(Last Updated On: )
آبا و اجداد والدین اور قریبی رشتے دار
شروع کرتا ہوں میں اس ذات کی حمد و ثنا سے جو اس کائنات کا تخلیق کار ہے اور جس نے مجھ ناچیز کو زندگی جیسی نعمت عطا کی ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا اور شہر نظام آباد کے علمی گھرانے میں پیدا کیا۔ یہ علم کی دولت ہے کہ مجھے یہ موقع ملا کہ میں اپنی زندگی کی کچھ یادوں کو اس آپ بیتی میں سمیٹوں تاکہ گزرتے وقت کے بعد یہ یادیں نہ صرف میری بلکہ مجھے جاننے والے افراد خاندان اور دوست احباب کی دلچسپی کا باعث بنیں اور ہمارے خاندان اور میری زندگی کے سفر کو کتابی شکل میں محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنیں۔ میرے حالات زندگی تو اس کتاب کے مختلف ابواب میں مختلف انداز میں پیش ہوتے رہیں گے لیکن اس آپ بیتی کی ابتداء میں اپنے خاندان کے تعارف سے کرنا چاہوں گا تاکہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والوں کو اندازہ ہوکہ میں نظام آباد کے جس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اس کے افراد اب دنیا بھر میں پھیل کر کس طرح خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تو آئیے شروع کرتے ہیں اس آپ بیتی کا سفر جس میں ممکن ہے کہ میری آپ بیتی گزشتہ نصف دہائی کے زندگی کے شب و روز سے بھی آپ کو واقف کراتی رہے۔
جب میں نے ہوش سنبھالا تو اکثر اپنے بڑوں سے سنا کرتا کہ ہمارے آباو اجداد کا تعلق نظام آباد کے قریب واقع ایک موضع جانکم پیٹ سے تھا۔ نظام آباد سے بودھن جاتے وقت ایک چھوٹا سا موضع جانکم پیٹ آتا ہے۔ جہاں اب ایک تالاب ہے اور دا ہنی جانب ایک درگاہ ہے۔ میں نے کبھی اس طرف سفر کرتے ہوئے دیکھا کہ جو لوگ اپنی سواریوں سے اس درگاہ کے سامنے سے گزرتے ہیں وہ جاتے جاتے درگاہ پر روپئے پیسے پھینکتے جاتے ہیں بس ڈرائیور اور لاری ڈرائیور خاص طور سے اس درگاہ پر ضرور کچھ نہ کچھ نذرانہ پیش کرتے تھے۔معلوم ہوا کہ عقیدت اور سفر کی حفاظت کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں۔ جانکم پیٹ سے کچھ آگے شکر نگر اور بودھن ٹائون ہے۔شکر نگر میں ایشیاء کی سب سے بڑی شوگر فیکٹری نظام شوگر فیکٹری ہے جو کافی عرصہ سے بند ہے اور اس کے سابقہ ملازمین اب بھی اس فیکٹری کی یادوں کے ساتھ اس امید پر زندہ ہیں کہ فیکٹری کے ملازمین کے ساتھ حکومت کچھ نہ کچھ اچھا برتائو کرے گی لیکن اب امید کم ہے کہ نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان کی جانب سے قائم کردہ اس فیکٹری کو دوبارہ شروع کیا جائے گا۔شکر نگر کے قریب جو بودھن ٹائون ہے اس کے نام کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ مغلیہ دور میں جب دکن فتح کرنے اورنگ زیب نے اس علاقے میں قیام کیا تو رات میں ان کی تہجد کی نماز چھوٹ گئی تھی۔ بادشاہ کی زندگی میں کبھی فجر کی نماز قضا نہیں ہوئی تو انہوں نے اس علاقے کے بارے میں کہا تھا کہ ایں جائے بودن نیست یعنی یہ جگہ نحوست والی ہے۔ اس علاقے کو رکاس پیٹ بھی کہا جاتا ہے ۔بہرحال جانکم پیٹ بودھن اور شکر نگر نظام آباد سے قریب علاقے ہیں اور وہاں رہنے والے اس علاقے کے بارے میں اس طرح کی باتیں بیان کرتے رہتے ہیں۔میرے دادا اسمٰعیل فاروقی کے رشتے دار اسی جانکم پیٹ سے تعلق رکھتے تھے۔جو بعد میں نظام آباد منتقل ہوگئے اور محلہ بھوئی گلی کے ایک مکان میں مشترکہ خاندان کے طور پر رہنے لگے۔ نظام آباد میں جب آزادی کے بعد پلیگ کی وبا پھیلی تو کہا جاتا ہے کہ ہمارے اسی بھوئی گلی کے گھرانے کے لوگوں نے اپنے بچوں اور عورتوں کو قریبی گائوں واقع سرناپلی کے جنگل منتقل کردیا تھا وہاں ایک دو مہینے رہنے کے بعد جب وبا کا اثر کم ہوا تو پھر یہ لوگ واپس نظام آباد آئے۔
والد محترم محمد ایوب فاروقی صابرؔ اور ان کے بڑے ماموں سید واحد علی واحد کے ساتھ اکثر گفتگو میں ماضی کی یادوں کا تذکرہ ہوتا۔ ہم لوگ نظام آباد کے محلہ پھولانگ کے جس آبائی گھر میں ۱۹۸۵ء تک رہے اس گھر کا نام یعقوب منزل تھا۔ پتہ چلا کہ والد صاحب کے دادا یعقوب صاحب کے نام پر اس گھر کا نام رکھا گیا۔ اس کی وجہہ بھی یہ تھی کہ اس سے پہلے جس مکان کو چھوڑ کر یہ لوگ پھولانگ میں بس گئے تھے اس وقت کسی کے خواب میں آکر مرحوم یعقوب صاحب نے کہا تھا کہ انہیں وہیں چھوڑ کر آگئے کیا۔ اس خواب کی بنیاد پر میرے دادا جناب اسمٰیعل فاروقی مرحوم اور گھر کے بڑوں نے پھولانگ کے گھر کا نام یعقوب منزل رکھا۔اس گھر کا مکان نمبر آج بھی ہم بھائی بہنوں کے ذہنوں میں ہے جس کا نمبر 1-6-83تھا۔ یہ وہ مکان ہے جس میں میرا اور ہم بھائی بہنوں کا بچپن گزرا اور یہ مکان آج بھی ہمارے خوابوں میں آیا کرتا ہے حالانکہ زندگی میں کئی مکانوں میں رہنے کا اتفاق ہوا لیکن وطن کی مٹی کی ایسی کیا محبت رہی کہ وہی کویلو والا گھر ہماری یادوں اور خوابوں کا حصہ رہ گیا۔ جانکم پیٹھ میںہماے خاندان کے لوگ زراعت پیشہ تھے۔ اور چاول اور گنے کے کھیت ہوا کرتے تھے۔ زراعت کی یادیں اس طرح رہیں کہ پھولانگ کے ہمارے گھر میں باورچی خانہ میں بڑے بڑے مٹی کے رنجن رکھے ہوئے تھے اور دالان میں ایک بڑا ٹوکرا رکھا ہوا تھا۔ سال میں ایک مرتبہ بیل بنڈی سے جانکم پیٹ سے کوئی کسان دادی ماں کے لیے دھان اور گنے دے جاتا تھا۔ کھیت کے گنے ہمارے لیے قدرتی تحفے سے کم نہ تھے سبھی افراد خاندان کو تقسیم ہوا کرتے تھے اورسب لوگ مزے سے کئی دن تک ان گنوں کو چوس چوس کر وقت گزارا کرتے تھے۔ دادی ماں احتیاط سے دھان کو مٹی کے گھڑوں اور ٹوکرے میں رکھا دیتی تھیں۔پتہ چلا کہ جب سے یہ لوگ نظام آباد منتقل ہوگئے زراعت قول پر دے دی گئی تھی جسے وہاں کی زبان میں بٹائی پر دینا کہا جاتا ہے۔ یعنی کسان ہماری زمین پر ساری زرعی سرگرمی کرتا تھااور جو کچھ پیداوار ہوا کرتی تھی وہ آدھا آدھا تقسیم ہوا کرتا تھا۔ زمانہ قدیم تھا لوگوں میں پیار محبت تھی ایمان داری تھی کبھی دادی ماں نے کسی سے نہیں کہا کہ جائو گائوں میں دیکھو کسان نے کتنی پیداوار جمع کی بس سال میں ایک مرتبہ ہمارا حصہ آجاتا تھا اور اس دھان کا مصرف یہ تھا کہ دادی ماں جب بھی ان کی بیٹیاں اپنے بھائی یعنی ہمارے گھر رہنے کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ آتی تھیں تو ہمیں کہا جاتا تھا کہ ٹوکروں میں دھان بھرو اور گرنی جا کر دھان پسا لائو یعنی دھان سے چاول الگ کر لائو۔ جب یہ چاول آجاتے تو خوب پکوان ہوتا۔ خاص طور سے کوئی دعوت وغیرہ ہوتی تو بگھارا کھانا دالچہ اور سوکھا سالن جس میں بیگن اور پھلی ہوتی تھی پکتا تھا اور مزے سے کھایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ گیارہویں کے موقع پر بھی یہ دھان نکالے جاتے۔ دادی ماں اہتمام سے گیارہویں کرتیںاور خاندان کے سبھی رشتے داروں کو مدعو کرتیں۔ بات چل رہی تھی یعقوب صاحب کی ۔ اس کے علاوہ جانکم پیٹ سے کچھ اور عزیز بھی تھے جن میں ایک صاحب عامل تھے اور ایک اقبال ماموں جن کی اہلیہ رحیمہ آپا تھیں یہ دونوں اکثر مہینے میں ایک مرتبہ سارے خاندان کا دورہ کرتے اور احباب سے خیر خیریت دریافت کرتے۔ میرے دادا جناب اسمٰعیل فاروقی مرحوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ والد صاحب جب چھوٹے بچے ہی تھے یعنی ساتویں آٹھویں جماعت میں تھے تب مختصر سے علالت کے بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا۔وہ شائد محکمہ کروڑ گیری میں ملازم تھے۔ والد صاحب اور ان کے ماموں کی زبانی اکثر سنا کرتا تھا کہ نظام دور حکومت میں ریاست حیدرآباد میں ہر طرف خوشحالی تھی۔ نظام سرکار کا سکہ حالی چلتا تھا۔ جس میں آنے روپیہ ہوا کرتے تھے۔ عام طور پر رعایا خوش تھی۔ لیکن جس طرح ہندوستان کی تحریک آزادی زوروں پر تھی اور قیام پاکستان کی بات چل رہی تھی اسی طرح نظام کی ریاست کو بھی ہندوستان میں شامل کرنے کی تحریک عام تھی۔ نظام کی طرف سے رضاکاروں نے جدوجہد کی تھی کہ مسلمانوں کی یادگار یہ عظیم ریاست باقی رہے ادھر ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ مرد آہن سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آپریشن پولو کرتے ہوئے ۱۹۴۸ء میں ریاست حیدرآباد کو طاقت کے زور پر ہندوستان میں شامل کردیا تھا۔ بڑے لوگ کہتے تھے کہ حیدرآباد میں اس وقت بہت خون خرابہ ہوا تھا اور اضلاع میں تلنگانہ تحریک کے عنوان سے مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکائے گئے تھے اور نظام کے مظالم کا جھوٹا پرچار کیا گیااور لوگوں کے ذہنوں میںنفرت کے بیج بوئے گئے ۔ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ آزادی کے فوری بعد مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے دروازے بالکل بند تھے۔لوگ گنج میں دکانوں پر ملازمت کرتے یا چھوٹے موٹے کاروبار کیا کرتے تھے۔ والد صاحب کے بعد ان کے جو بھائی یعنی میرے چاچا رہے ان میں اصغر فاروقی۔ اظہر فاروقی۔ امجد فاروقی اور انیس فاروقی ہیں۔ والد صاحب کے ایک بھائی ابراہیم فاروقی تھے جن کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا ۔ ان کے نام کے نیچے زیر تھا ۔ پتہ نہیں کیا توہم پرستی تھی کہ والد صاحب کا نام ایوب تھا تو ان کے بعد کے بھائی ابراہیم ۔ چونکہ ان کا انتقال ہوگیا تھا تو ان کے بعد پیدا ہونے والے سبھی لڑکوں کے نام پر زبر ہونے اور چار حرفی نام رکھنے کا سلسلہ چل پڑا۔ اصغر۔اظہر۔ امجد۔ انیس۔ بعد میں ان کی اولادوں میں بھی آج تک یہ روایت برقرار رکھی گئی کہ خاندان میںکوئی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس کے نام کا آغاز الف سے اور اس پر زبر کی مناسبت کے تحت رکھا جاتا ہے جیسے میرے بڑے بھائی احسن۔ میرا نام اسلم۔ پھر اشہر۔ انصر۔اقدس۔اجمل۔ امان۔اسد۔اکرم۔الماس۔اشرف۔اطیب۔وغیرہ ۔لغت میں اب شائد ہی کوئی نام رہ گیا ہو جو ہمارے خاندان میں نہ رکھا گیا ہو امکان ہے کہ ناموں کی قلت کے بعد اس خاندانی روایت کو کوئی توڑ دے۔
والد صاحب اور خاندان کے دیگر لوگ کہا کرتے تھے کہ دادا اسمٰعیل فاروقی کے انتقال کے بعد ہماری دادی ماں رحمت بی صاحبہ نے بڑے نا مساعد حالات میں بچوں کی پرورش کی اور سب کو پڑھا لکھا کر اچھا انسان بنایا اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کے سبھی بیٹے سرکاری ملازمت میں آتے گئے اور بچیوں کی شادیاں بھی اچھے گھرانوں میں ہوئیں۔ دادی ماں رحمت بی صاحبہ کے والد اور ہمارے والد صاحب کے نانا جناب قدرت علی صاحب نظام آباد کے محلہ املی محل میں رہا کرتے تھے۔ وہ کروڑ گیری کے بڑے افسر تھے اور جب کبھی نظام حکومت میںدیہاتوں کو معائنے کے لیے جاتے تو ان کی کافی قدر ہوا کرتی تھی۔ہماری دادی کی ایک بہن ہماری نانی تھیں جن کے شوہر دائود رحمن صاحب نظام آباد کے بڑے تاجر تھے۔ نانا کی دکان نظام آباد کے گنج میں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ابراہیم کچی کے ساتھ مسجد کچیاں کے بازو کرانہ دکان سے کاروبار کی شروعا ت کی۔ اللہ نے ان کے کاروبار میں اس قدر برکت دی کہ وہ بہت جلد نظام آباد کے سرکردہ سیٹھوں میں شمار ہونے لگے۔ ان کے بیٹے اور میرے ماموں سید نعمت علی عرف سلیم سیٹھ نے کاروبار کو وسعت دی اور شیواکاشی مدراس جا کر پہلی مرتبہ نظام آباد کے لیے پائپ ماچس کی ایجنسی خریدی۔ بعد میں گھوڑاور دیگر برانڈ کے ماچس یہ لوگ فروغ کرنے لگے۔ ان کی دکان کا نام دائود رحمن اینڈ سنس اور دائود رحمن ایجینسی رکھا گیا۔ ماچس کا کاروبار خوب چل پڑا اورہر ہفتہ ایک لاری دو لاری ماچس فروخت ہونے لگی۔نانا ہمارے والد کے خالو بھی تھے۔ چنانچہ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ ایس ایس سی کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ دکان پر کلرک کی حیثیت سے ملازمت بھی کی۔ اور ان کی تنخواہ اسی روپئے ماہوار تھی۔ گھر میں معاشی تنگی دور کرنے بیوہ والدہ کی مدد کی غرض سے انہوں نے یہ نوکری کی تھی۔ والد صاحب نے پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھا۔ پی یوسی کیا جسے انٹر میڈیٹ کہا جاتا ہے۔ سائنس مضامین سے پی یو سی کیا تھا۔ اس کے بعد اگر کوشش کی جائے تو میڈیسن میں راست داخلہ بھی ہوا کرتا تھا اس کے لیے انہیں حیدرآباد جانا پڑا۔ والد صاحب کے خالہ زاد بھائی اور بعد میں میرے بڑے ماموں اور دائود رحمن صاحب کے بڑے فرزند جناب لیاقت علی صاحب کا بھی داخلہ ایم بی بی ایس میںہوا۔ والد صاحب نے بھی عثمانیہ میڈیکل کالج سے ایک سال تک ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کی۔ سال کے ختم پر کچھ سالانہ فیس دینی تھی جس کا انتظام والد صاحب کر نہیں پائے۔ ان کے خالو اور بعد میں ہونے والے خسر سے درخواست کی گئی کہ ان کی فیس کا انتظام کردیں لیکن انہوں نے انتظام نہیں کیا۔ اور مجبوراً والد صاحب کو ایم بی بی ایس کی تعلیم ترک کرنی پڑی۔جس کا انہیں زندگی بھر ملال رہا۔ ادھر ان کے خالہ زاد بھائی لیاقت علی حیدرآباد کے مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر مجید خان اور نظام آباد کے مشہور ڈاکٹر منان صاحب وغیرہ کے ساتھ ایم بی بی ایس مکمل کر لیے۔ لیاقت علی صاحب ماہر فزیشین اور ماہر امراض قلب تھے۔نظام آباد میں انہوں نے اپنے والد کی قائم کردہ پیراڈائز ہوٹل کی عمارت کے متصل ایک کلینک کھولا تھا۔ لیکن 1960ء کے بعد اکثر لوگ ولایت جانے کی دھن میں تھے چنانچہ لیاقت علی صاحب اپنی اہلیہ ثریا بیگم اور بچوں کے ہمراہ لندن متنقل ہوگئے۔ وہاں انہوں نے تیس چالیس سال اچھی پریکٹس کی اور لندن میں نظام آباد کا نام روشن کیا۔ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ انہوں نے ایوننگ کالج سے بی اے کیا۔ اس زمانے میںبی اے کی ڈگری کی کافی اہمیت تھی لوگ اپنے نام کے ساتھ بی اے(عثمانیہ) لکھا کرتے تھے اور اپنے گھروں میں بی اے کی ڈگری کو فریم میں لگا کر رکھا کرتے تھے۔ والد صاحب سے ہی پتہ چلا کہ پہلے انہوں نے آئی ٹی آئی میںملازمت اختیار کی اور بعد میں انہیں محکمہ ایمپلائمنٹ اینڈ ٹریننگ میںنوکری ملی۔ شائد کلرک کی نوکری تھی جس کے بعد ان کی ترقی ہوتی گئی اور اسٹاٹسکل اسسٹنٹ اور بعد میں ایمپلائمنٹ آفیسر عادل آباد کے عہدے پر فائز رہے۔ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ ان کا تبادلہ ورنگل اور وقار آباد بھی ہوا۔ ان کی شادی دائود رحمن صاحب کی بیٹی قمر النساء بیگم سے ہوئی۔
والد صاحب کے بارے میں سنا کہ ملازمت کے سلسلے میں ورنگل‘وقارآباد‘محبوب نگر ‘نظام آباد اور عادل آباد میں قیام رہا۔ والدہ سے معلوم ہوا کہ ورنگل اور وقار آباد میں ان کے ساتھ کچھ دن ان کے بھائی یعقوب علی اور ہمارے پھوپھو زاد بھائی مشتاق بھائی بھی رہے تھے ایک مرتبہ گھر میں موجود نل کے پانی کے گڑھے میں بھائی صاحب ارشد بھائی گر گئے تھے تو والدہ نے دوڑ کو انہیں ڈوبنے سے بچالیا تھا۔
ہم بھائی بہنوں کا ذکر کچھ یوں ہے کہ ہم چار بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ بڑی بہن نسرین بیگم انہوں نے ایس ایس سی تک تعلیم حاصل کی بعد میں ان کی شادی کردی گئی بہنوائی خواجہ میاں صاحب میکانیکل انجینر سرپور پیپر ملز سے وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ان کے بچوں میں سارہ فردوس‘حمیرہ فردوس‘ معین الدین مکرم‘ حنا فردوس اور سدرہ فردوس ہیں سب کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ شادی سے قبل ہماری بہن کچھ خوفزدہ تھیں تو انہیں دل بہلائی کے لیے نانی کے گھر رکھا گیا تھا۔ شادی سے قبل انہوں نے گھر کے کام کاج میں والدہ کا ہاتھ بٹایا تھا۔ زمانے کے رواج اور ہماری پھوپھوئوں کو دیکھ کر والدہ صاحبہ بھی سلائی کا کام کرتی تھیں رمضان میں کچھ زیادہ ہی لوگ کپڑے سلوانے آتے تھے سلائی کے کام میں ہماری بہن بھی ہاتھ بٹایا کرتی تھیں۔ بعد میں بھی زندگی کے گزرتے ایام کے ساتھ بڑی بہن اور دوسری بہنوں نے والدین کا بہت خیال رکھا۔ کاغذ نگر میں قیام کے وقت ہم لوگ ان کے گائوں جایا کرتے تھے بھائی جان خواجہ میاں صاحب نے سب کو کمپنی کی سیر کرائی ۔کمپنی سے بنا اسٹیل کا آون دستہ سب کو تحفے میں دیا۔ گھر بی کلاس کوارٹر کافی بڑا تھا جس میں آم کے درخت اور دوسرے درخت ہوا کرتے تھے۔ کاغذ نگر کی یادیں ہمارے بچپن کا حصہ ہیں۔ بڑی بہن کا اکلوتا بیٹا مکرم شادی کے بعد آسٹریلیا میں مقیم ہے تو بڑی بہن اور بھائی جان بیٹے کے پاس آسٹریلیا بھی جایا کرتے ہیں زندگی کافی بدل گئی ہے۔ بڑی بہن کے بعد میرے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا نمبر آتا ہے۔ ان کی تعلیم نظام آباد کے آغا خان اسکول اور قلعہ ہائی اسکول و جونیر کالج میں ہوئی۔ انہوں نے جب ایس ایس سی کا امتحان لکھا شائد ۱۹۸۰ء کی بات ہے اس وقت سارے پرچے باہر آگئے تھے روزانہ شام میں اطلاع ملتی پرچہ آئوٹ ہوگیا اور دوسرے دن وہی پرچہ آیا کرتا تھا۔ اس زمانے میں ایس ایس سی امتحان کامیاب کرنا مشکل تھا۔ بھائی صاحب نے سائنس سے انٹر کیا۔گھر والوں کا خواب تھا کہ انہیں ڈاکٹر بنایا جائے ۔ انہوں نے ایم بی بی ایس کا امتحان دیا لیکن مناسب کوچنگ نہ ہونے کے سبب اس وقت سرکاری سیٹ نہ لاسکے۔تو انہوں نے بی یو ایم ایس یونانی کا امتحان کامیاب کیا۔ ایک سال یا کچھ مہینے کرنول میں سیٹ ملی بعد میں سعیدہ چاچی کے ماموں جو دہلی میں بڑے حکیم تھے ان کی سفارش سے بھائی صاحب کا تبادلہ حیدرآباد کے چارمینار یونانی میڈیکل کالج میں ہوگیا۔ جب تک ہم نظام آباد میں تھے بھائی صاحب کے ساتھ ہم لوگ گھر میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔دالان میں گھر کے آنگن میں باغ عامہ کے گرائونڈ میں اور دھاروگلی کے گرائونڈ میں۔ بھائی صاحب سے کبھی نوک جھونک لڑائی بھی ہوجایا کرتی تھی۔ ان کی ایک ہیرو سائیکل تھی جو بعد میں میرے زیر استعمال رہی۔ بھائی صاحب حیدرآباد میں ایک سال تک بڑے چاچا کے گھر رہے بعد میں ہم لوگ میری پڑھائی اور بھائی صاحب کی پڑھائی کی خاطر حیدرآباد منتقل ہوگئے۔ بھائی صاحب نے پڑھائی میں کافی محنت دکھائی۔ دوران تعلیم وہ اپنے سرمایہ دار ماموئوں اور گھر میں کہا کرتے تھے کہ آگے چل کر خوب دولت کمائوں گا۔ بہرحال یونانی سے بی یو ایم ایس کرنے کے بعد انہوں نے ایم ڈی کیا۔ ان کی شادی اپنی ہی ہم جماعت ڈاکٹر انیس جہاں سے ہوئی۔ شادی سے قبل ہی بھائی صاحب نے پریکٹس شروع کردی تھی۔ پہلے انہوں نے عنبر پیٹ میں کلینک لگایا جہاں دس روپے فی مریض سے انہوں نے مریضوں کو دیکھنا شروع کیا بعد میں انہوں نے حکیم پیٹ ٹولی چوکی میں اپنا دواخانہ شفاخانہ کلینک کے نام سے شروع کیا جو آج بھی جاری ہے۔ اس کلینک پر روزانہ سو سے ذائد مریضوں کو دیکھتے ہیں ۔ بھائی صاحب جب حیدرآباد میں تھے تو انہیں اور ان کی اہلیہ کو جونیر میڈیکل یونانی آفیسر کی سرکاری ملازمت ملی۔ بھائی صاحب کا تقرر کاماریڈی سے قریب لنگم پیٹ اور بھابھی کا بی بی پیٹ ہوا ، والد صاحب نے شخصی طور پر جاکر بھابھی کو ملازمت پر رجوع کرایا۔ بعد میںیہ لوگ کاماریڈی میں رہنے لگے اس وقت بھی بھائی صاحب بہ طور کاماریڈی میں مشہور ہوگئے تھے اور وہاں کے مشہور سیاست دانوں شبیر علی اور یوسف علی وغیرہ سے ان کے اچھے تعلقات تھے۔کاماریڈی میں کچھ عرصہ قیام کے بعد بھائی صاحب اور بھابھی کی ملازمت چارمینار دواخانہ اور یونانی میڈیکل کالج میں ٹیچنگ پوسٹ پر ہوگئی اور وہ اسسٹنٹ پروفیسر سے ترقی کرتے ہوئے پروفیسر کے عہدے پر پہنچ گئے۔ بھائی صاحب کو تین اولادیں ہوئیں دو بیٹے اشہر فاروقی‘انصر فاروقی اور ایک بیٹی ایمن فاطمہ۔ بچوںکی اچھی تعلیم و تربیت کی۔ اشہر فاروقی انجینیر حال مقیم کناڈا اور انصر فاروقی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ورنچی ہاسپٹل بنجارا ہلز اور ایمن فاطمہ بعد شادی کے دبئی میں مقیم ہیں۔ بھائی صاحب کی زندگی میں ایک بڑی پریشانی اس وقت آئی جب بھابھی صاحبہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئیں اور کافی علاج کے بعد بھی شفا یاب نہیں ہوسکیں اور ان کا ماہ رمضان میں ۱۷ تاریخ بعد افطار انتقال ہوگیا۔ سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں انہیں سپرد لحد کیا گیا۔ کچھ عرصہ تک والدہ صاحبہ نے بچوں کی دیکھ بھال کی اور انہیں ماں کی جدائی کا غم محسوس ہونے نہیں دیا۔ بھائی صاحب کی دوسری شادی نظام آباد میں ہماری بڑی بہن نسرین آپا کی سہیلی کی بیٹی عرشیہ سے ہوئی ان کے والد سمیع صاحب نظام آباد میں راجا بٹن اسٹور کے مشہور تاجر ہیں۔ اس طرح بھائی صاحب کا ایک مرتبہ پھر نظام آباد سے تعلق جڑ گیا۔ شادی کے بعد ان کو دو بیٹیاںبسمہ اور زویا ہیں جو اسکول میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ بھائی صاحب یونانی کے بڑے ڈاکٹر ہیں اللہ نے انہیں مرض کی تشخیص کی اچھی صلاحیت دی ہے وہ خاندان میں سب رشتے داروں کا علاج کرتے ہیں اور طبی مشورے دیتے ہیں کہ کس بیماری کے لیے کس دواخانہ میں علاج کرایا جائے ۔بھائی صاحب نے طب نبوی کا علاج حجامہ پر مہارت حاصل کی۔ خود حجامہ کرتے ہیں اور کیمپ لگا کر دیگر ڈاکٹروں کو بھی حجامہ کی ترغیب دیتے ہیں وہ پہلے حجامہ کی افادیت پر احادیث کی روشنی میں لیکچر دیتے ہیں پھر مریضوں کا حجامہ کرتے ہیں۔ بعد میں انہوں نے جسم سے فاسد خون نکالنے کا علاج فسد شروع کیا۔ بی پی شوگر اور درد کے امراض میں مبتلا مریضوں کو وہ شافع علاج کرتے ہیں۔ دوران کووڈ انہوں نے کافی مریضوں کا علاج کیا خود بھی کوووڈ سے متاثر رہے لیکن مریضوں سے دور نہیں ہوئے۔ علاج اور لیکچر کے سلسلے میں انہیں ملک و بیرون ملک بلایا جاتا ہے۔ بھائی صاحب سر پر ٹوپی پہنتے ہیں پہلے پینٹ شرٹ کوٹ پہنا کرتے تھے اب پٹھانی سوٹ صدری اور سرپرٹوپی پہنتے ہیں۔دینداری کا لحاظ رکھتے ہیں والد و والدہ کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی بعد میں پہلی بیوی اور دوسری بیوی کے ساتھ حج و عمرہ کا سفر کیا۔ صبح نو بجے سے رات ایک بجے تک مریضوں کو دیکھنا اور کالج میں پڑھانا ان کی مصروفیت ہے۔ فون پر بھی مریضوں کو ہدایات دیتے رہتے ہیں۔ ان کے کلینک میں سمیر نامے لڑکے کو انہوں نے اس قدر اچھی ٹریننگ دی کہ سمیر بھی اب ڈاکٹر بن گیا ہے اور بھائی صاحب کے غیاب میں وہ مریضوں کا اچھا خاصہ علاج کرلیتا ہے ۔سمیر ضرورت پڑنے پر ہمارے گھروں کو آکر مریضوں کو گلوکوز لگانا انجکشن دینا اور خون کے معائنے کرنے کا علاج بھی کرتے ہیں خاندان اور مریضوں میں بھائی صاحب کے ساتھ سمیر بھی مشہور ہے۔والد کے انتقال کے بعد معراج کالونی میں واقع ہمارے آبائی مکان کو بھائی صاحب نے رکھ لیا اور والد صاحب کی ہدایت کے مطابق ہم بھائی بہنوں کو حصہ دیا جس میں اس قدر برکت ہوئی کہ سب بھائی بہنوں کے اب ذاتی مکان ہیں۔گھر کا جب ذکر آیا تو بتاتا چلوں کہ نظام آباد میں ہمارا گھر دادی کے مکان پھولانگ نظام آباد میں واقع یعقوب منزل میں رہا۔ والد صاحب کے چار بھائی تھے۔ لیکن جب سے مجھے شعور ملا تو میں نے دیکھا کہ ہم لوگ اور امجد چاچا کی فیملی پھولانگ کے مکان میں ساتھ رہے پہلے کہا جاتا تھا کہ بڑے چاچا کی شادی اظہر فاروقی کی شادی اور فہیم چاچا کی شادی کے وقت یہ لوگ بھی ہمارے ساتھ اس مکان کا حصہ تھے مکان میں دالان دو بیڈ روم اور ایک چھوٹا کمرہ دو باورچی خانے باتھ روم وغیرہ کی سہولت تھی لیکن اس زمانے کی برکت دیکھئے کہ کئی خاندان اس گھر میں رہ کر نکلے۔ اظہر فاروقی صاحب مستعید پورہ اپنے سسرال کے گھر منتقل ہوگئے اور بعد میں انہوں نے احمد پورہ کالونی میں ذاتی مکان بنالیا۔ بڑے چاچا ملازمت کے سلسلے میں حیدرآباد منتقل ہوگئے اور بعد میں چھوٹے چاچا انیس فاروقی صاحب بھی حیدرآباد منتقل ہوگئے۔ دادی ماں کا ایک اور مکان پھولانگ میں تھا جو کہا جاتا ہے کہ بیٹیوں کے نام کیا گیا اس مکان میں کچھ عرصہ امجد چاچا رہے بعد میں تقسیم کے وقت انہوں نے وہ مکان خرید لیا اور بہنوں کو حصہ دے دیا۔ زندگی میں دادی ماں نے جو تقسیم کی جن بیٹوں کو اولاد نہیں ہے انہیں رقم دے کر الگ کردیا گیا اور ہمیں اور چھوٹے چاچا کو پھولانگ کا گھر حصے میں دیا گیا۔ جو حیدرآباد منتقلی کے بعد بیچ دیا گیا۔ پھولانگ میں قیام کے دوران والد صاحب نے مالاپلی کے علاقے میں دوسو گز زمین لے کر ایک کویلو کا مکان تعمیر کرایا تھا جو ہمارا ذاتی مکان تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گھر کا سونا بیچ کر اور ماموئوں سے قرض لے کر دس بارہ ہزار میں وہ مکان تعمیر ہوا تھا چار بڑے کمرے اور دو جانب آنگن اس گھر کی گھر بھرانی میں خاندان کے سب لوگ رات میں پھولانگ سے بیل بنڈی پر بیٹھ کر مالاپلی گئے تھے دوسرے دن دوپہر میں دعوت ہوئی تھی۔وہ مکان کرایہ پر دیا گیا کرایہ دار ہمیشہ کرایہ دینے ستایا کرتے تھے۔ اور بارشوں میں جب اس کی چھت اور دیوار گر گئی تو والدہ صاحبہ اور میں نے اس گھر کی مرمت کرائی۔ وہ گھر اٹھائیس ہزار میں بیچ کر جب ہم حیدرآباد منتقل ہوگئے تو بڑے چاچا کے مشورے پر معراج کالونی میں دوسو گز زمین خریدی گئی اور اس پر فہیم چاچا انجینر کے مشورے سے ایک لاکھ دس ہزار میں آر سی سی کا مکان تعمیر کرایا گیا۔اس مکان سے بھی ہماری کئی یادیں وابستہ ہیں جب ہم لوگ حیدرآباد منتقل ہوئے تو ماموںکی ماچس کی گاڑی میں نظام آباد سے حیدرآباد سامان منتقل کیا گیا۔ بھائی صاحب نے چاچا کے مشورے سے ملے پلی میں کرایہ کا مکان لیا تھا۔ اس مکان میں کچھ مہینے رہنے کے بعد معراج کالونی منتقل ہوئے وہاں کرایہ کے مکان میں رہنے کے بعد ہمارے مکان کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا۔ محلے اور عالمی سطح کی مشہور شخصیت عابد خان صاحب نے مکان کا سنگ بنیاد رکھا۔ سبا رائو مستری نے مکان تعمیر کرایا۔ اس زمانے میں چاچا کے تعمیر کردہ مکانات میں کالم نہیں ہوا کرتے تھے مٹی سے بنی دیواروں پرلوڈ بیرنگ آرسی سی چھت ڈالا جاتا تھا۔ لیکن تعمیر اس قدر اچھی تھی کی موجودہ دور کے آرسی سی مکانات سے کافی بہتر کام ہوا۔ ابتدا میں دو بیڈ روم اور ہال کچن اسٹور روم کے ساتھ مکان تعمیر کرایا گیا ۔گھر میں آنگن اچھا تھا جس میں جام کے نیمبو کے اور پھولوں کے پیڑ پودے لگائے گئے بعد میں ایک دیوان خانے کی تعمیر عمل میں آئی۔ اس گھر کے افتتاح کے موقع پر محلے کی مسجد کی مصلیوں نے قرآن خوانی میں شرکت کی جناب عابد بھائی نے دعا کی اور مشورہ ہوا کہ محلے کی مسجد میں اجتماع شروع کیا جائے۔ یہ معراج کالونی کی بستی آباد ہونے کا ابتدائی زمانہ تھا۔ بہرحال ہمارا معراج کالونی کا گھر کافی برکت والا رہا اس گھر میں سبھی بہن بھائیوں کی شادی ہوئی اور بعد میں بھانجیوں اور بھائی صاحب کے تینوں بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ اس گھر کی خاص بات مہمانوں کی آمد تھی۔ حیدرآباد کے عنوان سے پہلے بڑے چاچا کے پاس خاندان کے لوگ حیدرآباد آکر قیام کیا کرتے تھے بعد میں ہمارے گھر لوگ آکر رہنے لگے۔ والدہ صاحبہ بڑی مہمان نوازتھیں جو بھی گھر آتا انہیں اچھے پکوان بنا کر کھلانا اور ان کی مہمان نوازی کرنا ان کی عادت تھی۔ ہمارے نانا جناب دائود رحمن صاحب کی بیماری کے سلسلے میں نانا نانی ماموں وغیرہ اس گھر آیا کرتے تھے ۔ہمارے گھر کے ایک خاص مہمان بمبئی کے ماموں سید واحد علی واحد تھے جنہیں خاندان کے سبھی لوگ بمبئی کے ماموں کہا کرتے تھے یہ ہماری دادی کے بھائی اور والد صاحب کے بڑے ماموں تھے ہم سب لوگ بھی انہیں ماموں ہی کہا کرتے تھے جب کہ وہ رشتے کے نانا ہوا کرتے تھے انہوں نے مہاراشٹرا کے لیبر ڈیپارٹمنٹ میں ڈپٹی کمشنر آف لیبر کے عہدے پر ملازمت کی ۔ ان کے ساتھ مشہور مزاح نگار یوسف ناظم نے بھی ملازمت کی تھی۔ بمبئی کے ماموں جب بھی حیدرآتے ہمارے گھر ہفتہ دس دن قیام کیا کرتے تھے ان کی اہلیہ کے انتقال کے بعد تقریباً تیس سال انہوں نے اکیلے زندگی گزاری وہ اچھی شاعری کرتے تھے ان کی شاعری میر تقی میر کی طرح سہل ممتنع کی تھی ان کے دو شعری مجموعے متاغ غم اور اور انبساط الم شائع ہوئے اکثر نظموں اور غزلوں میں شریک حیات سے جدائی کا غم اور تنہائی کی اذیت کو انہوں نے بیان کیا ہے۔ گھر میں والد صاحب سے جب بھی گفتگو کرتے پرانے زمانے کی باتیں پولس ایکشن کے مظالم جامعہ عثمانیہ کی یادوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ہمارے گھر لندن سے بڑے ماموں لیاقت صاحب جب بھی آتے دو چار دن قیام کیا کرتے تھے وہ شوگر کے مریض تھے صبح و شام گھر میں شوگر ٹیسٹ کرتے اور انسولین لینے کے بعد ایک گلاس شکر کے ساتھ نیمبو کا رس پیا کرتے تھے کبھی شوگر کم ہوجائے تو فوری کسی کو بھیج کر گلابی جامن منگا کر کھایا کرتے تھے وہ ہماری والدہ کو قمرو کہہ کر مخاطب کرتے ان کے ہاتھ کی بنی جوار کی روٹی شوق سے کھایا کرتے تھے اور آم کے دنوں میں آم کا رس اور چاول کے آٹے کے بنے دوشے جنہیں گھر میںچیلے کہا جاتا تھا شوق سے کھایا کرتے تھے۔ گھر میں دادی ماں کا بھی قیام تھا۔دادی ماں مجھ سے ہر مہینہ ان کی گولیاں منگوا کر کھایا کرتی تھیں۔ کبھی وہ بڑے چاچا کے گھر رہا کرتی تھیں لیکن زیادہ عرصہ انہوں نے ہمارے گھر قیام کیا۔ والد صاحب دو سال کے لیے ڈپیوٹیشن پر وکالانگولا کارپوریشن حیدرآباد میں ملازم رہے بعد میں آخری سات آٹھ سال وہ عادل آباد میں ہی رہے مہینے مین دو مرتبہ شائد وہ حیدرآباد آیا کرتے تھے گھر کے سارے کام کاج میں ہی دیکھا کرتا تھا اس لیے زندگی کے تجربے رہے۔اس طرح ہمارا گھر یعقوب منزل کافی گہما گہمی والا رہا۔ ۱۹۸۵ء میں اس گھر کی تعمیر ہوئی اور چالیس سال بعد تقسیم کے بعد بھائی صاحب نے گھر توڑ کر چار منزلہ خوبصورت عمارت بنا لی اور اس کا نام پھر سے یعقوب منزل رکھا۔
تو بات چل رہی تھی ہم بھائی بہنوں کی بڑی بہن نسرین بیگم بڑے بھائی ارشد بھائی ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کے بعد میرا نمبر آتا ہے۔ میری تاریخ پیدائش سرکاری طور پر ۱۳ ڈسمبر ۱۹۶۹ء ہے جو ایس ایس سی کے میمو میں درج ہے جب کہ اس زمانے میں بچوں کو تاخیر سے اسکول میں داخل کیا جاتا تھا پانچ یا چھ سال کی عمر میں اور اسکول میں ایک دو سال کم تاریخ لکھی جاتی تھی خاندان والے کہتے ہیں کہ میری عمر ایک سال بڑھا کر لکھائی گئی جب کہ اصل تاریخ پیدائش کا سال ۱۹۶۸ء ہے۔ تاریخ پیدائش کے حوالے سے یاد آیا کہ خاندان میں پیدا ہونے والے بچوں اور انتقال ہونے والے رشتے داروں کی تاریخ لکھنے کا ایک اہم کام میرے چاچا اظہر فاروقی انجام دے رہے ہیں ۔ ان کے پاس چالیس پچاس سال ایک ڈائری ہے جس میں وہ خاندان کے افراد کی تاریخ پیدائش بچوں کی تاریخ پیدائش شادی کی تاریخ اور وفات کی تاریخ لکھ رہے ہیں قدیم دور میں انہوں نے فصلی تاریخیں بھی لکھی ہیں جس میں نظام دور کی تاریخ لکھنے کا رواج تھا کس کی شادی کب ہوئی شادی میں کیا کیا سامان دیا گیا وہ بھی انہوں نے لکھا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ کوئی اس سلسلے کو جاری رکھے اب خاندان اتنے پھیل گئے ہیں کہ تاریخیں یاد کرکے لکھنا بھی دشوار ہے۔بہر حال چاچا کی ڈائری سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس کس تاریخ کو خاندان میں کیا کیا واقعات وقع پذیر ہوئے۔
مجھ بچپن کی یادیں اتنی یاد ہیں کہ چھوٹا تھا تو گھر میں میری بسم اللہ کی رسم ہوئی تھی جو چار سال چارمہینے چار دن کی عمر ہونے پر کی جاتی ہے۔ریشمی شیروانی پہنا کر بڑا لڈو سیدھے ہاتھ کے نیچے رکھا جاتا تھا اور سورہ اقرا پڑھا کر تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جاتا تھا۔ میری بسم اللہ کی تقریب میںلندن کے ماموں لیاقت صاحب نے شرکت کی تھی۔ اور دعوت میں خاندان کے لوگ جمع ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب فہیم چاچا کی شادی کی تقریب ہماری نانی کے گھر خلیل واڑی میں منعقد ہوئی توکار میں نوشہ کے بازو مجھے بٹھایا گیا تھا اور نانی کے گھر کی چھت پرنکاح کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ بچپن کی یادیں یہی ہے کہ پتنگوں کے زمانے میں صرف آسمان پر اڑتی پتنگوں کو دیکھا کرتے تھے۔ محلے میں الیکشن کے زمانے میں پارٹی کے بیچ ملا کرتے تھے جسے کرتے پر لگانا بچوں کا شوق ہوا کرتا تھا۔ بچے کول ڈرنک کی بوتل کے سلور کے ڈھکن جمع کرتے تھے ان میں فنٹا اور مزا کے ڈھکن مشہور تھے ۔ ان ڈھکنوں سے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ گوٹیاں یا انٹے محلے کے بچے کھیلتے تھے کبھی شوق نہیں ہوا۔ البتہ کرکٹ کا کھیل ابتدائی زمانے سے ہی کھیلتا رہا بھائی اور ان کے دوستوں کے ساتھ۔دیوالی کے موقع پر نانی کے گھر سے لائے گئے پٹاخے جلانا ادھ جلے پٹاخوں سے بارود نکال کر جلانا اور دوسرے کھیل بچپن کی یادوں کا حصہ ہیں جو اسکول میں داخلے سے قبل کی یادیں ہیں۔ پھوپھو زاد بھائی مرحوم قدوس خالد کے ساتھ ان کے گھر جا کر کھیلنا بھی بچپن کی یادوں کا حصہ ہے۔دادی ماں وظیفہ لینے ٹریژری کے دفتر جایا کرتی تھیں۔ وہ اکثر مجھے رکشہ میں بٹھا کر ساتھ لے جاتیں اور وظیفہ ملنے پر ہم سب بھائی بہنوں کو ایک روپیہ یا دوروپیہ دیا جاتا تھا۔ یہ اس وقت کا بڑا انعام تھا یہ بات سنہ ۷۸ اور ۸۰ کی ہے۔ اس ایک پیسہ دو پیسہ پانچ اور دس بیس پیسے بھی چلن میں تھے۔ گھر کے سامنے کلفی اور آئس فروٹ کی بنڈی آتی تو دس پیسے میں مزیدار کلفی مل جاتی تھی۔ جام بیر بھی پانچ دس پیسوں میں مل جاتے تھے۔ گھر کے سامنے مغرب کے بعد ودود بھائی کی کھارے کی بنڈی آتی تھی اکثر اوقات صرف دیکھا کرتے تھے کبھی جیب میں پیسے آجائے تو کھارا یا میٹھا سون پٹی خرید لیے جاتے تھے۔ رمضان میں پھولانگ کی مسجد کے سامنے رونقیں لگتی تھیں ۔ تراب کے دہی بڑے مشہور تھے۔ بچپن کی یادوں میں یہ بھی شامل ہے کہ پھولانگ کی مدینہ مسجد میں تراویح پڑھانے کے لیے شمال سے جناب فطین اشرف صدیقی آیا کرتے تھے ایک مہینہ ان کا قیام مسجد کے اوپری کمرے میں ہوا کرتا تھا میں دن کے اوقات میں ان کا حفظ سنا کرتا تھا۔ محلے میں بیڑی بنانے والے لوگ زیادہ تھے۔ ان کے بچے گندی گالیاں دیتے اور گلی ڈنڈا اور دیگر کھیل کھیلتے ہمارا گھر چونکہ محلے کے شرفا میں شمار ہوتا تو ہمیں اس طرح کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں تھی اور مزاج بھی ایسا تھا کہ گندے اور شرارتی بچوں سے دور ہی زندگی گزری۔
اسکول میں داخلے کے بعد اسکول کی یادیں اس آپ بیتی کے الگ مضمون میں ہیں اور باقی زندگی کے احوال بھی۔ بہرحال ستر کی دہائی کے بچے کا بچپن کچھ زیادہ دھوم دھام سے نہیں گزرا۔ یاد ہے کہ کچھ عرصہ والدہ نہانے میں ساتھ رہا کرتی تھیں بعد میں شرم کے مارے خود ہی حمام جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ پینٹ شرٹ کرتا پاجامہ لباس تھے۔ ایس ایس سی اور انٹر کے بعد پینٹ شرٹ کا سلسلہ ختم ہوا جس کی تفصیلات آگے آئیں گی۔
بہن بھائیوں کے ذکر میں میرے بعد میری چھوٹی بہن فوزیہ پروین ہیں۔ جنہوں نے ایس ایس سی تک تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم نظام آباد میں آغا خان اسکول میں اور بعد کی تعلیم گرلز ہائی اسکول گڑھی اور حیدرآباد منتقلی بعد نامپلی گرلز ہائی اسکول میں ہوئی۔ ان کو بھی زیادہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ شادی سے پہلے یا شادی کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ محلے میں واقع سنچری ہائی اسکول میں تدریس کا پیشہ بھی انجام دیا۔ والد صاحب نے بھی اس اسکول میں کچھ عرصہ ہیڈ ماسٹر کے فرائض انجام دئیے تھے۔ فوزیہ پروین کی شادی کاغذ نگر میں نور اسکول کے استاد وحید سے ہوئی تھی۔ وحید ہماری بڑی بہن کے گھر بچوں کو ٹیوشن پڑھانے آیا کرتے تھے ان کے اچھے برتائو اور حالات کو دیکھ کر بھائی جان خواجہ میاں صاحب نے پروین کا رشتہ ان سے کروایا۔ شادی کے لیے ہم لوگ ذریعے ٹرین حیدرآباد سے کاغذ نگر گئے تھے جہیز کا اور پکوان کا سامان ٹرین سے منتقل کیا گیا دو تین دن کاغذ نگر میں رہ کر شادی کی تقاریب انجام دی گئیں۔ فوزیہ پروین اور وحید کی بیٹی صدف فاطمہ ہوئیں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد وحید کے گھر میں بہن کو کافی ستایا گیا۔ حالات کی وجہہ سے وحید سے خلع لے لیا گیا۔ پروین کے لیے کچھ عرصہ مشکل حالات رہے بعد میں ان کا نکاح ثانی مٹ پلی نظام آباد کے ایوب خان سے ہوا۔ بعد میں وہ لوگ حیدرآباد منتقل ہوگئے بارکس میں۔ پروین کے سسر احمد خان صاحب جنہیں لوگ احمد خان شیروانی کہا کرتے ہیں کافی حرکیاتی شخص ہیں۔ ایوب خان کی ایما پر ہماری چوتھی بہن تزئین کا نکاح ایوب خان کے بھائی الیاس خان سے ہوا۔ صدف فوزیہ پروین کی پہلی بیٹی ہیں۔ ان کی پرورش ہمارے گھر ہی ہوئی اس نے ایس ایس سی انٹر بی ایس سی اور بی ایڈ تک تعلیم حاصل کی ۔نانا والد صاحب کو ان کی شادی کی فکر لاحق تھی بہرحال ہمارے گھر پرورشن پانے کے بعد ان کا نکاح ایاز سے ہوا۔ فوزیہ پروین اپنے سسرال میں بارکس میں مقیم ہیں۔ والد صاحب سے ترکہ میں ملے حصے کے پیسوں میں پروین اور تزئین نے ذاتی مکان خرید لیا ہے۔ اور اپنی زندگی میں خوش ہیں۔ ہماری تیسری بہن شاذیہ یاسمین ہے۔ جسے پہلی مرتبہ ہمارے گھر والوں نے انگریزی میڈیم سے تعلیم دلائی جب کہ ہم سب بڑے بھائی بہنوں کی تعلیم اردو میڈیم سے ہوئی تھی۔ یاسمین کی ابتدائی تعلیم نظام آباد کے روٹری اسکول میںہوئی۔ وہاں سے ریحانہ چاچی اظہر چاچا کا مکان قریب تھا۔ یاسمین کو انہوں نے کچھ عرصہ اپنے گھر بیٹی بنا کر رکھا لیکن یاسمین کا دل نہیں لگا تو وہ واپس ہمارے گھر آگئیں۔ حیدرآباد منتقل ہونے کے بعد یاسمین نے کرائون اسکول میں تعلیم حاصل کی بعد میں انٹر اور ڈگری تک تعلیم حاصل کی۔ بڑی بھائی صاحب جب پہلی ملازمت کے سلسلے میں لنگم پیٹ میں تھے تو وہ جن صدیقی صاحب کے مکان میں کرایے سے تھے ان کے بڑے بیٹے عزیز صدیقی سے یاسمین کا رشتہ ہوا۔ حیدرآباد میں شادی اور لنگم پیٹ میں ولیمہ ہوا۔ یاسمین کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی شاداں ہے۔ بیٹوں میں صفی شجیع‘سخی اور ذکی شامل ہیں۔ یاسمین نے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی ایک بیٹا لندن میں زیر تعلیم ہے بڑا بیٹا صفی آئی اے ایس کی تیاری کر رہا ہے۔ یاسمین نے زندگی کا زیادہ عرصہ لنگم پیٹ میں گزارا اب وہ مہدی پٹنم میں مقیم ہے۔ ہماری سب سے چھوٹی بہن تزئین ہے۔ جس کی پیدائش پھولانگ نظام آباد کے گھر میں ہوئی تھی۔ پیدائش کے بعد دوائوں کی گرمی کے سبب اس کے جسم کی ساری جلد نکل کر نئی جلد آئی تھی اسے ٹھنڈی دوائیں لگا کر جھولے میں ڈال کر دیکھ بھال کی گئی۔ تزئین کی تعلیم حیدرآباد کے کرائون اسکول میں ہوئی اس نے بی کام اور ایم کام تک تعلیم حاصل کی۔ ایوب خان کے بھائی الیاس خان سے اس کی شادی ہوئی اس کے شوہر بحرین میں رہتے ہیں جب کہ ایوب خان کویت میں ملازم ہیں۔ تزئین کے بچوں میں دو بیٹے ارحم انس اورایک بیٹی عائشہ ہے۔ تزئین ان دنوں ایک خانگی اسکول میں ملازمت کر رہی ہیں۔ جب بھی گھر میں کوئی تقریب ہوتی تو دونوں بہنیں بچوں کے ساتھ بارکس سے ہمارے گھر معراج کالونی آجایا کرتی تھیں۔ اس طرح میرے والد ایوب فاروقی اور والدہ کے سبھی بچوں کی اولادیں ہیں اور سبھی اپنی اپنی زندگی میں خوش ہیں۔ یہ تو رہا ہمارے اپنے گھرے کے لوگوں کا حال اب کچھ خاندان کے افراد کا حال بھی پیش کیا جارہا ہے۔
والد صاحب کے دوسرے بھائی اصغر فاروقی نے آئی ٹی آئی میں ملازمت اختیار کی اور پرنسپل آئی ٹی آئی کے عہدے پر فائز ہوکر ریٹائر ہوئے۔ تیسرے بھائی اظہر فاروقی نے انگریزی سے ایم اے کیا تھا۔ انہوں نے میڈیکل ٹریننگ بھی لی تھی اور خاندان میں ڈاکٹر کے طور پر جانے جاتے تھے اکثر ہم لوگوں کو بخار ہو یا پھنسی پھوڑے پنسلین کا اینٹی بائیوٹک کا انجکشن دینے گھر آتے تھے۔ اس زمانے میں پنسلین کی دوا ہر مرض کا علاج تھی اور لوگ اس سے شفا یاب بھی ہوجایا کرتے تھے۔ وہ جب بھی آتے انجکشن کے لیے پانی گرم کرنے لگاتے انجکشن پوڈر کی شکل میں ہوتا تھا اور ایک کانچ کی شیشی میں ڈسٹل واٹر۔ وہ سیرنج کو گرم پانی میں ڈبوتے اور سوئی کو سرنج کو لگا کر ڈسٹل واٹر بھرتے اسے انجکشن کی شیشی میں بھرتے اور اچھی طرح سفید دوا تیار ہونے کے بعد اسے سرنج میں بھر کر ہمیں انجکشن دیتے تھے۔ آخر میں کچھ دوا رکا کر اسے پھوڑے پھنسی یا زخم پر ڈال دیتے تھے دو چار دن میں ہم لوگ ان کے انجکشن سے اچھے ہوجایا کرتے تھے۔ اظہر فاروقی کو نظام آباد پالی ٹیکنیک میں انگریزی لیکچرر کی نوکری ملی اور نظام آباد سے ہی وہ وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔میرے تیسرے چاچا امجد فاروقی ہیں جو ریلوے میں ملازم تھے۔ انہوں نے دوران ملازمت آندھرا پردیش کے مختلف ریلوے اسٹیشنوں میں ملازمت کی۔ اور وظیفہ پر سبکدوشی کے بعداپنے بچوں کے ساتھ حیدرآباد میںمقیم ہیں۔چھوٹے چاچا انیس فاروقی سیول انجینیر تھے۔ وہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے ان کے چھ سات افسانوی مجموعے اور ایک شاعری کا مجموعہ شایع ہوا۔ وظیفہ کے بعد برین ٹیومر عارضے کے سبب ان کا انتقال ہوا۔ والد محترم نے بھی طویل عمر پائی ۔ اچھی صحت تھی ۔ عادل آباد سے ایمپلائمنٹ آفیسر کے عہدے پر ۱۹۹۱ ء میں سبکدوش ہونے کے بعد مستقل معراج کالونی ٹولی چوکی کے اپنے مکان میں رہے مصروف رہنے کے لیے دو سال تک معراج کالونی میں واقع سنچری اسکول انگلش میڈیم کے پرنسپل بھی رہے اور بعد میں پرسکون زندگی بسر کی ۱۲ نومبر ۲۰۱۸ ء کو ان کا انتقال ہوا۔
والد محترم کے دوسرے بھائی اور میرے بڑے چاچا جناب اصغر فاروقی آئی ٹی آئی کے پرنسپل ہو کر وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔ ان کی ملازمت کا زیادہ عرصہ حیدرآباد میں گزرا۔ اور انہوں نے کالی قبر وجئے نگر کالونی میں کرایہ کے مکانات میں رہنے کے بعد1982ء میں مہدی پٹنم سے چار کلو میٹر دور معراج کالونی میں زمین خرید کر مکان بنایا اس وقت مہدی پٹنم کے آگے ویران علاقہ تھا اور ملٹری کی آبادی کے علاوہ بی ایچ ای ایل جانے والی سڑک پر 116اور 217 آر ٹی سی بسیں چلا کرتی تھیں۔ جناب اصغر فاروقی صاحب کو ہم لوگ بڑے چاچا کہا کرتے ہیں۔ وہ بڑے خوش مزاج ہیں۔ جب بھی بیٹھکیں ہوتیں دوران ملازمت پرانی باتیں والد صاحب سے کیا کرتے تھے اس سے ان کے ماضی کے حالات بھی معلوم ہوا کرتے تھے۔ ہم لوگ نظام آباد پھولانگ کے مکان میں جب مقیم تھے اس وقت وہ عید کے موقع پر یا کسی کی شادی کے موقع پر حیدرآباد سے نظام آباد آیا کرتے تھے ان کی اہلیہ ہماری چاچی سعیدہ بیگم تھیں جن کے والد حمید صاحب ٹیچر کا تعلق بیمگل باباپور سے تھا۔ بڑے چاچا جب بھی حیدرآباد سے نظام آباد آتے ہم لوگوں کے لیے کچھ نہ کچھ تحفہ لایا کرتے تھے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ انہوں نے آتے وقت سیتاپھل کی ساری ٹوکری ہی خرید کر لالی تھی اور ہم گھر والوں نے پہلی مرتبہ ٹوکری بھر سیتا پھل کھائے۔ اصغر فاروقی صاحب نے معراج کالونی کے ویران علاقے میں آرسی سی مکان تعمیر کیا اس مکان کی گھر بھرانی کے لیے ہم خاندان کے تقریباً پچاس سے زائد رشتے دار نظام آباد تا حیدرآباد ٹرین سے سفر کیا۔ میری بچپن کی یادداشت کے حساب سے یہ میرا پہلا ٹرین کا سفر تھا۔ نظام آباد تا حیدرآباد پیسنجر ٹرین سے یہ سفر ہوا ۔ ٹرین کی روانگی کاوقت صبح چار بجے تھا۔ اور حیدرآباد کے سفر کی خوشی میں رات بھر نیند نہیں آئی ۔ رشتے داروں کا قافلہ دو ڈبے بھر کر حیدرآباد کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں مرزا پلی اسٹیشن آتا ہے۔ ہمارے ماموں اسد صاحب نے کہا کہ یہاں کی چائے مشہور ہوتی ہے اور واقعی ہم نے دیکھا کہ سارے ٹرین کے مسافر اس اسٹیشن پر چائے پینے لگے ہیں اور بہت تیزی سے ہزار سے ذائد افراد چائے پی چکے تھے۔ یہ پسینجر ٹرین دودھ گاڑی کے نام سے مشہور تھی کیوں کہ حیدرآباد آنے سے قبل یہ گاڑی ہر چھوٹے اسٹیشن پر رکتی اور گائوں والے دودھ کے ڈبے ٹرین میں سوار کراتے جاتے رکتے رکتے یہ گاڑی بالآخر سکندرآباد اسٹیشن پہنچی۔ بہت بڑا ریلوے اسٹیشن جہاں سیڑھیاں چڑھ کر دوسری جانب اترنا پڑتا تھا۔ بڑے چاچا ہم سارے قافلے والوں کو لینے کے لیے اسٹیشن پر آئے تھے۔ اس وقت حیدرآباد میں ڈبل بسیں چلا کرتی تھیں ہم پہلی مرتبہ ڈبل بس دیکھ کر حیران ہوئے اور 5نمبر کی ڈبل بس سکندرآباد تا مہدی پٹنم میں سوار ہوئے اوپرکی منزل پر سارے ہی خاندان کے افراد شامل تھے۔ راستے میں بڑے بڑے سائن بورڈ اور شہر کی گہما گہمی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ بہرحال ہم اس بس سے وجئے نگر کالونی چاچا کے کرایے کے مکان پہنچے جہاں وسیع و عریض آنگن تھا۔ سب لوگ کھانے پینے سے فارغ ہوکر گھر بھرانی کی تیاری میں لگ گئے اگلے دن معراج کالونی میں واقع چاچا کے نئے گھر سعادت کدہ گئے جہاں دن کے اوقات میں دعوت تھی معراج کالونی ابھی آباد ہورہی تھی سارا محلہ اونچے نیچے ٹیلوں اور کچھ مکانات سے بھرا ہوا تھا۔ پاس میں ایک نو تعمیر شدہ مسجد حبیب النساء تھی ۔ دعوت میں بریانی کے علاوہ خوبانی کا میٹھا بنایا گیا تھا۔ نئے گھر میں دو تین دن قیام رہا ۔ اچھے اچھے پکوان بنائے گئے کھانا اور تفریح کرنا ہی دو کام رہ گئے تھے۔ جب وجئے نگر کالونی کے مکان میں تھے تب ہم لوگ ہمارے پھوپھا جناب شیخ عبداللہ صاحب اور چاچا امجد فاروقی کے ہمراہ نامپلی گارڈن دیکھنے گئے جاتے اور آتے وقت پیدل چلنے سے اندازہ ہوا کہ حیدرآباد میں فاصلے کس قدر طویل ہوتے ہیں۔سعادت کدہ میں قیام کے دوران چاچائوں اور پھوپھائوں کے ساتھ کیرم بورڈ کی محفلیں جمتی تھیں اور سارا خاندان ایک جگہ جمع ہوکر بہت خوشیاں منائی گئیں۔ بڑے چاچا کو اللہ نے اولاد کی نعمت نہیں دی۔ چنانچہ چاچا اور چاچی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے ہی خاندان کے بچوں کو حیدرآباد میں تعلیم کے لیے اپنے گھر رکھا کرتی تھیں۔معلوم ہوا کہ پھوپھا زاد بھائی مشتاق بھائی میرے بڑے بھائی محمد احسن فاروقی اور خود مجھے بھی ان کے گھر رہنے کا اتفاق ہوا۔ چاچی اور ان کے گھر کام کرنے والی جیلانی پکوان میں ماہر تھیں ۔رمضان میں روزہ داروں کی دعوت ہو یا عام مواقع ان کے گھر مزے دار کھانے کھانے کا اتفاق ہوا۔ چونکہ بڑے چاچا پہلے حیدرآباد منتقل ہوئے تھے تو خاندان کے سبھی افراد شادی بیاہ کی خریداری یا بیماری کے علاج کے لیے جب بھی حیدرآباد آتے تو ان کے گھر قیام کرتے اور چاچا اور چاچی مہمان نوازی میں کمی نہیں کرتے ۔ میرے بڑے بھائی احسن فاروقی کو وہ اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے۔ جب والد صاحب کا سینے کا آپریشن ہوا تو ہم لوگ چاچا کے کرائے کے گھر کالی قبر میں ایک مہینے تک رکے تھے اس وقت میں چھوٹا تھا۔ گھر کے آگے موسی ندی اور ایک پارک تھا میں اکثر اس پارک میں شام کے اوقات جایا کرتا تھا۔ ہمارے ساتھ ہماری دادی ماں رحمت بی صاحبہ بھی چاچا کے مکان میں رہا کرتی تھیں یاد ہے کہ پہلی مرتبہ حیدرآباد کے بے نشان آم جی بھر کر چاچا کے گھر ہی کھائے تھے۔ بڑے بھائی صاحب بھی ایک آپریشن کے سلسلے میں جب چارمینار دواخانہ میں شریک تھے تو ہم بڑے چاچا کے گھر سے ہی ٹفن جایا کرتا تھا۔ ہمارے پھوپھا شیخ عبداللہ صاحب کی بیماری کے زمانے میں بھی بڑے چاچا کے گھر سے ٹفن جایا کرتا تھا۔ چاچا نے اس گھر میں کافی عرصہ قیام کیا بعد میں یہ مکان بیچ کر سوریا نگر کالونی حیدرآباد میں نیا مکان تعمیر کرایا۔ ہر عید کو جب ہم چاچا کے گھر ملنے جاتے تو چاچی کے ہاتھ کا بنا شیر خرما پینے کا موقع ملتا۔ چاچا کو چوںکہ اولاد نہیں تھی تو وہ خاندان کے بچوں کی شادیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور ہر ایک کے دکھ درد میں انہوں نے وقت دیا۔ وہ ہمارے والد سے ملنے روز صبح گھر آیا کرتے تھے۔ والد صاحب وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد فالج کے اثر سے دستخط کرنے سے معذور تھے۔ ہر مہینہ پہلی تاریخ کو چاچا گھرآتے اور والد صاحب سے کسی طرح چیک پر دستخط لے کر وظیفہ لاکر دیتے۔ والدہ صاحبہ چاچا اور والد صاحب کو روزانہ چائے سربراہ کیا کرتی تھیں۔ اصغر فاروقی صاحب نے حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ انہوں نے اولاد نہ ہونے کے سبب اپنے خاندان کے ایک فرد کو اپنا مکان فروخت کردیا اور اس رقم سے انہوں نے اپنے والد والدہ خود کے اور اہلیہ کے نام سے چار مساجد تعمیر کرائیں جن میں دینی مدرسہ بھی چلتا ہے۔ چاچی سعیدہ بیگم خاندان میں دلہن مامی کے نام سے مشہور تھیں۔ باذوق اور نفاست پسند تھیں۔ چاچا کو نام سے فاروقی صاحب کہہ کر پکارا کرتی تھیں چاچا کے پاس اسکوٹر تھی بجاج کی اور اس پر دونوں میاں بیوی بیٹھ کر خاندان کے افراد سے ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے۔ چاچی کو شوگر کا مرض لاحق ہوا اور کچھ سال بعد وہ اسی مرض میں مبتلا رہ کر اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ جب کووڈ کی وبا عام تھی اسی وقت چاچی کا انتقال ہوا تھا چاچا نے ان کے علاج معالجے کے لیے کوئی کثر اٹھا نہ رکھی۔ جب چاچی کا انتقال ہوا تو وہ ایک سال تنہا اپنے مکان میں رہے کام والی پکوان کرتی تھی اور وہ مسجد میں نمازوں کو جانا اور گھر میں رہنا یہی معمول چلاتے رہے ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک سال سے ذائد گھر میں تنہا جیل کی طرح زندگی گزارے۔ چونکہ چاچا سرکاری ملازم تھے اور ان کا اچھا خاصا وظیفہ تھا انہوں نے مجھے سے کہا کہ کوئی بیوہ ہو تو دیکھو اس سے نکاح کروں گا تاکہ میری تنہائی دور ہو اور میرے انتقال کے بعد میرا وظیفہ اس کے کام آئے میں محبوب نگر میں ملازم تھا تب ہمارے کالج کی بی اے کی طالبہ ثانیہ سے معلوم ہو اکہ کووڈ میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا تین بہنیںہیں اور غربت زیادہ ہے میں نے ثانیہ کے ذریعے ان کے گھر والوں تک چاچا کے بارے میں اطلاع پہنچائی کہ اگر ثانیہ کی والدہ سے چاچا کی شادی ہوتی ہے تو بچیوں کی تعلیم اور شادی بیاہ کا انتظام کیا جائے گا اور چاچا کا وظیفہ بھی منتقل ہوگا۔ ثانیہ کے ماموں کے ذریعے بات آگے بڑھی۔چاچا کو چونکہ زندگی میں اولاد کی نعمت نہیں ملی تھی اس لیے انہوں نے تین بچیوں کے ساتھ ان کی ماں سے نکاح کرنے میں رضا مندی دکھائی اور اس طرح آج سے دوسال قبل حیدرآباد میں بڑے بھائی کے گھر ثانیہ اپنی دو بہنوں اور والدہ ثنا بیگم کے ساتھ ہمارے چاچا کے گھر منتقل ہوگئیں۔ اللہ نے اس رشتے میں ایسی برکت دی کہ چاچا کہ عمر اسی سال ہونے کے باوجود انہیں صحت مند رکھا اور ایک سال میں ثانیہ کی شادی بھی کی گئی اور دوسری لڑکی کا رسم بھی ہوا چھوٹی لڑکی اسکول کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ چاچا کی دوسری اہلیہ کی خواہش تھی کہ عمرہ کی سعادت حاصل کی جائے چنانچہ اپنی دوسری اہلیہ کے ساتھ چاچا عمرے کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔ یہ تو مختصر احوال تھے میرے بڑے چاچا کے ۔ تیسرے چاچا محمد اظہر فاروقی نے انگریزی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ والد صاحب نے دادی ماں کی غربت کی زندگی میں ملازمت کرتے ہوئے بی اے کی تعلیم حاصل کی تھی لیکن اظہر چاچا نے ایم اے انگریزی کی تعلیم حاصل کی جو ان کے زمانے کے اعتبار سے کافی معیاری تعلیم تھی۔ انہوں نے پالی ٹیکنیک میں لیکچرر انگریزی کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد وظیفہ پر سبکدوشی حاصل کی۔ ان کی شادی جناب محمود علی صاحب مستاجر آبنوس کی لڑکی ریحانہ بیگم سے ہوئی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ انہیں بھی اولاد نہیں ہوئی۔ چاچا اور چاچی نے میری چھوٹی بہن یاسمین کو گود لینے کی کوشش کی لیکن ہماری بہن ان کے گھر زیادہ دن نہیں رہ پائی۔ چاچا کا مکان احمد پورہ کالونی نظام آباد میں ہے۔ چونکہ چاچا کو اولاد نہیں ہے تو وہ وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد حج سوسائٹی نظام آباد کی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں اور حجاج کرام کی رہبری کے کام کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ انگریزی پڑھے ہوئے ہیں خاندان میں بچوں سے جب بھی بات کرتے ہیں انگریزی گرامر اور نئے الفاظ کے سلسلے میں گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ترغیب پر مجھ سمیت خاندان کے کئی افراد نے حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کی وہ خود بھی اپنی والدہ اور میرے بڑے بھائی کے ساتھ کئی دفعہ حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ چاچی بھی خاندان میں کافی مقبول ہیں۔ جس گھر میں بھی شادی ہو وہاں شادی کی تمام تقاریب میں شرکت کرنااور تحفے تحائف دینا ان کا معمول ہے۔ نظام آباد میں مقیم ہیں اور اکثر حیدرآباد آمد پر کافی دن قیام رہتا ہے۔ چوتھے چاچا محمد امجد فاروقی ہیں جو ریلوے میں الیکٹریشن تھے۔ جب ہم بچپن میں پھولانگ کے گھر میں تھے تو اس وقت امجد چاچا کی فیملی بھی ہمارے ساتھ رہا کرتی تھی۔ ان کے بیٹوں میں اسد فاروقی‘اکرم فاروقی‘ اعظم فاروقی‘الماس فاروقی‘احمر فاروقی‘ بیٹیوں میں نشاط ‘نوشین اور نورین ہیں۔ بڑے ہوکر سب بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور سب اپنی جگہ خوشحال ہیں۔ بچپن میں چاچا ہفتہ پندرہ دن میں ایک مرتبہ ریلوے کی ڈیوٹی کرکے گھر آیا کرتے تھے ان کی جانب سے ریلوے کے سگنل کے سامان سے بنی دو پہیہ بنڈی چلانا آج بھی یاد ہے۔ وہ ریلوے کے خصوصی بلب بھی لایا کرتے تھے جس سے کافی روشنی ہوا کرتی تھی گھر میں جوبھی برقی کے مسائل تھے وہ چاچا دیکھا کرتے تھے۔ جب وہ گھر آتے تو کافی دن رہ جاتے انہیں ریلوے کی ملازمت پسند نہیں تھی دادی ماں ٹوکا کرتی تھیں کہ ارے امجد نو کری کو جاتا یا نئیں چھوٹے بچے ہیں تیرے گھر کیسے چلے گا۔ بہرحال امجد چاچا کے بیٹے ہی ان کا اثاثہ ثابت ہوئے۔ اسد فاروقی‘اکرم فاروقی الماس فاروقی اب بیرون ملک ہیں جب کہ اعظم فاروقی و احمر فاروقی حیدرآباد میں کاروبار سے منسلک ہیں۔بڑے بیٹے اسد فاروقی کو کرکٹ سے بہت دلچسپی ہے اور وہ اکثر پاکستانی ٹیم کی حمایت میں افراد خاندان سے گفتگو کرتے ہیں قافیہ پیمائی میں گفتگو کرنے کے لیے بھی وہ مشہور ہیں۔ بچپن میں جب ہمارا گھرانا اور ان کا گھرانہ پھولانگ کے گھر میں ساتھ رہا کرتے تھے تو اکثر اسد فاروقی جن کی عرفیت شاہد ہے وہ ہماری والدہ سے فرمائیش کیا کرتے تھے کہ اتوار کے دن میٹھی روٹی پورن پوری بنائی جائے جس کے لیے ایک رات پہلے تیاری کی جاتی تھی اور دونوں گھروں میں مل کر یہ روٹی بنائی جاتی تھی۔ امجد فاروقی کی اہلیہ شمشاد خاتون نے بچوں کی نامساعد حالات میں پرورش کی نظام آباد سے حیدرآباد منتقل ہوئے اوراب ان کے بچے ذاتی فلیٹ میں قیام پذیر ہیں۔ شمشاد خاتون کو کافی عرصہ شوگر کا مرض لاحق رہا آخر عمر میں ڈیالائیسس ہوتا رہا اور ان کا اسی مرض میں انتقال ہوا۔ چھوٹے چاچا انیس فاروقی پیشے سے انجینر تھے نظام آباد سے انہوں نے پالی ٹیکنیک سے پڑھائی کی تھی اور اے پی آئی آئی سی میں انہوں نے ملازمت کی۔دوران ملازمت انہوں نے معراج کالونی اور دیگر علاقوں میں مکانات کی تعمیر کی۔ وہ انجنیر فہیم صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وظیفہ پر سبکدوشی کے کچھ سال بعد ان کا برین ٹیومر کے سبب انتقال ہوا۔ انیس فاروقی کی اولاد میں اطیب فاروقی‘ اطہر فاروقی‘ اوصاف فاروقی‘ امین فاروقی ‘اشرف فاروقی ‘جنید عامرہ شامل ہیں۔ ان کی اہلیہ ہماری چاچی جبین بیگم خاندان سے ہی تعلق رکھتی ہیں ان کے والد جناب محمود علی صاحب ہیلتھ ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور والد صاحب کے سگے ماموں ہوا کرتے تھے جو نوے سال سے زائد عمر پانے کے بعد ابھی بھی با حیات ہیں اللہ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے ۔ انیس فاروقی چھوٹے چاچا اچھے افسانہ نگار اور شاعر تھے۔ ان کے افسانوں کے پانچ مجموعے شائع ہوئے۔ آخری عمر میںم وہ والد صاحب سے اصلاح لے کر شاعری کرنے لگے تھے ان کی غزلیں روزنامہ سیاست میں شائع ہوئیں اور انعامی مقابلوں میں انعام بھی حاصل کیا۔ اکثر وہ ہمارے گھر آیا کرتے تھے تو ہماری والدہ انہیں جواری کی روٹی ڈال کر کھانے پر مدعو کیا کرتی تھیں۔ کثیر العیال ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے بچوں کی اچھی پرورش کی اور آج ان کے بچے سعودی عرب اور آسٹریلیا میں برسرکار ہیں۔ دادی ماں کو پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ یعنی ہماری چار پھوپھوئیں بھی تھیں۔ بڑی پھوپھو عابدہ بیگم ٹیچر تھیں کچھ عرصہ نظام آباد کے آغا خان اسکول میں ملازمت کیں۔ بعد میں ان کے شوہر جناب نذیر حسین فاروقی نے زمانے کی چال دیکھ کر سنہ ۷۱ ء میں کراچی پاکستان ہجرت کی تو عابدہ بیگم بھی اپنے بچوں کے ساتھ پاکستان چلی گئیں۔ ان کی اولاد میں تجمل حسین‘مزمل حسین‘ نوید اور رضی شامل ہیں جب کہ بیٹیوں میں زرینہ اور ثمینہ ہیں ۔ ان کی اولادوں کی شادیاں بھی ہوچکی ہیں۔ ہماری پھوپھو نے بچوں کے ساتھ ایک مرتبہ ہندوستان کا دورہ کیا بعد میں ان کی بیٹیوں نے دورہ کیا گزشتہ کئی سال سے دونوں ملک کے سفارتی تعلقات میں کشیدگی کے سبب وہ اپنے وطن سے دور ہیں۔ اور انٹرنیٹ کی ترقی کے بعد اب واٹس اپ کالنگ کے ذریعے ہی اپنے خاندان سے رابطہ قائم کئے ہوئے ہیں۔ ان کے بچے تو اپنے ملک کو ہی سب کچھ مانتے ہیں جب کہ پھوپھو جان آج بھی ہندوستان اور اپنے بھائی بہنوں کو یاد کرتی رہتی ہیں۔ ہماری دوسری پھوپھو چنو پاشا یا ٹیک کی پھوپھو کے نام سے مشہور ہیں معراج کالونی میں ان کا مکان اونچائی پر تھا۔ ان کے شوہر جناب معین الدین صاحب اگریکلچر محکمہ ملازم تھے وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد ان کے انتقال ہوگیا۔ ان کی اولاد میں مشتاق بھائی اشفاق‘اشتیاق ‘امتیاز ہیں جب کہ بیٹیوں میں عفت‘عصمت‘طلعت‘صباحت اور رفعت ہیں سبھی بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور ان کی اولادوں کی بھی شادیاں ہوچکی ہیں۔معین صاحب کا گھرانا بعد میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں سے وابستہ ہوگیا خاص طور سے اشتیاق ‘اشفاق اور امتیاز اور بہنوں میں طلعت رفعت وغیرہ دینی سرگرمیوں سے وابستہ ہوگئے اور مثالی زندگی بسر کررہے ہیں۔
اب ہر پھوپھو اور چاچا کے بچوں کا ایک خاندان ہوچکا ہے۔ ہماری تیسری پھوپھو زاہدہ بیگم نظام آباد میں رہیں۔ انہیں ایک بیٹا احمد اللہ پرویز اور بیٹیوں میں مبینہ‘عشرت‘ نزہت‘فرحت‘شبانہ اور عاصمہ ہیں۔ہماری پھوپھوغربت میں زندگی گزاری ہیں اور بچوں کی پرورش اور شادیاں کی ہیں۔ انہوں نے زندگی بھر سلائی کی اور گھر چلایا۔ پھوپھا جناب شیخ عبداللہ صاحب شوگر فیکٹری اور محکمہ برقی میں ملازم تھے وہ اچھے حکیم تھے گھر پر نسخے تیار کرتے تھے۔ کیرم بورڈ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ مرض کینسر میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئے۔ ان کا اکلوتا بیٹا احمد جو خاندان میں پرویز کے نام سے مشہور ہے اس نے ایم سی اے کی تعلیم کے بعد کاگنی زانٹ کمپنی میں ملازمت کی امریکہ منتقل ہوا اور اب وہیں ذاتی مکان خرید کر رہ رہا ہے۔ خاندان والوں کو اس بچے پر فخر ہے کہ اس نے غریبی کی زندگی دیکھ کر اپنی تعلیم اور جستجو سے ترقی کی اور ماہاناپانچ لاکھ سے ذائد تنخواہ کماتا ہے۔ چھوٹی پھوپھو ساجدہ نسیم ہیں جنہیں ہم لوگ نسیم پھوپھو کہتے ہیں۔ان کی اولاد میں بڑے بیٹے عبدالقدوس کا عین جوانی میں بڑی نہر نظام آباد میں ڈوب جانے سے انتقال ہوگیا۔وہ میرے ہم جماعت تھے۔ اور پسندیدہ کھانوں کے شوقین تھے۔ ان کے دوسرے بھائیوں میں عابد ‘حامد‘ماجد اور زاہد ہیں جب کہ بہنوں میں بلقیس‘ نفیس‘اسما اور سلمیٰ شامل ہیں۔ ہمارے چھوٹے پھوپھا جناب عبدالرشید صاحب محکمہ صحت میں یوڈی سی تھے اور اپنے زمانے کے نظام آباد کے پہلوان سمجھے جاتے تھے کثرتی بدن تھا کھانا ڈٹ کر کھاتے تھے وہ کبھی ہمارے گھر کھانے کے لیے مدعو ہوتے توگھر کی عورتیں پریشان ہوتیں کہ رشید صاحب کو کھانا بہت پکا کر دینا ہوگا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اچھے عامل بھی تھے عملیات کے منتر پڑھا کرتے تھے لیکن کبھی عملی طور پر ہم نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے کسی کا علاج کیا ہو۔ بیماری کے سبب انتقال کرگئے۔ ہماری دادی ماں کو کسی نے دعا دی تھی کہ ان کا خاندان خوب پھلے گا پھولے گا اور اس کی عملی مثال دیکھی جاسکتی ہے کہ تین بیٹوں اور چار بیٹوں کی اولادوں میں سب کی شادیاں ہو کر سب کے بال بچے ہیں اور خاندان پھیل کر دنیا بھر میں شہرت حاصل کرچکا ہے۔فاروقی نام سے مشہور سبھی لوگ کسی نہ کسی شعبے میں اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔ اور ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔
یہ تو رہی ہمارے دادھیال کی تفصیلات ۔جب ہم میرے ننھیال کی جانب توجہ دیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ میرا ننھیال بھی کافی پھیل گیا ہے۔والدہ محترمہ قمرالنساء صاحبہ کا تعلق نظام آباد کے مشہور تاجر جناب دائود رحمٰن صاحب کے گھرانے سے ہے۔ دائود رحمٰن صاحب کی پہلی بیوی یعنی ہماری نانی کے انتقال کے وقت ان کے دو بیٹے سید لیاقت علی اور سید نعمت علی سلیم سیٹھ اور بیٹیوں میں بڑی خالہ مہر النساء ‘والدہ قمر النساء بیگم اور چھوٹی خالہ نجمہ بیگم ہیں۔ سید لیاقت علی صاحب انگلینڈ میں بس گئے وہ ڈاکٹر تھے۔ ان کے بچے بھی یورپی ممالک میں رہ گئے۔ دوسرے ماموں سلیم سیٹھ والد کے پائپ ماچس کے کاربار کو سنبھالتے رہے۔ انہیں پڑھائی کا شوق تھا لیکن والد صاحب کی تجارت کو سنبھالنے کے لیے انہیں زیادہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا لیکن انہوں نے اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی ان کی اولاد میں دو بیٹوں اور دو بیٹیوں نے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کی ان کے بڑے بیٹے سید وجاہت علی ندیم امریکہ میں مقیم ہیں۔ دوسرے بیٹے شفاعت علی سیادت علی کلیم بھی امریکہ میں ہیں ایک فرزند نسیم اور چھوٹے فرزند عظیم نظام آباد میں والد کا کاروبار دیکھتے ہیں۔ سلیم سیٹھ کو ہم لوگ سلیم ماموںکہا کرتے تھے وہ مسجد کچیاں کے دائیں جانب پہلی صف میں روزانہ ظہر کی اور جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے انہیں قرآن خوانی کا بہت ذوق تھا روزانہ دس پارے پڑھا کرتے تھے ان کی اہلیہ ہماری مامی اختری بیگم کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوا بعد میں ماموں نے دس سال سے ذائد مجردہ زندگی گزاری اور قرآن خوانی ہی ان کا شوق رہ گیا تھا۔ کچھ دن قبل اسی سال کی عمر پار کرنے کے بعد ان کا اتنقال ہوا۔ انہوں نے اپنی حیات میں بہنوں کا خیال رکھا ۔ ہماری نانی کے انتقال کے وقت کہا جاتا ہے کہ ہماری والدہ چھوٹی تھیں نانا نے دوسری شادی کی جن سے ہمارے ماموئوں میں سید یعقوب علی‘سید عابد علی‘سید احمد علی‘سید امتیاز علی‘سید اسرار علی‘سید ریاض علی‘سید اعجاز علی‘سید سراج علی اور دو خالائیں عاصمہ اور رضوانہ ہیں۔ نانا نے بچوں کی اچھی پرورش کی اور سید یعقوب علی کو امریکہ بھیجا جو انجینیر ہیں ان کے بعد امتیاز ماموں اسرار ماموں ریاض ماموں اعجاز ماموں عاصمہ آنٹی اور رضوانہ آنٹی شکاگو امریکہ منتقل ہوگئیں۔ ہمارے نانا کا نظام آباد میں محلہ خلیل واڑی میں کشادہ مکان دو منزلہ تھا اس مکان میں کئی کمرے تھے اور ہر کمرے میں تین دروازے تھے اس مکان کی یہ خصوصیت تھی۔ یہ مکان کہا جاتا ہے کہ نظام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان رکن اسمبلی کا تھا۔ جس میں ہمارے ماموں سید لیاقت علی اور دیگر نے خوبصورت باغبانی اور شجر کاری کی تھی۔ اس گھر میں آم‘جام ‘جامن ‘سپوٹا اور دیگر پھلوں اور پھولوں کے درخت پودے اور گھاس کی کیاری بھی تھی۔ جب بھی ہم نانی کے گھر رہنے جاتے تو خوب مزے ہوتے۔ پہلے زمانے میں شادی خانوں کا رواج نہیں تھا تو نانی کا گھر چونکہ بڑا تھا اس لیے اس گھر میں خاندان کے بچوں کی شادیاں ہوا کرتی تھیں مجھے یاد ہے کہ اس گھر میں چھوٹے چاچا فہم چاچا کی شادی کے علاوہ میری بڑی بہن نسرین بیگم مشتاق بھائی اور دیگر افراد کی شادیاں ہوئیں۔ نانا شخصی طور پر ان شادیوں میں پکوان کی نگرانی کیا کرتے تھے اس وقت پکوان میں بکرے کے گوشت کی بریانی اور ڈبل کا میٹھا ہی بنائے جاتے تھے۔ بعد میں شادی کی دعوتوں میں چکن بنانے کا رواج شروع ہوا۔نانا چونکہ سرمایہ دار تھے اس لیے ان کے گھر فون بھی خاندان میں پہلے آیا اور بلیک اینڈ وائٹ اور پھر رنگین ٹی وی اور وی سی آر بھی آیا۔ ہم لوگ کرکٹ میچ ٹیلی ویژن پر دیکھنے نانی کے گھر جایا کرتے تھے اور ان کے گھر ٹیپ ریکارڈ اپنے گھر لاکر منی بیگم اور جگجیت سنگھ کی غزلیں وغیرہ سنا کرتے تھے۔ نانا کا چونکہ ماچس کا کاروبار تھا تو دیوالی کے موقع پر شیوا کاشی سے پٹاخوں کی پیٹھی آیا کرتی تھی بڑے بھائی نانی کے گھر جاکر پٹاخے لاتے تو ہم لوگ بھی ان پٹاخوں کو جلانے میں شریک ہوا کرتے تھے۔ ماموئوں کے بچوں نے بھی اچھی پڑھائی کی اور اب زیادہ تر لوگ امریکہ میں مقیم ہیں اور فون پر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔اس طرح میرا ننھیال بھی کافی شہرت یافتہ ہے۔ اور ہم دادھیال اور ننھیال کے لوگ مل کر ایک بڑا خاندان بناتے ہیں اور جب ہمارے خاندان کے بچوں کے رشتے کہیں نئے گھر میں ہوتے ہیں تو کہیں نہ کہیں پہچان نکل ہی جاتی ہے۔خاندان کے دیگر لوگوں میں میرے خسر سید اکرام علی صاحب مرحوم تبلیغی جماعت کے ریاستی امیر گزرے ہیں۔ اگریکلچر ڈپارٹمنٹ میں اے او تھے زندگی بھر تبلیغی جماعت کی خدمت کی ان کے بیٹوں میں حافظ ارشاد علی ماہر قاری اور خطیب مسجد قطب شاہی ملے پلی ہیں۔ بڑے بیٹے جاوید علی کا چالیس سال کی عمر میں انتقال ہوگیا چھوٹے بیٹے راشد پرانے کمپیوٹروں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔ میرے خسر میری دادی کے سوتیلے بھائی تھے۔ ان کے بھائیوں میں شوکت علی ‘خورشید علی مقبول علی ہیں۔ ہماری دادی ماں کی ایک بہن چھوٹی خالہ تھیں ان کے بیٹوں میں خلیل خان عقیل خان کا بھی خاندان سے گہرا تعلق رہا۔ والدہ کے چاچا محمود علی صاحب جو ریحانہ چاچی کے والد اور اظہر فاروقی کے خسر تھے ان کے بیٹوں میں جناب مسعود علی‘ اسد علی‘اصغر علی‘جمشید علی‘واجد علی‘بیٹیوں میں اختری بیگم فرزانہ بیگم سب سے اچھے خاندانی مراسم رہے۔ اختری بیگم سلیم ماموں کی اہلیہ تھیں تو فرزانہ بیگم عابد ماموں کی اہلیہ ہیں۔ والد صاحب سوتلی خالائیں بھی تھیںجن کے نام حمیدہ خالہ‘اختری بیگم اور افسری بیگم ہے۔ اختری بیگم کے شوہر فرید پینٹر نظام آباد کے نامور پینٹر تھے۔ ان کے بیٹے احمد بخاری ٹیچر اور اسد بخاری پینٹر ہیں۔ نظام آباد چونکہ ہمارا آبائی وطن رہا اس لیے دادھیال اور ننھیال کے لوگ نظام آباد میں رہے بعد میں کئی لوگ ٹولی چوکی معراج کالونی میں آکر بس گئے ننھیال کے لوگ لندن امریکہ منتقل ہوئے اب تو خاندان کے بچے سعودی عرب‘آسٹریلیا‘امریکہ اور کناڈا منتقل ہوگئے اس طرح ہمارا خاندان اب دنیا بھر میں پھیل گیا۔