چیری کے شگوفوں جیسے لب ادھ کھلے، چمکیلی آنکھوں سے جن میں جیسے کانچ کوٹ کر بھر دیا گیا ہو۔ ستارہ اک ٹُک نوری کو دیکھتے ہوئے، روٹیاں اپنی چنگیر پر رکھتی جا رہی تھی۔
مہر رنگی بادامی آنکھوں، مشکی رنگت والی نوری پسینے سے شرابور روٹی تندور سے نکالتی اور چھابے پر رکھتی جاتی۔ نوری کی جلد ایسی تھی جیسے چمکتی سیاہ ساٹن ہوتی ہے۔ پیسنے کے قطرے چہرے سے پھسلتے ستواں لمبی کونج جیسی گردن سے ہوتے ہوئے گریبان سے اُبھرتی ہوئی چٹانوں پر مچلتے۔
اُس نے اپنے لمبے سیاہ بالوں کو موتی تارے لگے رنگین پھندنے والے پراندے میں گوندھ رکھا تھا۔
نوری نے کنڈے کی نوک پر روٹی پرو کر نکالی۔ ستارہ کے پھیلائے کپڑے پر رکھ کر بولی:
’’اے لو! ہو گئیں پوری دس۔‘‘
پھر مِٹھار کر ستارہ سے کہنے لگی: ’’ہتھ بچا کر جلا نہ لینا گرم روٹی کا ساڑ بہت ہوتا ہے۔‘‘
ستارہ نے نوری سے نظریں ہٹائے بغیر اثبات میں سر ہلا دیا۔ نوری کا بے پناہ حسن مبہوت کر دیتا تھا۔ دو پونیوں میں ربن لگائے خوب چنٹیں ڈال کر کھلے گھیرے والا فراک پہنے گلابی گالوں والی ستارہ نوری کی سہیلی تھی۔ بھرے بیگانے شہر میں ایک آٹھ نو سالہ ستارہ ہی سے تو سہیلاپا گانٹھ رکھا تھا۔
نیم کے چھتنار درخت کے نیچے تندور تھا۔ سڑک پار ہی ستارہ کا گھر تھا۔ ستارہ روٹیوں کی چنگیر اُٹھائے پلٹ پلٹ نوری کو دیکھتے ہوئے گھر چلی جاتی۔
ستارہ کے گھر سے باہر دیسی لال گلابوں کی باڑ لگی تھی۔ گھر کے فرنٹ پر برآمدہ تھا۔ جس میں جالی لگی لکڑی کی کھڑکیاں تھیں۔ برآمدے کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا داخلی دروازہ گھر کے صحن میں کھلتا تھا۔ صحن کے ایک کونے میں منا سا باغیچہ تھا۔ جس میں ایک سرو قامت شہتوت کا درخت تھا۔ تین اطراف کمرے اور کچن تھا۔ شہتوت کے نیچے ایک چھوٹی سی کھٹولی بچھی ہوئی تھی۔ درخت کے تنے کے ساتھ اینٹیں جوڑ کر ستارہ نے اپنے کتورے ٹامی کا گھر بنایا ہوا تھا۔ لیکن ٹامی ستارہ کی چیل ہی کو اپنا گھر سمجھتا تھا۔ ہمیشہ اس کی چیل میں اپنی تھوتھنی پھنسا کر سوتا تھا۔
ستارہ گرمیوں کی طویل چھٹیاں اور لمبی دوپہریں شہتوت کی میٹھی چھایا ہی میں گزارتی۔ تکیے کے نیچے رنگین تصویروں والی کتابوں کا ڈھیر تھا۔ ستارہ اور ٹامی مل کر کہانیاں پڑھتے۔ ٹامی اپنی شرارتی آنکھوں اور مسلسل ہلتی دم کے ساتھ تصویریں دیکھتا۔ اونچی آواز میں کہانی قرأت کرتی ستارہ کو کان کھڑے کیے سنتا۔ ماں کئی بار ستارہ کا بازو پکڑ کے کمرے میں لے جا کر پنکھے کے نیچے لٹا دیتی تھی۔ ’’میری گلابو کالی پڑ جائے گی۔۔۔ تجھے گرمی نہیں لگتی کیا!!‘‘۔ ماں دلار سے کہتی۔ لیکن کالا رنگ تو ستارہ کا من بھاتا رنگ تھا۔ رات کا رنگ، ٹامی کا رنگ اور سب سے بڑھ کر نوری کا رنگ۔ جھوٹ موٹ آنکھیں موند لیتی۔ جب ماں کی نیند سے بھاری ہوتی گہری سانسیں سنتی تو پٹ سے آنکھیں کھول کے پھر شہتوت کے نیچے۔
نماشا ویلے کا شدت سے انتظار ہوتا تھا۔ نوری اس سمے تندور جو تپاتی تھی۔ جمیل جسے سارا محلہ ’’نوری کا گھر آلا‘‘ کہتا تھا۔ لکڑیوں کا گھڑ سر پر اُٹھائے نیم کے تنے کے پاس رکھ دیتا۔ کچھ لکڑیاں تندور میں ڈال کر آگ کا بھانٹبر جلاتا۔ ستارہ کی تارا آنکھیں کھڑکی کی جالی میں سے جھانکتی رہتیں۔
’’نوری کا گھر آلا ہے تو نوری کا گھر کہاں ہے؟‘‘
ستارہ کی آنکھیں سوچ میں ڈوب جاتیں۔ نوری تو سارا دن لوگوں کے گھروں میں برتن دھوتی۔ جھاڑو دیتی، جمیل دیہاڑی پر جاتا شام ہی کو واپس آتا۔ شام کے سائے ڈھلتے تو تندور تپا کر دونوں وہیں سر جوڑے بیٹھے نظر آتے۔ تندور سے نکلتی آگ کی لاٹ لال سنہری ہوتی رقص کرتی۔
درخت کے نیچے ہی چارپائی بھی تھی۔ ایک طرف مٹی کا گھڑا کوزے سے ڈھکا ہوا۔ جمیل کبھی چار پائی پر بیٹھتا تو کبھی روٹیاں لگاتی نوری کے پاس اکڑوں بیٹھ جاتا۔ جب دونوں اکٹھے ہوتے تھے تو دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ہٹتی نہ تھیں۔ ساری دنیا جیسے غائب ہو جاتی۔ بس نوری، جمیل اور تندور سے نکلتی نارنجی روشنی ہی دھرتی پر ہوتے۔ ستارہ ماں کی نظروں سے بچ کر ٹامی کو گود میں اُٹھائے کئی پھیرے تندور کے لگاتی۔ آنکھوں میں تاروں کی سی جوت جگائے۔ نچلا لب ذرا سا باہر نکالے خاموشی سے دونوں کے پاس کھڑی رہتی۔ وہ دونوں الگ الگ بھی اکائی تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ نوری کہاں ختم ہوتی ہے جمیل کہاں سے شروع ہوتا یا جمیل کہاں ختم ہوتا اور نوری کہاں سے شروع ہوتی۔
ماں کی پکار چونکا دیتی تو گھر کا رُخ کرتی۔ اپنے آپ سے اکتائی ہوئی ماں گندھے آٹے کے پیڑے بنا کر پرات میں رکھتی۔ پرات گیلے کپڑے سے ڈھانپ کر ستارہ کے ہاتھوں میں تھما دیتی۔
’’جا روٹیاں لگوا لا۔ اب وہیں نہ بیٹھی رہنا۔ دیر ہو گئی تو تیرا باپ میری جان کو روئے گا۔‘‘
گھر تو سارا ہی اکتایا ہوا ایک دوسرے سے بیزار تھا۔ بس شاد تو شہتوت رہتا تھا ہر دم پتوں کی تالیاں بجاتا رہتا۔ ستارہ، ٹامی اور شہتوت تینوں میں خوب یارانہ تھا۔
بڑی بہن کی شادی کو کئی سال گزر گئے تھے۔ خالی گود لیے پھرتی تھی۔ محلے ہی میں ایک شفیق صورت بزرگ تھے۔ سب عورتیں دل کی خالی جھولی پھیلائے، دماغ میں شک نفرت کے شُوکتے ناگ لیے انہی کے پاس آتیں اور آس دلاسہ لیے اپنے نراش گھروں میں پلٹتیں۔ سب انہیں ولی اللہ کہتے۔
’’ولی اللہ کسے کہتے ہیں؟ ماں!‘‘
ستارہ نے پانی کے گلاس میں تعویذ گھولتی ماں سے پوچھا۔
’’یہ تعویذ دلوں میں مہر محبت پیدا کرنے واسطے ہے۔ حضرت جی بتا رہے تھے کہ اللہ کے کلام میں بہت برکت ہے۔‘‘
ماں نے جیسے اپنے آپ کو بتایا۔ ماں جب بھی ابو کو چائے شربت یا پانی دیتی۔ تو تعویذ والے برتن کا تھوڑا سا پانی اس میں شامل کر دیتی۔ گیارہ بار یا ودود کا ورد کر کے پھونک بھی مارتی۔ یہی عمل کر کے باجی بھی جیجا کو پانی کا گلاس پکڑاتی۔
’’ولی اللہ کسے کہتے ہیں؟ ماں!‘‘
ستارہ نے اپنا سوال دہرایا۔
ماں نے رسان سے کہا: ’’اللہ کے دوست کو کہتے ہیں‘‘۔
’’ستارہ نے سمجھداری سے سر ہلایا۔ ’’اچھا! جیسے ٹامی میرا دوست ہے‘‘۔
ماں کے لفظوں کی ملائمت جانے کہاں چلی گئی۔ ’’شش! کلمونہی جو منہ میں آتا ہے بکتی جاتی ہے‘‘۔
چپل اُتار کر ستارہ کے ٹانگوں سے چپکے ہوئے ٹامی کا نشانہ لیا۔ لیکن ٹامی بھی چپل کے تیور خوب پہچانتا تھا۔ وہ تو پھرتی سے رُخ بدل گیا۔ چپل سیدھی ستارہ کی ٹانگوں پر لگی۔
’’حرام جانور گھر میں رکھا ہے اس کی وجہ سے گھر سے برکت ہی اُٹھ گئی‘‘۔
ماں غصے سے بولی۔ ستارہ نے جلدی سے اُٹھا کر ٹامی کو اپنی گود میں چھپا لیا۔ آنکھوں میں آنسو لا کر بولی۔ ’’ماں! تعویذ والا پانی تھوڑا سا آپ بھی پی لیا کرو، ہو سکتا ہے کہ دل میں ذرا سی محبت معصوم ٹامی کے لئے بھی پیدا ہو جائے۔‘‘
ستارہ نے ماں کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ دیکھ کر سوچا کہ ’’ماں کس قدر سندر ہے اور ہنسی کی آواز تو ایسے جیسے گھنگرو بجتے ہوں۔
ماں ہنس کر بولی: ’’میں ترے باپ کی توجہ محبت کے لئے ترلے ڈالتی پھرتی ہوں تو میرے دل میں ٹامی کا پیار بھر دے‘‘۔
ابو شام گئے گھر آتے۔ بس ستارہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ٹامی کا حال پوچھتے۔ اسی لیے ستارہ کو ابو اچھے لگتے تھے۔
ابو کے گھر آتے ہی اکتایا ہوا گھر گنگ بھی ہو جاتا۔ بڑا بھائی جو سارا دن کتابوں کے ڈھیر پر بیٹھا موبائل دیکھتا رہتا تھا۔ کتابیں سمیٹ کر اپنے کمرے میں غائب ہو جاتا۔ باجی کی اپنے سسرال والوں سے بنتی نہیں تھی۔ لیکن بہنوئی کی اپنے سسرال سے جند جان تھی۔
جیجا کہ نہ تو نوکری ملتی اور نہ ہی بہت سارا پیسہ تاکہ کسی بزنس کی شروعات کر سکیں۔
سارا دن جیجو ماتھے پر تیوریاں چڑھائے، باجی سے خاطر داریاں کرواتا۔ جیسے ہی ابو گھر آتے تیوریاں ماتھے سے ایسے غائب ہو جاتیں جیسے استری پھیر دی گئی ہو۔
ابو طمطراق سے صوفہ پر بیٹھتے۔ ماں جلدی سے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھامے آ جاتی۔ جیجو سر جھکائے چپل اُٹھا کر ابو کے سامنے رکھتے اور بوٹ ایک طرف کر دیتے۔
ہزار بار دہرائے گئے اس منظر سے اوب کر ستارہ صحن میں جا کر شہتوت کے ساتھ سر جوڑ کر کھڑی ہو جاتی۔ ٹہنیوں سے رس سے ٹپکتے سفید شہتوت اُتارتی ایک اپنے منہ میں دوسرا ٹامی کے کھلے منہ میں ڈراپ ہو جاتا۔
شہتوت جھوم جھام کر اپنا پھل نچھاور کرتا۔ اکتائے ہوئے گھر میں یہ تینوں جی چہکتے مہکتے رہتے تھے۔
سویرے ابو کے جانے کے بعد ماں سکھ کا سانس لیتی۔ بکھرے برتن سمیٹ کر کمرہ بند کر کے سو جاتی تھی۔
باجی تو دیوار کے ساتھ تصویر کی طرح لگی ہر وقت جیجو کے ٹھوکتے بجتے جملوں کی زد میں رہتی۔
ایک گول لکڑی کی تھالی برآمدے کی دیوار پر آویزاں تھی۔ جس پر ستارہ پلاسٹک کے تیروں سے چاند ماری کی مشق کرتی۔ تیر نشانے پر لگتا تو تھالی ذرا سی تھرتھراتی اور پھر ساکت ہو جاتی۔ باجی بھی اسی تھالی کی طرح جملہ سہ کر لمحہ بھر تھرتھراتی پھر ساکت ہو جاتی۔
باجی جب بھی پسیجی ہوئی آواز میں جیجو کو ’’جانی‘‘ کہتی تو ستارہ کا غصہ گھر کی دیواروں سے سر ٹکرانے لگتا۔ ’’بد تمیز جیجو!‘‘
ستارہ نے احتجاجاً ٹامی کا نام ہی تبدیل کر دیا۔ زور سے جانی پکارتی تو ٹامی دَم ہلاتا بھاگتا اس کے پاس آ جاتا۔ جیجو کا رنگ جامنی اور باجی کا پیلا پڑ جاتا۔
باجی نے کئی بار چپکے سے ستارہ کی منت کی کہ ٹامی کو جانی نہ بولا کرے۔ ستارہ تنک کر کہتی، ’’کیوں نہ کہوں؟ آپ کو جیجو اچھے لگتے ہیں۔ تو انہیں جانی کہتی ہیں نا؟‘‘
باجی لب بھینچے سر ہلا دیتی۔ ’’مجھے ٹامی اچھا لگتا اس لیے میں اسے جانی بولتی‘‘۔
ستارہ کا غصہ اسی پر ختم نہ ہوتا جب کوئی سہیلی کھیلنے آتی تو ککلی ڈالی جاتی۔
ککلی کلیر وی
پگ میرے ویر دی
دوپٹہ میرے پائی دا
فٹے منہ جوائی دا
’’فٹے منہ‘‘ منہ سے ایسا زور دار نکلتا جیسے توپ کے دہانے سے گولہ نکلتا ہو۔
ماں بہتیرا شور مچاتی کہ ’’ادب تمیز تمہیں چھو کر نہ گزری۔ ستارہ!‘‘
ستارہ بے نیازی سے جواب دیتی کہ ’’ہم تو کھیل رہے ہیں‘‘۔
جب شام جمیل کسی کام سے گیا ہوتا ہوا تو ستارہ کی موج لگتی۔ تب ستارہ کی روٹیاں لگنے کی باری آخر میں آتی۔ نوری اور ستارہ کی چھوٹی سی دنیا کی چھوٹی چھوٹی لیکن تفصیلی باتیں ختم ہونے کو نہ آتیں۔
تندور پر آئی عورتیں ان کی باتوں پر کھلکھلاتیں: ’’نوری! تُو تو ستارہ کی ہمجولی ہے‘‘۔
نوری کی چار پائی پر ایک کپڑے سے بنی گڑیا رکھی ہوتی جس سے اکثر ستارہ ہی کھیلتی۔ نوری کو وہ بہت عزیز تھی کبھی وہ پٹولی کہلاتی تو کبھی گڈی۔
کالے دھاگے کی کڑھائی سے اس کی آنکھیں بنائی گئی تھیں۔ دھاگے سے بال بنا کر سر میں سلائی کیے گئے تھے۔ کپڑے کی باریک نوک بنا کر سوئی دھاگے سے ناک چہرے پر چسپاں کی گئی تھی۔ لال دھاگے سے بنے ہونٹ۔ کانوں میں بالیاں، ماتھے پر ٹیکا۔ سنہری کناری لگی سرخ چنڑی اوڑھے، چولی گھاگھرا پہنے پٹولی مہارانی دِکھتی تھی۔
نوری اسے اپنے سینے سے لگا کر پریم سے کہتی: ’’ماں نے رات جاگ کر لالٹین کی لو میں یہ گڈی بنائی تھی‘‘۔
’’تمہاری ماں کہاں ہے؟ نوری!‘‘
ستارہ پوچھتی۔ نوری کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ لیکن جمیل آنکھوں سے آنسو ٹپکنے نہیں دیتا تھا۔ جانے اسے کیسے خبر ہو جاتی۔ چراغ کے جن کی طرح فوراً ہی نمودار ہوتا۔ نوری کے پاس دو زانو بیٹھ جاتا دونوں ہاتھ اس کے گھٹنوں پر رکھتا۔ اس کی آنکھوں میں دیکھتا۔ نوری کی آنکھوں سے آنسو غائب ہو جاتے۔ ہنسی کھنکنے لگتی۔ ستارہ کو روٹیوں کی چنگیر اُٹھائے گھر واپس آنا ہی پڑتا تھا۔ پھر سب کی نظروں سے بچ کر چپکے سے باہر سڑک والی کھڑکی کی جالی پر اپنا چہرہ ٹکا کر کھڑی رہتی۔ جیسے عورتوں کا جمگھٹا ختم ہوتا تو جمیل تندور کا منہ کُنالی رکھ کر ڈھانپ دیتا۔
گرمی سے بے حال نوری کے بدن سے چمٹی پسینے سے گیلی کُرتی سے کچی مٹی سا مہکار اٹھتا۔ گول کلائیوں میں کانچ کی رنگ برنگی چوڑیاں، ہاتھوں کے ناخن تو ہمیشہ مہندی رنگ سے سجے رہتے تھے۔ لچکتی کمر کے ساتھ تندور کے پاس سے اُٹھتی۔
چار پائی پر جا کر بے سدھ لیٹ جاتی۔ دونوں ٹانگیں چارپائی سے نیچے لٹکائے انہیں جھلاتی رہتی۔ سر چارپائی کے کنارے پر رکھا ہوتا۔
رات گئے سڑک سنسان ہوتی تھی۔ دور الیکٹرک پول پر لگے بلب کی ملگجی روشنی میں نوری کا پرچھاواں ہی نظر آتا تھا۔
جمیل نزدیکی دکان سے کون آئس کریم لے آتا وہ کون آئس کریم جو ماں ستارہ کو ہفتہ میں ایک بار ہی لے کر دیتی تھی۔
جمیل چار پائی پر چوکڑی لگا کر بیٹھ جاتا۔ نوری کا سر آٹو میٹکلی اس کی گود میں آ جاتا۔ نوری مزے سے دھیرے دھیرے آئس کریم چاٹ کر کھاتی۔ اس کی ٹھنڈک زبان سے مساموں تک اتارتی۔ آئس کریم کھا کر کون کا بسکٹ جو چاکلیٹ سے بھرا ہوتا جمیل کے ہاتھ میں دے دیتی بسکٹ جمیل چٹ کر جاتا۔
دونوں کی ہنسی کی آواز ہوا کی دوش میں لہراتی ہوئی ستارہ کے کانوں تک بھی پہنچتی۔
ماں کھڑکی سے چمٹی ادھ سوئی ادھ جاگی ستارہ کو اُٹھا کر بستر پر لٹاتے ہوئے بڑبڑاتی: ’’کملی‘‘۔
ایک دن سورج زیادہ ہی تپا ہوا آگ بگولا آسمان پر نمودار ہوا۔ زہریلی سرگوشیوں کی گونج ہر گھر سے اُٹھ رہی تھی۔ ٹامی کی بے چین ٹیاؤں ٹیاؤں نے ستارہ کو جگا دیا۔ حسبِ عادت جاگتے ہی ستارہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ نوری کی چارپائی الٹی پڑی تھی۔ پٹولی اوندھے منہ زمین پر گری ہوئی تھی۔ ستارہ باہر بھاگی۔ پٹولی کو اُٹھا کر اس پر لگی گرد کو اپنے دامن سے صاف کیا۔ ٹامی ستارہ کے پیروں میں دبکا ہوا جیسے رو رہا ہوں۔
کچھ لوگ سر جوڑے اونچی آواز میں بول رہے تھے۔ ’’بڑی چنڈال تھی وہ حرامزادی! ماں باپ کے چہرے پر سیاہی تھوپ کر یار کے ساتھ بھاگ آئی تھی۔ پچھلوں نے کھوج لگا لیا رات کو دونوں کو اُٹھا لے گئے‘‘۔ ستارہ نے سسکتے ہوئے پٹولی کو اپنے فراک میں چھپا لیا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...