پردے سے سکیننگ تک جو کچھ عملی طور پر سامنے آرہا ہے،اس میں مختلف جہات سے مزید پیش قدمی ہوئی ہے۔فرانس نے پردے پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔جو خواتین پردے میں باہر آئیں گی انہیں جرمانہ کی سزا ہو گی۔اگر کسی کے پردے کی وجہ اس کے خاندان کے مردوں کا دباو ہوگا تو مردوں کو ڈبل جرمانہ ہو گا۔اس سلسلہ میں فرانس میں مقیم بعض علمائے کرام نے صاف لفظوں میں نہ صرف اس فیصلے پر صاد کیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ جنہیں یہ قانون منظور نہیں ہے وہ مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں واپس چلے جائیں۔پردے پر پابندی کے قانون کو اب دوسرے یورپی ممالک میں بھی سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔اسی طرح ہوائی اڈوں پر سکیننگ کے نئے سسٹم کے سلسلہ میںامریکہ کے بعد یورپی ممالک نے بھی غور شروع کر دیا ہے۔اس سلسلہ میں سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ تیرہ مسلمان ملکوں میں سے گیارہ ملکوں کے عوام یاحکومتوں کی طرف سے حتیٰ کہ سعودی عرب کی طرف سے بھی کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آرہا۔تھوڑا سا ایران کی طرف سے اور زیادہ تر پاکستانی عوام کی طرف سے ہی ردِ عمل آیا ہے۔اس کا جواب امریکہ کی طرف سے یہی ہے کہ جسے یہ سب پسند نہیں ہے وہ ا مریکہ میں نہیں آئے۔دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں کہہ لیں کی امریکہ میں صرف وہی مردو خواتین تشریف لائیں جو اپنی مکمل سکیننگ کے لیے راضی ہوں۔ اب کون ہے جو امریکہ جانے والوں کی لسٹ جاری کرتا رہے تاکہ اندازہ ہو کہ پاکستانی عوام و خواص میں امریکہ جانے کی خواہش کم ہوئی ہے یا جوں کی توں موجود ہے۔اس امریکی حکم کے بعد خود مغربی دنیا میں بھی تھوڑا بہت احتجاج ہوا ہے۔جرمنی میں برلن ائر پورٹ پر پیراٹن پارٹی کے کارکنوں نے نیم سے کچھ زیادہ برہنہ ہو کر ائر پورٹ پر جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔آج کل جرمنی میں ہونے والی شدید ترین برف باری کے موسم میں ایسا مظاہرہ کرنا بجائے خود بہت بڑی ہمت کا کام تھا۔ اس مظاہرہ کے چند مناظر اس لنک پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
http://www.tutsi.de/piratenpartei-nackt-gegen-nacktscanner
–demo-am-flughafen-berlin-tegel/2010/01/11/tutsi-blog-aktuell/
نائن الیون کے بعد افغانستان اور بعد ازاں عراق پر امریکی حملے کے وقت سب سے پہلے احتجاجی مظاہرے مغربی دنیا کے عوام نے شروع کیے۔پاکستان میں ملین مارچ کا لفظ ایک مذہبی جماعت کے رہنما نے لطیفہ بنا کر رکھ دیا تھا۔لیکن مغربی دنیا کے عوام نے امریکی حملوں کے خلاف جتنے بڑے مظاہرے کیے،وہ نہ صرف ملین مارچ تھے بلکہ رائے عامہ کے اظہار کا شاندار سلسلہ تھے۔یوں دیکھا جائے تو مغربی دنیا کے عوام اپنے ثقافتی فرق کے باوجود امریکی حملوں کے خلاف کئی مسلمان ملکوں سے کہیں زیادہ زبردست مظاہرے کر چکے ہیں۔مغربی دنیا کے عوام نے دو عالمی جنگوں کی وسیع تر تباہی کے بعد بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔دونوں عالمی جنگیں تو کسی مذہب کے خلاف سازش نہیں تھیں۔جنگوں کا معاملہ عموماً سیاسی و اقتصادی مفادات سے متعلق ہی ہوتا ہے۔مذہب کا نام کہیں آتا بھی ہے تو محض لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے لیے آتا ہے۔یہاں اس افسوسناک حقیقت کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ بعض مسلمان ملکوں کی بادشاہتوں نے اپنے ملکوں میں عوام کو ایسے مظاہرے کرنے کی اجازت تک نہیں دی تھی۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ظلم،زیادتی اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے میں مغربی ممالک کے عوام اور مسلمان ملکوں بلکہ تیسری دنیا کے عوام میں زیادہ فرق نہیں ہے۔دوسری طرف امریکی حکام اور مسلمان ملکوں کے حکام کی ذہنی ہم آہنگی میں بھی زیادہ فرق نہیں ہے۔بلکہ اس بات کو مزید صراحت سے کہا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان ملکوں کے حکام امریکی احکامات پر صاد کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔اس معاملہ میں پاکستان ہو یا سعودی عرب دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ایسا بھی ہوا ہے کہ اگر کسی معاملہ میں پاکستانی حکام کی طرف سے کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جانے لگا تو امریکہ نے سعودی عرب کے ذریعے پاکستان کو اس کام کے لیے راضی کر لیا۔ سو مغربی دنیا کے حکام سے سیاسی سطح پر جو شکایات ہیں،وہ شکایات لگ بھگ اتنی ہی اپنے حکام سے بھی ہونی چاہئیں۔اگر اپنے حکام کو ہم اپنے موقف کا قائل نہیں کر سکتے تو امریکی حکام اور مغربی دنیا کے مقتدر لوگوں کو کیسے قائل کر سکتے ہیں۔
مسلم امہ اور عالمِ اسلام کے حوالے سے جو باتیں عام طور پر کہی جاتی ہیں ،ان کے سلسلہ میں ہم خود بھی بعض مغالطوں کا شکار ہیں۔عقیدے کی وہ برتر سطح جہاں ایک خدا،ایک رسول اور ایک کتاب پر ایمان اور ایک ہی قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا،حج،عمرہ کے لیے خانہ کعبہ تک جاناوغیرہ شامل ہیں،یہ تو سب میں مشترک ہیں۔اس کے بعد ایمانیات سے ہٹ کرعملی زندگی کے معاملات میں مذہب کی تفسیر تشریح سب نے الگ الگ کر رکھی ہے۔اس میں کوئی حرج نہیں،اگر ایک دوسرے کے عقائد کو تحمل کے ساتھ برداشت کیا جا سکے تو اچھی بات ہے۔لیکن سیاسی سطح پر،حکومتوں کی سطح پرمسلمانوں کی تاریخ اقتدار کی لڑائیوں اور طاقت کے کھیل سے بھری پڑی ہے۔سیاست میں،حکومت میں،اقتدار کی جنگ میں،طاقت کے کھیل میں، ہماری تاریخ میں کچھ اور لکھا ہوا ہے اور ہم لوگوں کو کچھ اور بتایا اور پڑھایا گیا ہے۔تاریخ کے چند اہم ترین،ناقابلِ یقین واقعات کی ایک ہلکی سی جھلک اگلے کالم میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں اگلے کالم میں جو چند حقائق پیش کروں گا ان سے کئی مغالطے دور ہو سکتے ہیں۔
روزنامہ مقدمہ کراچی مورخہ ۔۔۲فروری ۲۰۱۰ء
روزنامہ ہمارا مقصد دہلی مورخہ۴فروری ۲۰۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔