(Last Updated On: )
رابرٹ لنڈ
مترجم: خالد صدیقی
شہر کے ایک دور افتادہ ہوٹل کے کمرے میں جہاں ٹھہرا ہوا تھا ایک بیرا سگریٹ کا آدھا پیکٹ لیے میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا، جناب یہ سگریٹ آپ کے ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ اس نے یہ پیکِٹ کہاں سے حاصل کیا۔ اس نے بہت ہی مؤدبانہ لہجہ میں جواب دیا کہ یہ نیچے کونے کی میز پر پڑا ہوا تھا، مجھے گمان گزرا کہیں آپ کا نہ ہو، کیونکہ یہ اوپر کی طرف سے کھولا گیا ہے۔ میں نے استعجاباً پوچھا کیوں! سگریٹ کا پیکٹ کھولنے کا کوئی اور بھی طریقہ ہے۔ جی ہاں! اس نے جواب دیا۔ آپ نے دیکھا ہو گا زیادہ تر لوگ پیکٹ کھولنے سے پہلے اوپر کا تمام ریپر پھاڑڈالتے ہیں۔ لیکن میں نے آپ کا بغور مشاہدہ کیا ہے کہ آپ بغیر ریپر پھاڑے پیکٹ کو اوپر سے کھولتے ہیں۔ پھراس نے پوچھا۔ کیا آپ کو اپنی اس عادت کے بارے میں کوئی علم نہیں؟ یہ سن کر میں تو انگشت بدنداں رہ گیا کہ اتنے دور افتادہ علاقے میں بھی شرلاک ہومز موجود ہے جو تین دن سے بغور میرا جائزہ لے رہا ہے اور میری ان عادات کے بارے میں بخوبی بتا سکتا ہے جن سے میں خود بھی آگاہ نہیں۔ میں نے اس سے پہلے کبھی یہ محسوس نہیں کیا تھا کہ میں عادتاً سگریٹ کا پیکٹ ایک مخصوص انداز سے کھولتا ہوں اور اسی مخصوص انداز کی وجہ سے میں مہذب لوگوں کے قبیلہ سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہوں۔
میں اپنے بارے میں ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ میں چند عادات پر مشتمل ایک مخلوق ہوں جن میں سے بیشتر خراب ہیں۔ لیکن آج مجھ پر عیاں ہوا کہ میں نئے پیکٹ کا پہلا سگریٹ نکالنے کے اس معمولی سے کام میں بھی عادات کا غلام بن کر رہ گیا ہوں۔ ویسے میں اصولی طور پر عادات کا دشمن نہیں ہوں۔ میری رائے میں آج تک کسی نے اتنی فضول بات نہیں کہی جتنا کہ پیٹر کا مشاہدہ ہے۔ پیٹر کا کہنا ہے: ’’عام طور پریہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری ناکامی اس وجہ سے ہے کہ ہم عادات کو اپنا نہیں سکے۔‘‘ اس بات میں آدھی سچائی کے جراثیم تو موجود ہو سکتے ہیں لیکن کوئی بھی آدمی جو بد قسمتی سے عادات کو اپنانے کے قابل نہ ہو وہ اس کہاوت کو ظاہری طور پر تسلیم کر لے گا۔
میں چونکہ معمولی چیزوں مثلاً ٹکٹ، روپئے پیسے یا اس قسم کی کسی اور چیز کو کسی مخصوص جیب میں رکھنے کی عادت اپنا نہیں سکا لہٰذا اس کا خمیازہ مجھے روزانہ بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جن لوگوں کے پاس کافی پیسے ہوتے ہیں وہ جب پیسے تلاش کرنے کے لیے اپنی جیبوں میں بار بار ادھر ادھر ہاتھ ڈالتے ہیں تو ایک ہیجانی سی کیفیت پیدا کر لیتے ہیں، جیسے ان کے جسم میں کوئی کیڑا گھس آیا ہو۔
اگر کوئی حساس آدمی ایسے حالات میں اس قسم کا مظاہرہ کسی دکان، ریستوران یا کہیں بھی کرے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ دکاندار، بیرا یا کیشیئر اس کو شک و شبہ کی نگاہ سے گھور رہا ہے اور دبی مسکراہٹ کے ساتھ حیران ہو رہا ہے کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ اس قسم کا ڈرامہ خاص طور پر ریستوران میں ضرور ہوتا ہے، حالانکہ ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا جاتا۔
کئی سال پہلے مجھے ایک خفت آمیز تجربے سے دوچار ہونا پڑا۔ ہوا یوں کہ جب کھانا کھا چکنے کے بعد مجھے ایک عظیم الشان ریستوران میں بل دینا پڑا تو میری جیب سے ایک پیسہ بھی برآمد نہ ہوا حالانکہ مجھے پورا یقین تھا کہ میرے کوٹ کی کسی نہ کسی جیب میں پیسے موجود ہیں۔
ایک مرتبہ میرا ایک دوست مجھے بغیر کسی مقصد اور ارادے کے مختلف جیبوں میں روپے ٹھونستے ہوئے دیکھ رہا تھا، جن میں سے زیادہ تر میں نے سینے والی جیب میں مختلف قسم کے خطوط اور دوسرے کاغذات کے درمیان ٹھونس دیے۔ وہ بے اختیار ہو کر کہنے لگا تمہیں پیسوں کا کوئی شعور نہیں اور نہ ہی تم ان کی حفاظت کرنا جانتے ہو، پھر اس نے نہایت شان استغنائی کے ساتھ مجھے ایک بٹوا تحفۃً دیا۔
میں جب ایک غیر ملکی دورے پر جانے لگا تو میں نے سارے پیسے اس بٹوے میں رکھ لیے اور اپنے آپ کو ایک با اصول آدمی محسوس کرنے لگا۔ بد قسمتی سے ایک ہفتہ کے اندر ایک با اصول غیر ملکی جیب کترے نے میرا وہ بٹوا نہایت چابکدستی کے ساتھ اڑا لیا اور مجھے اس شاندار طریقہ سے لوٹا کہ اس سے پہلے بغیر بٹوے کے دنوں میں کسی جیب کترے نے ایسی کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ آپ شاید یہ سوچیں کہ اس حادثہ کی وجہ سے عادات کی پاکیزگی اور باقاعدگی کے متعلق میرا ایمان کمزور ہو جانا چاہیے؟ جی نہیں، اگر آپ یہ سوچتے ہیں تو غلطی پر ہیں۔ میرے اندر یقینی طور پر جو تبدیلی پیدا ہوئی وہ یہ کہ اس سوال کے دونوں پہلوؤں پر کچھ نہ کچھ کہا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میں تسلیم کرتا ہوں کہ زندگی کے عام حالات میں ایک شخص جو یہ جانتا ہے کہ اس کی کس جیب میں پیسے ہیں اس شخص کے مقابلے میں ارفع و اعلیٰ ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اس کی کس جیب میں پیسے ہیں۔ لیکن یہ آدمی اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ جیب کترے بھی اس کی جیب کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ کیونکہ ایک آدمی کو جب اپنی پیسوں والی جیب کا اندازہ ہی نہ ہو تو جیب کترا کس طرح شناخت کر سکتا ہے۔
ایک مرتبہ میں کشتی کے ذریعے سیاحت کے لیے نکلا تو کشتی کے ’سموکنگ روم‘ میں ایک نورانی صورت والا اجنبی کافی دیر تک میرے ہمراہ بیٹھا رہا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ جیب کترا تھا کیونکہ وہ میری جیب کی صفائی کر چکا تھا۔ ویسے بھی میری جیب کاٹنے کا موثر طریقہ تو یہ ہے کہ مجھے چوٹ مار کر بے ہوش کر دیا جائے مگر اس طرح پیسے تلاش کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
روپے پیسے سے قطع نظر عادات کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس آدمی کے لیے یہ کتنی احمقانہ سی بات ہے جو ہمیشہ بس یا ریل سے سفر کرے لیکن اپنا ٹکٹ کبھی بھی ایک ہی جیب میں نہ رکھے۔ لیکن جو شخص ہمیشہ ایک ہی جیب میں ٹکٹ رکھنے کا عادی ہوتا ہے وہ بہت جرأت اور سکون کے ساتھ ٹکٹ انسپکٹر کے مد مقابل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ٹکٹ مہیا کرنا ایک عام سا دستور عمل ہے اور یہ سب کچھ اس طرح ہو رہا ہے جیسے جادو ہو رہا ہو جو آدمی اپنا ٹکٹ تلاش نہیں کر سکتا وہ خود بھی تنگ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی تنگ کرتا ہے۔
میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ اگر وہ میری جگہ ہوتا پھر تو بالکل ہی احمق دکھائی دیتا۔ مجھے بعض دفعہ ایسے آدمی پر رحم آتا ہے جو عالم بے چارگی میں پریشان ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ مایوسی کی حالت میں بار بار جیبوں میں ہاتھ ڈالتا ہے اور اپنے مرتبہ سے گر کر قیمتی لمحات کو اپنے بھول پن اور نالائقی کی وجہ سے ضائع کرتا ہے تو مجھے سخت اذیت پہنچتی ہے۔ اس وقت وہ نسل انسانی کا عجیب و غریب نمونہ دکھائی دیتا ہے اور یہ سب کچھ نظم و ضبط کے فقدان کی وجہ سے ہوتا ہے۔
میں اس سے پوچھنا پسند کروں گا کہ کیا اس کے پاس ٹکٹ والی جیب نہیں اور اگر اس کے پاس ٹکٹ والی جیب ہے تو پھر اسے سوچنا چاہیے کہ درزی نے آخر ٹکٹ والی جیب کیوں لگائی۔ ایسے موقعوں پر میں کمزور عادات والے بھائی کو لعن طعن کرتے ہوئے عادات پر پابند آدمی کا ساتھ دیتا ہوں۔ ٹکٹ والی جیب کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے یاد آیا کہ میں نے حال ہی میں درزی سے جو سوٹ سلوایا ہے اس میں وہ ایک جیب لگانا بھول گیا۔ پہلے تو میں اس کی اس غفلت پر سخت برہم ہوا، لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ درزی نے جیب نہ لگا کر مجھ پر احسان عظیم کیا ہے۔ کیونکہ میرے سوٹ میں ایک جیب کم ہو گی جس کی وجہ سے ٹکٹ غائب ہونے کی امید کافی کم ہو گی۔
وہ آدمی کتنا قابل رشک ہے جو ایک لمحہ کے نوٹس پر اپنے پڑھنے کی عینک پیش کر سکتا ہے۔ کیونکہ اس نے عینک کو ایک مخصوص جیب میں رکھنے کی عادت اپنائی ہوئی ہے۔ اسے اتنا یقین ہے کہ جب وہ گھر سے روانہ ہوتا ہے تو عینک ایک خاص جیب میں ضرور موجود ہوتی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں یہ پسند نہیں کروں گا کہ کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ ایک سال کے عرصہ میں میں نے اپنا چشمہ تلاش کرنے میں کتنے لمحات ضائع کیے ہیں۔ ان ضائع شدہ لمحات کی تعداد بنی نوع انسان کو شاید متزلزل نہ کر سکے مگر مجھے ضرور متزلزل کر دے گی۔ عینک کے بارے میں میری یادداشت اتنی غیر یقینی ہے کہ میں مجبور ہوں کہ ہنگامی حالات کے لیے متبادل عینک اپنے پاس رکھوں۔
عادات کی غلامی کے بارے میں بات کریں تو پرانے زمانے میں صحیح غلام وہ تھے جو بحری جہازوں یا کشتیوں کو کھیتے تھے، لیکن اس سبب سے وہ عادات کے غلام نہیں تھے، انھوں نے تو ایک چیز گم کر دی تھی جس کے تعاقب میں وہ عرصہ سے سرگرداں تھے۔
میں جب کسی کتاب سے استفادہ کرتا ہوں تو اس قسم کی معلومات سے ضرور واقفیت حاصل کرتا ہوں۔ میری لائبریری میں لاتعداد کتابیں موجود ہیں اور مجھے ان سے بہت ہی پیار ہے۔ مجھے کتاب کی ہر جلد کو سلیقہ سے اس کی مقرر کی ہوئی جگہ پر دیکھ کر دلی مسرت ہوتی ہے لیکن جب میں کسی کتاب کا مطالعہ کر لیتا ہوں تو ایک فرمانبردار شاگرد کی طرح کتاب کو واپس شیلف میں رکھ دیتا ہوں لیکن اس کو اس کی جگہ ترتیب سے نہیں رکھتا۔ نتیجتاً میں جتنا وقت کتابیں پڑھنے میں صرف کرتا ہوں اس سے زیادہ وقت ان کو تلاش کرنے میں گزار دیتا ہوں۔
چنانچہ جب مجھے براؤننگ کے ایک حوالہ کی تصدیق کرنا پڑتی ہے تو جس کتاب کی جلد میں وہ اقتباس موجود ہے وہ کبھی نہیں ملتی۔ اگر مجھے مسٹر ای وی لوکس کی کتاب ’چارلس لیمب کی زندگی‘ کی پہلی جلد چاہیے تو بجائے پہلی جلد کے دوسری جلد میرے ہاتھ میں آ جاتی ہے۔
جب میں کوئی چیز تلاش کر رہا ہوتا ہوں تو گھر میں پڑی ہوئی تمام ڈکشنریاں ایک ایک کر کے سامنے آ جاتی ہیں لیکن جب کسی نازک صورت حال میں ڈکشنری کی ضرورت پڑ جائے تو تمام ڈکشنریاں بخارات بن کر ہوا میں اڑ جاتی ہیں اور کوئی ڈکشنری ہاتھ نہیں آتی۔ در حقیقت اس وقت کتابوں کو شرارت کی تحریک ہوتی ہے اور وہ میری لاپرواہی کا انتقام لینے کے لیے ختم نہ ہونے والے آنکھ مچولی کے کھیل کے ذریعے میرا وقت ضائع کرتی ہیں۔
اس لیے میں تمام چیزوں کے مقابلے میں زندگی میں عادات کی باقاعدگی اور نظم و ضبط کو پسندکرتا ہوں اور میں مونتین سے شدیداختلاف رکھتا ہوں۔ وہ کہتا ہے: ’نوجوان آدمی کو اپنی توانائی کو حرکت میں رکھنے، اسے زنگ اور سستی سے بچانے کے لیے اپنے اصول توڑ لینے چاہئیں۔‘ زندگی کا کوئی لمحہ اتنا بے وقوف اور کمزور نہیں ہے کہ اس کی اصول اور نظم و ضبط کے مطابق تعمیل کی جائے۔
یہ بات سولہویں صدی کے ان شرفاء کے لیے کافی حد تک نصیحت کا کام کرتی تھی جن کے خاص ذرائع تھے۔ لیکن یہ نصیحت اس نسل کے لیے بالکل بے فائدہ ہے جس نے مشین کو بنایا۔ اس کی خوبصورتی اور استعمال کے طریقہ کو باقاعدگی کا ڈھنگ دیا۔ مثال کے طور پر ٹرین ہی کو لیجئے جو وقت پر روانہ ہوتی ہے۔ گھڑی عادتاً صحیح وقت بتاتی ہے۔ آدمی جو ہر صبح آٹھ بجے ناشتہ کرتا ہے اور ہمیشہ اپنا ٹکٹ ایک ہی جیب میں رکھتا ہے۔ ان تمام معاملات میں مشین کی طرح رہنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ یہ تو کامیاب زندگی گزارنے کی دلیل ہے۔
میکانکی طور پر زندگی بسر کرنا تو آزاد روح کی طرح زندگی بسر کرنا ہے جو آپ کو زندگی کے ہنگاموں سے انحراف کر کے کتابوں یا چشمے کی تلاش میں فضول وقت ضائع نہیں کرنے دیتی۔ میں انتہائی خوش قسمت ہوں کہ کم از کم میری ایک عادت توہے کہ میں سگریٹ کا پیکٹ ایک خاص طریقے سے کھولتا ہوں۔ یہ معمولی سی چیز ہے، لیکن کیا یہ چیز وقت کی پابندی، باقاعدگی اور نظم و ضبط کا بیج نہیں ہو سکتی؟جو میرے سارے وجود میں پروان چڑھائے۔ میں اس بیرے کا انتہائی مرہونِ منت ہوں جس نے مجھے امید کی کرن دکھائی۔
٭٭٭