ڈاکٹر بلند اقبال (کینیڈا)
ہوا تھوڑی سی سر سر ائی اور پھر یک لخت اَن گنت ریزوں میں بٹتی چلی گئی ۔ بکھرے ہوئے ریزے لمحے بھر کے لیے انگاروں کی طرح د ہکنے لگے مگر پھر جلد ہی خود اپنے آپ میں جل کربھسم ہو نے لگے اور باقی بچنے لگا کچھ ملگجا سا دھواں،جو تماشہ دیکھنے والوں کی آنکھوں کو دھیمے دھیمے جلانے لگا مگر ساتھ ہی اُن کے دلوں کے دم بھی گھونٹنے لگا ۔۔ وہاں کس کو معلوم تھا کہ ہوا کے سینے میں تو اُن کوڑوں کا درد تھا جو انجانے میں حیوانی جذبوں کی ایک ایسی دہکتی آگ سے آشنا ہوگئے تھے جو تماشہ دیکھنے والوں کے کسی وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ تالیوں اور نعروں کی گونج میں کوڑے کرب سے چیختے تھے مگر سوائے بدنصیب ہوا کے کوئی بھی نہ تھا جو اُن کے درد کی شدت کو محسوس کرتا اور پھر ہوا ہی اُس کرب کو اپنے نازک بدن پر جھیلتی اور پھر درد سے ریزہ ریزہ ہوجاتی۔
ہوا اور کوڑوں کا یہ درد ناک ملاپ اُس سلگتی ہوئی دوپہر میں ہوا تھا جب ٹکٹکی پر بندھی چاند بی بی زنا کاری کے جرم میں چالیس کو ڑوں کی سزا وار قرار پائی تھی۔ تماشائیوں کے نعروں اور تالیوں کی گونج میں چاند بی بی کی کربناک چیخیں صرف اُن آوازوں کو شکستگی سے ڈھونڈ رہی تھی جو گناہ گار نہیں تھیں ۔ شروع شروع میں تو اُس کے گداز بدن کی پشت پر پڑنے والا ہر ایک کوڑا اُس کی نازک کھال کو یوں چھیلتا رہا جیسے اس کی بدکار روح کو اُس کے چھلے بدن کے کسی نہ کسی کونے سے باہر نکال کر ہی دم لے گا مگر پھر جلد ہی کوڑوں کو یوں لگنے لگا جیسے اُن کی ہر ایک ضرب خود اُن کے ہی بدن کو کاٹ کر کسی انجانے گناہ سے اُس کے کونے کونے کو بھر رہی ہے ۔یہ ایک عجیب احساس تھا جس سے کوڑے اس سے قبل کبھی بھی دوچار نہیں ہوئے تھے ۔وہ تو نیکی اور بدی کے تعلق سے بے نیاز ہمیشہ اپنے چلانے والے کے زورِ بازوکے غلام رہے تھے ۔وہ تو کتنے ہی بار زانی اور شرابی مردوں اور عورتوں کے بدن پر جہنم کی دہکتی آگ کی طرح پڑتے رہے تھے مگر اس بار اُنہیں لگا تھا جیسے بیچ بازار یا تو خود اُن کے ساتھ ہی زنا ہو رہا ہے یا پھر وہ کسی کے ساتھ بد کاری کر ر ہے ہیں ۔
چاند بی بی کچھ دیر میں چاند کی طرح پیلی پڑنے لگی تھی۔اب اُس کی چیخوں کی شدت میں کمی آرہی تھی۔کوڑوں کو لگنے لگا تھا جیسے چاند بی بی نے اب اپنے پر پڑنے والی بے رحم ضربوں سے ہار مان لی ہے۔اب اُن کی ہر ضرب چاند بی بی کے بدن کے لیے محض ایک خفیف سی حرکت کا سبب بننے کا سبب بن رہی تھی۔تماشہ دیکھنے والوں کے جوش خروش کی شدت میں بھی کمی آرہی تھی۔نعروں اور تالیوں کی آوازیں چاند بی بی کی سسکیوں کے بغیر محض ایسے ڈھول کی تھاپ بنتی جارہی تھی جس کی رسیاں اب ڈھیلی ہو رہی تھیں۔مگر کوڑوں کا بو جھ اب بھاری سے بھاری تر ہوتا جارہا تھا۔اُن کے بڑھتے بوجھ سے اب چاند بی بی کے بجائے، ارد گرد کی ہوائیں کٹنے لگی تھیں ۔وہ ریزہ ریزہ ہو کر کوڑوں سے رحم کی فریاد کرنے لگی تھیں ۔کوڑوں کے اندر کی جھلستی آگ ہوا کے ریزوں کو اب بکھیر کر انگاروں کی طرح جلانے لگی تھی ۔ اُن سے اُٹھنے والا ملگجا دھواں تماشہ دیکھنے والوں کی آنکھوں کو دھیمے دھیمے جلاتا تھا مگر ٹکٹکی پر بندھی چاند بی بی کے گداز بدن اور اُس کی پُشت پر پڑنے والی ضربوں کے سنگم سے پیدا ہونے والے کوڑوں کے منوں بوجھ کو اُنہیں دکھانے سے قطعی قاصر تھا۔
کوڑوں کا بوجھ۔۔ جو اُس کے مارنے والے کی بے لگام جنسی لذت کی خواہش سے پیدا ہو رہا تھا اور چاند بی بی کے نرم و گداز بدن پر پڑنے والی ہر ایک ضرب سے اُ س کے لیے جنسی تسکین کا مسلسل سبب بن رہا تھا ۔ بے بس کوڑے جو چاند بی بی کی طرح زنا کے مر تکب ہوگئے تھے ۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے مارنے والے کے غلیظ گناہ میں برابر کے شریک تھے اور اب اپنے کرب کا سارا بوجھ ہوا پر ڈال کر اُسے ریزہ ریزہ کر ر ہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
According to Shah Wali Allah the Holy Prophet has two aspects of his teaching,
permanent and temporary. The basic thing which is important is the fundamental Islamic principles not their particular application. What was unique in Shah Wali Allah and which had inspired Mawlana Sindhi was his perception that the prophet had not been entirely inconsistent with the tradition and custom of the society in which he was born. Shah Wali Allah took revolutionary step and said, ” Besides it that injunctions should not be strictly imposed on coming generation.”
Mawlana Sindhi’s pragmatic mind was attracted towards this and he suggested a reasonable and practical way, ” I consider the penal injunction laid down by the Holy Quran and the Way with which certain administrative, social and economic matter have been defined and determined are not final and unalterable. They are just practical modes since the general and all embracing guidance of the Holy Quran could be manifested only in that manner at time and it did. Now they are the legal precedence for us and keeping them in view and in the light of the everlasting and universal wisdom of the Holy Quran, we can form new law in every age. In fact, according to Maulana Sindhi, ‘We are entering into the industrial age and we have no recourse other than to join the march. We cannot survive as straggler. We have to give up enmity of the west. We should learn and take benefit from the intellectual treasure house of the west.’ Subsequent events have proved the rational of Maulana Sindhi’s vision. Muslim world has assimilated the West but it did not do so as an active force but as a passive entity due to its irrational approach and intransigent behaviour. In fact this is the illusion, which Muslim world has been harbouring for a long time that West is incapable of solving her moral and social problems.
(Extract From “The Tradition of Deoband and the Pragmatism of Ubaid Allah Sindhi” BY: NASEER AHMAD HABIB “Third FrameVolume:1, No.3, 2008
Journal of Jamia Millia Islamia Delhi literature, culture and society.)