ستیہ پال آنند
گھر بنانے میں اسے برسوں لگے تھے
سب سے پہلے گھر کی بنیادوں کے پتھر
پانچ دریاؤں کے چٹیل ساحلوں سے چُن کے لایا
ان پہ اپنا نام کندہ کر کے بنیادیں بنائیں
چار دیواری کھڑی کی
طاق ، دروازے، تراشیدہ دریچے اور روشندان جَڑ کر
دھوپ سے، تازہ ہوا سے گھر کو جیسے
ذی نفس کی زندگی دی!
اور پائیں باغ کی پھر ابتدا کی
سبز پودے، گلبدن لہراتی بیلیں
تتلیاں، بھنورے، پرندے
صبح کی شبنم
سہانی سردیوں کی دھوپ کے ٹکڑے سنہرے
اور بچوں کے لیے قوسِ قزح سا ایک جھولا!
آسماں کا ایک ٹکڑا کاٹ کر
چوکور سا رومال کی مانند پھیلایا
نئے گھر اور پائیں باغ کواس میں لپیٹا ․․․․․․․
․․․․․․․اور پھر وہ چل دیا
ان دور کے ملکوں میں
جن میں سال کے بارہ مہینے
اک ٹھٹھرتی رُت، سمٹتی دھوپ،
یخ بستہ ہواؤں کا چلن تھا!
اب زوالِ عمر کا مارا ہوا وہ ایک بوڑھا
برف زا موسم میں سردی اوڑھ کر بیٹھا ہوا ہے
تہہ شدہ رومال جانے اب کہاں ہے؟
کون ہے وہ ستیہ پال آنند صاحب؟