(Last Updated On: )
برآمدے میں کھجور کے باندوں سے بُنی تین چارپائیاں ایک دوسرے سے جڑی پڑی تھیں جن پروہ تینوں بہنیں ظاہر سو رہی تھیں۔ آگے کچا دالان تھا جس کی کیاریوں میں موگرے اور رات کی رانی کی جھاڑیاں تھیں، کچھ ہٹ کے کچنار اور شہتوت کے درخت تھے اور ان کے اوپر اوندھی تھالی جیسا آسمان تھا جس پر رات کو ہیرے موتی جیسے تارے ان کے دالان میں جمع ہو جاتے تھے گویا رات ان تینوں کے لیے تاروں کی سحر آگیں روشنی، پھولوں کی مدھر خوشبو اور خوابوں کی ریشمی ردائیں لے کر آتی تھی۔ مستطیل برآمدے کے دوسرے کونے کی نصف لمبائی میں ایک چوکور رقبہ تھا جسے مولوی عبدالرشید نے حجرے کا نام دے رکھا تھا۔ اس میں سائلوں کے آنے سے پہلے عورتوں کے لیے درمیان میں پردہ لٹکا دیا جاتا تھا۔ گھر کے مغربی حصّے میں دیگر ضروریات کے لیے کچی پکی کوٹھری نما جگہیں تھیں۔ برآمدہ اور دالان تینوں بہنوں کی راجدھانی تھا۔ مولوی عبدالرشید اس طرف بہت کم اٹھتے بیٹھتے تھے۔ دن میں بھی وہ حجرے والے دروازے سے آتے جاتے تھے۔ دالان والے دروازے پر تالا پڑا رہتا تھا۔ بہ ظاہر یہ دونوں حصے محدود قطعۂ ارضی پر مشتمل ایک ہی گھر کے تھے لیکن ان کی باطنی فضا ایک دوسرے سے مختلف تھی۔ زمانے کا تغّیر کسے کہتے ہیں، اس کا اندازہ اس گھر کے دیوار و در کو نہیں تھا لیکن آج شام سے پہلے کام ختم کر کے جانے والے مزدور اس گھر کے نقشے میں ایک تبدیلی کر گئے تھے۔ مولوی عبد الرشید کے حکم پر ایک چوبی ٹھاٹر نے پورے برآمدے کو بند کر دیا تھا البتہ مولوی عبدالرشید نے اپنی تینوں جوان بیٹیوں کو بہ قدرِ ضرورت سانس لینے کے لیے دام نما چوبیں ٹھاٹر چوڑے سوراخوں والا لگوا دیا تھا اور ساتھ ہی حکم دیا تھا کہ کل سے اس پر پردہ ڈال دیا جائے۔
بستر پر تا دیر ایک کروٹ پڑے رہنے کے باوجود صالحہ کو محسوس ہوا کہ عفیفہ جاگ رہی ہے اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ صابرہ بھی جاگ رہی ہو گی صابرہ کو دبک کر رہنے کی عادت تھی۔ اکثر وہ آدھی سانس لیتی یا سانس روکے رکھتی، شاید ہوا کا گزر اس کے پھیپھڑوں کے آخری سرے تک کبھی نہیں ہوا تھا۔ اب تو اس چوبیں ٹھاٹر نے ہوا، خوشبو اور روشنی کا راستہ بھی روک دیا تھا۔ صالحہ نے باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ تاروں کی چمکتی کرنوں سے کچے دالان تک ہر شب دیکھے ہزارہا شبوں میں دیکھے خواب کی رہ گزر بن گئی تھی۔ اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ مولوی عبدالرشید کی دنیا کی تنگ و تاریک گلیاں تاریخ کے عبرت آموز قلعوں کی طرح مسمار ہوتی گئیں اور صالحہ کا تکیہ تختِ سلیمان بن گیا۔ اس نے خود کو حوضِ خاص کے قریں پایا جو کنول کے پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ دنیا کے عجائب و غرائب سے مماثل کسی عظیم سلطنت کی حسین ترین شہزادی کے روپ میں وہ کھڑی تھی۔ تاج نما کلاہ سر پر تھا۔ کار چوبی کی پشواز ٹخنے تک جھکی جاتی تھی۔ گلے میں سچے موتیوں کی مالائیں، ہاتھ میں مرصع کنگن، بازوبند اور محراب کی مانند ٹیکا اس کی چمکتی پیشانی کو چوم رہا تھا۔ پازیب سے سجے پاؤں اور جواہرات ٹکی زیر پائی ہر قدم کو وارفتگی دے رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ تاروں کی رہ گزر سے اترنے والا شہزادہ ماورائی دنیا کی حد پار کرتا کہ مولوی عبدالرشید کی جگر کر کُولتی آواز سے دیوار و در تڑخنے لگے۔
“اٹھو نصیب ماریو۔۔۔۔ فجر کی اذان ہو رہی ہے۔ رات کی گاڑی پہنچ چکی ہو گی، مسافر آتا ہی ہو گا۔۔۔ “
صالحہ نیم خوابی میں ہڑبڑا سی گئی۔ سب سے پہلے اس کی نگاہ اپنے خستہ، رنگ اڑے لباس پر گئی۔ اسے درست کرتی وہ اٹھی۔ صابرہ اس سے پہلے بستر سے کھڑی ہو چکی تھی اور عفیفہ آنکھیں ملتے ہوئے اپنے باپ کو ناپسندیدگی سے دیکھ رہی تھی۔ وہ تینوں جانتی تھیں مولوی عبدالرشید پہلی اذان پر کبھی نہیں اٹھتے تھے لیکن بھتیجے کے آنے کی دہشت نے انھیں رات بھر چین سے سونے نہ دیا تھا۔ آنے والے وقت نے ان کے گرد شک و شبہات کے ہزاروں کنکھجورے چھوڑ دیے تھے جو اب ان کا مقدر تھے۔ ایک مدت بعد انھیں اپنی مرحومہ بیوی کی گہری سوچتی آنکھیں اور آخری دموں تک کی لب بستگی یاد آتی رہی۔ وہ گزرے وقت کی اذیت میں یوں گرفتار ہوئے جیسے ماضی سے کسی نے پھندا پھینک کے انھیں ایک زمانے کی دوری سے کھینچ لیا ہو۔ یہ احساس کسی ظاہری توجیہ کے بنا ان پر طاری تھا کہ وہ آخر آخر تک اپنی مرحومہ بیوی کی سوچ میں ڈوبی آنکھوں میں موجزن اسرار اور خاموش ہونٹوں کے طلسم کو کبھی دریافت نہیں کر سکے تھے۔ ان کے شکوک اور پھر ظلم و جبر بھی ان کی مردانہ اَنا کو تشفی نہ دے سکے تھے۔ وہ ان سے نفرت کرتی تھی، کسی اور کو چاہتی تھی، کیا حقیقت تھی جیسے بتائے بنا وہ مر گئی۔ اس کا اس راز کو لے کر دفن ہو جانا مولوی عبدالرشید کے لیے سانحہ تھا، اس کا مرنا نہیں۔۔ ایک مدت بعد پھر وہی ان جانا خوف، نفرت کی آمیزش کے ساتھ ان پر حاوی تھا۔ ان کی بیوی کا پَرتو لیے تین متحرک لاشیں ان کی ناگوار ذمے داری تھیں جن کی نگرانی کے کٹھن احساس سے ان کا دم گھٹا جا رہا تھا۔
٭٭٭
چند دن قبل مولوی عبدالرشید کو اپنے چچا زاد بھائی کا خط ملا تھا جس میں لکھا تھا کہ ان کا بیٹا اپنی تعلیم کے سلسلے میں اسی شہر میں آ رہا ہے اور مولوی عبدالرشید کے گھر قیام کرے گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا اجنبی شہر میں قیام و طعام کی سہولت سے محروم نہ رہے۔ یہ خواہش کسی اور نے کی ہوتی تو مولوی عبدالرشید کے دروازے پر انکار کا قفل آویزاں ہو جاتا لیکن یہ وہ خط تھا جس نے ان کے گرد سینکڑوں رسیدوں کا بگولہ بنا دیا۔ یہ رسیدیں ان ارسال کردہ رقوم کی تھیں جو مولوی عبدالرشید کے چچا ان کی بیوہ ماں کو خرچے کے لیے ہر ماہ ڈاک سے بھیجا کرتے تھے۔ ان رسیدوں کے حاشیے پر کبھی خیریت کے دو بول نہ لکھے ہوتے۔ مولوی عبدالرشید خیرات کی طرح دیے گئے ان پیسوں کو تمام عمر نہ بھولے حالاں کہ خیرات تو وہ اب بھی کھاتے تھے اور بڑی خوشی سے کھاتے تھے۔ پورا ہفتہ جمعرات کے دن کے انتظار میں گزرتا کہ جب سائلوں کے گھر سے انواع و اقسام کے کھانے آتے تھے لیکن اس خیرات کو لوگ نذرانے کے طور پر دیتے، کبھی کسی نے ان کی حیثیت کو نہیں ٹٹولا تھا۔ مولوی عبدالرشید کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کے چچا زاد نے آخر کیا سوچ کے ان پر حق جتایا ہے۔ کیا وہ اپنے باپ کی بھیجی رقوم کا حساب چکتا کروانا چاہتا ہے یا رشتے داری کے حسنِ سلوک کا متقاضی ہے لیکن ایسا تو جب ہی ہوتا کہ جب وہ انھیں برابری کا درجہ دیتا۔ بہر طور افتاد تو پھر افتاد ہے کسی بہانے آئے، انہوں نے سوچا۔
صابرہ اور صالحہ نے دو دن پہلے چوبارا صاف کر دیا تھا جو چو طرفی ہوا سے صحرا کا کوئی ٹکڑا بنا ہوا تھا۔ کھلی جگہ اور سیڑھیوں پر کبوتروں کی بیٹیں جم گئیں تھیں جنھیں دونوں نے بہت محنت سے صاف کیا۔ گھر کا یہ حصہ صرف اس لیے ناقابلِ استعمال بنا ہوا تھا کہ چوبارے میں آنے جانے سے بے پردگی نہ ہو۔ صحن میں پڑی جھلنگا چارپائی کو صالحہ نے کس کر اپنی چارپائی سے بدل لیا اور اپنی چارپائی جو بہتر حالت میں تھی، چوبارے میں ڈال دی۔ صابرہ نے ایک پرانی سی تپائی پر کڑھا ہوا میز پوش بچھا دیا۔ اس سے زیادہ کیا کیا جا سکتا تھا۔ اور تو اور چوبی ٹھاٹر کے نصب ہونے کے بعد دالان کا وہ مختصر حصہ جہاں صبح پھول رات کو تارے نظر آتے تھے، مہمان ہی کا ہو چلا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاشت کے قریب، اس گھر کے جوہڑ کے ٹھہرے پانی جیسے ماحول میں کنکر پڑا۔ مولوی عبدالرشید کے چچا زاد کا بیٹا شہریار پہنچ گیا تھا۔ انھوں نے اسے حجرے ہی میں روک لیا۔ سرسری سی خیریت دریافت کر کے وہ اسے بتانے لگے کہ چوبارے میں اس کے رہنے کا معقول انتظام کیا گیا ہے۔ کھانے کے وقت اسے حجرے میں آنا ہو گا لیکن دالان والے دروازے سے نکل کے، گھوم کے۔ گھر کے اندرونی حصے میں اس کی آمدو رفت ممنوع ہے۔ وہ سر نہوڑائے سنتا رہا۔ اپنا سفری تھیلا تھام کے اس نے اٹھنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ مولوی عبدالرشید جس بات کو سب سے پہلے کہنا چاہتے تھے اور کہہ نہ پار ہے تھے، یکایک بولے،
“وہ تمہاری سگی بہنیں نہیں ہیں کہ ان سے تم ہم کلام ہو سکو۔۔ وہ تم سے پردہ کریں گی۔۔ تم بھی احتیاط کرنا۔۔ “
٭٭٭
مولوی عبدالرشید کے حجرے کے درمیان پردہ لٹکا ہوا تھا۔ پردے کے پرلی طرف عورتیں تھیں۔ مرد سائلوں کی جانب مولوی عبدالرشید بیٹھے تھے۔ بخورات سلگ رہے تھے۔ مختلف قسم کی تسبیحیں، منکے، گنڈے رکھے تھے، قریب ہی ہرے رنگ کا ڈبا تھا جس میں ہر سائل تعویذ لینے کے بعد کچھ نہ کچھ ڈالتا ہوا اٹھتا تھا۔ مولوی عبدالرشید کے عقب میں بھی ایک دبیز پردہ پڑا تھا جس کی اوٹ میں صالحہ موجود تھی۔ جب سے ان کی بینائی متاثر ہوئی تھی صالحہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر تعویذ گنڈے بنا کر دیتی جاتی تھی۔ اب تو اس نے اس کام میں پُرکاری حاصل کر لی تھی۔ مولوی عبدالرشید کے لیے آہستہ آہستہ وہ ایسی لاٹھی بن گئی تھی جس کے بنا چلنے کا تصور بھی ان کے لیے سوہانِ روح تھا لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ وہ ان کی نظر میں معتبر ہو گئی تھی۔ اس کی حیثیت وہی تھی جو دوسری بیٹیوں کی۔
جس وقت شہریار اچانک حجرے میں داخل ہوا، ایک سبزہ رنگت نوجوان تعویذِ حُب لینے کے لیے طالب و مطلوب کے نام بتا رہا تھا۔ مولوی عبدالرشید نے ناگواری سے شہریار کو دیکھا پھر نام لکھے کاغذ کو پردے کے نیچے سرکاتے ہوئے سرگوشی کی، “صالحہ بی بی، نقش برائے حُب تیار کر کے موم جامہ کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” اور اگلے سائل کو آئندہ آمد پر کوری ہانڈی، ہرا کپڑا اور چوکور کیلیں لانے کی ہدایت کرنے لگے۔ سائل کے کھسکتے ہی ایک اور سائل آگے کو آیا اور بولا “سرکار! آپ نے گیارہ فلیتے چنبیلی کے تیل میں جلانے کے لیے دیے تھے جو میں نے جلا دیے لیکن کام۔۔۔۔۔؟؟”
مولوی عبدالرشید نے برہمی سے اسے دیکھا اور بولے، ” میں نے تم سے یہ بھی کہا تھا کہ بکری کے شانے کی ہڈی پر نقش لکھا جائے گا اس کے بعد اسے کسی پرانی قبر میں دفن کیا جائے گا اس کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔۔۔ انتظام نہیں کر سکتے تو۔۔۔۔ “جملہ ادھورا چھوڑ کے وہ سائل کو دیکھنے لگے۔
“نہیں نہیں، آپ کے کہنے کے مطابق پیسے لایا ہوں۔ “سائل نے رقم ان کے ہاتھ میں دبا دی۔ مولوی عبدالرشید کے چہرے پر لمحہ بہ لمحہ بڑھتی سلوٹیں ایک ہی ساعت میں تحلیل ہو گئیں۔
سائلوں کے جانے کے بعد بھی شہریار وہیں بیٹھا رہا۔ ایک سترہ اٹھارہ برس کا زنگی نوجوان دوڑ دوڑ کے حجرے کا بکھرا سامان سمیٹ رہا تھا۔ اس کے گھنگھریالے سیاہ بال اس کی چمکتی سیاہی مائل پیشانی پر جھکے ہوئے تھے۔ مولوی عبدالرشید کھنکھارے اور شہریار کو مخاطب کر کے بولے، ” یہ میرا شاگرد ہے۔ اس کے مرحوم باپ نے اسے میرے حوالے کر دیا تھا۔ سودا سلف لا دیتا ہے۔ صبح سے شام تک یہیں ہوتا ہے۔ رات کو اپنے گھر چلا جاتا ہے۔ “
شہریار نے دیکھا پردے اور گدیاں سمیٹتے ہوئے لڑکے کی نگاہ بار بار گھر کے اندرونی حصے کی طرف جاتی تھی۔ بہت دیر بعد وہ پردہ بھی سمٹا جس کے عقب سے مولوی عبدالرشید بنے بنائے تعویذ گنڈے لے رہے تھے لیکن اب وہاں کوئی نہیں تھا۔
٭٭٭
شہریار کو آئے کئی روز گزر گئے تھے۔ اسے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ایسے تماشا گھر میں بیٹھا ہے جہاں کچھ کٹھ پتلیاں پردے کے پیچھے اور کچھ سامنے ہیں لیکن سب گونگی ہیں۔ اس رات گھٹن کا احساس زیادہ بڑھا تو اس نے چوبارے کا دروازہ اور کھڑکیاں کھول دیں۔ بے دلی سے کھلی کتابوں کو دیکھتے ہوئے اسے مزید مطالعے کے لیے چائے پینے کی خواہش ہوئی۔ اس نے گھڑی دیکھی اور سوچا مولوی عبدالرشید سو چکے ہوں گے، بہتر ہو گا کہ چائے کے کسی کھوکھے کا رخ کیا جائے۔ وہ دبے قدموں سیڑھیاں اترنے لگا۔ خلافِ توقع دالان کے آس پاس اک زنگولہ سا اس کے نیم خوابیدہ وجود سے ٹکرایا۔
رام کرے کہیں نیناں نہ الجھیں
ان نینن کی بان بری ہے
الجھے نیناں سلجھائے نہ سلجھیں
رام کرے کہیں۔۔۔۔
“ہش ہش۔۔۔ ” اچانک چند آوازوں نے سُر تال کو دبایا۔
“کوئی اِدھر کو آ رہا ہے۔۔۔ “سہمی سہمی سی سرگوشی ہوئی۔
“کوئی کیا آپا، وہی مہمان ہے مُوا۔ “
” شہریار آہستہ آہستہ چلتا ہوا آیا اور چوبی ٹھاٹر کے قریب رک گیا پھراس نے ہلکا سا کھنکھارا۔
“کیا بات ہے؟” ایک شوخ آواز نے پوچھا۔
“جی کچھ نہیں۔۔۔۔ بس ذرا پڑھائی صحیح نہیں ہو پا رہی ہے۔ ایک پیالی چائے۔۔۔ میرا مطلب ہے اگر مشکل نہ ہو تو۔۔۔۔ کیا مل سکتی ہے؟”
دبی دبی سی ہنسی کی آواز آئی۔ نجانے کون تھی پھر انھی میں سے کسی نے ملائم سی سرگوشی کی، “بابا کو پتا چل گیا تو؟”
چند ثانیے سکوت رہا جیسے ان کے لئے گویائی سے زیادہ خاموشی مؤثر ہو، پھر سوچ میں ڈوبی ٹھہری ٹھہری سی ایک اور آواز آئی، ” میں چائے بنا کے لاتی ہوں۔ “
“کیا کہہ رہی ہو صالحہ؟ بابا کو پتا چل گیا تو دالان میں بنی بھٹی سلگا کے ہم تینوں کو اس میں جھونک دیں گے۔ “احتجاجی لہجہ گونجا۔
“واہ بڑی آپا، انھیں کیسے پتا چلے گا۔ ” وہی شوخ آواز آئی، “ابھی میں گا رہی تھی، کیا انھیں پتا چلا؟؟ اور میں تو روز گاتی ہوں۔ “پھلجھڑیوں جیسے لہجے میں بولتی وہ ٹھاٹھر کے قریب آ گئی۔
کچھ دیر بعد شہریار کو تازہ چائے کی مہک محسوس ہوئی۔ کسی نے سرگوشی میں پوچھا “پیالی باہر کیسے دوں؟”
دوسری بولی، “ٹھاٹھر کا دروازہ نہ کھولنا، بابا کو پتا چل جائے گا۔ اس کے درز سے دے دو۔ “چائے کی پیالی لرزتی کانپتی ٹھاٹھر کے چوکور سوراخ سے نمودار ہوئی۔ شہریار نے بڑھ کر اسے پکڑا، دینے والا ہاتھ تیزی سے پیچھے ہو گیا۔
“شکریہ۔ “وہ بولا اور وہیں کھڑے ہو کے چائے پینے لگا۔
“قریبی رشتہ داری کے باوجود ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ ” شہریار نے بہت سوچ کے کہا۔ شوخ آواز والی لڑکی نے ادھ کھلے پردے کو تھوڑا اور کھسکایا اور بولی، ” تو اس میں ایسی کیا مشکل ہے، اب جان لو۔ “
“ہش۔۔۔۔ چپ کر۔ بابا نے سن لیا تو۔۔۔۔؟” پیچھے سے کسی نے تنبیہ کی۔
“جی میرا نام عفیفہ ہے۔ ” وہ بدستور وہیں کھڑی رہی۔ “ہم تین بہنیں ہیں۔ میں سب سے چھوٹی ہوں۔ بڑی صابرہ آپا اور منجھلی صالحہ آپا ہیں۔ “
شہریار خاموشی سے چائے پیتا رہا۔
“کچھ اپنے بارے میں بتائیں۔۔۔۔ “عفیفہ نے پوچھا۔
“میں۔۔۔۔؟” اس نے نیم اندھیرے میں اندر جھانکنے کی نیت کی۔
” میں شہریار ہوں، آپ کے رشتے کے چچا کا بیٹا۔ علمِ کیمیا کا طالب علم ہوں، اس مضمون میں تحقیق کر رہا ہوں۔ کچھ تحقیقی کام باقی ہے جسے آپ کے شہر میں مکمل کرنے آیا ہوں۔ “
“کیا پڑھنے کیا کرنے آئے ہیں؟” عفیفہ بولی۔
” اب چپ بھی کر جا چھوٹی، باتوں کی آواز بابا تک پہنچ سکتی ہے۔ “غالباً یہ صابرہ کی آواز تھی، شہریار نے چائے کی خالی پیالی احتیاط سے اندر بڑھائی اور بولا، ” زندگی کو زندگی کی طرح گزاریے۔ کبھی کبھی حالات اتنے برے نہیں ہوتے جتنے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ گھپ اندھیرے میں بھی روشنی کی کوئی نہ کوئی کرن ہوتی ہے جیسے اس چوبیں ٹھاٹر کی یہ چوڑی درزیں۔۔۔ جن میں سے آپ لوگوں نے مجھے چائے دی۔۔۔۔ “
پھر مڑتے ہوئے اس نے الوداعی انداز میں ہاتھ ہلایا اور کہا، ” اچھا، عفیفہ بی بی! اپنی پڑھائی کے بارے میں پھر کبھی بتاؤں گا۔۔۔۔ اور ہاں چائے بنانے والی اپنی آپا سے پوچھنا کہ اتنی عمدہ چائے کیا کبھی کبھی مل سکتی ہے۔۔۔۔۔؟”
٭٭٭
مولوی عبدالرشید مسجد کے پیش امام مولوی فخر الدین سے بعد مدت ملاقات کے لئے گئے تھے۔ شہریار حسبِ معمول صبح کا نکلا ہوا تھا۔ عفیفہ نے برآمدے کی کھونٹی سے ٹنگے پنجرے میں بند رنگ برنگی چڑیوں کو دانہ ڈالا اور چارپائی پر گم صم صالحہ کے پاس آ کے بیٹھ گئی۔
“چھوٹی آپا! ” وہ سوچتے ہوئے بولی، “رات کو۔۔۔ وہ کیا کہہ رہا تھا؟”
“کیا؟”
“یہی کہ زندگی کو زندگی کی طرح گزارو۔۔۔۔ تو کیا ہم اور طرح گزارتے ہیں؟”
“دیکھ عفیفہ! تو زیادہ نہ بولا کر، نہ ہی سوچا کر، رات کو کس طرح پَٹر پَٹر بول رہی تھی۔ “صابرہ نے ڈانٹا۔
“بڑی آپا! میں تمہاری طرح سہم سہم کے نہیں جینا چاہتی۔ میں ہنسنا چاہتی ہوں خوش رہنا چاہتی ہوں اور۔۔۔ اور۔۔۔ ” وہ صالحہ کے قریب کھسک آئی پھر سرگوشی میں بولی، ” چھوٹی آپا! تم سائلوں کے لیے تعویذ بناتی ہو، یہ حُب کیا ہے؟”
صالحہ نے نگاہ بھر کے اسے دیکھا پھر چوبیں ٹھاٹر کے پار اس آسمان کو تکنا چاہا جو ہر شب اسے تاروں کی رہ گزر سے خوابوں کے محل سرا میں لے جاتا تھا۔
“بولو نا چھوٹی آپا! تم تو تعویذ گنڈے بنانے کے لیے کتابیں بھی پڑھتی ہو۔ ” وہ پھر بولی۔
“ان کتابوں میں ایسی باتوں کا جواب نہیں ہوتا، لیکن ایک بہت اچھی سی کتاب میں، میں نے پڑھا تھا کہ حُب یعنی محبت حب سے ماخوذ ہے اور حَب کے معنی گڑھا، جس میں پانی بہت ہو، پانی نظر کی راہ میں حائل ہو اور آنکھ اس میں نہ دیکھ سکتی ہو، اسی طرح جب محبت دل میں جا گزیں ہو کے دل کو لبریز کر دیتی ہے تو اس میں بجز محبوب کسی شے کے لیے جگہ نہیں رہتی۔ “
“چھوٹی آپا! کتنی پیاری بات پڑھی تم نے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب محبت ہو جائے تو دل میں خوف کی بھی جگہ نہیں رہتی، مولوی عبدالرشید کے خوف کی بھی نہیں۔ “عفیفہ بولی۔
“عفیفہ! ” صابرہ اتنے زور سے چلّائی کہ اسے خود اپنی آواز پر یقین نہ آیا۔ صالحہ بھی جیسے نیم خوابیدگی سے چونک اٹھی۔ دونوں بہنوں نے ایک دوسرے کو حیرت اور سراسیمگی سے دیکھا۔
اس رات حسبِ معمول مولوی عبدالرشید کے حجرے سے ان کے فلک شگاف خرّاٹوں کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ وہ اپنے فرشی بستر پر کروٹیں بدل رہے تھے اور مولوی فخر الدین کی باتوں کو ذہن میں دُہرا دُہرا کے پانی میں گھلی مٹی کی طرح اندر ہی اندر بیٹھے جا رہے تھے، مولوی فخر الدین جو مولوی عبدالرشید سے دوچار سال بڑے تھے، چیچک رُو اور پھینے ناک نقشے کے فربہ اندام، کہنہ سال، لیکن بات کرتے تو معلوم ہوتا کہ ان کی نگاہ جہاں جہاں تک پہنچتی ہے وہاں وہاں تک ان کی حرم سرائے کی وسعت ہے۔ تین شادیاں کرنے کے بعد تینوں بیویوں کو ملکِ عدم بھیج چکے تھے۔ اب فارغ البال ہو کے چوتھی شادی کو شرعی حکم کہہ کے خود پہ لازم کیے بیٹھے تھے۔ انھیں مولوی عبدالرشید سے ہمدردی تھی کہ انھوں نے دوسری شادی تک نہ کی۔ مولوی عبدالرشید انھیں کیسے بتاتے کہ وہ پہلی بیوی کی موت کے سال ہا سال بعد بھی اُس یاد سے آزاد نہ ہو پائے تھے جو شک، نفرت اور احساسِ کمتری کے تانے بانے سے بُنی ہوئی تھی۔ البتہ مولوی فخر الدین نے یہ کہہ کر اس احساس کو مہمیز دی تھی کہ تین جوان بیٹیوں کو گھر میں بٹھائے رکھنا اور ایک نوجوان نامحرم کا اسی گھر میں موجود ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ وہ کسی سنجیدہ، پختہ عمر مرد کو دیکھ کر کم از کم پہلوٹھی کی بیٹی کو رخصت کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے رشتے کے لیے انھیں بلا اکراہ و اجبار سوچنے کا مشورہ دیا۔
اُن تینوں کو یہ ادراک نہ تھا کہ کچھ ہے جو معمول سے ہٹ کر ہے لیکن معمول بنتا جا رہا ہے۔ رات جب گہری اور راز دار ہونے لگتی تب وہ اپنے اپنے خوف کی چادر احتیاط سے سرکا دیتیں۔ شہریار چوبارے سے اتر کے قدیم داستان گو کی طرح لب و لہجے کا طلسم پھونکتا اور وہ تینوں بہنیں چوبی ٹھاٹر میں اپنی اپنی انگلیاں پھنسائے، اس کی باتوں کے جگنو پکڑنے کی کوشش کرتیں۔ اس کے لفظ تھے یا انوکھے جہانوں کے مقفل دروازوں کی کنجیاں۔ وہ جو کچھ کہتا وہ اسے پوری طرح نہ سمجھ کے بھی سمجھنے کا تیقن رکھتیں۔ اور صبح اٹھ کے بہانے بہانے سے ان باتوں کو دُہراتیں۔ شروع شروع میں ان سب کو لگتا تھا جیسے ساری دنیا الف لیلہ کی داستان ہے پھر آہستہ آہستہ وہ انھیں اُن باتوں کی طرف لانے لگا جن سے دنیا کے حسن کا غازہ اترتا دکھائی دیتا تھا۔
وہ چودھویں کی رات تھی۔ پورا دالان چاندنی میں نہایا ہوا اور رات کی رانی سے مہکا ہوا تھا یوں جیسے اس چھوٹے سے دالان میں قدرت نے بیش بہا انعام رکھ دیے ہوں۔ شہریار نے ٹھاٹر کو انگلیوں سے بجایا۔
“کیا مولوی عبدالرشید کے تینوں اہرام اپنے اپنے صحراؤں میں موجود ہیں؟”
عفیفہ نے پردہ کھسکایا اور بولی، “آپ ہمیں اہرام کیوں کہتے ہیں؟”
“تم لوگ اہراموں کی طرح ساکت و صامِت جو رہتی ہو۔۔۔۔ ویسے بھی دنیا کے عجائبات میں شامل اہرام اب صرف تین رہ گئے ہیں اور تین بھی کیا رہ گئے ہیں، مولوی عبدالرشید کے بنائے ہوئے پنجرے میں منتقل ہو گئے ہیں۔ “ایسا کہتے کہتے وہ شوخی سے ہنس دیا پھر ٹھاٹر کے اندر جھانکتے ہوئے بولا،
“آج مولوی صاحب کسی سائل سے موٹی سی رقم پکڑ کے اس کے لئے چلّہ کاٹنے قبرستان گئے ہوئے ہیں، رات مُردوں کے ساتھ ہی بسر کریں گے تو ایسے میں کیوں نہ اِس چاندنی کا لطف لیا جائے۔ “
ٹھاٹر کے قریب آتی صابرہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ عفیفہ نے ملتجی نگاہوں سے بہنوں کو دیکھا۔ صالحہ کی گہری سوچتی آنکھوں میں لمحے بھر کو تاروں کی کرنیں اتریں پھر وہ مڑی اور دیوار کی کگر پر رکھی تالے کی کنجی لے آئی۔
“یہ کیا کر رہی ہو؟” صابرہ نے احتجاجی سرگوشی کی۔
“کوئی حرج نہیں! ” وہ آہستگی سے بولی۔
“یہ ہوئی نا بات! ” شہریار نے دروازہ کھلتے ہی نعرہ لگایا۔
صالحہ نے لرزتے پاؤں دالان کی منڈیر پر رکھے۔ اس کے پیچھے دونوں بہنیں بھی جھجکتے ہوئے آ گئیں۔ وہ مبہوت ہو کے انھیں دیکھنے لگا۔
“میں نے چچی بتول کے بارے میں سنا تھا کہ وہ بہت حسین اور ذہین تھیں، بس مقدر کی لاٹھی ان پر الٹی پڑ گئی۔ تم تینوں اپنی ماں کی طرح خود کو حالات کے حوالے نہ کرنا۔ “
“پھر کیا کریں؟” عفیفہ نے حسبِ عادت سوال کیا۔
“حالات سے جنگ۔ ” وہ بولا۔
“مات ہو گئی تو؟” صالحہ نے پوچھا۔
“تو۔۔۔! “وہ ایک پاؤں پر گھوما، “کم از کم تمھیں یہ ملال تو نہیں ہو گا کہ تم نے ڈوبتے وقت ہاتھ پاؤں بھی نہیں مارے۔۔۔ “
پھر وہ کچنار کے درخت کی گہری بھوری چکنی چھال سے پشت ٹکائے کھڑا ہو گیا۔ قریب ہی مٹی کا ٹوٹا پھوٹا چولھا اور مخدوش ہوتا تندور تھے۔
“یہ کیا ہے؟” اس نے پوچھا۔
“جب جلانے کا تیل ختم ہو جاتا ہے تب بڑی آپا اس چولھے کو مٹی سے لیپ کر کوئلوں پر کھانا پکاتی ہیں۔ “عفیفہ نے بتایا۔
“واہ، کوئلوں پر پکے کھانے کا سواد ہی اور ہوتا ہے، شاید اس لیے کہ کوئلے ہیروں کی محروم شکل ہوتے ہیں۔۔۔۔ وہ سوچ میں ڈوبی آواز میں بولا۔
“کیا مطلب؟” صالحہ نے دھیمے سے پوچھا۔
” مطلب یہ کہ کوئلوں پر کھانا پکاتے ہوئے کبھی تم میں سے کسی کو خیال آیا کہ اگر کوئلہ، کوئلہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟”
” ظاہر ہے کوئلہ، کوئلہ ہی ہوتا۔ “صالحہ نے ہمت کر کے جواب دیا۔
وہ ہنسا، ” بات یہی سمجھنے والی ہے صالحہ بی بی، کوئلے اور ہیرے کے درمیان اگر کوئی فرق ہے تو بس ذرا سی آنچ کی کمی بیشی کا۔۔۔۔ یہی ذرا سی کسر ان کے مقدر بدل دیتی ہے۔ ” اس نے صالحہ کو بغور دیکھا۔ یکایک وہ خود سے الجھتی ہوئی دکھائی دی۔
“صالحہ بی بی! زیادہ نہ سوچو۔ اچھا سنو، میں سمجھاتا ہوں کہ ہیرا کاربن کی شکل ہے اور کاربن زمین کی گہرائیوں میں دباؤ اور حرارت کی وجہ سے ہیرے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اگر دباؤ اور آنچ میں تھوڑی سی کسر رہ جائے تو یہ محض کوئلہ رہ جاتا ہے اور جلانے کے کام آتا ہے۔ تم عورتوں کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ ” وہ ہنسا۔ اس کی ہنسی میں تمسخر اور خود پسندی کا اُبال تھا۔
پھر وہ بولا، “زیادہ تر عورتیں صرف کوئلہ رہ جاتی ہیں اور حالات کے الاؤ کا ایندھن بن جاتی ہیں، جب کہ کچھ عورتیں چاہتی ہیں کہ مرد ان کے لیے الیکٹران مائیکرو سکوپ بن جائیں اور بہت احتیاط سے انھیں دباؤ اور آنچ سے باہر نکالیں۔ “
علمیت کا زعم اور مردانہ برتری کا احساس اس پر غالب تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ان کی موجودگی سے غافل ہو گیا ہے۔ وہ آگے جھک کے ہلکا سا مڑا اور بولا، “مرد ایک خود غرض حکمران ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تھوڑی سی بے احتیاطی ہیرے کی شکل تبدیل کر سکتی ہے۔ ” پھر جیسے ایک سایہ سا اس کے چہرے پر آیا، “مرد در اصل عورت سے خوفزدہ رہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زمین کی گہرائی میں دبے ہیرے کبھی کبھی آتش فشاں سے سطحِ زمین پر آ جاتے ہیں۔ ” بولتے بولتے یک دم ٹھٹھک کے وہ رکا اور اس نے خود سے مہجور ایک دوسرے سے جڑ کے کھڑی ان تین لڑکیوں کو دیکھا پھر اپنے آپ کو ان سے ارفع محسوس کرتے ہوئے ہم دردانہ لہجے میں بولا، ” تم تینوں کبھی کسی الیکٹران مائیکروسکوپ کا انتظار نہ کرنا۔ ہو سکے تو اپنی عقل کو اپنا مرشد بنا لینا۔ اس کے بِنا دنیا نرک ہے۔ “
“لیکن ہم اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ “صالحہ نے کہا۔
وہ ہنسا، “میں تو ایک کیمیا داں ہوں، تمہیں صرف فارمولے بتا سکتا ہوں۔۔۔۔ مضبوط تو تمہیں خود بننا ہو گا صالحہ بی بی۔ مولوی عبدالرشید کے پنجرے میں تا حیات رہو گی تو گھٹ کے مر جاؤ گی، اور جو باہر نکلو گی تو ہر قدم پر چپٹے سر اور خم دار دانتوں والے سؤر، لمبے کانوں والے چرخ اور لگڑ بگھے ملیں گے جو شکار کو بھگا بھگا کر ادھ موا کر دیتے ہیں اور پھر زندہ شکار کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ “
صالحہ نے سنہری چاندنی میں سیاہی کی آمیزش کو محسوس کیا اور اس میں کھڑے اس ہیولے کو دیکھاجس کی باتوں کو وہ اپنی بہنوں سمیت اتنی راتوں سے سن رہی تھی اور ان میں روشنی ڈھونڈ رہی تھی لیکن اُس لمحے اسے دیکھ کے ذہن میں کوندا سا لپکا۔ اس نے سوچا چیتے جیسی تابع داری اور وحشت کا امتزاج لیے یہ شخص آخر سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ کون ہے؟ کیا ہے؟ ہمیں کس سمت ہنکالنا چاہتا ہے؟کیا یہ سب اس کے لیے محض شغل ہے؟
“اچھا، تو پھر صحیح راستہ کیا ہے؟ ” صابرہ جو اس کی باتوں میں سر تا پا ڈوبی ہوئی تھی، سہمے سہمے لہجے میں پوچھ بیٹھی۔ شہریار کو توقع نہ تھی کہ صابرہ بھی کوئی سوال کر سکتی ہے۔ اس نے ٹھٹھک کے اسے دیکھا پھر بولا۔
“صابرہ بی بی! تم اس گھٹی ہوئی چہار دیواری کے اندر کیوں کر صحیح یا غلط کا تعین کر پاؤ گی۔ یہ انتہا پسندوں کا معاشرہ ہے، یہاں ایک طرف مولوی عبدالرشید جیسے لوگ ہیں جو صرف نیم پڑھے لکھوں میں نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد میں بھی پائے جاتے ہیں یہ لوگ عورت کو فقط محکوم و مظلوم رعیت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف عورت کی آزادی کے نام پر خون پیتی وہ امر بیلیں ہیں جن میں آہ و گریہ کرنے والی عورتیں پھنس کے فقط مظلومیت کا اشتہار بن جاتی ہیں۔ اپنی زمین اپنا آسمان خود چھیننا پڑتا ہے صابرہ بی بی! “
٭٭٭
مولوی عبد الرشید کے حجرے میں زنگی نوجوان سر نہوڑائے بیٹھا تھا۔ خیال کی کسی پُر قوت رَو، نے اسے اطراف سے بیگانہ کر دیا تھا۔ صبح حسبِ معمول اس نے گھر کا سودا سلف لا دیا تھا۔ حجرے کو سائلوں کے لیے آراستہ کر دیا تھا لیکن کوئی کمی تھی جو کلیجے کو بھینچے جا رہی تھی۔ شہریار حجرے میں داخل ہوا تب بھی زنگی نوجوان اپنے استغراق سے باہر نہیں آیا۔ اچانک شہریار کو حجرے کا درمیانی پردہ ہلتا دکھائی دیا۔ وہ بیرونی دروازے پر ٹھٹھک گیا۔ زنگی نوجوان برق رفتاری سے اٹھ کے پردے کے قریب آیا۔ دونوں طرف سرگوشیوں کا تبادلہ ہوا۔ شہریار کا تجسس دیدنی تھا۔ وہ کون تھی؟ یک دم اسے عقب میں آہٹ سنائی دی۔ مولوی عبد الرشید تنگ گلی میں اپنی کھَڑَاؤں کی کھڑ کھڑاہٹ سمیت حجرے کے دروازے کی طرف بڑھے آ رہے تھے۔ شہریار نے خلافِ معمول لہک کے انہیں سلام پیش کیا۔ اس کا تیر نشانے پر لگا۔ زنگی نوجوان بوکھلا کر پردے کے پاس سے تیزی سے ہٹا۔
رات چوبارے کی سیڑھیاں اترتے ہوئے شہریار کو سسکیاں سنائی دیں۔ وہ ششدر سا چوبیں ٹھاٹر کے قریب آیا۔ پردہ حسبِ معمول اَدھ کھلا نہیں تھا۔ شہریار دم سادھے کھڑا رہا،ادھورے ٹوٹے بے ربط جملوں کے درمیان آہ و بکا تھی۔ شاید یہ صابرہ کی آواز تھی۔
“میں کچھ کر بیٹھوں گی۔ ” اس نے کچھ ایسا ہی کہا۔
شہریار چوبارے میں واپس آ گیا۔ چو طرفی ہوا سے لکڑی کی ٹوٹی ادھ جڑی کھڑکیاں بج رہی تھیں۔ اس نے سوچا کیا ایسا ہوتا ہے کہ واقعات بعد میں رونما ہوں لیکن ان کے اثرات پہلے سے مرتب ہو جائیں، جیسے۔۔۔ جیسے اس گھر کی فضا، جو نامحسوس طریقے سے بدل رہی ہے۔
تین راتیں گزر گئیں کوئی اَن جانا احساس تھا جو پاؤں کی زنجیر بن گیا۔ وہ کئی بار چوبارے سے اترا پھر پلٹا۔ وہ چوتھی رات تھی۔ شہریار نے کتاب پڑھتے پڑھتے تکان سے آنکھیں موند لیں۔ کتاب اس کے سینے پر رکھی تھی اور ہاتھ پیشانی پر دھرا تھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے لکڑی کے دیمک زدہ نیم وا دروازے میں ہلکی سی چرچراہٹ ہوئی ہے۔ نیم خوابیدگی میں اسے ایک سایہ سا نظر آیا وہ اٹھ بیٹھا۔
“کون؟” اس نے آنکھیں مَلتے ہوئے پوچھا۔
“میں۔۔۔ ” سہمی سی سرگوشی ہوئی۔
“صالحہ؟” وہ تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا، “تم یہاں؟”
“بہت مجبور ہو کے آئی ہوں، اتنے حیران نہ ہو کہ شرمندگی سے میں کچھ کہہ نہ سکوں۔ ” وہ بولی۔
” کہو۔۔۔۔ اچھا اطمینان سے بیٹھ کر کہو۔ ” شہریار نے خالی بستر پر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ نہیں بیٹھی، البتہ اس نے اپنی پشت موڑ لی پھر بہت دیر بعد ٹھہر ٹھہر کے بولی، “بابا نے صابرہ کی شادی۔۔۔۔ مسجد کے پیش امام سے طے کر دی ہے پرسوں نکاح ہے۔ “
” یہ تو اچھی خبر ہے۔ ” وہ بولا۔
“وہ۔۔۔۔ عمر میں بابا سے بھی بڑا ہے۔ اس کا اخلاق کردار کچھ بھی ایسا نہیں کہ اسے برداشت کیا جا سکے۔ مشہور ہے کہ اس نے اپنی پہلی تین بیویوں کو اذیت دے دے کر مار دیا تھا۔ “
“اوہ۔۔۔۔ چچا کو یہ سب معلوم ہے؟”
“ظاہر ہے۔ “
“اچھا تم فکر نہ کرو، میں چچا کو سمجھاؤں گا۔ “
” وہ نہیں مانیں گے۔ لیکن اگر۔۔۔ تم۔۔۔۔ “
“ہاں، کہو۔ ” وہ دو قدم آگے آیا۔
“تم ہمیں اتنی اچھی باتیں بتاتے ہو، ہمت دیتے ہو، کیا تم۔۔۔ میرا مطلب ہے تم۔۔۔۔ صابرہ کو سہارا دے سکتے ہو؟”
شہریار اچھل کے پیچھے ہٹا جیسے کسی بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔
“میں۔۔۔۔؟؟” وہ کھسیانی سی ہنسی ہنسا۔ “یہ بہت بڑا فیصلہ ہے۔۔۔ پتا نہیں میرے والدین مجھے یہ اختیار دیں کہ نہ دیں۔۔۔۔ “
“اور اگر تمہیں اختیار حاصل ہو تو؟”
“تو میں تمہیں منتخب کروں گا۔ “شہریار اپنے کہے پر خود حیران سا ہوا۔
وہ اس کی طرف پلٹی اور بولی، ” یہی سمجھ لو کہ تم نے مجھے منتخب کیا۔۔۔۔ میری بہن کو بچا لو یہ تمہارا احسان ہو گا۔ “وہ دبے قدموں آئی تھی لیکن واپسی پر اس نے گونجتی آہٹوں کا خیال نہ کیا۔
اُس گھر کے دالان میں ایسا کُسوف تھا کہ ہر شے اندھیرے میں ڈوب گئی تھی۔ صابرہ کی رخصتی نے گھر بھر میں اک ہول سا بھر دیا تھا یوں لگتا تھا جیسے ابھی کسی جواں مرگ کا لاشہ اٹھا ہے۔
اُن دنوں شہریار اپنی پڑھائی میں بہت مصروف نظر آتا تھا۔ چوبارے سے کم ہی اترتا۔ عفیفہ پنجرے میں بند رنگین چڑیوں کو کئی کئی گھنٹے تکتی رہتی اور صالحہ کچے سوت لے کر ان میں گرہیں لگاتی پھونکتی جاتی۔ سائلوں کے لئے گنڈے تیار کرتی ہوئی سوچتی کہ وہ ایسا کوئی تعویذ گنڈا صابرہ کے لیے کیوں نہ بنا سکی جو اسے نرک میں جانے سے روک لیتا۔
٭٭٭
بعد کئی راتوں کے وہ رات آئی جب شہریار چوبی ٹھاٹر کے پاس آ کے کھڑا ہوا۔ برآمدے میں بچھے تین بستروں میں ایک خالی تھا۔ دوسرے پر عفیفہ دُبکی پڑی تھی۔ صالحہ ٹھاٹر سے جڑی کھڑی تھی اور محویت سے ستاروں کو تک رہی تھی۔
“میں۔۔۔ جا رہا ہوں۔۔۔۔ صالحہ! ” اس نے دھیرج سے کہا۔
صالحہ لاتعلق سی کھڑی رہی۔
“میری پڑھائی تقریباً مکمل ہو گئی ہے۔ ” کچھ دیر بعد وہ بولا۔
خاموشی ایک بوجھل احساس کی طرح اس کے اندر اترنے لگی۔ بالآخر اسے احساس ہو گیا کہ در حقیقت اسے کیا کہنا چاہیے۔ وہ رک رک کے بولا،
” جو کچھ ہوا۔۔۔۔ نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ “
صالحہ کچھ دیر یوں ہی کھڑی رہی پھر تقریباً سرگوشی میں بولی، “تم چاہتے۔۔۔۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ “
” میں اسے نہیں بچا سکا، لیکن یہ کوشش کر سکتا ہوں کہ تم۔۔۔۔ اس دلدل سے باہر نکل سکو۔ شاید شاید۔۔۔۔ میں ایسا کر سکوں۔ ” پھر جیسے کسی خیال میں ڈوبا ڈوبا بولا، ” میں تمہیں خط لکھوں گا۔۔۔۔۔ “
صبح تڑکے جب فجری پُروا میں خنکی تھی، شہریار نے گھر سے نکلتے ہوئے مڑ کے الوداعی نگاہ ڈالی اور سوچا موہن جودڑو کے زمانے کی پتلی سی بند گلی میں بنا یہ کوٹھڑی نما گھر جس کی عمودی سیڑھی کے اوپر گھوڑوں کے اصطبل سے بدتر چوبارہ ہے جہاں میں نے اتنے دن جانے کس طرح گزارے، اس کی سیلن زدہ باس مجھے عمر بھر نہیں بھولے گی، پلستر اکھڑی دیواروں پر پڑی جھوجھا چقیں میری یادوں سے ٹکراتی رہیں گی۔ مولوی عبدالرشید کی خشمگیں نگاہیں اور ان تینوں سہمی لڑکیوں کی بے بسی زندگی کا اعتبار چھینتی رہے گی۔ پھر اس نے سر کو یوں جھٹکا جیسے کوئی اَن دیکھا لدا بوجھ اس گلی میں پھینک رہا ہو اور عجلت سے کھلی سڑک کی طرف مڑ گیا۔
مولوی عبدالرشید نے زندگی میں اتنی سبکی کبھی محسوس نہ کی تھی۔ وہ صالحہ اور عفیفہ کی التجا پر پیش امام فخر الدین کے ہاں جاتے لیکن صابرہ سے ملے بنا آنا پڑتا۔ پیش امام انہیں خوب صورتی سے ٹال دیتا۔ نہ انہیں صابرہ سے ملنے دیتا نہ ہی صابرہ کو میکے آنے دیتا۔ کئی مہینے گزر گئے تھے کوئی خیر خبر ہی نہ ملتی تھی۔ مولوی عبدالرشید نے بیٹیوں سے ہمیشہ فاصلہ رکھا تھا اس لیے نہ اپنا دکھ ان سے کہہ سکتے تھے نہ ان کا دکھ سننا چاہتے تھے۔ عفیفہ دن رات منہ لپیٹے بستر پر پڑی رہتی۔ ایک دن چوبی ٹھاٹر کو بغور دیکھتے دیکھتے اسے یاد آیا، شہریار نے کہا تھا، گھپ اندھیرے میں بھی روشنی کی کوئی نہ کوئی کرن ہوتی ہے۔ وہ تیزی سے پلٹی اور حجرے کی طرف لپکی۔ صالحہ نے دیکھا اس کے چہرے پر چمک تھی۔ جب وہ واپس آئی تو بولی، “زنگی کو میں نے بڑی آپا کی خیریت پوچھنے کے لیے بھیج دیا ہے۔ “
صالحہ حیرت سے اسے تکنے لگی۔ “چھوٹی! ایک طرف بابا کا غصّہ دوسری طرف پیش امام کے پہرے۔۔۔۔ تیری یہ حرکت صابرہ کو یا تجھے مہنگی نہ پڑے۔ “
شام گئے زنگی نے مولوی عبدالرشید سے چھپ کے یہ اطلاع دی کہ صابرہ کئی روز سے بسترِ علالت پر بے حال پڑی ہے۔ پیش امام اس پر شک کرتا ہے، مارتا پیٹتا ہے اور کسی سے ملنے جلنے نہیں دیتا۔ آخر میں اس نے اٹک اٹک کے یہ بھی بتا دیا کہ پیش امام نے اسے گھر کے اندر دیکھ لیا تھا وہ بمشکل وہاں سے بھاگا ہے۔
دونوں بہنیں رات بھر منہ چھپائے سسکتی رہیں۔ اگلی صبح دن چڑھے صالحہ نے زنگی کے جانے کا ذکر کیے بنا مولوی عبدالرشید کو آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ چند دنوں کے لیے صابرہ کو گھر لے آئیں لیکن پیش امام کا سرد اور بے مہر رویہ ان کے ارادے کو پسپا کرتا رہا۔
یہ کوئی تیسرے دن کی بات تھی، مولوی عبدالرشید سائلوں میں گھرے بیٹھے تھے کہ پیش امام کا شاگرد حواس باختہ سا آیا اور ان کے کان میں کچھ کہہ گیا۔ ایک لمحے کو ان کے بدن میں تھرتھراہٹ ہوئی پھر بمشکل وہ اٹھے اور گرتے پڑتے پیش امام کے گھر پہنچے۔ دروازے پر جمع لوگوں نے انہیں تھامنا چاہا لیکن وہ اپنی آنکھوں سے یقین کر لینا چاہتے تھے پیش امام انہیں دیکھتے ہی بڑھا اور ان کے ہاتھ تھام کے زنان خانے میں لے گیا جہاں ایک کھرّی کھاٹ پر سفید چادر اوڑھے صابرہ لیٹی تھی۔
پیش امام نے اپنی دو پلی ٹوپی ہاتھ سے جمائی اور شانے پر پڑے خانے دار صافے سے آنکھیں رگڑتے ہوئے مسکینی سے کہا، “مولوی صاحب، میری گر ھستی اُجڑ گئی۔۔۔۔ اُس نے جانے میں بہت جلدی کی۔ “
مولوی عبدالرشید اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور دھم سے فرش پر بیٹھ گئے۔
“لوگ کہتے ہیں کہ میں نے اسے مارا۔۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے مولوی عبدالرشید؟”
پیش امام معصومیت اور شرافت کا مرقع بنتے ہوئے بولے، “میں تو مسجد کا پیش امام ہوں، لوگوں کو نیکی کی راہ دکھاتا ہوں۔۔۔۔ اپنے ہاتھ کسی کے خون میں کیسے رنگ سکتا ہوں۔ میں نے تو بس غصّے میں ہلکا سا دھکا دیا تھا۔۔۔۔ اس کا سر کسی نوکیلی شے سے ٹکرایا اور پھٹ گیا۔ چند لمحے بھی نہ لگے اسے۔۔۔ جانے کیا سوچتی رہتی تھی۔ چپ چپ رہتی تھی۔ کبھی کبھی تو مجھے محسوس ہوتا تھا جیسے میں نے کسی مری ہوئی عورت سے شادی کر لی ہے۔ جس کی ٹھہر ٹھہر کے چلتی سانس بھی بس دکھاوے کے لیے ہے۔ ” پھر اپنی آنکھوں کو رگڑ کے وہ ان کے قریب کھسک آئے اور سرگوشی میں بولے،
” کہیں آپ نے تو ظلم نہیں کر ڈالا۔۔۔۔؟ اس کی مرضی کے خلاف تو شادی نہیں کر دی تھی؟کسی اور کے ساتھ اس کا کوئی معاملہ تو نہیں تھا؟ میرا مطلب ہے، وہ پہلے دن سے ناخوش تھی۔ “
پیش امام کا ایک ایک لفظ مولوی عبدالرشید کے اندر دھمال ڈالنے لگا۔ اس دھمال کی زد میں جانے کیسے انہیں اپنی مرحومہ بیوی کی سوچوں میں ڈوبی آنکھیں سامنے آتی محسوس ہوئیں، ذہن کے کسی خفتہ کونے سے کسی نامعلوم احساس کی ٹھنڈی لہر ان کی ریڑھ کی ہڈی میں سرایت کر گئی اور ان کا پورا بدن یوں کپکپانے لگا جیسے قربِ مرگ کے لمحے انہیں چھو کے گزرے ہوں۔
٭٭٭
رات گہری ہو گئی تھی۔ صالحہ بستر پر آنکھیں موندے پڑی تھی۔ مغرب سے پہلے صابرہ کے چہلم کی نیاز فاتحہ دلا دی گئی تھی۔ صالحہ کو یہ سانحہ ایک بھیانک خواب کی طرح لگ رہا تھا لیکن اس کی تمام تر حسّیات عفیفہ پر مجتمع تھیں۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ شام سے پہلے عفیفہ نے اپنے کپڑوں کی ایک گٹھڑی تیار کر لی ہے۔ اس نے اسے سائلوں والی صندوقچی سے پیسے نکالتے ہوئے بھی دیکھ لیا تھا۔ جب عفیفہ اس کی پائینتی پر آ کے بیٹھی تب بھی صالحہ سوتی بنی رہی۔
عفیفہ نے اپنے سرد ہوتے ہوئے ہاتھ آہستگی سے اس کے پاؤں پر رکھ دیے اور بولی، “چھوٹی آپا، مجھے معاف کر دینا۔۔۔۔ میں بڑی آپا کی طرح کسی حیوان کے ہاتھوں ایسی تکلیف دہ موت مرنا نہیں چاہتی۔۔۔۔ میں تمہاری طرح تعویذِ حُب لکھ لکھ کے محبت کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتی۔۔۔۔ میں زندگی کو زندگی کی طرح بسر کرنا چاہتی ہوں۔ “
صالحہ کے آنسو تکیے میں جذب ہونے لگے۔ حجرے میں مولوی عبدالرشید کے خرّاٹے گونج رہے تھے۔ صالحہ نے سر کو ہلکا سا اٹھایا عفیفہ حجرے کے دروازے کی چٹخنی بہت آہستگی سے کھول چکی تھی۔ صالحہ دبے پاؤں اٹھی، اس نے جھانکا۔ دروازہ کھلتے ہی گلی کے کھمبے میں لگے بلب کی زرد روشنی میں اسے زنگی کی کشادہ پیشانی پر گھنگرالے بال لہراتے ہوئے نظر آئے پھر اس نے دیکھا زنگی نے تیزی سے عفیفہ کے ہاتھ سے کپڑوں کی گٹھڑی لی اور دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھاما اور وہ دونوں تیزی سے گلی میں غائب ہو گئے۔
٭٭٭
دس روز ہو گئے تھے مولوی عبدالرشید بخار کی بھٹی میں سلگ رہے تھے۔ نیم غنودگی میں وہ کچھ ناقابلِ فہم جملے بڑبڑاتے رہتے۔ عفیفہ رسوائی کا جو بگولا خاک اڑانے کو چھوڑ گئی تھی اس سے محفوظ رہنے کے لیے انہوں نے مشہور کر دیا تھا کہ اسے کسی رشتہ دار کے گھر بھیج دیا ہے۔ اس لیے کہ وہ صابرہ کی موت پر بہت دل گرفتہ تھی لیکن زنگی۔۔۔۔؟ وہ بھی ایسی صورتِ حال میں ایک سوال تھا۔ اس کے لیے انہوں نے نجانے کیا، کچھ کہا، اب انہیں خود بھی یاد نہیں تھا۔ صالحہ کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ خود سے غافل ہوتے جار ہے ہیں۔ چند پرانے سائل ان کے لیے دوا دارو لا دیتے، ان کی خدمت گاری کر جاتے۔
وہ ایک شکر دوپہر تھی کہ ڈاکیے نے حجرے کے دروازے کے اندر خط سرکایا۔ مولوی عبدالرشید بے سدھ بستر پر پڑے تھے۔ صالحہ انہیں پانی دینے آئی تو خط دیکھ کے پہلے حیران ہوئی پھر فرطِ مسرت سے اس کے ہاتھ لرزنے لگے برآمدے کی طرف آ کے اس نے بے چینی اور تجسس سے لفافہ کھولا۔ شہریار نے لکھا تھا، “میں ملک سے باہر جا رہا ہوں۔۔۔۔ میں بہت آگے کا مسافر ہوں۔۔۔ پڑاؤ کو منزل نہیں بنا سکتا۔۔۔۔ “
وہ گم صم کھڑی رہی پھر اس نے چولہے کے لپکتے شعلوں میں خط رکھ دیا جو اس خاموشی سے جلا کہ راکھ بھی نظر نہ آئی لیکن اس نے خود کو سنگلاخ گہرائیوں میں دباؤ اور آنچ کی کمی بیشی کے تصادم میں مبتلا پایا۔
وہ رات ہر اذیت ناک لمحے کا حوالہ لے کر آئی تھی۔ صالحہ کو محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ دنیا کے آخری حصّے میں کھڑی ہے۔ وہ حصّہ ایک پیالے کی مانند ہے جس کی گہرائی میں وہ خود ہے، اطراف میں کتیّ، لگڑ بھگڑ، چپٹے سر اور خم دار دانتوں والے سور، افق تا افق پھیلی چمگادڑیں۔۔۔۔ اور گھر کے اندر حجرے کے فرشی بستر پر سسکتے مولوی عبدالرشید۔
مولوی عبدالرشید کی سانس کی ڈوری میں جانے کیسی گرہ پڑ گئی تھی جو کھل ہی نہ پا رہی تھی۔ ناچار صالحہ نے دروازے سے باہر جھانکا۔ بند گلی کے ایک طرف دیوار تھی دوسری طرف سناٹا۔ وہ پھر ان کے پاس آ کے بیٹھ گئی اور چمچے سے ان کے منہ میں پانی ڈالنے لگی۔ ان کی آنکھیں چڑھ رہی تھیں، حلق میں خرخراہٹ تھی، موت کا گھنگھرو بج رہا تھا لیکن ایسی جان کنی کی حالت میں بھی وہ صالحہ کو یک ٹک دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں سے مسلسل پانی بہہ رہا تھا جو نجانے کسی دکھ کا رکا ہوا سمندر تھا یا موت ان کے جسم کو نچوڑ رہی تھی۔ صالحہ تمام رات ان کے سرہانے بیٹھی رہی آخری پہر اس کی تھکن اور نیند سے بوجھل آنکھوں پر جیسے صابرہ نے ہاتھ رکھ دیا۔ اس نے چونک کے دیکھا۔ اسے ایک ہیولہ سا باہر کی طرف تحلیل ہوتا نظر آیا۔ وہ دوڑ کے برآمدے میں آئی۔ چوبی ٹھاٹر سے پرے دالان میں کوئی جیسے ابھی ابھی گزرا تھا۔
“صابرہ! دیکھو۔۔۔۔ میں کتنی اکیلی ہوں۔ “وہ ہذیانی انداز میں چلائی۔ اچانک اس کے ہونٹ اور نظریں ساکت ہو گئیں۔ دالان میں اسے ماں کے سفید براق دوپٹے کا پلّو لہراتا نظر آیا۔ تازہ گیلی کیاریوں سے خاموشی سے موتیے کی کلیاں چنتی ماں۔۔۔۔ لب بستہ، لسان آنکھوں والی پُر تمکنت سی ماں۔۔۔۔ پھر اس نے دیکھا وہ تینوں بہنیں دالان کے ایک سرسبز حصّے میں ایک منڈیر پر سر جوڑے بیٹھی ہیں اور اپنے اپنے خوابوں میں ایک دوسرے کو حصّہ دار بنا رہی ہیں۔ صابرہ خود کو پَری دیکھنا چاہتی ہے جو داستانوں کی سرزمین پر آزادانہ اڑ سکے۔ صالحہ نے اپنے آپ کو شہزادی بنا کے محل سرا کے حوضِ خاص کے پاس بٹھا دیا ہے اور عفیفہ ماں سے جھانسی کی رانی کی کہانی سننے کے بعد مچل رہی ہے کہ وہ جھانسی کی رانی ہی بنے گی۔ بغاوت اس کی سرشت میں جانے کہاں سے آئی تھی۔ یہ جھانسی کی رانی کی کہانی تھی یا شہریار کے طلسم جیسے لفظ کہ عفیفہ اس عقوبت خانے کو پھلانگ گئی۔ اس کے جانے کے بعد مولوی عبدالرشید رات کے وقت بھی گھر کا دروازہ بند کرنا بھول جاتے تھے۔ لیکن اُس رات کے آخر آخر وہ پہرہ داری سے قطعاً بے نیاز ہوئے۔
صبح ہوتے ہی سائلوں کا ہجوم گھر کے دروازے پر تھا۔ صالحہ کو پتا ہی نہ چلا کہ مولوی عبدالرشید کے سفرِ آخرت کو کس طرح اُن کے عقیدت مندوں نے سہل کیا۔
٭٭٭
ایک اکیلا جھینگر دالان میں کہیں آس پاس تھا۔ اس کی آواز سناٹا توڑنے کو کافی تھی۔ ایسی یک سُو اور پختہ آواز، وہ محویت سے سننے لگی۔ مولوی عبدالرشید کے چالیسویں تک سائلوں کے گھر سے ایک یا دو وقت کا کھانا آ جاتا تھا۔ وہ رات سے بھوکی بیٹھی تھی۔ کئی بار بہانے بہانے سے اس نے راشن کے خالی ڈبوں کو الٹ پلٹ کے دیکھا تھا۔ جلانے کا تیل بھی ختم ہو گیا تھا۔ دالان میں کچنار کی بنفشی رنگ کلیاں اور ادھ کھلے پھول آندھی سے خاک پر گر گئے تھے وہیں صابرہ کے ہاتھ کا بنایا ٹوٹا پھوٹا کچی مٹی کا چولھا تھا۔ صالحہ نے اس کے اندر جمع زرد پتے اور کوڑا کرکٹ نکالا۔ گیلی مٹی کا لیپ لگایا پھر شہتوت کی خستہ سوکھی لکڑیاں جمع کر کے چولھے میں سلگا دیں۔ پکانے کو کچھ نہ تھا لیکن چالیس دن بعد بھی چولھا ٹھنڈا پڑا رہے، یہ اسے اچھا نہ لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوکھی لکڑیوں سے سرخ آتشیں شعلے لپکنے لگے۔ کچھ دیر بعد اکّا دکّا چنگاریاں اڑاتے کوئلے رہ گئے۔ ان چنگاریوں کے بیچوں بیچ ماں کا چاندی کا آویزہ لہرایا۔ صابرہ کی رکی رکی سانسوں کی آواز آئی پھر یکا یک کوئی کوئلہ اپنی ہی حدّت میں تڑخا اور عفیفہ کے سُر گونجے:
رام کرے کہیں نیناں نہ الجھیں
وہ آزادی کی خواہش میں اپنے پاؤں میں جانے کتنے آبلے ڈال چکی ہو گی، کہاں کہاں بھٹک رہی ہو گی؟ صالحہ نے سوچا اور سلگتے کوئلے کو چمٹی سے پکڑ کے دیکھتے ہوئے بڑبڑائی، “شہریار! تم میں اور مولوی عبدالرشید میں بس یہی فرق تھا کہ مولوی عبدالرشید جیسے لوگ عورت کو بیڑیاں ڈال کے رکھتے ہیں کہ ان کے پاؤں بھاگنے کے تو کیا چلنے کے بھی قابل نہ رہیں اور تم جیسے مرد۔۔۔۔۔ لمبے کانوں والے چرخ اور لگڑ بھگڑ کی طرح اپنے شکار کو بھگا بھگا کے ادھ موا کر دیتے ہیں “۔
پھر وہ اٹھی۔۔۔۔ اس نے گھر بھر کا بے مقصد چکر لگایا۔ یکایک اسے عفیفہ کی رنگین چڑیوں کا خیال آیا۔ وہ تیزی سے ان کی طرف آئی اور پنجرہ کھول دیا۔ چڑیاں آزاد فضا کی مقناطیسی لہریں محسوس کر کے ٹھٹکیں پھر پھدک پھدک کے باہر کی طرف لپکیں اور ایک ایک کر کے اڑ گئیں۔ وہ انہیں اڑتا دیکھتی رہی۔ بہت مدت بعد سکون کی موج سی اندر اتری پھر وہ ٹھاٹر کی بیرونی سمت کھڑی ہو گئی اور تصور کرنے لگی کہ شہریار رات کو اسی جگہ آ کے کھڑا ہوتا تھا۔ اسے اس کا انداز یاد آیا، قدیم زمانے کے قصّہ گو ساحر جیسا۔۔۔۔ صالحہ نے سوچا کسی کسی کے لیے سب کچھ آسان ہوتا ہے، محبت کرنے نہ کرنے کا اختیار، مشکل باتوں کو سمجھنے سمجھانے اور پھر ان سے بے نیاز ہو جانے کا کھیل۔ دالان میں تیز ہوا کا جھونکا آیا اور زرد پتے گرنے لگے۔ وہ خود سے ماورا ہو کے شہریار سے ہم کلام ہوئی، “شہریار تم یہاں کیوں آئے؟ تم نے وہ تمام باتیں ہمیں کیوں بتائیں جو ہمارے لیے نہیں تھیں۔ وہ کچھ جو ہم تینوں بہنیں نہیں جانتی تھیں ادھورا ادھورا جان گئیں اور اس میں الجھ گئیں۔۔۔۔ ادھورا جاننے سے نہ جاننا بہتر تھا۔۔۔۔ نہ ہم ہم ہی رہیں نہ وہ بن سکیں جو تم نے بتایا۔۔۔۔ تمہارے دادا نے ہمارے بابا کو چند روپے ماہانہ کی جو خیرات کچھ برس دی تھی اس رقم کو تم نے کس ہنر مندی سے سود سمیت ہم سے وصول کیا ہے، تین زندگیاں الٹ پھیر میں ڈال دیں۔ تم کہتے تھے کہ تم کیمیا دان ہو۔۔۔۔۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہ تھا کہ کاربن کبھی کبھی کوئلہ بنتا ہے نہ ہیرا۔۔۔۔۔ “
دور سڑک سے آتی گاڑیوں، خوانچہ فروشوں، فقیروں کی ملی جلی آوازیں ایک غبار کی صورت پھیل رہی تھیں۔ یکایک اس کے گھر کے سناٹے میں کوئی پتھر پڑا۔ حجرے والے دروازے پر آہستہ آہستہ دستک ہو رہی تھی۔ وہ سہم سی گئی۔ دستک پھر ہوئی اور ہوتی چلی گئی۔ وہ تھمے تھمے قدموں سے حجرے میں آئی اور دروازے کی سیدھ میں بنی سلاخوں والی کھڑکی سے جڑ کے کھڑی ہو گئی۔
“بی بی! مجبور سائل آئے ہیں، کیا حکم ہے؟” باہر سے رکی رکی سی آواز آئی۔ وہ حیران سی ہوئی۔ دستک پھر ہوئی۔ اس نے کھڑکی کی درز سے جھانکا، گلی میں سائلوں کی قطار تھی۔ آس نراس میں جھولتے، خوابوں کی بھیک مانگتے سائل جو قرض لے کر بھی اسے نذرانہ دے سکتے تھے تا کہ وہ انہیں سنہری خواب بیچ سکے۔
“بی بی! ہم جانتے ہیں کہ تعویذ گنڈے آپ ہی بناتی تھیں۔۔۔۔۔ آپ کے ہاتھ میں اثر ہے “۔
“آپ فکر نہ کریں، مرد سائل ایک طرف ہو جائیں گے۔ درمیان میں پردہ ہو گا۔ آپ کا احترام ہم پرلازم ہے “۔
“بی بی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہتے چشمے کو بے فیض نہیں ہونا چاہیے “۔
سائلوں کی فریاد بھری پکاریں تھیں، اس نے سوچا۔۔۔۔ کیا میں بھی مولوی عبدالرشید کی طرح خوابوں کی منڈی سجا کے بیٹھ جاؤں؟ اپنے مسائل حل نہ کر سکنے کی نا طاقتی کے باوجود ان کے مسائل حل کرنے کی انہیں یقین دہانی کراؤں؟؟ تعویذ گنڈوں کی صورت ان کے خواب گروی رکھ کے اپنا چولھا جلاؤں یا اس پنجرے میں بھوک سے تڑپ تڑپ کے مر جاؤں یا پھر زندہ رہنے کی سعیِ میں باہر نکلوں جہاں چپٹے سر اور نوکیلے دانتوں والے سور اور ہُو کتے لگڑ بھگڑ ہوں۔
“بی بی۔۔۔ کیا حکم ہے؟سائل ٹھہریں یا۔۔۔۔۔۔ “
خاموشی۔۔۔۔ لمبی خاموشی۔۔۔۔۔ ازل سے ابد تک بندھی خاموشی کی ڈور، سوالوں کی گرہیں پڑی اس ڈور میں صالحہ الجھ گئی۔ ان گرہوں سے خود کو آزاد کرتے کرتے کوئی ایسا لمحہ آیا کہ سوچنے الجھنے کا عمل تھم گیا اس کی ساکت و صَامت اور نقاہت سے بے دم انگلیوں میں حرکت سی پیدا ہوئی اس نے بے ارادہ اپنے سر پر دوپٹے کا پلّو ڈالا اور آہستگی سے حجرے کے دروازے کا کنڈا کھول دیا۔
٭٭٭