وہ کوئی اورخداکی مخلوق نہیں تھے، سٹی لائبریری کی تاریخی عمارت سے ذرادورنہرونگرکے چھونپڑپٹی علاقے کے قریب وہ غلاظت اورکچرے کاڈھیرجوروٹی کے ٹکڑوں،ہڈیوں، کٹے پھٹے، پھلوں، بچی کھچی سبزیوں، جھوٹی بوٹیوں، گوشت کے ریشوں،چھلکوں کاغذوں،ٹوٹی بوتلوں پرمشتمل تھامیں نے دیکھا، وہ دوتھے غلاظت کے اس ڈھیرمیں اپنے لئے چندنوالے تلاش کرتے ہوئے ، لاغرکمزوربدن بس یوں کہ استنخوانی ڈھانچے پرکھال منڈھ دی گئی ہوسوکھے مرجھائے چہرے ، پھیلتی، سکڑتی آنکھوں میں تجسس گردوغبارمیں اٹے بال پچکے ہوئے پیٹ ، چھیتھڑوں میں ملبوس مفلوک الحال ، ننگے میل خوردہ ، غلاظتوں سے سنے پاؤں’’صباء ر کوتو‘‘میں نے اپنی ہی دھن میں ٹوویہلرڈرائیوکرتی صباحت کا شانہ پکڑکر جھنجھوڑاتواس نے فوراًہی بریک لگادیئے ’’دیکھومیں نے ان لڑکوں کی جانب اشارہ کیا، اوہ ناٹ اگین مونا‘‘اس نے براسامنھ بنایا‘‘اپنی اے ریسرچ اسٹڈی کسی اوردن کے لئے اٹھارکھو‘‘مگراس کی سننتاکون ؟میں دبے پاؤں آگے بڑھی، دفعتہ ہواکا ایک زبردست جھونکاآیا، اورکچرکے ڈھیرسے اُٹھتی ہوئی بدبونے میرے حواس مختل کردیئے ، اُدھرجیسے ہی ان کی نظر مجھ پرپڑی وہ بھاگ کھڑے ۔ارے ‘‘میں بری طرح سٹپٹاگئی، ایک لمحہ ایک چھوٹا سالمحہ ، ایک تڑپتاکسمساتاہوالمحہ ، وہ لمحہ صدیوں پرمحیط ہوگیا، چلوچلتے ہیں، صبامیری پشت پرموجودتھی، وہ۔۔وہ توگئے میں اب بھی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلاتھی، ’’ارے وہ اسٹریٹ چلڈرن ہیں تم ان سے اورکسی Behaviour کی امیدرکھتی ہو‘‘اسٹریٹ چلڈرن ۔۔۔۔انسان ہی توہیں کوئی اورخداکی مخلوق تونہیں، پھرمجھے دیکھ کربھاگ کیوں کھڑے ، میں بہت کچھ سوچتے ہوئے چپ چاپ اپنے آپ میں گم ، صباحت کے ساتھ دوباراسکوٹر پرآبیٹھی یہ الجھی الجھی سڑکیں، یہ گلیاں، یہ شہریہ دوڑتے بھاگتے لوگ،یہ سماج کیایہ بچے اسی سماج کاحصہ ہیں، سوچنا پڑے گا۔
یہ موٹی موٹی کتابیں، اتنی ثقیل ، خشک، بورنگ، اکتائی سی بھرپورجمائی لیتے ہوئے جیسے ہی میری نگاہ اُٹھی، لائبریری کے بڑے سے گنبدپربیٹھے وہ کبوترجھٹٹائے، پھڑپھڑائے اوراڑتے ہوئے زمین تک آئے ، انہیں دانہ پانی کی تلاش تھی ، دفعتہ وہ دونوں مجھے یادآئے ، دل چاہاکہ انہیں دیکھوں میں نے کتابیں بندکردیں، لائبریری سے باہر آئی تودیکھاکچرے کے ڈھیرکوکسی نے دیاسلائی دکھادی ہے، وہ دھک دھک جل رہاہے اورآنچ کی لپیٹیں آسمان کو چھوتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں اوروہ ایک کنارے پرکھڑا گم سم ، خاموش، آنچ کی لپٹوں میں شاید اپنیں غذاکو جلتے دیکھ رہاتھا، شاید اس کاپیٹ جل رہاہو، وہ انتہائی کم سن تھا، یہی کوئی آٹھ نوسال مجھے قریب پاکرا س کی آنکھوں کی وحشت اوربھی گہری ہوگئی ’’ڈرونہیں، میں مسکرائی‘‘میں کوئی شیرنہیں جوتمہیں کھاجائے‘‘وہ میم ساب بھی یہی کہتی تھی ، مجھے رامونے بتایاہے‘‘وہ کون ۔۔۔؟ ۔۔۔اوریہ راموکون؟؟’’رامومیرادوست ہے، جسے وہ میم ساب بچہ گھرلے گئی ‘‘
بچہ گھر’’میں حیران ہوئی وہ سنا یہ کسی چلڈرن ہوم کی بات کررہاتھا ، اوروہ میم صاحب ضرور کوئی NGO سوشل ورکر رہی ہوگی جوراموکوبہاں سے لے گئی تھی، ناز اس کو Reabilitate کیاجاسکے۔
اوکے ، ڈرونہیں، میں نے اس کوپچکارا،میں تمہیں بچہ گھرنہیں لے جاؤں گی، اچھاتوکہوتمہارا کیانام ہے۔
’’راجووہ مری مری آواز میں بولا‘‘بڑاپیاراسانام ہے ، چاکلیٹ کھاؤگے‘‘میں نے اپنی بیگ سے چاکلیٹ نکال کراس کی جانب بڑھایا’’نہیں‘‘وہ سہم کربولا‘‘راموکہتاتھاوہ میم ساب اسی طرح چاکلیٹ دے کرپھسلاتی ہے‘‘اُف!!ایک سردسی آہ میرے سنے سے نکل گئی اس معصوم پرچلڈرن ہوم کی دہشت طاری تھی، جواتنی آسانی سے مٹنے والی نہ تھی، اچھاراجو یہ توکہواس گھرمیں ہوتاکیاہے‘‘؟
’’پٹائی ہوتی ہے ‘‘راموکہتاتھا کہ وہ اچھے لوگ نہیں‘‘شایدوہاں کاڈسپلن ان بچوں کی آزادی میں مخل ہوتاہوگا، تبھی تویہ ایساکہہ رہاہے میں نے بے اختیارسوچا اورگفتگو کاسلسلہ جاری رکھتے ہوئے اس سے پوچھا، یہ رامواب بھی بچہ گھرمیں ہی ہے‘‘
ارے نہیں، وہ جھٹ سے بولا‘‘وہ وہاں سے بھاگ آیاہے ، اب ہمارے ساتھ رہتاہے میں دیکھ رہی تھی گفتگو کے دوران اس کی للچائی نظریں مسلسل چاکلیٹ پرمرکوز ہیں شایدوہ بھوکا تھا، آگ تواس کی غذاجلاچکی تھی، لیکن اس کی بھوک ۔۔!!
میں وہ میم ساب نہیں ہوں راجو ، لوچاکلیٹ کھاؤ، میں تمہیں بچہ گھر نہیں لے جاؤں گی ، یہ دیکھومیری کتابیں میں پڑھتی ہوں ، ریسرچ کرتی ہوں، اس نے بے یقینی کے انداز میں مجھے دیکھا۔
ایک لمحہ ،ایک چھوٹا سالمحہ ایک تڑپتا کسمساتاہوا لمحہ ، وہ لمحہ صدیوں پر محیط ہوگیا۔۔
یہ کیا؟؟گنبدپربیٹھے سارے کبوترمیر ے اندرجھٹھٹانے لگے، پھڑپھڑانے لگے ، میں نے دیکھا وہ دونوں کچرے کے ڈھیرسے جانے کیاکچھ سمیٹ رہے تھے مجھے دیکھاتوبھاگ بھی نہ سکے ، ڈرونہیں‘‘انہیں عالم نزع میں دیکھا تومیں نے ڈھارس بندھائی‘‘تم اپنا کام کرسکتے ہو۔
وہ تیز ی سے اپنے ہاتھ چلانے لگے ، ان کے چہروں پرکچھ اسی قدر اضمحلال تھاکہ توبہ ’’کچھ کھاؤگے‘‘میں نے پوچھا’’نہیں بھوک نہیں‘‘ان میں سے ایک بولاتومیں حیرت زدہ رہ گئی۔ہم نے گٹکاکھایاہے، دوسرا بولاتومیردل دہل گیاتمباکوسے بھوک کا احساس تومٹ سکتاہے بھوک نہیں ،تمباکو کتنی خطرنا ک شئے ہے صحت کے لئے ، یہ بچے ، یہ سڑکوں پرآوارہ گھومنے پھرنے والے بچے کیایہ کوئی اورخداکی مخلوق تھے ’’یہ چاکلیٹ لو‘‘میں نے اپنی بیگ میں سے چاکلیٹ کا پییکٹ نکال کران کی جانب بڑھایا‘‘یقین جانومیں تمہیں بچہ گھر نہیں لے جاؤں گی، بچہ گھرسے میرا کوئی تعلق نہیں، میں پڑھتی ہوں یہ دیکھومیری موٹی موٹی کتابیں، میں توتم لوگوں کے بارے میں جاننے آئی ہوں۔
جان کرکیاکروگی ؟ ان میں سے ایک بولا تومیر سرپرآسمان آگرا۔
یہ ضخیم کتابیں ، یہ ریسرچ ورک ، یہ چلڈرن ہوم یہ Rehabilitation یہ حکومت کے قوانین، میں نے بے اختیارسوچا یہ سب ڈھکوسلے ہیں سچ تویہی ہے کہ یہ بچے اس سماج کا حصہ نہیں ہیں، واقعی میں ان کے بارے میں جا ن کر کیاکروں گی ، کل مجھے پی ، ایچ، ڈی ، ملے گی مگریہ بچے ، یہ کوئی اورخدا کی مخلوق تونہیں،۔۔۔۔۔پھران کاوجود ۔۔۔۔دفعتہ مجھے لگاگنبدپربیٹھے سارے کبوترجھٹپٹاتے ، پھڑپھڑاتے میرے اندراترنے لگے ہیں۔۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...