کوئی ایسی تھی نہ خطا میری
ہوئی ختم کیوں نہ سزا میری
جو سلوک مجھ سے کیا گیا
میری ہر گھڑی میں وہ آب ہے
جو نہ دھل سکے جو نہ مٹ سکے
میری زندگی میں وہ داغ ہے
اذیت سے ایلاف پتھر کی ہورہی تھی
اتنی بے عزتی!
اتنے گھٹیا الزام
کہ آسمان بھی نہ کانپا زمین بھی نہ پھٹی؟
کیوں حوا کی بیٹی کو رسوائیاں سمیٹنے تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے؟
ہاں مگر اس کا قصہ تھوڑا مختلف ہوگیا تھا اسے ایک رشتے کی ڈور میں باندھ کے دھتکار دیا گیا تھا۔ اس کا نکاح کر دیا گیا تھا۔
” اور کیا میں ساری زندگی اس شخص کے سامنے سر اٹھا سکوں گی؟ یہ تو میری رسوائیوں کا گواہ ہے۔” ایلاف نے اذیت سے سوچا۔
واپسی کا سفر ایک بار پھر شروع ہوچکا تھا راستے وہی تھے
لوگ وہی تھے
مگر
انداز بدل چکے تھے
حالات بدل چکے تھے
یہ گلیاں یہ چوبارے جن میں ایلاف سر اٹھا کے فخر سے چلتی تھی۔ آج اس کیلئے ذلت کا وہ پل صراط بن چکے تھے جو اذلان شاہ کے سنگ اس نے پار کیا تھا۔ اس کی عزت نفس پہ وہ وار ہوا تھا کہ ایلاف ایک زخمی ناگن کی مانند بلبلا کے رہ گئی تھی۔
گاڑی کے نزدیک پہنچنے پہ ہی اذلان شاہ کی خاموشی ٹوٹی تھی۔
” داد شاہ تم لوگ اب دوسری گاڑی میں بیٹھو اس میں صرف ہم سفر کریں گے۔” اذلان شاہ نے اسے محافظوں کی گاڑی میں بیٹھنے کو کہا تھا۔
جو بھی تھا حالات جیسے بھی تھے ان کے گھرانے کا یہ اصول تھا خواتین ہمیشہ پردے میں رہ کر سفر کرتیں تھیں اور محافظ ہمیشہ اس گاڑی کے پیچھے ہوتے تھے جس میں شاہوں کی بیوی بیٹیاں ہوتی تھیں اور ایلاف اس کی اب عزت تھی چاہے اس رشتے کی اہمیت کچے دھاگے سے بھی کمزور تھی۔
داد شاہ سر ہلاتا ہوا پیچھے جا چکا تھا۔ ایلاف خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ چکی تھی مگر اس کی روح سسک رہی تھی، چیخنا چاہتی تھی۔ وہ اذلان شاہ سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی اس کے دامن میں رسوائیوں کا حصہ دار وہ بھی تھا مگر وہ چپ تھی۔اذلان شاہ نے اگر اس کا مان رکھا تھا تو ایلاف بھی سر عام حساب کتاب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
گاڑی کسی مصروف شاہراہ پہ رکی تھی ایلاف جو چپ چاپ آنسو بہانے میں مشغول تھی۔ آنسو کسی صورت رکنے کا نام ہی نہ لیتے تھے ٹپ ٹپ آنسو چادر کی اوٹ سے ایلاف کی ہتھیلیوں کو گیلا کررہے تھے۔پہلو میں بیٹھا اذلان شاہ ناواقف تو نہ تھا۔وہ کوفت کا شکار ہورہا تھا اسے روتی دھوتیں لڑکیاں قطعا پسند نہ تھیں اور اس کے خیال میں اتنی مضبوط پناہ مل جانے کے بعد ایلاف کا واویلا بیکار ہی تھا۔
مگر اذلان شاہ کیا جانے؟
کہ جن کے پاس واحد دولت عزت کی ہے اور بیچ چوراہے پہ اس کی بولی لگا دی جائے تو اس کی اذیت وہی جان سکتا ہے جس پہ یہ گزرے۔
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی تو ایلاف کچھ چونکی۔ پتا نہیں کون سی سڑک تھی گاڑیوں اور لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ بے فکر ہنستے مسکراتے لوگ ایلاف کا دل چاہ رہا تھا۔
وہ ایک ایک کو روکے اور پوچھے دیکھو دیکھی تم نے ایسی دلہن جس کے جہیز میں بدنامیوں کے ٹوکرے اور بری میں یہ سیاہ چادر جو میرے وجود کو توڈھانپتی ہے مگر میری روح پہ بار ہے وہ لوگوں کو گزرتے دیکھ کےنہ جانے کیا کیا سوچتی رہتی ہے اور یہ سفر بھی تمام ہوا تھا۔
گاڑی ایک کشادہ علاقے میں بنے خوبصورت بنگلے کے سامنے رکی تھی۔ اذلان شاہ بنا کچھ کہے گاڑی سے اتر آیا تھا۔ ایلاف نے بھی اس کی تقلید کی تھی۔وہ تیز قدموں سے چل رہا تھا اور ایلاف اس کے پیچھے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی تھی۔
” کیا ساری زندگی میں ہمیشہ اس شخص کے پیچھے ہی چلتی رہوں گی ہم دریا کے دو کناروں کی طرح ساتھ تو چلیں گے مگر یہ سمندر سا شخص مجھ دریا سی لڑکی میں کبھی نہیں آملے گا۔” ایلاف مکمل احساس کمتری کی ذد میں تھی۔
کوٹھی باہر سے جتنی شاندار تھی اندر سے بھی وہ مکینوں کی اعلی پسند کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
” امیراں؟” اذلان شاہ نے آواز دی تھی۔
” حاضر پیر سائیں۔”وہ عورت جو یقینا امیراں تھی حاضر تھی۔
” ان بی بی کو سامنے والے کمرے میں لے جاؤ۔” اذلان شاہ نے دائیں طرف بنے کمروں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا۔
” بی بی پروہنی(مہمان) نہیں۔ ” امیراں اشتیاق سے بولی۔اگر مہمان ہوتی تو لازمی گیسٹ روم کی طرف اسے لے جانے کا حکم ملتا۔
” جتنا کہا جا رہا ہے اتنا کرو امیراں۔یہ جو بھی ہے تمہارا درد سر نہیں۔” اذلان شاہ برہمی سے بولا۔
” تو تم میری حیثیت کا تعین نہیں کروگے اور کروگے بھی کیوں؟ میں تمہاری طرح اونچے شملے والوں کی بیٹی نہیں ہوں نا۔تم بھی عام نکلے۔ سوچ رہے ہوگے کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھؤوگے، تو بھول ہے تمہاری ایلاف محبوب اتنی بھی سستی نہیں۔” ایلاف نے تلخی سے سوچا تھا۔
اسے یہ تو معلوم تھا کہ اذلان شاہ اور اس کا رشتہ اتنی آسانی سے نہ نبھے گا مگر وہ تو اس رشتہ کا اقرار ہی نہ کر رہا تھا ایلاف کی عزت نفس کو ایک ٹھیس اور لگی تھی۔
وہ بھاری قدموں سے امیراں کے ساتھ چل پڑی تھی۔
*****
” تسی کون ہو جی؟پہلے تو نہیں دیکھا آپ کو۔” امیراں کو کھد بد لگی تھی۔
” یہ سوال جا کے اپنے صاحب سے پوچھو۔میں یہاں تمہارا سوالنامہ حل کرنے نہیں آئی۔ ” ایلاف برہمی سے بولی۔
امیراں نے غور سے اسے دیکھا۔
سیاہ چادر لپیٹے اس نے گھریلو لباس کے بجائے کالج کا یونیفارم پہن رکھا تھا اور چادر بھی اذلان شاہ کی تھی۔ امیراں اس لئے تجسس میں پڑ گئی تھی مگر دونوں طرف سے اسے پھٹکار ہی ملی تو منہ بناتے ہوئے وہ چلی گئی تھی۔
ایلاف نے دیکھا وائٹ اور بلیو اسکیم سے سجا سادہ مگر آرام دہ کمرہ تھا۔ ڈبل بیڈ جس پہ بلیو بیڈ شیٹ تھی۔ دائیں طرف الماری تھی بائیں جانب کھڑکی تھی جس کی طرف صوفہ سیٹ رکھا تھا ایلاف تھکے تھکے انداز میں بیڈ پہ گر گئی تھی۔
بارہ بجنے کو تھے اور ایلاف صبح کے ناشتے پہ تھی۔ رو رو کے سر الگ درد سے پھٹا جارہا تھا،اوپر سے یہ احساس ہی اس کی جان نہیں چھوڑ رہا تھا کہ وہ کسی کے سر پہ زبردستی مسلط کر دی گئی ہے کسی اور کی خطاؤں کا خمیازہ وہ بھگت رہی تھی۔
“سرکار! کھانا لاؤں؟” امیراں اذلان شاہ کے کمرے میں جا کے اس سے پوچھ رہی تھی جو آرام کرسی پہ بیٹھا اپنی کنپٹیاں ہولے ہولے دبا رہا تھا۔
” یہ کونسا کھانے کا وقت ہے؟ایسا کرو مجھے کافی دے دو ساتھ میں پین کلر بھی۔” اذلان شاہ کھانے سے انکار کرتے ہوئے بولا۔
” لو تو یہ کافی کا بھی کونسا ٹیم ہے۔ ” امیراں بڑبڑائی پھر اونچی آواز میں بولی۔
” خیر سے ڈنر کر کے آئے ہیں ان بی بی کے ساتھ انہیں بھی دے دوں کافی۔”
کرسی پہ جھولتا اذلان شاہ ساکت ہوگیا تھا۔
” اوہ شٹ!سنو امیراں کھانا لے جاؤ اس کیلئے۔ایک تو یہ پتا نہیں کونسا امتحان ہے۔” اذلان شاہ بیک وقت متضاد کیفیت کا شکار تھا۔ کبھی ایلاف سے ہمدردی محسوس ہوتی اور اس سسٹم سے چڑ ہوتی نہ یہ فرسودہ روایات ہوتیں اور نہ سطحی سوچ تو خواہ مخوا میں ایلاف کو اس کے سر نہ تھوپا جاتا،اور کبھی اسے ایلاف پہ غصہ آتا کیا ضرورت تھی اسے کسی کی مدد کرنے کی نہ کرتی آج کے دور میں کون کسی کو پوچھتا ہے۔
” اچھا جی!” امیراں سر ہلاتی ہوئی مڑ گئی تھی۔
کھانا لے کے کمرے میں گئی تو ایلاف اوندھے منہ بستر پہ گری تھی۔چادر پھیلا رکھی تھی حالانکہ کمبل سرہانے ہی رکھا ہوا تھا۔
” بی بی! کھانا کھا لو۔ ” امیراں اس کا شانہ ہلاتے ہوئے بولی۔
” کھانا؟” ایلاف بڑبڑائی۔
” جی کھانا کھاؤ۔” امیراں کو وہ کسی اور ہی سیارے کی مخلوق لگ رہی تھی جو کھانے کے نام پہ حیران تھی۔
ایلاف بمشکل اٹھی تھی گو کہ دل نہیں چاہ رہا تھا مگر روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے پیٹ کا جہنم بھرنا بھی تو ضروری تھا۔
وہ کھانا کھا کے فارغ ہوئی تھی تو امیراں برتن لے گئی تھی چائے کا پوچھا تو اس نے ساتھ میں گولی بھی مانگ لی تھی۔
” کونسے درد لگے ہیں ان دونوں کو جو گولی مانگ رہے ہیں؟ ” امیراں حیرانگی سے سوچ رہی تھی۔
” تم سے بھی حساب کتاب کرنے ہیں اذلان شاہ۔تمہیں اپنا وکیل بنایا تھا اور تم اتنی آسانی سے ہار گئے۔ سارے فساد کی جڑ تمہارا خاندان ہے۔” ایلاف کے جسم میں کچھ توانائی آئی تو دماغ بھی چلنے لگا۔
گھڑی دیکھی رات کا ایک بجنے والا تھا اور آج ایلاف کی ساری نمازیں قضا ہوچکیں تھیں علاوہ فجر کے۔
باتھ روم جا کے وضو کیا اور ساری نمازیں ادا کیں تھیں۔ آخری سلام میں اسے لگا تھا کہ کوئی کمرے میں داخل ہوا ہے شاید وہی ملازمہ ہو۔ ایلاف نے اپنا دھیان نماز میں لگایا۔ آج کے دن تو کچھ بھی اچھا نہیں ہوا تھا کبھی نماز قضا نہیں ہوئی تھی اور آج یکمشت ساری۔
” میرے مالک میں نہیں جانتی مجھے اس آزمائش میں آپ نے کیوں ڈالا؟میں ہمیشہ آپ کی رضا میں راضی رہی کبھی شکوہ نہ کیا پھر کیوں میرے ساتھ ایسا ہوا ایک اپنے کردار کا وقار ہی تو مانگتی تھی.” ایلاف دعا نہیں شکوہ کر رہی تھی، آخر کو آدم ذاد تھی۔
ہر آزمائش ہمیں پہاڑ سی لگتی ہے جب کہ یہ حقیقت ہے کہ بلندی پہاڑوں پہ چڑھے بغیر نہیں ملتی۔ کتنی عجیب فطرت ہے انسان کی ہم سیراب بھی ہونا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ بارش ہمیں نہ بھگوئے۔
سمندر کی نمکینیت چکھے بغیر سیپ میں چھپے موتی ملا نہیں کرتے مگر ہائے انسان ہم ہیں نادان۔
ایلاف جائے نمازتہہ کر کے اٹھی تو سامنے اذلان شاہ کو موجود دیکھ کے ساکت رہ گئی۔
“یہ یہاں اس وقت!، کیا لینے آئے ہی ” ایلاف حیران سی ہوئی۔
”آپ!” ایلاف نے اتنا ہی کہا۔
” ہاں ایلاف! ہم کچھ باتیں کرنی ہیں تم سے۔ ” اذلان شاہ بہت سنجیدہ تھا۔
” کیا بات کرنی ہے؟ اب بات کرنے کو رہ کیا گیا ہے جب آپ سے بات کرنے کو کہا تب تو آپ کر نہ سکے اب کیا بات کریں گے آپ؟” ایلاف طنزیہ بولی۔
” ایلاف بی بی وہ لوگ آپ کی نہیں سن رہے تھے آپ کے ہو کے تو ہم تو پھر باہر کے آدمی تھے ہماری کیا حیثیت تھی ان کے سامنے۔” اذلان شاہ سنجیدگی سے گویا ہوئے۔
” حیثیت!ساری بات اس حیثیت کی ہی تو ہے پیر صاحب۔ آپ اونچے شملے والے کچھ بھی کرتے پھریں ،آپ پھر بھی اعلی کردار مگر ہم بے چارے مارے جاتے ہیں۔ کاش! آپ لوگ اپنی اولادوں کو دولت کی فروانی دینے کے ساتھ عزت کے مفہوم بھی سمجھا پاتے۔” ایلاف کے ایک لفظ لفظ میں تلخی تھی۔
” کہنا کیا چاہ رہی ہیں آپ؟ ہم نے ماناکہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی مگر اس کا ازالہ ہوچکا ہے ایلاف بی بی ۔” اذلان شاہ تنفر سے بولا۔
بیٹھے بٹھائے چھ فٹ کا ذی حیثیت مرد اسے مل چکا تھا پھر بھی اس کا نخرہ کم نہیں ہورہا تھا۔
” مطلب یہ پیر صاحب اپنی نسلوں کو یہ سبق بھی پڑھایا کریں کہ عزتیں سب کی سانجھیں ہوتی ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنی عورتیں پردیں میں رکھیں اور دوسروں کی چادریں چاک کرتے پھریں۔ یا پھر یہ آپ لوگوں کی فطرت ہے منہ چھپا کے ڈاکے ڈالنا۔ ” ایلاف کی ساری کھولن باہر نکل رہی تھی۔اس کے الفاظ نے اذلان شاہ کا دماغ گھما دیا تھا۔
” کیا بکواس ہے منہ سنبھال کے مخاطب ہوئیے ہم سے، ہم اس لہجے کے عادی نہیں ہیں۔آپ کو اپنے نام کی چھاؤں دی۔آپ کو ہمارا شکر گزار ہونا چاہئے۔ الٹا آپ ہمیں بھی رگید رہی ہیں۔” اذلان شاہ برہمی سے اس کے کندھوں پہ اپنی انگلیوں کا دباؤ ڈالتے ہوئے بولا ۔
” کیوں نہ رگیدوں میں آپ کو؟آپ کا فرض ہے نا یہ کہ اپنے چھوٹوں پہ نظر رکھیں آپ کو گدی پہ دوسروں کے عیبوں پہ پردہ ڈالنے کیلئے نہیں ان کی اصلاح کیلئے بٹھایا گیا ہے،مگر آپ کسی کی کیا اصلاح کریں گے جو اپنے گھر والوں کو ہی نہ کچھ سکھا سکا وہ کسی اور کو کیا سکھائے گا۔ ” ایلاف تکلیف سی چیخی۔
“جسٹ شٹ اپ!یو سلی گرل۔تم اس قابل ہی نہیں تھیں کہ تمہیں ہم اپناتے۔ تمہارے لئے وہ قادر بخش ہی ٹھیک تھا۔” اذلان شاہ نے اسے جھٹکے سے چھوڑا تو وہ سیدھی بیڈ کے کنارے پہ گری تھی۔
” میں کس کے قابل ہوں یا نہیں یہ مسئلہ میرا تھا۔ آپ جائیے جا کے اپنا گھر سدھارئیے ورنہ کس کس کو اپنے نام کی پناہ دیتے رہیں گے یا پھر آپ لوگوں کا کام ہی یہی ہے۔ ایک کرتا ہے دوسرا اس کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ ” ایلاف چٹخ کے بولی۔
اچھا ہے انہیں بھی تو پتا چلے کہ جب کسی کی کردار کی دھجیاں کوئی خطا نہ ہونے کے باوجود اڑائی جاتیں ہیں تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔ اس وقت ایلاف کے دماغ میں یہی تھا۔
“تم!کیا چاہ رہی ہیں ہاں!جتنا آپ مجھے کہہ رہی ہیں۔ یہ میری شرافت ہے کہ ہم کچھ کہہ نہیں رہے اور نہ کر رہے ہیں۔آپ کیلئے بہتر ہوگا کہ آپ چپ کرجائیں۔”اذلان شاہ نے اس پل اسے اندر تک اتر جانے والی نگاہوں سے دیکھا تھا۔
ایلاف کے اندر ایک عجیب سی ہلچل مچی۔
“یہ آدمی!کچھ بھی کرسکتا تھا۔”
” رائی ہوتی ہے تو پہاڑ بنتا ہے۔ اس قصے میں آپ بھی قصور وار ہیں۔جب آپ کو اپنی کزن کے کرتوت معلوم تھے تو آپ نے بتایا کیوں نہیں اپنے ماموں کو۔اس حساب سے تو آپ نے بھی پردہ پوشی کی پھر تو ہم دونوں کا حساب برابر ہوا۔تو واویلا کیوں ایلاف بیگم؟” اذلان شاہ کی شہد رنگ آنکھیں اس وقت لہو میں ڈوبی ہوئیں تھی جنہیں وہ ایلاف کی سبز آنکھوں میں گاڑ کے بول رہا تھا کمال ضبط کے ساتھ۔
” واہ! کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری۔بہت خوب اور تبھی آپ اس رشتے کی بھنک کسی کو لگنے نہیں دے رہے۔یہ مداوا کیا ہے آپ نے اس ذیادتی کا۔کیوں چھپا رہے ہیں اس رشتے کو؟کیا حیثیت ہے میری اس پورے منظر نامے میں۔پیر خرم شاہ کا دامن تو بالکل کورا ہے اور آپ!’آپ کو تو کھلونا مل گیا ہے میری شکل میں مگر یاد رکھیں میں ایلاف ہوں۔اتنی آسانی سے حاصل نہیں کرسکتے آپ مجھے۔” ایلاف سے جب جواب نہ بن پڑا تو جو منہ میں آیا بولتی چلی گئی۔
احساس تب ہوا جب اذلان شاہ کے فولادی حصار کا اندازہ ہوا۔
” آپ کو کیا لگتا ہے حاصل کرنا عورت کو بہت مشکل ہے۔اونہوں! قطعا نہیں بلکہ یہ تو سب سے آسان کام ہوتا ہے مردوں کیلئے۔آپ کو کیوں یہ خوش فہمی لاحق ہوئی کہ اذلان شاہ کو آپ کے قرب کی چاہ ہوگی۔ ہاں!وہ بھی اس عورت کی جو اتنے سارے سوالیہ نشانات کے سامنے ہمارے پہلو میں ہے۔ ابھی تو ہم آپ کی حیثیت کا تعین اپنی زندگی میں نہیں کرپائے کجا کہ آپ کے ساتھ جسم و جان کا رشتہ۔ ایسے ہی پہلو آباد کرنا ہوتا تو بہت ملتی ہیں مگر اذلان شاہ کا معیار یہ نہیں اس لئے آئندہ محتاط رہئیے گا ورنہ سارے خسارے آپ ہی کے حصے میں آئیں گے۔” اپنی گرفت میں اسے جکڑے اس نے ایلاف کو اچھی طرح اس کا مقام باور کروا دیا تھا۔
ایلاف نے جھٹکے سے اس کا حصار توڑا تھا ایک اور وار اس کی خودداری پر۔
” ارے پیر صاحب جائیں!پستیوں میں جو آپ کا چہرہ دیکھ چکا ہو اسے اپنے معیار کی بلند یوں کی کہانی نہ سنائیں۔ایلاف محبوب ہوں میں،کبھی مر کے بھی ایسے شخص کی چاہ نہیں کرسکتی۔آپ کے احسانوں کی ضرورت نہیں مجھے۔ ” ایلاف تنفر بھرے لہجے میں بولی تھی۔
کیا سمجھ رہا تھا یہ شخص اسے؟
” آپ کو ہم نے اپنے نام کی پناہ دی ہے۔یہ یاد رکھیں،ہمیں کوئی شوق نہیں آپ کو اپنے سر پہ مسلط کرنے کا،نہیں رہنا چاہتیں یہاں تو بتا دیں۔آپ آزاد ہیں، جہاں جانا چاہیں چلی جائیں۔ ہمارا نام اتنا بے مول نہیں کہ ہر کوئی راہ میں لے کے گھومے۔ ” اذلان شاہ نے بھی اینٹ کا جواب پھتر سے دیا تھا اور کمرے کا دروازہ کھول کے باہر نکل گیا تھا۔
” یہ عورتیں مجھے پاگل کردیں گی۔سچ ہے مرد کو مرد ہی نہیں رہنے دیتیں۔” اذلان شاہ آج برسوں بعد اتنے طیش میں آیا تھا۔
کیا سمجھ رہی تھی ایلاف وہ بیوقوف جس کی مدد کی اب وہ اپنی نیکی کا خراج وصول کرنے آیا ہے رات کے اس پہر۔
وہ ملازموں کے سامنے کوئی تماشہ نہیں چاہتا تھا۔ جانتا تھا ایلاف ایسا ہی ردعمل دے گی مگر ایلاف! اس کی باتوں نے اذلان شاہ جیسے متحمل مزاج آدمی کو غصے کی گہرائیوں میں اتار دیا تھا۔ اگر وہ تھوڑی دیر اور وہاں رہتا تو یقینا ایلاف کی جان آج مشکل میں پڑ جاتی ۔
” رمضان!’ رمضان!” سرونٹ کوارٹر کی طرف جاتے ہوئے اذلان نے ڈرائیور کو پکارا۔
” جی!جی سائییں۔” ڈرائیور بے چارا آنکھیں مسلتا ہوا نیند سے اٹھتے ہوئے آیا تھا۔
” گاڑی تیار کرو فورا جاگیر جانا ہے۔پانچ منٹ میں!” اذلان شاہ نے حکم دیا تھا۔
اور تھوڑی دیر بعد گھر سے نکل گیا تھا۔
پیچھے ایلاف بچی تھی اس کا صدمے سے برا حال ہورہا تھا۔
” کیا سمجھتے ہیں یہ مرد اپنے آپ کو۔کیا سمجھا اس نے مجھے کہ میں چاہوں تو کسی کے پاس بھی چلی جاؤں۔یا خدایا پناہ دینے والے بھی ایسی باتیں کرتے ہیں۔یہ بھی میرے کردار پہ شک کر رہا ہے۔خدایا موت دے دے مجھے۔نہیں جینا مجھے،خودکشی حرام رکھی ہے تو موت آسان کردے۔مجھے موت دے دے مالک۔” ایلاف مایوسیوں کی انتہا پہ تھی۔
یہ سوچے بغیر کے یہ سب اس کی زبان کے صدقے ہی اسے یہ سب سننے کو ملا تھا۔
سردیوں کی نرم چمکیلی سنہری دھوپ حویلی کے اونچے میناروں سے اس لمبے چوڑے صحن میں جھانک رہی تھی جہاں بہت سی ملازمائیں اپنے اپنے حصے کے کاموں میں مصروف تھیں تو کچھ ان کی نگرانی میں۔
” نی رجو!ساری گاجریں کش کرلیں یا ٹپے ہی گائی جا رہی ہے۔” وہ ایک باوقار سرخ و سفید چہرے والی خاتون تھیں۔اس پیروں کی حویلی میں ان کا سکہ چلتا تھا۔
اس عورت کی آنکھیں شہد رنگ تھیں یہ پیر اذلان شاہ کی ماں تھیں۔
” آہو!بی بی تساں فکر ہی نہ کرو۔ ” رجو جلدی سے بولی۔
” اچھا!اچھا جلدی اب ان کو چڑھا اور سن گھی ذرا کم ہی رکھنا بلکہ تانیہ او تانیہ پتر تو اپنی نگرانی میں گاجر کا حلوہ تیار کروانا۔گھی ذرا کم ہی رکھنا۔پتا تو ہے نا بنین کو ڈاکٹروں نے منع کر رکھا ہے۔” انہوں نے ساتھ میں ایک طرف چارپائی پہ بیٹھ کے دھوپ سینک کر کینو کھاتی تانیہ کو مخاطب کیا۔
تانیہ جھنجھلا کے رہ گئی مگر ساس کے سامنے دم مارنے کی مجال کہاں تھیں اس کی۔
” ہوں!کونسا انوکھا بچہ پیدا کر رہی ہے یہ بنین۔ اس کی وجہ سے سب کی جان عذاب میں آئی رہتی ہے۔” تانیہ نے ناگواری سے سوچا۔
بنین اس کی جھٹانی تھی۔پیر اذلان شاہ کی ماں کو سب شاہ بیگم کہتے تھے۔ عورتوں کیلئے ان کا دم بڑا غنیمت تھا۔بڑی دبنگ قسم کی خاتون تھیں صحیح اور غلط کی مکمل پہچان رکھتیں تھیں۔مظلوموں کی مکمل حمایت کرتیں اور نا انصافی کرنے والوں کیلئے سزا کا فیصلہ ہوتا تھا، سو اگر پیر اذلان شاہ میں بھی یہ سب جملہ خصائل تھے تو اس میں کچھ ایسا حیران کن بھی نہ تھا۔
اولاد ماں باپ کا ہی پرتو ہوتی ہے اور پھر پیر اذلان شاہ ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔گوہر شاہ کے پیدا ہونے کے سات سال بعد وہ پیدا ہوا تھا اس کے بعد کمال شاہ اور احمد شاہ تھے جو انسیت اور جو محبت اپنی اولادوں میں سے ان کو اذلان سے تھی وہ کسی اور سے نہ تھی۔
وہ تھا بھی تو ایسا
ایماندار ,ملنسار اور مضبوط کردار
ان کی ہر بات ماننے والا
اگر کچھ اختلاف رکھتا بھی تھا تو اپنی رائے اتنے سلیقے اور طریقے سے دیتا کہ لچک پیدا ہوجاتی تھی۔اسے اپنی بات منوانے کا فن آتا تھا مگر پھر بھی زندگی میں ایک مقام ایسا آتا ہے کہ انسان کو اپنی فطرت کے برعکس چلنا پڑتا ہے۔ اذلان شاہ بھی چلا تھا اور کیا خوب چلا تھا۔ ایک زمانہ گواہ تھا
اپنی اسی تابعداری کی بدولت وہ خاندانی دستار اور گدی کا وارث ٹھہرا تھا۔
“شاہ بی بی میں نے سنا ہے پیر اذلان شاہ آج پھر سویرے سویرے جاگیر آئے ہیں۔خیر تو ہے!” رجو کی زبان میں کھجلی ہوئی۔
” مرد ذات ہے خیر سے ذمہ دار ہے.سو کام ہوتے ہیں اس کی اپنی جاگیر ہے۔سو دفعہ آئے دن میں تجھے کیا تکلیف پڑی ہے۔” شاہ بی بی کو اس کی ٹوہ لینے والی عادت سے چڑ تھی،ہر وقت سی آئی ڈی بنی رہتی تھی۔
اسے تو انہوں نے چپ کرادیا تھا مگر اندر ہی اندر وہ پریشان ہوگئیں تھیں۔وہ جب بھی جاگیر آتا تھا۔انہیں اپنی آمد کی اطلاع ضرور بھجواتا تھا۔بھلے ملنے بعد میں آتا اور ابھی کل ہی تو گیا تھا بظاہر کوئی ایسا مسئلہ بھی نہ تھا کہ اسے اتنی جلدی لوٹنا پڑے۔
” ناں رجو تجھے کس نے بتایا؟” تانیہ بھی الرٹ ہوئی تھی۔
” لو بی بی کرلو گل۔وہ ہے نا داد شاہ پیر جی کا چمچہ اسے دیکھا تھا صبح ڈیرے کی طرف اور پھر گاڑی بھی دیکھی تھی ان کی۔” رجو کی رپورٹ مکمل تھی۔
” کیا بات ہوسکتی ہے؟الہی میرے بچے پہ رحم کرنا۔” بی بی شاہ متفکر سی دعا کر رہی تھیں۔
______________________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...