“تو مارو نہ پتھر مُجھے۔”
“مُجرم تو ہُوں آپ سب کی۔”
اُس نے سوچا۔
اب اچھا لکھاری بننا تھا تو اُس کے لئے محدُود راستے ہی کھُلے تھے۔
محنت مشقت۔ جان کا جلاپا۔ دماغ کی بھُجیا۔ خُشک ریاضت۔
یا پھر کسی کی شاگردی کی جائے۔
لیکن شاگردی کس کی؟
جو کام کے لکھنے والے سنجیدہ صفت خواتین و حضرات تھے وُہ تو پٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتے تھے۔
اپنے آپ میں مگن تھے۔
مست الست۔
جو درمیانہ درجے کے تھے وُہ بس اپنے جوگے تھے۔
اور تیسرے والے اُسی کے بھائی بند تھے۔ ٹُکڑا اِدھر سے جوڑا ٹُکڑا اُدھر سے پکڑا، کچا پکا قصہ کہانی، غلط املا کو ٹائپو کے پردے میں چھُپا، ملغُوبہ سا بنا کر ہجُوم نابکاراں کے آگے ڈال دیا۔
فورم کے پکے گاہک سو پچاس لائک مارتے اور دس بیس تبصرے داغ دیتے جو زیادہ تر ” ویری نائس” اور” زبردست افسانہ” ٹائپ ہوتے۔
زیادہ مشاق کھلاڑیوں نے درجن ڈیڑھ درجن جعلی آئی ڈیز بھی بنا رکھی تھیں، اس نیک کام میں سہُولت کے لئے۔
جنہیں فیس بُک نگاری کا ذرا زیادہ تجربہ تھا وُہ “رواں بیانیہ”، “کُہنہ مشق ادیبہ”، “دانشور لکھاری” وغیرہ کے گولے گھُماتے۔
سب سے اُونچے درجے کے نقاد، جنہیں اس دشت کی سیاحی میں کُچھ کم ایک دہائی ہو گئی تھی گُوگل کا اُڑن کھٹولاخُوب خُوب اُڑاتے اور اپنی دھاک بٹھاتے۔
نئے لکھنے والے تو بس سہم جاتے، مرعُوب ہو جاتے اور بعض اوقات اپنے ذاتی پیجز میں سر دے کر، دُبک کر بیٹھ جاتے۔
جعلی یعنی “فیک آئی ڈیز” کا ماہرانہ استعمال عام تھا – ایک دُوسرے کو بلاک کرنے کے بعد ‘فیک آئی ڈیز’ کی سرنگ لگائی جاتی۔ خُوب خُوب سرقہ کیا جاتا اور پھر چور مچائے شور کے مصداق دُوسروں پر سرقہ کے الزامات بھی لگائے جاتے۔
اگر عسکری تربیتی اداروں کا انٹیلیجنس ونگ صحیح کام کرتا تو اُسے جارحانہ دفاع کے مُشاق تربیت دہندہ یہیں سے دستیاب ہو جاتے۔
گُفتنی نا گُفتنی الزامات کے میزائل داغے جاتے اور یہ تک بھی دعوی کیا جاتا کہ اس طبقۂ اشرافیہ میں کہ جو منبعٔ تخلیق ہے، نوے فی صد ڈرامہ باز اور ذہنی مریض بھرے پڑے ہیں۔
اللہ اکبر۔
“جائیں تو جائیں کہاں۔ سمجھے گا، کون یہاں، درد بھرے دل کی زُباں۔ جائیں تو جائیں کہاں۔”
خیر۔ قصہ کوتاہ یہ کہ وُہ بے چاری بُہت بُری پھنسی۔
خلُوص دل سے اُردُو سیکھنے آئی تھی۔
ادب کی شُدھ بُدھ کی طلبگار۔ خلُوص کی پیکر۔ سچی رُوح۔ کدھر نکل آئی۔
کدھر پھنس گئی۔
خُوب مت ماری ہم سب نے اُس کی اور اُس کا بھاگنے کا راستہ بھی مسدُود کر کے بیٹھ گئے۔
میں ایک سالخُوردہ سگ خارش زدہ، باقی خُونخوار درندوں کے ساتھ باڑے میں ایک کونے میں بے شرمی کی زنجیر سے بندھا لوبھ کے کھونٹے کے گرد گھُمن گھیریاں کھا رہا تھا۔
ہم نے اپنی اپنی مکرُوہ آوازوں سے سارا جنگل سر پر اُٹھا رکھا تھا۔ سارے ادب شناس اور ادب نواز رنگین چہکتے طیوُر ہماری چیخم دھاڑ سے اڑنچھُو ہو چُکے تھے۔
ادبی جنگل کو لالچ کی خُشک سالی اور مکر کی شوریدگی نے چاٹ لیا تھا۔ اب بالآخر نالائقی اور جہالت کا سگریٹ پی کر جو کسی جعلی نقاد نے باقی ماندہ سُلگتا ٹُکڑا پھینکا تو زرد نا اتفاقی کی خُشک گھاس نے بھاگ کر آگ پکڑی۔
آناً فاناً ساری فیس بُک پر بکھرا عالمی ادبی جنگل بھڑ بھڑ جلنے لگا۔
مُجھے میری زنجیر نے یُوں جکڑ رکھا تھا کہ نکل بھاگنا نا مُمکن تھا۔
باقی جانوروں کا حال بھی ایسا ہی تھا۔
اور وُہ بے چاری مُعصُوم، بیاسی، نو آموز ادیبہ جنگل کے دھُواں دھُواں کنارے ہوش و حواس کھو کر، اپنے لمبے بال نوچتی ہُوئی چلا رہی تھی۔
“تو مارو نا پتھر مُجھے۔
“مُجرم تو ہُوں میں سب کی”
لیکن کوئی بچتا تو اُسے پتھر مارتا۔
٭٭٭