اب اللہ تعالیٰ اپنا فضل و کرم کرے۔ میں آپ کے سامنے ایک یا دو باتیں اور بیان کر دیتا ہوں۔ مجھ میں اتنی استقامت نہی، مریض ہوں، تھوڑا تھوڑا جو مجھ سے ہو سکتا ہے بیان کر دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّاۤ اَعْطَینٰکَ الْکَوْثَرَ
(سورت الکوثر 108) ’بیشک ہم نے تجھ کو دیا، عطا کیا، عطیہ ہے‘ اَعْطَینَا میں تو ہو سکتا ہے کہ کچھ دیتا ہو، اس کے لئے اَعْطَینَا کا لفظ آ سکتا ہے۔ یہ اَعْطَا کا لفظ ہے یہ محض عطیہ کے طور پر تجھ کو کوثر دے دیا۔ ’عطا کوثر‘ کوثر کا عطیہ دیا۔ کوثر کے کیا معنی؟ کو ثر کی تفسیریں متعدد ہیں: ۔
عام طور پر یہ کہا جا تا ہے کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے اور ایک حوض ہے۔ بعضوں نے کہا کہ حوض ہے۔ بعضوں نے کہا کہ نہر ہے۔ دونوں معنی بیان کئے ہیں، عام طور پر مشہور ہے حوضِ کوثر، نہرِ کوثر۔ مفسرین کی یہ رائے ہے کوثر سے مراد نہر ہے یا وہ حوض ہے۔ اس جگہ پر یہ محل احسان، ایثار، عطیہ اور امتنان کا ہے، اس موقعہ پر حوضِ کوثر کا دینا زیادہ سمجھ میں نہیں آتا، اس لئے کہا نہرِ کوثر یا حوضِ کوثر بہر حال جنت کا ٹکڑا ہے، ایک جز ہے۔ جیسے مسجد کا ایک ٹکڑا ہے کنواں مسجد میں کنواں ہوتا ہے، وہ تمام مسجد کے رقبہ سے بہت چھوٹا ہوتا ہے، مسجد میں حوض ہوتا ہے جامعِ مسجد دہلی کا حوض آپ نے دیکھا ہے وہ جامعِ مسجد سے کتنا چھوٹا ہے۔ اسی طرح جنت میں جو نہر ہے وہ جنت سے چھوٹی ہے اگر وہ حوض ہے تو وہ بھی جنت سے چھوٹا ہے اور ایک جنت دو جنتوں سے چھوٹی ہے۔ کیونکہ ایک تو آدھا ہے دوکا، دو سے ایک چھوٹا اور ایک سے حوضِ کوثر چھوٹا، تو دو (2) سے حوضِ کوثر اور نہرِ کوثر بہت چھوٹی ہو گئی۔ وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (سورت رحمٰن 55 آیت 46) ’جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔‘ خائفِ رب کے لئے تو دو جنتیں اور افضل الانبیاء کے لئے جنت کا ننھا سا ٹکڑا، یہ نہیں سمجھ میں آیا؟
بعض علماء نے یہ فرمایا کہ اس سے مراد قرآن ہے۔ یہ بھی دل کو نہیں لگتا کہ وہ قرآن ہو، کیونکہ جس طرح قرآن منجانب اللہ ہے اسی طرح توریت بھی منجانب اللہ ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن دیا اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو توریت دی ان کی بھی یہی پوزیشن ہے۔ بس ایک فرق ہے ذرا سا باقی سب میں برابر ہیں ان کی عبادت معجزہ ہے، ان کی عبادت معجزہ نہیں تھی۔ ان کو ’بَین‘ معجزے دئے گئے تھے آسمانی کتاب ہونے میں ضرور برابر ہیں یہ توریت بھی، انجیل بھی، صحیفہ ابراہیم بھی وغیرہ۔
بعض لوگوں نے کہا کہ کوثر سے مراد اولاد ہے:
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَ جَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیةً
(سورت الرعد 13 آیت 38) سوائے عیسیٰ اور حضرت یحییٰ کے تمام انبیاء کی بیویاں بھی تھی اور اولاد بھی تھی۔ یہ بھی کوئی نرالا عطیہ نہیں ہے۔ بہر حال علماء نے یہ فرمایا کہ اس سے مراد متبعین ہیں۔ ٹھیک ہے یہاں سب سے زیادہ ہیں لیکن ان کے ہاں بھی ہیں قلت سہی لیکن نوعیت مشترک ہے۔ علماء ہیں ان کے ہاں بھی ہم نے امام پیدا کئے ہمارے احکام کی ہدایت کیا کرتے تھے موسیٰ علیہ السلام کے ہاں یہاں بھی علماء ہیں، اس میں کوئی شک نہیں زیادہ ہیں یہ ٹھیک ہے کمی بیشی ضرور ہے نوعیت ایک ہے۔ بہر حال تقریباً پندرہ تفسیریں کی ہیں جو مجھے یاد آتی جا رہی ہیں میں آپ کے سامنے بیان کرتا جا رہا ہوں۔ جو چیزیں تفسیر میں بیان کی گئی ہیں وہ سب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور دیگر انبیاء میں مشترک ہیں، خواہ وہ اشتراک کُلّی ہو یا جُزوی مشترک ضرور ہے۔ اور مشترک عمل اس قابل نہیں ہے کہ اس کو امرِ مختص بنایا جائے اور اس کو خصوصیت دی جائے۔
کوثر کی یہ تفسیریں جو ہیں، بعضوں نے کہا اسلام۔ جیسے اسلام ویسے عیسائیت اور ہر زمانے کے نبی کا جو مذہب ہے جو اس مذہب کی حیثیت ہے وہی اس کی ہے اسلام کی خصوصیت نہیں۔ سب مذاہب منجانب اللہ ہیں اور حق ہیں تمام انبیاء کے معجزات وہاں بھی ہیں یہاں بھی ہیں۔ بلکہ بَین معجزے وہاں زیادہ ہیں یہاں کم ہیں۔ معجزات جو انبیاء علیہم السلام کو دیئے گئے تھے قدیم انبیاء کو اس نوعیت کے معجزے یہاں نہیں ہیں ان کے تو بَین تھے اتنا بَین معجزہ یہاں نہیں ہے، محمد صلی اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا معجزہ بین نہیں ہے۔
میرے ہاتھ ایک کتاب لگی جہانگیر کے شاہی کُتب خانہ کی مہر لگی ہوئی تھی، اس میں میں ایک عیسائی کا اور مُلّا کا مناظرہ تھا، قلمی نسخہ تھا وہ میں نے حکیم اجمل خاں کو دے دیا۔ وہ کتاب نواب فیض احمد خاں کے ہاں پڑھی جایا کرتی تھی اس میں بہت بحثیں تھیں عیسائی اور مسلمان کی بحث ہو رہی تھی دونوں بحث کر رہے تھے۔ اس نے یہ جواب دیا کہ ہمارے نبی کے معجزات بڑے بَین ہیں احیائے موتا، مُردے کو زندہ کرنا، کوڑی کو تندرست کر دینا ایسے ہی ان کے معجزات بہت سے ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں ایسے معجزے نہیں ہیں ہمارے علمائے نے ان معجزات کی کثرت کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ: اِنَّاۤ اَعْطَینٰکَ الْکَوْثَر، کی جو سورت ہے یہ تین آیتوں کی ہے اور اس کے ساتھ چیلنج ہوا ہے: فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (سورت البقرۃ 2 آیت 23) یہ سورت بھی اس قابل ہے کہ اس کے ساتھ چیلنج ہو، اس کی مثل نہیں لا سکتے، گویا تین آیتوں کی مثل نہیں لا سکتے۔ اور قرآن شریف میں تقریباً چھ ہزار آیتیں ہیں چھ ہزار آیتوں کی ایسی تین تین آیتوں کے اگر ٹکڑے کئے جائیں تو دو ہزار بن گئے ہر آیت کے ساتھ معجزہ ہے تو ہمارے نبی کے دو (2000) ہزار معجزے ہیں۔ اس قسم کے جوابات اس لئے دیئے۔ بہت اہل علم لوگ جمع تھے آج سے (50) پچاس سال پہلے بڑے ذی علم لوگ جمع تھے۔ یہ واقعہ تقریباً چالیس پینتالیس برس کا ہے یہ ذکر ہو رہا تھا چلتا آ رہا تھا۔ میں نے بہت بڑے اماموں کی کتابوں میں بھی یہ مضمون دیکھا جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں۔ تو یہ بات جو ہے صحیح نہیں ہے غیر صحیح دلیل سے ثابت کرنا ثابت نہ کرنا، اس سے بہتر ہے یعنی غلط قدم اُٹھانے سے نہ اُٹھانا بہتر ہے۔ قدمائے علماء یہ بیان کرتے چلے آ رہے ہیں ہزار ہزار برس کے یہ ٹھیک نہیں ہے۔
ایک تو یہ بات ہے اس کے اندر کہ وہ نوعیت ایک ہے، موسیٰ علیہ السلام سے عصاء کا معجزہ دس (10) دفعہ ہو تو اسے ایک ہی معجزہ سمجھا جائے گا، معجزہ عصاء حالانکہ کئی دفعہ ہوا ان سے تو وہ کئی آیتوں سے شمار نہیں ہوا۔ ایک ہی آیت ہے وہ، وہ نوعیت ایک ہی ہے، معجزہ ایک ہی رہے گا۔ اس کے علاوہ پھر وہی دِقت ہوئی، پھر اس کا حل کیا ہے؟ آپ سمجھے اسے وہ غلط فہمی ہوئی ہے۔
معجزے کی جو کثرت ہے وہ فضیلت نبی کی نہیں ہے یہ نئی بات ہے ہمیشہ یاد رکھیں کہ معجزہ تائید کے لئے اور تصدیق کے لئے آیا کرتا ہے، یہ تصدیق ہو جائے کہ یہ اللہ کا بھیجا ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کے پاس آئے اور اگر یہ کہے کہ وزیر کا، سفیر کا، یا صدر کا یہ حکم ہے اور وہ معمولی آدمی ہو تو آپ کو اس کی بات کی تصدیق نہیں ہونے کی۔ آپ اس سے پوچھیں گے کہ کوئی نشانی، کوئی سند لاؤ تو وہ مونوگرام لگا ہوا، چھپا ہوا کاغذ دکھائے گا تو آپ کو اطمینان ہو جائے گا۔ وہی بات اگر یہاں کوئی انتہائی معزز سفیر بیٹھا ہو وہ کہہ دے تو اس سے آپ کچھ نہیں پوچھنے کے یقین کر لیں گے، تو جتنا کمزرسفیر ہو گا اتنی ہی قویٰ سند اس کو لانا پڑے گی۔ چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کے تو نسب میں شک ہو رہا تھا اس لئے ان کو نہایت قویٰ معجزہ دینا پڑا اور ہر وقت ان کی تائید کے لئے اپنا آدمی مقرر کر دیا: وَ اَیدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِِ (سورت البقرۃ 2 آیت 87) ملازم کو ساتھ رکھا کہ اس کے ساتھ رہو کمزور بچہ ہے۔ اور آپ کے لئے حکم ہوا کہ یہ پہاڑ جو ہیں سونے کے کر دیئے جائیں ارشاد ہوا کچھ نہیں، میں ان سے سلٹ لوں گا، میں آؤں تمہاری مدد کو، کہا نہیں، نہیں۔ جوان بیٹا جاتا ہے اس کے لئے امداد کی ضرورت نہیں، چھوٹا بچہ جاتا ہے اس کے لئے نوکر ساتھ بھیجنا پڑتا ہے۔ تو محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نبوت میں اتنے قوی تھے ان کو اتنی تائید کی ضرورت نہیں تھی: یعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَہُمْ (سورت البقرۃ 2 آیت 146) ’وہ اتنے نمایاں تھے کہ جس طرح اپنے بچوں کو، بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔‘ اس طرح نبوت کے آثار نمایاں تھے اسی لئے تو کثرت کی ضرورت نہیں۔ اس لئے تو وہ کہتے تھے: فَلْیاْتِنَا بِایَٰةٍ کَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ (سورت الانبیاء 21 آیت 5) ’ایسا معجزہ لاؤ نا جیسے اگلے لائے تھے۔‘ مَاۤ اٰمَنَتْ قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْیةٍ اَہْلَکْنٰہَا اَفَہُمْ یؤْمِنُوْنَ (سورت انبیاء 21 آیت 6) ’جو پہلے نبی بڑے بڑے معجزے لائے تھے کیا وہ لوگ ایمان لے آئے تھے جو تم ایمان لاؤ گے؟‘ ایسے معجزے دیکھ کر وہ پالیسی بھی فیل ہو گئی۔ یہاں فیل کرنا نہیں ان کو برباد کرنا تھا انکار کرتے ہی وہ برباد ہو گئے، انہیں برباد کرنا نہیں اس لئے بَین معجزہ لانا نہیں۔ دیکھتے ہی صورت سے معلوم ہو گیا وہ ایمان لے آئے (دوسری بحث میں چلے گئے، اب آیت کی تفسیر کریں اور مضمون کو ختم کر دیں)
بہر حال یہ تفسیریں میرے نزدیک یہاں چسپاں نہیں ہیں فی نفسہٖ اپنی جگہ پر ٹھیک ہوں، لیکن یہاں محل احسان ہے اور امتنان ہے اس لئے یہاں یہ مناسب نہیں ہیں۔ حقیقی تفسیر اس کی یہ ہے میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں یہ ’کوثر‘ کا جو لفظ ہے یہ کثرت سے مشتق ہے جیسے ’جوہر‘ کا لفظ جہر سے مشتق ہے۔ ’جہر‘ کے معنی ظہور۔ ’جوہر‘ اس کو کہتے ہیں جس میں زیادہ ظہور ہو۔ مبالغہ کا صیغہ ہے غایت درجہ ظہور ہو، جوہر کو جوہر اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں بہت ظہور ہوتا ہے، چمک بہت ہوتی ہے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اسی طرح ’کوثر‘ جو ہے بر وزنِ فعل ہے یہ مبالغہ کے لئے آیا کرتا ہے غایت درجہ کی کثرت۔ اور کثرت کی غایت جو ہوا کرتی ہے وہ اس شئے سے جس کی وہ غایت ہے خارج ہوا کرتی ہے، خارج نہ ہو تو داخل ہو کر جُز بن جائے گی۔ داخل کے معنی جُز کے کثرت کی غایت جو ہے وہ کثرت سے خارج ہے، خارجِ کثرت صرف وحدت ہے اور کوئی شئے نہیں۔ اور وحدت کا جو حقیقی مصداق ہے وہ وحدہٗ لاشریک ہے جو شئے بھی خدا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دے گا وہ نبی سے گھٹیا ہے اور گھٹیا دے کر احسان نہیں جتا سکتا۔ لوح و قلم، عرش و کرسی، ملائکہ، حور و قصور کیا دے گا؟ وہ سب چیزیں ان سے گھٹیا ہیں، گھٹیا چیز دے کر کیا احسان جتا رہا ہے؟ وہ چیز نبی کو دینی چاہیئے جو عمدہ سے عمدہ ہو، وہ صرف اس کی اپنی ذات ہے: اِنَّاۤ اَعْطَینٰکَ الْکَوْثَر، کا مطلب ہے ’میں تیرا ہو گیا۔‘
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَسَلَّمْ
’الصَّلٰوةَ‘ کی حقیقت کیا ہے؟
جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ’میں تیرا ہو گیا‘ تو اب تجھے کیا کرنا چاہیئے؟ پہلے آپ ’الصَّلٰوة‘ کی حقیقت سمجھ لیں۔ نماز تمام عبادات کو سوائے مالی عبادت کے شامل ہے حج اس کے اندر موجود ہے، روزہ اس کے اندر موجود ہے، جو حج میں ممنوع وہ اس میں ممنوع اور اس کے علاوہ اور اذکار درود شریف تسبیح و تحمید سب کچھ ہے صرف زکوٰۃ مالی عبادت شامل نہیں ہے باقی کُل ہے۔ جامع عبادات ہے نماز بہت بڑی چیز ہے پوری دنیا سے افضل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان نماز پڑھتا ہے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاتا ہے، جو ہاتھ اُٹھانا ہے یہ اظہار بے اعتنائی ہے۔ مثلاً میرا لڑکا نا اہل ہے آپ کہیں کہ میں نے فلاں بُری جگہ اسے دیکھا ہے میں اتنا نالاں ہوں اس لئے دور ہوں۔ میں نے کہا کہ میں نے تو اس سے ہاتھ اُٹھا لیا کہیں جائے کہیں رہے، ہاتھ اُٹھانے کے معنی بے پروائی، بے تعلقی ہیں۔ دونوں ہاتھ اُٹھانے کے یہ معنی ہیں کہ میں نے اِس دنیا سے اور اُس دنیا سے، اِس جہان سے اور اُس جہان سے، دنیا اور عقبیٰ دونوں سے ہاتھ اُٹھا لئے: اللّٰہُ اَکْبَر!
اب میں ان دونوں سے ہٹ کر بڑے کی طرف متوجہ ہوا، دونوں صغیر اور اصغر کو چھوڑ دیا، اتنی بڑی عبادت ہے یہ ایک ہی عبادت اس قسم کی ہے۔ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ (سورت العنکبوت 29 آیت 45) دنیا کے جتنے عیب اور بُرائیاں ہیں ظاہری و باطنی سب ترک ہوئیں۔ ’فَصَلِّ لِرَبِّکَ‘ کے معنی یہ ہیں کہ پوری بدنی عبادت اور قلبی و زبانی عبادت گویا پوری ذات کی عبادت آ گئی۔ ذکر میں دل سے اس کی یاد میں مشغول ہو گیا۔ ہاتھ یوں بندھے ہوئے جہت کوئی بھی نہیں بدل رہا تُو پورا کا پورا جھُک جا۔ ’وَ انْحَرْ‘ اور قربان کر۔ قربانی کا جو مصرف ہے کیونکہ وہاں اونٹ بڑی قیمتی چیز تھا تو خرچ جو تھا سب سے زیادہ قربانی میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی تُو جان اور مال سے میرا ہو جا میں تیرا ہو گیا اور تُو میرا ہو جا۔ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْاَبْتَرُ۠ شَانِئَکَ کے معنی معارض، مقابل، مخالف جو تیرا مخالف ہے وہ ابتر ہے، وہ مصنوعی وجود ہے اسے موجودات کی نشستوں میں سے کوئی نشست نہیں ملنے کی۔ وہ دنیا کی جو یہ موجودات میں گھٹیا سے گھٹیا وہ شئے ہے جو تیرے خلاف ہوا وہ میرا نہیں ہے میں کوئی نشست اس کو نہیں دوں گا، مٹی کے برابر بھی نہیں: یٰلَیتَنِی کُنْتُ تُرٰبًا (سورت النباء 78 آیت 40) ’وہ کہے گا کاش! مٹی کی نشست مجھ کو مل جاتی۔‘ اس نشست سے بھی اسے خارج کر دیا۔ تو میں تیرا ہو گیا تُو میرا ہو جا، جو تیرا نہیں ہے وہ میرا نہیں ہے۔ یہ شان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہے۔ ان کی کیا تعریف کوئی کر سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر بہت درود بھیجا کرو، آخرت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم تمہارے کام آئے گا۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ نَبِینَا وَ مُرْشِدنَا وَمَوْلَنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِین
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...