی کو برا منانے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں شروع سے اب تک مسلسل لکھتا آیا ہوں،کہتا آیا ہوں کہ مبارکہ سے میرے سارے تعلق کی بنیاد میری امی سے مشابہت ہونے اور ان کی بھتیجی ہونے پر استوار ہے۔یہ رشتہ جتنا مستحکم اور کامیاب ہوا اس میںمبارکہ کی وہ ساری خوبیاں کام آئیں جو ان میں پہلے سے موجود تھیں اور جومیری امی کے ذریعے ان میں مزید پختہ ہوئیں۔ اسی طرح میری پیدائش سے پہلے کے ابا جی کے دو خواب جنہیں میں صراحت کے ساتھ بہت پہلے سے،لگ بھگ ۳۲؍۳۳ سال پہلے سے لکھتا آرہا ہوں۔ان کے دو پہلو تھے۔ایک میری ادبی ترقی سے متعلق اور ایک میری گھریلو زندگی سے متعلق۔ میں اس وقت جتنا بھی شاعر اور ادیب ہوں اورمجھے اس کے نتیجہ میں اللہ کی طرف سے جتنی عزت اور پذیرائی مل چکی ہے،اس کے پیشِ نظر میں اب اقرار کرتا ہوں کہ اباجی کا خواب شہرت کے معنی میں پورا ہو چکا۔یعنی ایک درخت جس کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور اباجی اس درخت کے اوپر کھڑے ہوئے ہیں۔اب مجھے مزید کوئی پذیرائی نہ ملے تب بھی جو کچھ اب تک مل چکا ہے اور ادب کی تاریخ کے ریکارڈ پر آچکا ہے وہی اباجی کے خواب کی صداقت کا کافی ثبوت ہے۔میں ان یادوں کے بعد اپنی اب تک کی علمی و ادبی پیش رفت کی ایک جھلک الگ سے دے رہا ہوں تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ اباجی کا خواب ادبی حوالے سے کس شان سے سچ ہو چکا ہے۔
اس کے ساتھ ہی گھریلو زندگی کے حوالے سے بھی مجھے اللہ نے یہ اعزاز بخشا کہ بڑا بھائی ہونے کے باعث بھی اور اوائل عمری میں شادی ہو جانے کے باعث بھی باقی چاروں بھائیوںسے پہلے مجھے چار پوتے،چار پوتیوں، پانچ نواسوں اور ایک نواسی سے نواز دیا ہے اور اب ان کی اگلی نسل کی آمد کے بھی امکان روشن ہیں۔مبارکہ ان سب کی دادی؍ نانی ہیں۔الحمدلِلہ۔ گویااباجی کا وہ خاندان جو دو بیٹوں کے پل صراط پر چلتا آرہا تھا،اسے اب پڑپوتوں تک اللہ نے نوازدیا ہے۔اور ابا جی کے خواب کی تعبیر کے دونوں پہلوؤں میں مبارکہ کا کردار بے حد اہم ہے۔میری ادبی سرگرمیوں میں مبارکہ نے نہ صرف دامے،درمے،قدمے،سخنے ہر طرح میری مدد کی بلکہ میری مسلسل حوصلہ افزائی بھی کی۔سو میری ادبی ترقیات کے سلسلے میں مبارکہ کے اہم کردار کی اہمیت ظاہر و باہر ہے۔ اسی طرح اباجی کی نسل کے آگے بڑھنے میں بھی مبارکہ کاقابلِ قدر حصہ شامل ہے۔یہ مبارکہ کا مبارک وجود ہی ہے جس کے ذریعے اباجی کے خوابوں کی ہر پہلو سے تکمیل ہوئی۔
مبارکہ کے بارے میں یہ کتاب ترتیب دیتے ہوئے خیال آیا ہے کہ جیسے میں نے مبارکہ کے بارے میں زندگی بھر بہت کچھ لکھا ہے،ویسا ہی ابا جی اور امی جی کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھ رکھا ہے۔اور اب یہ ارادہ کیاہے کہ ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ کی تکمیل کے بعد اباجی اور امی جی کے بارے میں اپنی ساری تحاریر کو یک جا کروں گا اور انہیں الگ کتاب کی صورت میں شائع کروں گا۔مبارکہ پر یہ کتاب مرتب نہ کرتا تو شاید اباجی اور امی جی پر کتاب مرتب کرنے کا خیال بھی نہ آتا۔یہ میرے کرنے کا کام تھا لیکن وفات کے باوجودمجھے مبارکہ نے یاد دلایا ہے۔جیتے جی بھی مبارکہ مجھے ہمیشہ یاد دلاتی تھیں کہ کل فلاں بزرگ کا یومِ وفات ہے یا کل فلاں بچے کی سالگرہ ہے اور اب مرنے کے بعد بھی انہیں کے ذریعے ابا جی اور امی جی پر کتاب مرتب کرنے کا خیال آیا ہے۔
مجھے یقین ہے مبارکہ آئندہ بھی کسی نہ کسی رنگ میں میرے ضروری کام مجھے یاد دلاتی رہیں گی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔