خچروں، گھوڑوں، رکشاؤں اور ڈانڈیوں پر سوار انگریز صاحب اور میم اور بابا لوگ بازار کے اس پل پر سے دن بھر گذرا کرتے ہیں شام کو ہندوستانی امنڈ آتے ہیں۔ تیز تیز چلتے ڈھلان اترتے یا چڑھتے ہانپتے کانپتے انسانوں کا ریلا جوار بھاٹا معلوم ہوتا ہے۔ سنیما گھروں میں ایستھر ولیمز، جون فونٹین اور نورجہاں اور خورشید کی پکچریں چل رہی ہیں۔ رنک میں اسکیٹنگ جاری ہے۔ ابھی سوائے کے بال روم میں اینگلو انڈین کرونر اور اس کے ساتھی
Enjoy Yourself It’s Later Than You Think
گانا شروع کریں گے۔ ڈرم پر چوٹ پڑے گی۔ مہاراجہ اور مہارانی لوگ اور نواب لوگ اور بڑا صاحب اور بڑی میم لوگ ڈینس بنائے گا۔ اس وقت جب سارا مسوری تفریح میں مصروف ہوتا ہے ایک غریب آدمی بازار کے اس پل پر چپ سادھے کھڑا نظر آتا ہے۔۔۔۔
کبرا کھڑا بازار میں مانگے سب کی خیر۔
شکستہ خاکی کوٹ اور کنٹوپ پہنے یہ آدمی حلیے سے بے روزگار مہتر معلوم ہوتا ہے۔ ایک انگریز بچی گود میں اٹھائے بازار میں آ نکلتا ہے۔ جھٹ پٹے کے وقت چپ چاپ کھڑا رہتا ہے یا پل کی منڈیر پر بیٹھ جاتا ہے۔
یہ فضل مسیح جمعدار کسی ’’صاحب‘‘ کی بچی کھلاتا ہے تو اتنا مسکین اور پھٹے حال کیوں؟ تعجب!
یہ فضل مسیح فاترالعقل بھی معلوم ہوتا ہے۔ زار شاہی روس میں اس قسم کے لوگوں کو Holy Fool کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں مجذوب۔ پتہ نہیں یہ بے چارہ مجذوب ہے یا محض پیدائشی احمق۔ بہرحال زیادہ تر وہ بالکل خاموش رہتا ہے۔ سنہرے گھنگھریالے بالوں والی بچی اتنی خوب صورت ہے کہ اکثر راہ گیر ٹھٹھک کر اسے دیکھنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات بابو لوگ کھیسیں نکال کر ’’گڈ ایوننگ مسی بابا‘‘ بھی عرض کرتے ہیں۔
مسوری میں نو وارد انگریز بھی اسے مسکرا کر دیکھتے ہیں لیکن مقامی انگریز اسے نظر انداز کرتے ہوئے پاس سے گذر جاتے ہیں۔ ڈیڑھ سالہ بچی فضل مسیح کی گود میں یا کندھے پر بیٹھی ہنستی یا روتی یا اپنے ٹیڈی بیئر یا لولی پوپ میں مشغول رہتی ہے۔ فضل مسیح سامنے ہمالیہ کو تکا کرتا ہے جس کے ادھر ان دیکھی ’’پھولوں کی وادی‘‘ ہے۔ اندھیرا پڑے وہ بچی کو کندھے پر بٹھال کر سر جھکائے ونسنٹ ہل کی طرف چل پڑتا ہے۔
محض ایک مرتبہ ایک لکھنوی راہ گیر نے ٹھٹھک پر پوچھا تھا۔ ’’اماں یہ کس کی بچی ہے؟‘‘
تو اس نے جھنجھلا کر جواب دیا تھا ’’میری بھانجی ہے صاحب۔‘‘
’’میاں ہندوستان کا اینگلو انڈین طبقہ کیا آسمان سے گرا تھا؟ اسی طرح وجود میں آیا ہے۔‘‘ دوسرے راہگیر نے قہقہہ لگا کر کہا تھا۔ شاید وہ قہقہہ بھی فضل مسیح کے کانوں میں گونجا کرتا ہے۔ مگر وہ کچھ بولتا نہیں۔ سر جھکائے لڑکی کو کندھے پر بٹھالے ونسنٹ ہل کی چڑھائی چڑھنے لگتا ہے۔
ونسنٹ ہل کی مقامی آبادی کو معلوم ہے کہ کٹو آیا اس حسین سفید فام بچی کی ماں ہے اور فوجی بینڈ میں ڈرم بجانے والا ایک گورا اس کا باپ تھا۔ اور بچی کو رچمنڈز گیسٹ ہاؤس کی انگریز مالکن مس سیلیا رچمنڈ پال رہی ہے۔ کٹو مس صاحب کی آیا ہے۔ ضلع گورکھپور کی رہنے والی سانولی سلونی طرح دار مہترانی۔ اس کے ماں باپ کو مس سیلیا کے مشنری باپ نے عیسائی کر لیا تھا۔ اس کا اصلی نام مارتھا ہے۔ مگر وہ گلہری کی سی پھرتی کے ساتھ پہاڑیاں چڑھتی اترتی ہے اس لیے کٹو کہلاتی ہے۔
مس رچمنڈ نے یہ گیسٹ ہاؤس اپنے چچا سے ترکے میں حاصل کیا ہے۔ سارا رچمنڈ خاندان یہیں مسوری کے انگریزی قبرستان میں دفن ہے۔ مس رچمنڈ کی زندگی یہ مہمان سرائے چلاتے گذر گئی۔ حالات نے ان کو غصیلا بنا دیا ہے۔ وہ ٹیٹری کی طرح چلاتی ہیں اس لیے ونسنٹ ہل کے نوکر چاکر اور قلی ان کو چُنچُنیا (چُن چُن یا) میم کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
رچمنڈز دوسرے درجے کا ’’یوروپینز اونلی‘‘ گیسٹ ہاؤس ہے جس میں معمولی حیثیت کے انگریز، غریب سفید فام مشنری یا گوری رنگت کے یوریشین آ کر ٹھہرتے ہیں۔ مس رچمنڈ اپنی عقابی نظر سے بھانپ لیتی ہیں کہ کس میں کتنے فیصد ولایتی خون ہے۔ ذرا بھی سانولے اینگلو انڈین کو کٹو آیا کے ذریعے کہلوا دیتی ہیں کہ جگہ خالی نہیں۔
یہ دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں کی بات ہے۔ رچمنڈز گیسٹ ہاؤس میں ایک نوجوان گورا ٹامی آ کر ٹکا۔ وہ بیمار رہ چکا تھا اور دوماہ کی چھٹی پر آرام کی غرض سے مسوری آیا تھا۔ (دوران جنگ میں محب الوطن مس سیلیا رچمنڈ نے اپنی مہمان سرائے انگریز سپاہیوں کے لیے حکومت کو پیش کر رکھی تھی) گورا ٹامی کارپورل آرتھر بولٹن جنگ سے قبل لندن کے ایک معمولی ریسٹوران کے آرکسٹرا میں ڈرم بجاتا تھا۔ چاہتا وہ بھی یہی تھا کہ دنیا کے مشہور سازندوں میں اس کا شمار ہو مگر بہت سے فن کاروں کی طرح بہتر مواقع کے فقدان نے اسے بھی گمنام اور مفلس رکھا تھا۔ جنگ چھڑنے پر وہ فوج میں ڈرمر (Drummer) بھرتی ہو کر انڈیا آ گیا تھا۔
انڈین آرمی کے دوسرے انگریز سپاہیوں کے مانند اسے بھی رومن اردو سکھائی گئی تھی۔ لیکن وہ ہندوستانی موسیقی بھی بڑے شوق سے سنتا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ آرتھر بولٹن عام گوروں سے مختلف ایک غیر معمولی قسم کا گورا ٹامی۔ لیکن چونکہ وہ ایک اہم صاحب بہادر نہیں تھا کہ سوائے ہوٹل میں آ کر ٹھہرے وہ محض بے چاری چنچنیا میم کا مہمان تھا۔
دن بھر وہ پہاڑیوں پر گھومتا یا پوئیٹری لکھتا۔ کٹو آیا سے اس کی سریلی آواز میں کجریاں سنتا اور تال دیتا جاتا۔ کبھی کٹو آیا اپنا گھیر دار سفید لہنگا گھماتی، کنجیوں کا گچھا چھنکا کر ٹھنکی لگاتی ’’مرجا پور میں اورن ٹھورن کاشی ہمارو گھاٹ‘‘ تو آرتھر بچوں کی طرح خوش ہو کر تالی بجاتا اور اس کے ساتھ ناچنے لگتا۔ اسے کٹو آیا بہت اچھی لگتی تھی اور اس کے باؤلے بھائی فضل مسیح سے بھی اس کی گہری چھنی۔ وہ دونوں صبح صبح باہر نکل جاتے اور وادیوں میں پھرتے اور پہاڑوں پر تیرتے کہرے کو گھورا کرتے۔ اس دھندلکے کے پیچھے کیا ہے؟
(۲)
میرٹھ چھاؤنی واپس جاتے وقت آرتھر بولٹن نے کہا تھا ’’میں سچ بولنے کا عادی ہوں اس وجہ سے ہمیشہ گھاٹے میں رہتا ہوں۔ ہماری رجمنٹ شاید جرمنی جانے والی ہے۔ اور وہاں گھمسان کارن پڑ رہ ہے۔ اس لیے میں شاید تم لوگوں کو خط نہ لکھ سکوں یا اگر ایک بار لکھوں بھی تو اس کے بعد نہ لکھوں۔ میں خط و کتابت کے معاملے میں بہت کاہل ہوں اور خطوں میں لکھا ہی کیا جا سکتا ہے؟‘‘ لیکن ضابطے کے مطابق میرٹھ چھاؤنی واپس جا کر اس نے مس رچمنڈ کو شکریے کا نوٹ بھیجا تھا جس میں کٹو اور فضل مسیح کو سلام لکھا تھا اور یہ بھی کہ وہ چند روز بعد یوروپ کے محاذ پر جا رہا ہے۔ جب بے چاری کٹو کے ہاں آرتھر بولٹن کی ہم شکل سو فیصدی گوری بچی پیدا ہوئی تو خلاف توقع مس رچمنڈ نے کٹو سے کوئی باز پرس نہیں کی۔ انہیں معلوم تھا کہ کٹو آوارہ نہیں۔ یوں بھی وہ ان کی وفا دار خانہ زاد ملازمہ تھی۔
لڑکی کی پیدائش سے مس رچمنڈ کو اپنی ویران زندگی کچھ بھری بھری سی دکھائی دینے لگی۔ اکثر وہ سوچا کرتی تھیں کہ وہ اس گیسٹ ہاؤس کے لیے کیوں جان کھپاتی ہیں، کس کے لیے پیسہ جوڑتی ہیں۔ اب یہ پیاری بچی خدا نے ان کے لیے بھیج دی تھی۔
مس رچمنڈ کو خیالی پلاؤ پکانے اور تھیٹر جانے کا شوق بھی تھا۔ یوں بھی وہ عام مڈل کلاس انگریز عورتوں کی طرح بڑی زبردست اسنوب (Snob) تھیں۔ انہوں نے گیسٹ ہاؤس میں آنے والے مہمانوں کو سنانے کے لیے اس بچی کے متعلق ایک افسانہ تراشا۔
’’اس کے باپ کرنل آرتھر بولٹن برلن کے محاذ پر لاپتہ ہو گئے۔ بے چارہ آرتھر۔۔۔۔‘‘ وہ آہ بھر کر کہتیں اور مہمان کو بریکفاسٹ کھلاتی جاتیں۔ آرتھر بے چارہ میرا فرسٹ کزن تھا۔ انڈیا آنے سے قبل اس نے ایک آئرش لارڈ کی لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ دونوں پشاور چھاؤنی میں تھے۔ ادھر آرتھر فرنٹ پر گیا اور بے چاری برجٹ بچی کو جنم دیتے ہوئے ملٹری ہسپتال میں ختم ہو گئی۔ آرتھر نے اپنے Next Of Kin کی حیثیت سے میرا پتہ دے رکھا تھا۔ ریڈ کراس والوں نے بچی کو میرے پاس بھیج دیا۔‘‘
مسوری کے ایک انگریزی گرجا گھر میں بپتسمہ دلواتے وقت مس رچمنڈ نے رجسٹر میں بھی بچی کے باپ کا نام کرنل آرتھر بولٹن لکھوا دیا تھا اور دونوں انگلیوں کا کراس بنا کر دل میں کہا تھا”۔۔۔۔ So Help Me God”۔۔۔۔
ہندوستان آزاد ہوا اور مسوری انگریزوں سے اچانک خالی۔ سوامس رچمنڈ کے جو بڑھاپے میں برطانیہ جا کر برتن دھونے اور جھاڑو دینے کو تیار نہ ہوئیں۔ خلاف امید ان کا ہوٹل (جس پر سے انہوں نے ’’یوروپینز اونلی‘‘ کا بورڈ اتار دیا تھا) اب زیادہ چلنے لگا کیونکہ آزاد ہندوستانی ایک ’’انگلش گیسٹ ہاؤس‘‘ میں ٹھہرنا بہت فخر کی بات سمجھتے تھے۔ پہلے یہاں معمولی حیثیت کے انگریز ٹکتے تھے۔ اب اونچے طبقے کے متمول ہندوستانی قیام کرنے لگے۔
کیتھرین بولٹن عرف کیٹی جو اپنی چونچالی کی وجہ سے ’’چھوٹی کٹو‘‘ کہلانے لگی تھی، ایک کانونٹ اسکول جاتی تھی۔ آزادی کے بعد سے جس میں ہندی اور سنسکرت بھی پڑھائی جانے لگی تھی۔ ان مضامین کے استاد ایک بے حد چلتے پرزے قسم کے مقامی نوجوان تھے۔ کیٹی ان سے ہندی پڑھتی تھی اور آزاد ہندوستان کے آزاد بچے بھی اس کی گوری چمڑی کی وجہ سے مرعوب رہتے تھے۔ مسوری کے وہ انگریز پادری صاحب جنہوں نے کیتھرین کو بپتسمہ دیا تھا آسٹریلیا جا بسے تھے لیکن مس رچمنڈ سے خط و کتابت کا سلسلہ رکھتے تھے۔ کیٹی کی پندرہویں سالگرہ پر انہوں نے مس رچمنڈ کو لکھا۔ میں کیتھرین کے متعلق فکر مند ہوں۔ ہندوستان میں اس کا مستقبل کیا ہے؟ کیا تم چاہو گی کہ وہ کسی ہندو Heathen سے شادی کر لے؟ بہتر ہو گا کہ تم اسے یہاں لے آؤ۔
مس رچمنڈ نے اس معاملے پر غور کیا۔ ہندوستان میں اس حسین اینگلو انڈین لڑکی کا مستقبل کیا؟ ٹیلی فون آپریٹر۔۔۔۔ آفس سکریٹری یا خدا نخواستہ کال گرل۔ یا کیبرے ڈانسر۔
ابھی سے مسوری میں کیٹی بولٹن کی تیزی طراری کا چرچا ہونے لگا تھا اور جس روز اسکول کے چلتے پرزے ہندی ٹیچر نے اس کے ساتھ چھیڑ خانی کی کوشش کی اور اس کی مدافعت پر اسے ’’نخرے والی دوغلی چھوکری‘‘ پکارا وہ آگ بگولہ ہو کر گھر لوٹی اور مس رچمنڈ کو قصہ سنایا۔ اس سرد شام مس رچمنڈ نے اچانک فیصلہ کر لیا۔ وہ رات انہوں نے جاگ کر گذاری۔ وطن چھوڑنا آسان نہ تھا اور اس اجنبی سرزمین میں ان کا کیا حشر ہو گا مگر کیتھرین کا مستقبل مقدم تھا۔ صبح کو انہوں نے کٹو اور فضل مسیح کو بلایا۔ وہ دونوں آ کر دروازے میں کھڑے ہو گئے۔ مس سیلیا صوفے پر آتش دان کے پاس بیٹھی نٹنگ کر رہی تھیں۔ کیٹی ریڈیوگرام کے پاس موجود تھی۔ مس سیلیا رچمنڈ نے گمبھیر آواز میں کہا۔ ’’کٹو ہم آسٹریلیا جا رہا ہے۔ کیٹی بابا ہمارے ساتھ جائے گا۔ ہمارا پیکنگ شروع کر دو۔‘‘
کٹو اور فضل مسیح بھونچکے رہ گئے۔ اچانک یہ دونوں گوری عورتیں ان کو اجنبی دیویاں سی نظر آئیں۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ چند لمحوں بعد کٹو نے ناک سڑکتے ہوئے مضبوطی سے جواب دیا۔ میم صاحب کیٹی ہمارا پیٹ کا اولاد ہے۔ ہم اسے نہیں جانے دے گا۔ ہمارا بھائی بھی اس کی صورت دیکھ کر جیتا ہے مس صاحب۔ ہم نے اس کے مارے شادی نہیں کیا کہ سوتیلا باپ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔‘‘
’’خاموش۔۔۔۔‘‘ بڑھیا نے چلا کر کہا۔ ’’تم اپنا اوکات بھول رہا ہے کٹو۔ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ کیٹی تمہارا اولاد ہے۔ تمہارا یہ مجال کہ تم اتنا بڑا بات بولو۔۔۔۔؟‘‘
کٹو گم صم رہ گئی۔ مس صاحب سے اسے یہ امید نہ تھی۔ مس صاحب نے اس سے ایسی تلخ اور بے رحم بات کبھی نہیں کی تھی۔ وہ دھم سے فرش پر بیٹھ گئی اور زار و قطار رونے لگی۔ کیٹی اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ وہ بھی آسٹریلیا جانے کے لیے بے قرار تھی۔
عاقبت اندیش مس رچمنڈ اسے چند روز قبل بتلا چکی تھیں کہ کرنل بولٹن فرضی ہستی ہیں۔ کارپورل بولٹن اس کا باپ اور کٹو اس کی ماں ہے مگر اس اصلیت کو پوشیدہ رکھنے ہی میں تمہاری خیریت ہے۔ کیٹی نے جو جہد للبقا کے اصولوں کو جبلی طور پر پہچانتی تھی اس نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا تھا۔
اب مس رچمنڈ نے ذرا سمجھانے کے انداز میں کہا۔ ’’کٹو تم ایک دم پاگل ہو۔ تم سوچنا مانگتا۔ ٹھنڈے دل سے۔ ادھر ہمارا ڈیتھ کے بعد کیٹی کا فیوچر کیا ہو گا؟ مسوری میں تھوڑا بہت نیٹو لوگ اب بھی جانتا کہ وہ تمہارا چھوکری ہے۔ اگر یہ بات سب کو معلوم ہو گیا تو؟ انڈیا میں کاسٹ سسٹم کا اتنا زور ہے۔ اس سے شادی کون بنائے گا؟ پھر ادھر اینگلو چھوکری کا کیا عزت ہے؟ لوگ ایک طوائف کے مافک سمجھتا۔ کیا تم مانگے گا کہ تمہارا بیٹی ہوٹلوں میں ایک ایک کپڑا اتارنے والا ناچ کرے؟ یا تم میونسپلٹی کے جمعدار سے اس کی شادی کرے گا؟ سوچنا مانگتا۔ بولو۔۔۔۔؟‘‘
کٹو لاجواب رہ گئی۔ مس رچمنڈ نے گیسٹ ہاؤس ایک سندھی کے ہاتھ بیچا جس نے فوراً لاؤنج میں سے جیزس اور میری کو اتار کر گرو نانک، شنکر پاروتی اور ’’رچمنڈز‘‘ کی جگہ باہر ’’دی نیو ہمالیہ ویجی ٹیرین ہوٹل‘‘ کا بورڈ لگا دیا لیکن پرانا اسٹاف مع کٹو آیا برقرار رکھا۔ کٹو اور فضیل مسیح روتے دھوتے مس رچمنڈ اور کیتھرین کو خدا حافظ کہنے دہرہ دون ریلوے اسٹیشن تک آئے۔ ٹرین چل دی۔ فضل مسیح کنٹوپ اور بھورا دگلہ پہنے خالی پلیٹ فارم پر کھڑا حسب عادت خلا کو تکتا رہا۔
(۳)
سڈنی ایئرپورٹ پر اتر کر مس رچمنڈ نے چاروں طرف دیکھا اور مسکرائیں۔ وہ بال آخر ایک سفید ملک میں موجود تھیں۔ (گو وہ نجیب الطرفین انگریزنی تھیں مگر پیدا گورکھپور میں ہوئی تھیں اور ایک بار صرف چند ماہ کے لیے انگلستان گئی تھیں) اب وہ اور کیٹی منتظر رہیں کہ قلی آ کر ان کا اسباب اٹھائیں گے مگر کسی نے ان کا نوٹس نہ لیا۔ آخر دوسروں کی دیکھا دیکھی کیتھرین نے ایک ٹھیلے پر سامان لادا۔ جب مس رچمنڈ نے ٹھیلا دھکیلنا شروع کیا اچانک ان کا دل اندر سے ٹوٹ سا گیا۔ ریورنڈ سگمور باہر برآمدے میں منتظر تھے۔ اپنے گھر لے گئے۔ مس رچمنڈ کو اپنے گرجا کے متصل بازار میں سبزی ترکاری کی ایک مختصر سی دوکان اور فلیٹ خریدوا دیا۔ دوسرے ہفتے سے ہی مس رچمنڈ دوکان پر ترازو کے پاس بیٹھنے لگیں۔ وہ سڈنی کی ورکنگ کلاس میں شامل ہو چکی تھیں۔ کیتھرین اسکول میں داخل کر دی گئی۔ بہت جلد اس نے پر پرزے نکالے۔ ’’ڈیٹ‘‘ کرنے لگی۔ رات کو دیر سے گھر لوٹتی۔
وکٹورین اور ہندوستانی اخلاقیات کی پروردہ مس سیلیا رچمنڈ اس کو ڈانٹتیں پھٹکارتیں، دونوں میں خوب جھائیں جھائیں ہوتی۔ دونوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ ایک پینسٹھ سالہ اپنی جگہ سے اکھڑی ہوئی مجرد انگریز عورت اور ایک سولہ سالہ دوغلی نسل کی لڑکی جس کا کوئی بھی واضح پس منظر نہ تھا۔ نقلی پھوپھی بھتیجی کا یہ بڑا غمناک جوڑا تھا۔ مس رچمنڈ سڈنی کی جلا وطنی اور تنہائی زیادہ نہ جھیل پائیں۔ کیتھرین اٹھارہویں سال میں تھی جب وہ چل بسیں۔ ریورنڈ سگ مور کیتھرین کے گارجین تھے۔ انہوں نے اسکول کے بورڈنگ ہاؤس میں ڈال دیا۔ چند ماہ بعد وہ وہاں سے بھاگ گئی۔ وہ اپنی ماں اور ماموں کو بھولے سے بھی خط نہیں لکھتی تھی۔ کچھ عرصے بعد پادری صاحب بھی مر گئے۔
اس کے بوائے فرینڈز کو معلوم تھا کہ خاصی پیسے والی لڑکی ہے۔ جوں ہی وہ قانونی طور پر بالغ ہوئی، انہوں نے اس کا روپیہ اڑانا شروع کیا۔ وہ بے حد حسین تھی اور ایکٹریس بننا چاہتی تھی مگر آسٹریلیا میں نہ باقاعدہ اسٹیج تھی نہ سنیما انڈسٹری۔ ایک لفنگے نے صلاح دی کہ ہالی وڈ پہنچنے یا لندن کی شو بزنس میں شامل ہونے کی پہلی سیڑھی نائٹ کلب ہیں۔ چنانچہ کیتھرین نے کیبرے ناچنا سیکھا۔ اس دوران میں وہ اپنی دوکان بھی فروخت کر چکی تھی اور اپنے ترکے کا سارا روپیہ تمام کر چکی تھی۔ پیسہ اس کے ہاتھ میں ٹکتا ہی نہ تھا۔ اسی طرح آوارہ گردی کرتی وہ ہانگ کانگ، سنگاپور، کوالالمپور نائٹ کلب سرکٹ میں پہنچ گئی۔ کہیں وہ کیبرے ناچی، کہیں وہ نائٹ کلب ہوسٹس بنی لیکن یہاں ترچھی آنکھوں والی اینگلو چائینیز طوائفوں کا کمپی ٹیشن بہت سخت تھا اور وہ بہر حال پیشہ ور گشتی نہیں تھی۔ ’’کرنل آرتھر بولٹن‘‘ کی بیٹی تھی۔ اس فرضی کرنل نے اسے قدم قدم پر وقار سے چلتے رہنا سکھایا۔
کبھی کبھار اسے اپنی سخت گیر نقلی پھوپھی سیلیا رچمنڈ یاد آ جاتیں، کبھی ماں اور ماموں اس کے سامنے آن کھڑے ہوتے۔ وہ آنسو پونچھ کر دوسرا سگریٹ سلگا لیتی اور اپنی زندگی کے انقلابات پر متحیر رہتی۔ ساؤتھ ایشیا کے نائٹ کلب سرکٹ نے اسے بہت سمجھ دار اور افسردہ دل بنا دیا تھا۔ کرپٹ سیاست دانوں اور ان کے عیاش بیٹوں کی دی ہوئی Stag پارٹیوں میں وہ ناچ چکی تھی اور جہان سوئم کے اس حصے کے سیاسی اور اخلاقی حالات سے بخوبی واقف تھی اور ہر ملک اور ہر شہر کے ہوٹلوں کے کمروں میں سرہانے ایک ہی بائبل رکھی ملتی اور اس مقدس صحیفے کا کوئی فائدہ اسے نظر نہ آیا تھا۔
چینی ریسٹورانوں کے عقبی کمروں میں بیٹھی اگر بتیوں کے مرغولوں میں گھری چھوٹے چھوٹے پیروں والی پر اسرار چینی بڑھیاں جو قسمت کا حال بتاتی تھیں، کوئی گتھی اس کے لیے نہ سلجھا پائیں۔
جکارتا کے ایک چینی ریسٹوران میں اسے ایک دل کش ساڈچ آدمی ملا۔ وہ چالیس کے لگ بھگ رہا ہو گا۔ وگ لگاتا تھا اور اس نے سوٹ پر ایک چوغہ سا پہن رکھا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ ایک ڈچ صوفی ہے اور پیرس والے مرشد عنایت خاں کا مرید۔
’’میں انڈونیزین صوفی ازم کے اسرار سیکھنے کے لیے ایمسٹرڈم سے یہاں آیا ہوں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں Dutch Sensitives کہا جاتا ہے۔ ہم جیسے لوگوں کی چھٹی حس بہت زیادہ بے دار ہوتی ہے۔‘‘ چوپ سوئی کھاتے کھاتے اچانک اس نے کہا تھا۔ ’’تمہارا باپ زندہ ہے۔‘‘
وہ چونک پڑی۔ ’’وہ ایک روز ضرور تم کو ملے گا۔ وہ بہت بڑا آدمی ہے۔‘‘
’’واقعی۔۔۔۔؟ بڑا آدمی کس طرح۔۔۔۔؟‘‘
’’یہ میں نہیں بتا سکتا مگر وہ بہت عظیم آدمی ہے۔‘‘ اس کا مطلب ہے وہ واقعی کرنل تھا اور اب شاید برٹش آرمی میں جنرل ہو۔ یہ سوچ کر وہ بے حد مسرور ہوئی۔
اس کے آدھے دکھ دور ہو گئے۔ اس نے خود کو بہت محفوظ محسوس کیا۔ اس ڈچ صوفی کی موجودگی نے بھی اسے بہت سکون بخشا۔ اسی صوفی ازم اور E.S.P. اور احساس تحفظ کے چکر میں وہ اس پر اسرار آدمی کے ساتھ جکارتا کی ایک مسجد میں پہنچ گئی۔ ایک پتلی چگی داڑھی اور چندھی آنکھوں والے انڈونیزین ’’شیخ‘‘ نے اسے کلمہ پڑھایا۔ اس کا نام حلیمہ وتی رکھا اور اس کا نکاح اس ولندیزی مسلمان محمد معین کوٹ سے ہو گیا۔ اس نے رجسٹر پر اپنا نام لکھا دیکھا اور بڑی طمانیت محسوس کی۔۔۔۔ ’’کیتھرین حلیمہ وتی بنت کرنل آرتھر بولٹن۔۔۔۔‘‘
وہ ڈچ نو مسلم بڑا پکا مومن تھا۔ اس نے حلیمہ وتی کو حکم دیا کہ ناچ گانا موقوف کرے لیکن جکارتا کے جس ہوٹل میں وہ کیبرے کرتی تھی، اگر آپ وہاں ناچیے نہیں تو کمرے کا کرایہ اور سارے بل ادا کیجئے۔ چونکہ محمد معین کوٹ کے منی آرڈر ایمسٹرڈیم سے آنے میں ذرا تاخیر تھی لہذا کیتھرین کون نے ایک بار پھر اپنا جمع جتھا خرچنا شروع کیا۔
جکارتا کے اس ہوٹل میں رہتے کوئی پندرہ روز ہوئے تھے جب صبح اس کی آنکھ کھلی تھی تو وہ ڈچ صوفی غائب تھا۔ کیتھرین کی ہیرے کی انگوٹھیاں اور سچے موتیوں کی مالا اور بندے جو سیلیا رچمنڈ اس کے لیے چھوڑ گئی تھیں وہ بھی غائب تھے اور باقی ماندہ نقدی بھی۔ سرہانے میز پر موٹی بائیبل البتہ اسی طرح رکھی ہوئی تھی۔ اس کے اوپر پلاسٹک کا ایک خالی کپ۔ گذشتہ شب ہی اس ادب نواز اور روحانی ولندیزی نے باتوں باتوں میں ایک امریکن افسانہ نگار کا ایک جملہ دہرایا تھا کہ تم ساری دنیا گھوم لو۔ آخر میں تمہیں پتہ چلے گا کہ ساری دنیا ”Holiday Inns” اور پلاسٹک کے پیالوں سے بھری ہوئی ہے اور گھر واپس جانا ضروری ہے۔
چنانچہ کیتھرین کوٹ دھکے کھاتی جکارتا سے اپنے گھر سڈنی واپس پہنچی۔ اس کی عمر ڈھل رہی تھی اور حسن زائل ہونے والا تھا۔ یہاں اب اسے بس کنڈکٹر کی ملازمت ہی مل سکی۔ جہد للبقا کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ انسان کبھی ہار نہیں مانتا۔ چنانچہ بس کے ٹکٹ کاٹتے کاٹتے وہ اب بھی دن کے خواب دیکھا کرتی۔ اگلے اسٹاپ پر شاید کوئی سپنوں کا شہزادہ۔۔۔۔ کیونکہ کیا پتہ اس کہرے کے پیچھے کیا ہے۔
(۴)
راجہ سر نریندر ناتھ کے جد امجد ایک غریب قنوجی برہمن جیوتشی تھے جن کی کسی پیش گوئی سے خوش ہو کر شہنشاہ جہانگیر نے کالی ندی کے کنارے جاگیر بخش دی تھی۔ موجودہ راجہ صاحب کٹر مذہبی اور سادھو سنتوں کے معتقد آدمی تھے۔ ریاست کے خاتمے کے بعد نئی دہلی میں اپنی عالی شان کوٹھی میں رہتے تھے۔ ایک بڑا کاروبار شروع کر رکھا تھا اسی کاروبار کے سلسلے میں ان کے فرزند اکبر (جو پہلے یووراج شیلندر ناتھ جی کہلاتے تھے اب محض مسٹر ایس۔ این۔ باجپئی تھے) جاپان، سنگاپور، آسٹریلیا کے دورے پر نکلتے تھے۔
یووراج ذرا بھولے سے نوجوان تھے۔ پہلی بار ملک سے باہر آنے کا اتفاق ہوا تھا لہذا آسٹریلیا میں مبہوت تھے۔ کرسمس سیزن کی وجہ سے سڈنی میں بہت چہل پہل تھی۔ اس روز ایسا ہوا کہ اوپیرا ہاؤس کی طرف سے چلے تو یاد آیا دوپہر کو آسٹریلیا انڈیا ٹسٹ میچ ہے۔ ایک راہگیر سے راستہ پوچھ کر کرکٹ اسٹیڈیم کی طرف جانے والی بس پر چڑھ گئے۔ کھڑکی کے پاس جا بیٹھے۔ اس میں بھانت بھانت کی صورتیں سب ایک سے ایک حسین، لبنانی لڑکیاں، اطالوی مہاجر، گول چہروں والے آسٹریلین۔ بس کنڈکٹر نے نازک گورا سا ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا تو آنکھیں چکا چوند۔ ایسا حسین جگمگاتا چہرہ واقعی رخ روشن، چودھویں کا چاند، اتنا حسن بھی ممکن ہے۔ وہ پری جمال بھی ایک ہندوستانی کو دیکھ کر ذرا یگانگت سے مسکرائی۔ راج کمار نے سن رکھا تھا گوری میم ہنسی تو پھنسی۔ اب ذرا بے خوفی سے اس سے آنکھیں چار کیں ہزار جان سے عاشق ہوئے۔
جو بندے پہلی بار گوروں کے دیس جاتے ہیں اگر وہ پہلے چھ ماہ کے اندر اندر کسی میم سے بیاہ نہ کر لیں تو سمجھو بچ گئے۔ ورنہ نہیں۔ راج کمار شیلندر کو تو آسٹریلیا آئے محض دس دن ہوئے تھے۔ بس کنڈکٹر ٹکٹ دے کر اسی طرح مسکراتی ہوئی آگے چلی گئی۔ پھر اس نے ان کا نوٹس نہ لیا مگر راجکمار مستقل مزاج آدمی تھے۔ دوسرے روز پھر اسی وقت اسی بس پر چڑھے۔ چار روز کے تعاقب کے بعد کامیاب رہے۔ تعارف کرایا پرنس شیلندر ناتھ جی آف انڈیا۔
لفظ ’’پرنس‘‘ سے وہ حور ارضی متاثر نظر آئی کہ بچپن سے مسوری میں راج کماروں اور نواب زادوں کو دیکھتی آئی تھی اور اگر سڈنی کی ایک بس میں ایک شخص خود کو راج کمار کی حیثیت سے متعارف کرے تو وہ جہاں دیدہ کیبرے ڈانسر پہچان سکتی تھی کہ وہ بندہ نقلی راج کمار نہیں۔ پری شیشے میں اترنے لگی۔
شام کے لیے اپوائنٹمنٹ، رات کو شمعوں کی روشنی میں ڈنر، رقص، ساحل پر چہل قدمی، خریداری، اعلیٰ خاندان، برطانوی لڑکی، کرنل کی بیٹی، لارڈ کی نواسی، کیا مضائقہ ہے۔ ہمارے نواب راجہ لوگوں کا قاعدہ تھا کہ کم از کم ایک جونیر بیگم یا جونیر رانی یوروپین رکھتے تھے۔ عموماً وہ لندن کی بارمیڈ ہی ہوتی تھیں لیکن اب سوتنتر بھارت کے مکھیہ سماچاریہ تھے کہ رجواڑے سماپت۔ حرم گپت اور ہندو جاتی پر کیول ایک وواہ کا قانون لاگو۔ اس کے باوجود آزاد ہندوستان میں بھی انگریز یا امریکن عورت سے شادی کرنے میں جو اسنوب ویلیو (Snob Value) مضمر تھی شیلیندر ناتھ جی اس سے واقف تھے۔ پہلی یورانی خود راج کماری تھیں۔ بے چاری بیاہ کے دوسرے سال ہی سرگباش ہوئیں۔
جب انہوں نے کیتھرین کوٹ کو پروپوز کیا اس کے دوسرے روز ہی کیتھرین نے خود کو سڈنی کے ایک آشرم میں موجود پایا۔ جکارتا کی مسجد میں اس کا نکاح پڑھایا گیا تھا۔ یہاں پنڈت نے ویدک منتر پڑھے۔ شیلجا دیوی اس کا نام رکھا گیا۔ شیلندر کی مناسبت سے بنگالی پنڈت نے مسکرا کر سمجھایا۔ ’’اکھنڈ سوبھاگیہ وتی۔ یوورانی راجیہ لکشمی شیلجا دیوی جی بدھائی ہو۔‘‘
اس کے کند ذہن سے نئے شوہر نے جو عمر میں اس سے کافی چھوٹا بھی تھا باچھیں کھلا کر اس سے مصافحہ کیا۔ شادی کے رجسٹر پر اس کے باپ کا نام لکھا گیا۔ کرنل آرتھر بولٹن آف لندن اینڈ پشاور کنٹونمنٹ۔
(۵)
کارپورل آرتھر بولٹن میرٹھ چھاؤنی سے سیدھا برلن گیا تھا۔ چند روز بعد ہی جنگ ختم ہوئی اور وہ اپنے فوجی بینڈ کے ساتھ انگلستان میں جگہ جگہ فتح کے شادیانے بجاتا پھرا۔ پھر اسے اس عارضی فوجی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ آرتھر بولٹن کا باپ جو پکیڈلی سرکس میں جوتوں پر پالش کرتا تھا بمباری میں مر چکا تھا۔ ماں بھی مر چکی تھی۔ آرتھر کو ایسٹ اینڈ کے ایک ڈانس بینڈ میں کام مل گی۔ شادی نہیں کی۔ کون یہ بکھیڑا پالتا۔ برس گذرتے گئے۔ لقوے نے ایک ہاتھ معذور کر دیا تو ڈرم بجانا القط۔ ہسپتال سے نکل کر چوکیداری کرنے لگا۔ اسی طرح بوڑھا ہو گیا۔ اب بھی پوئیٹری لکھتا جو کہیں نہ چھپ سکی۔ پابندی سے چرچ جاتا۔ جو گورو دوارے بننے سے بچ رہے تھے۔ وہ بھی عموماً اسے خالی ڈھنڈار ملتے۔
اردو داں ہونے کی وجہ سے پاکستانی ہندوستانی مزدوروں سے اس کی خوب پٹتی تھی۔ ایک سکھ چوکیدار ہی نے اسے ایک پنجابی ملک التجار مسٹر گھوسلہ کی ایک دوکان میں دربان کا کام دلوا دیا۔ عالی شان شو روم نائٹس برج میں تھا۔ وہاں سب لوگ اس نرم مزاج پیارے خبطی سے بوڑھے سے بہت خوش تھے۔ اس روز صبح شو روم پہنچ کر اس نے ہال کی جھاڑ پونچھ کی۔ گاہکوں کے لیے میز پر پڑے رسالوں کو ترتیب سے رکھا۔ اس وقت بمبئی سے نکلنے والے ایک زنانہ میگزین کے سرورق پر اس کی نظر پڑی۔ Cover Girl کی صورت نے اسے متوجہ کیا۔ رسالے کے اندر اس حسینہ کی کوٹھی کی آرایش کے بارے میں با تصویر مضمون بسلسلہ انٹیریر ڈیکوریشن۔ آرتھر بولٹن صوفے پر بیٹھ گیا اور جیب سے عینک نکال کر مضمون پڑھنے لگا۔۔۔۔
’’یوورانی شلیجا دیوی جی نسلاً انگریز ہیں اور برطانوی ارسٹو کریسی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والد کرنل آرتھر بولٹن پچھلی جنگ عظیم میں لاپتہ ہو گئے۔ ان کے نانا ایک آئرش لارڈ تھے۔ راج کماری جی کا بچپن مسوری میں گذرا۔ پھر وہ اپنی پھوپھی لیڈی رچمنڈ کے پاس آسٹریلیا چلی گئیں جہاں انہوں نے بیلے اور پیانو اور انٹیریر ڈیکوریشن کی مہارت حاصل کی۔۔۔۔‘‘
بڈھے آرتھر نے آنکھیں بند کر لیں اور دیر تک ششدر ساکت و صامت بیٹھا رہا۔ پھر ایک کونے میں جا کر گھٹنوں کے بل جھکا اور دعا میں منہمک ہو گیا۔ نہ جانے کیوں اسے یقین سا تھا کہ کٹو اب بھی مسوری میں موجود ہے اور اسی پرانے پتے پر اگر وہ اسے خط لکھے گا تو اس کا جواب بھی دے گی۔
ایسا ہی ہوا۔ کٹو کا خط آنے پر آرتھر بولٹن نے دوکان کے منیجر سے ایک ماہ کی چھٹی مانگی جو منظور ہوئی۔ اس نے انڈیا ہاؤس جا کر ویزا بنوایا، بنک سے ساری عمر کی جمع پونجی نکال کر ہوائی جہاز کا رٹرن ٹکٹ لیا اور باقی ماندہ رقم سے کٹو اور کیتھرین کے لیے تحفے خریدتا پھرا۔ تحائف کے تھیلے اپنے سالم ہاتھ میں اٹھائے اٹھائے پیدل چلتے چلتے تھک جاتا تو کسی دروازے میں بیٹھ کر دم لیتا اور پھر چلنا شروع کر دیتا۔ ٹرانسپورٹ کے جو پیسے بچائے ان سے داماد کے لیے ایک عدد ٹائی بھی خرید ڈالی۔
ٹھیک ایک ہفتے بعد وہ ’’دی نیو ہمالیہ ویجی ٹیرین ہوٹل‘‘ کے شاگرد پیشے کے سامنے کھڑا تھا۔ کٹو آیا نے اسے سمجھایا۔ ’’صاحب ہمارا چھوکری ہم کو ایک لیٹر نہیں ڈالا اور بیاہ کر لیا۔ اس کا کیا مطبل ہے؟ یہ مطبل کہ وہ ہم سے مل کر اپنی لائف میں کوئی گڑبڑی نہیں ڈالنا مانگتا۔‘‘
وہ شاگرد پیشے کے آگے ایک پتھر پر بیٹھی اپنے سر میں سرسوں کا تیل ڈال رہی تھی۔ فضل مسیح نزدیک ایک پائن کے نیچے اسی طرح خاموش بیٹھا ہمالیہ کو تک رہا تھا۔ سامنے وادیاں اودے کہرے سے بھر گئی تھیں۔ بڈھے آرتھر نے اپنے سالم ہاتھ سے پائپ سلگایا اور متعجب ہوا کہ یہ جاہل غریب اور دکھی عورت کس قدر شانت تھی۔
’’کٹو! تم کو ذرا غصہ نہیں۔۔۔۔؟‘‘ اس نے متحیر آواز میں دہرایا۔ ’’گسہ کس بات کا صاحب؟ جو کچھ ہمارے ساتھ بیتا ہم نے چھٹی ماں کا لکھا پورا کیا۔‘‘
’’چھٹی ماں۔۔۔۔؟ وہ کون لیڈی ہے؟‘‘
’’بمبئی کا ایک بوہری میم صاحب ادھر آیا تھا۔ ہمارا کسہ سن کر بولا۔ کٹو بائی! جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے چھٹے روز چھٹی ماں آدھی رات کو آ کر اس کا مکدر اس کے ماتھے پر لکھ جاتی ہے۔ ادھر ہم لوگ اس کو مکدر کا کھیل بولتے ہیں۔ کرم کے لچھن۔‘‘ آرتھر غور سے سنتا رہا۔
ابرو اٹھا کر اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور ہنس پڑا۔ کٹو بولی۔ ’’اسی سرونٹ کوارٹر کی اس سامنے والی کوٹھری میں چھٹی ماں رات کو آ کر ہمارا کٹی بابا کے ماتھے پر لکھ گئی تھی کہ وہ رانی بنے گی۔ ہماری بات مان لو صاحب۔ اس سے ملنے مت جاؤ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بس۔ ہم جو تم کو بولتا ہے۔‘‘
’’نائیں کٹو۔ چھٹی ماں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ہم اور تم اس سے ملنے دلی جائے گا۔ دیکھو ہم اس کے لیے ولایت سے کتنے پریزنٹ لایا ہے۔‘‘ قریب پتھر پر بیٹھ کر آرتھر نے بڑے شوق اور چاؤ سے وہ شاپنگ بیگ کھولے۔
(۶)
پیلیس کے سامنے مختصر سا لان تھا اور پھاٹک کے عین مقابل میں چند قدم کے فاصلے پر اس بیڈ روم کا دریچہ جس کی تصویر بہ سلسلہ انٹریر ڈیکوریشن اس زنانہ انگریزی رسالے میں چھپی تھی۔ اتوار کا دن تھا۔ گلابی جاڑوں کی صبح کا سہانا وقت لان پر راجہ صاحب، ان کا منجھلا لڑکا اور چند یوروپین مرد اور عورتیں ایک سوامی جی کی تقریر سننے میں محو تھے۔
یہ ایک نسبتاً نئے سوامی جی تھے جو حال ہی میں انٹرنیشنل گرو سرکٹ میں شامل ہوئے تھے اور ان کروڑ پتی فرنچ اور جرمن چیلوں کے ساتھ چند روز قبل فرانس سے واپس آئے تھے اور موریہ میں قیام پذیر تھے۔
راجہ صاحب کے ساتھ بریکفاسٹ کرنے کے بعد اب ست چت اور آنند پر بھاشن دے رہے تھے۔ جب ٹیکسی پھاٹک پر آن کر رکی اور تین نفر اس میں سے اترے۔ ایک ذرا پھٹیچر سا انگریز بڈھا سلفرجز کا ایک بیگ اٹھائے معمولی ساڑی پہنے ایک غریب دیسی عورت اور کنٹوپ اور دگلہ میں ملفوف جھاڑ جھنکاڑ کھچڑی داڑھی والا ایک باؤلا سا آدمی۔ یہ آدمی جھجھک کر پھاٹک کے ایک ستون کے پیچھے ہی دبک گیا۔ خستہ حال خچّر پادری انگریز نے سہمتی جھجھکتی عورت کا ہاتھ تھاما اور اس کے ساتھ لان کی طرف بڑھا۔ راجہ صاحب نے سر اٹھا کر کوفت سے نو واردوں پر نظر ڈالی اور متعجب ہوئے۔ گورکھے دربانوں نے ان اناپ شناپ قسم کے لوگوں کو اندر کیسے آنے دیا۔ غالباً یہ اول جلول لوگ Jehovah’s Witnesses ہیں۔ بے ضرر خبطی مشنری جو اتوار کے دن صبح صبح بھلے مانسوں کے گھروں پر پہنچ کر انہیں خبردار کرتے ہیں کہ قیامت آنے والی ہے۔ یہ لوگ بہت بور کرتے ہیں۔
کرسیوں کے نزدیک آ کر انگریز بڈھا ٹھٹھک گیا۔ جب سوامی جی نے پانی پینے کے لیے چاندی کا گلاس اٹھایا فرنگی بوڑھے نے بشاشت سے کہا۔ ’’گڈ مورننگ فرینڈز!‘‘
وہ اور دیسی عورت چند لمحے اسی طرح کھڑے رہے۔ حاضرین بالکل خاموش تھے۔ سوامی جی کو اپنے بھاشن میں مداخلت بہت ناگوار گذری تھی اور وہ چیں بہ جبیں ہو کر ایک پھول سونگھ رہے تھے۔ مہاراجہ نے ابرو سے اشارہ کیا بیٹھ جاؤ۔ دونوں بیٹھ گئے۔
’’مہاراج آرمبھ کیجئے۔‘‘ راجہ صاحب نے جو سادھو سنتوں کے بے حد معتقد تھے، ہاتھ جوڑ کر التجا کی۔ سوامی جی نے ست اور است پر بھاشن پھر شروع کیا۔ بڈھا آرتھر سر آگے بڑھا کر دھیان سے سننے لگا۔ سوامی جی چند منٹ بعد رکے۔ ایک فرنچ چیلی نے ٹیپ ریکارڈر کا کیسٹ بدلا۔ تب بڈھے انگریز نے ان کو مخاطب کیا۔
’’مسٹر گرو! ست اور است پر آپ کے خیالات نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں خود ایک ستیہ پر پرکاش ڈالنے انگلستان سے یہاں آیا ہوں۔ یور ہائی نس۔ میں آپ کی پیاری بہو کیتھرین۔۔۔۔‘‘ اس نے جیب سے رسالے میں چھپی تصویر کا تراشہ نکال کر نام پڑھا۔۔۔۔ ’’اکھنڈ سوبھاگیہ وتی راجیہ لکشمی شلیجا دیوی جی کا باپ ہوں۔‘‘
’’اوہو۔۔۔۔ واٹ اے پلیز نٹ سرپرائیز کرنل۔۔۔۔‘‘ راجہ نے دفعتہً مسکرا کر گرم جوشی سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ ’’کرنل بولٹن! آپ نے اپنی آمد کی اطلاع کیوں نہ دی؟ پہلے کیوں نہ بتایا؟‘‘
’’یور ہائی نس!‘‘۔۔۔۔ بڈھے آرتھر نے گلا صاف کر کے چاروں طرف دیکھا اور فرشتوں والے تبسم کے ساتھ بولا۔۔۔۔ ’’کرنل تو میرے خاندان میں سات پشتوں سے کوئی نہیں ہوا۔ میرا باپ موچی تھا۔ ماں باورچن۔ میں آرمی میں ڈرمر بھرتی ہوا تھا، اب دربان ہوں۔‘‘ حاضرین برف کے پتلوں کی مانند منجمد ہو چکے تھے۔ آرتھر نے چاروں طرف دیکھ کر تاسف سے سر ہلایا۔
’’میرے ساتھ ساری عمر یہی مسئلہ رہا۔ میں خالص سچ بولتا رہا ہوں۔ اور یہاں جب میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مسٹر سوامی سچ کی الوہیت ہی کا درس دے رہے ہیں۔ تو مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کر کے یہاں پہنچا ہوں، اپنی لڑکی سے ملنے۔ غریب آدمی ہوں لیکن اس کے لیے بطور اس کے جہیز کچھ چیزیں بھی لا سکا ہوں۔‘‘
اس نے جھک کر گھاس پر دھرے سلفرجز کے بیگ اٹھائے پھر رکھ دیئے۔ مجمع اسی طرح منجمد رہا۔ آرتھر نے پھر بات شروع کی
’’کیتھرین یقیناً اپنی ماں سے مل کر بھی خوش ہو گی جس سے وہ پندرہ سال کی عمر سے جدا ہے۔‘‘ آرتھر سانس لینے کے لیے رکا۔
کٹو دم بخود اس کو تک رہی تھی۔ ماحول اچانک بے حد غیر حقیقی ہو گیا تھا۔ اصل زندگی میں اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے۔
آرتھر پھر گویا ہوا۔ ’’یہ بے وقوف عورت یہاں آتے ہوئے ڈر رہی تھی۔ میں نے کہا مارتھا! روشنی سے خائف ہو؟ ستیہ کی روشنی سے مت ڈرو۔ ستیہ۔ حق Truth سچ خدا ہے اور ہم سب خدا کے بچے ہیں۔ کیا تم اپنی پیاری بیٹی سے ملنے کے لیے بے تاب نہیں؟ تو آؤ ہم دلی چلیں اور چل کر ہم اپنی لڑکی سے ملیں۔ کیا کوئی ماں باپ اور ان کی اولاد ایک دوسرے سے ملتے ہوئے جھجھک سکتے ہیں؟ قانون قدرت کے خلاف جا سکتے ہیں؟ ڈرنے کی کیا بات ہے۔ یور ہائی نس آپ کی مائیتھولوجی میں ہے کہ لاڈ شیوا جب اپنی سسرال پہنچے تو ان کے مغرور سسر نے ان کی بے عزتی کی تھی۔۔۔۔‘‘
آرتھر نے توقف کیا اور کھنکار کر بولا۔ ’’معاف کیجئے میں نے غلط مثال دی۔۔۔۔ مطلب یہ کہ۔۔۔۔‘‘ یہ بڈھا قطعی دیوانہ تھا۔ راجہ صاحب نے سوچا۔
وہ آنکھیں پھاڑے اس عجیب و غریب اجنبی کو تک رہے تھے۔ ان کے چہرے کی رنگت تیزی سے بدلتی جا رہی تھی مگر آرتھر بولٹن نے نہایت اطمینان سے اپنی تعارفی تقریر جاری رکھی۔
’’تو یور ہائی نس۔ ابھی جب میں پھاٹک پر پہنچا تو ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ آپ بھی لارڈ شیوا کے سسر کی طرح مغرور ہوں گے مگر اسی وقت آپ کے الفاظ میرے کان میں پڑے۔ آپ مسٹر گرو کے اس ارشاد سے اتفاق ظاہر کر رہے تھے کہ منش کو ہر حالت میں ہر موقع پر سچ بولتا چاہئے اور سچ کا سامنا کرنے کی ہمت رکھنی چاہئے۔ یہی اصل سدھانت اور گیان ہے۔ اور راجہ صاحب آپ کو یہ معلوم کر کے خوشی ہو گی کہ میرا نجات دہندہ جیزس کرائسٹ بھی یہی کہہ گیا ہے۔ وہ تو سچ بولتے بولتے سولی پر چڑھ گیا۔ مشہور واقعہ ہے آپ نے بھی سنا ہو گا۔۔۔۔‘‘
منجھلے راج کمار نے محسوس کیا کہ غصیلے راجہ صاحب کا پارہ تیزی سے اوپر چڑھ رہا ہے۔ اور وہ نہ جانے کیا کر بیٹھیں۔ اس نے موقع سنبھالنے کے لیے جلدی سے پوچھا۔۔۔۔
’’آپ لوگ کافی پئیں گے یا چائے۔۔۔۔؟‘‘ آرتھر نے مسکرا کر اسے دیکھا ’’مارتھا کافی؟‘‘
سوامی جی سبزے پر ٹہل رہے تھے منجھلے راج کمار نے کافی بنا کر کٹو آیا کو پیش کی۔ بڈھے آرتھر نے سر ہلایا اور بڑے جوش سے اردو میں بولا۔۔۔۔
’’ہم یہ دیکھ کر بوہٹ خوش ہوا کہ آپ لوگ چھوٹ چھاٹ بھی نہیں کرٹا ہائے۔۔۔۔ ہم سب خدا باپ کا اولاد ہائے۔ جیزس نے بولا کہ میری باپ کے محل میں سب کے لیے کمرہ ہائے۔۔۔۔ یور ہائی نس۔ ہمارا لڑکی کی ماں کا ہم سے شادی بھی نہیں ہوا۔ ہم کو مالوم بھی نہ تھا کہ مارتھا کیتھرین کو جنم دیا۔ ۳۵ سال بعد ہم نے میگزین میں اس کا تصویر دیکھا۔۔۔۔ یہ سب خدا کا قدرت کا کھیل ہائے۔۔۔۔ مارتھا بڑا بہادر عورت ہائے۔ اب تک آیا گیری کرتا مسوری میں۔ بڑا نیک عورت ہے۔ سچا کرسچین۔ اس کا ماں باپ بھی سچا کرسچین تھا۔ وہ بھی بہت غریب لوگ تھا۔ جھاڑو دیتا تھا۔ غسل خانے صاف کرتا تھا۔ جیزس نے بولا غریب مسکین لوگ ہی خدا کی آسمانی بادشاہت کا وارث ہے۔ آپ کا مسٹر گاندھی بھی یہی بات بولتا تھا۔ دہلی میں بوںگی کولونی میں رہتا تھا۔۔۔۔ ہمارا کٹو بھی بوںگی ہائے۔ یہ بھی آسمانی بادشاہت میں ضرور جائے گا۔۔۔۔‘‘
راجہ صاحب جو ٹکٹکی باندھے بڈھے کو گھور رہے تھے، انہوں نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھاما اور زور سے چیخے۔ راجہ صاحب بد مزاج تھے مگر ساری زندگی کسی نے ان کو اتنے زور سے دہاڑتے نہیں سنا تھا۔ ان کی اس خوف ناک چیخ سے دہل کر سب ان کی طرف لپکے راجہ صاحب کو چکر آ گیا اور انہوں نے آنکھیں بند کر کے سر جھکا لیا۔ ان کو غش آ رہا تھا۔ وہ دل کے مریض تھے۔
(۷)
کیتھرین اس وقت بیڈ روم کے دریچے سے سارا منظر دیکھ رہی تھی جو اس جگہ سے ایک اسٹیج کے سیٹ کی طرح معلوم ہو رہا تھا۔ زندگی ناقابل یقین تھی۔ صبح بریکفاسٹ کی میز پر جب اس کا تعارف سوامی سے کرایا گیا تھا تو وہ دونوں ایک دوسرے کو پہچان گئے تھے۔ سوامی جی وہی مسوری اسکول کے سابق ہندی سنسکرت ٹیچر تھے جنہوں نے اس سے چھیڑ حانی کی تھی جس کی وجہ سے مس رچمنڈ نے آسٹریلیا ہجرت کرنے کا اچانک فیصلہ کیا تھا۔
آسٹریلیا روانگی سے ذرا قبل ہی معلوم ہوا تھا یہ حضرت اسکول کا روپیہ غبن کر کے ایک پہاڑی لڑکی سمیت چمپت ہو گئے تھے۔ جب بھی نہایت تیز طرار، چرب زبان، لسّان آدمی تھے۔ اس وقت بریکفاسٹ کے بعد موقع پا کر انہوں نے اپنی سابق شاگرد سے کہا۔ ’’دیکھو جی چھوٹی کٹو۔۔۔۔ میں نے بیس سال کی بڑی محنت سے ویسٹ میں اپنا یہ کیریر بنایا ہے۔ وہاں سوامیوں کا کمپی ٹیشن بہت سخت ہے اس کے باوجود اس وقت یورپ اور امریکہ میں میرے اٹھارہ آشرم ہیں اور ہزاروں چیلے۔ تم میرا بھانڈا نہ پھوڑو۔ میں تمہارے بارے میں تمہاری سسرال، اس قدامت پرست رائل فیملی کو یہ نہ بتاؤں گا کہ تم مسوری کی کٹو آیا کی لڑکی ہو۔‘‘
ان کی یہ سرگوشی سنتے ہی کیتھرین کا رنگ فق ہو گیا تھا اور وہ آ کر اپنے کمرے میں چھپ گئی تھی۔ سوامی جی نے باہر لان پر جا کر اپنا بھاشن شروع کر دیا تھا۔ لیکن ہونی اپنی بنسی بجا چکی تھی۔ ایک ٹیکسی آن کر رکی اور اس نے اپنی ماں کو اترتے دیکھا اور اس کا نیم مجنوں ماموں اور پھر ایک سنکی سا انگریز بوڑھا۔ وہ جا کر لان پر بیٹھ گئے اور کیتھرین نے اپنے اس ناقابل یقین باپ کی گفتگو کا ایک ایک لفظ سنا۔
مس سیلیا رچمنڈ کو ایک مرتبہ گیسٹ ہاؤس میں مقیم ایک دہلوی بیگم صاحب نے باؤلی ہنڈیا پکانی سکھائی تھی۔ زندگی بھی دیوانی ہانڈی تھی جو کھد بد پکے جا رہی تھی اور اب اچانک اس میں ابال آ گیا تھا۔
دہشت سے لرز کر اس نے سامنے دیکھا۔ پھاٹک پر اس کا پاگل ماموں تھم کی طرح ایستادہ خلا کو گھور رہا تھا۔ سبزے پر اس کا دیوانہ باپ اس کی زندگی تباہ کرنے پر مصروف تھا۔ اس شخص سے ملنے کی وہ ہمیشہ سے کتنی آرزو مند رہی تھی۔ بچپن سے اس کی ماں اور آنٹ سیلیا نے اس شخص کی نیک دلی اور بھولپن کے کتنے قصے سنائے تھے جو محض دو ماہ گیسٹ ہاؤس میں قیام کر کے سب کے من موہ کے چلا گیا تھا۔ شاید قدرت نے اسے پیدا اسی لیے کیا تھا کہ وہ اچانک کہیں سے ظہور میں آئے، زندگیوں کے رخ بدلے اور غائب ہو جائے۔ ناقابل یقین۔ نا ممکن۔
اور کیا نیکی اور حق پرستی در اصل تباہ کن ہوتی ہے؟ اس نے آنکھیں پھاڑ کر سامنے ’’اسٹیج‘‘ کے کرداروں کو دیکھا جو ایک کومک اوپیرا کا منظر معلوم ہو سکتا تھا اگر اتنا بھیانک نہ ہوتا۔
برہمن راجہ صاحب جن کو اس انکشاف پر کہ ان کی بڑی بہو بھنگن کی اولاد ہے، فوراً غش آ گیا تھا۔ وہ چار یوروپین جو مہا ٹھگنی مایا سے بچنے کے چکر میں ایک مہا ٹھگ سوامی کے پالے پڑ گئے تھے۔ اور وہ بوگس ’’گوڈ مین‘‘ جو اب راجہ صاحب کو ہوش میں لانے کے لیے منتر پڑھ رہا تھا اور اس کی بے چاری ماں جو ساری عمر روتی رہی تھی اور اب بھی رونے کے سوا اس کے بس میں کچھ نہ تھا اور اس کا باپ غریب خستہ حال، ایک ہاتھ سے معذور جو جانے کس طرح پیسے اکٹھے کر کے اور اس کا جہیز لے کر سات سمندر پار سے آیا تھا اور اب ہکا بکا سب کے چہرے تک رہا تھا۔ جیسے کوئی احمق فرشتہ غلط جگہ پر آ نکلا ہو۔۔۔۔
دفعتہً کیتھرین کے دل میں ترحم اور محبت اور خون کے جوش کا ایک ریلہ سا آیا اور اس کا جی چاہا وہ بھاگتی ہوئی باہر جائے اور اپنے جھکی نیم پاگل سڑی باپ، مصیبت زدہ ماں اور پیارے ماموں سے جا کر لپٹ جائے۔ اس محل اور اس ارسٹو کریٹک برہمن خاندان اور دولت مند شوہر کو خیر باد کہے اور ان بے مایہ پیارے بھولے دیوانے لوگوں کے ساتھ چلی جائے کیونکہ جہاں یہ لوگ رہیں گے وہی بالآخر اس کا گھر ہو گا۔ کہ دنیا Holiday Inns اور پلاسٹک کے پیالوں کے علاوہ سرخ چھتوں والے سہ منزلہ Heinz اسٹائل مکانوں اور چاندی کے گلاسوں سے بھی بھری ہوئی ہے۔ اور اسے اپنا گھر کہیں نہیں ملا۔ کیا وہ سچ مچ اکھنڈ سوبھاگیہ وتی راجیہ لکشمی شلیجا دیوی جی ہے؟ وہ اپنی کھال کے اندر محض کیتھرین بولٹن ہے اور کرنل بولٹن اور کار پورل بولٹن کے جس Conflict نے اسے ہمیشہ مضمحل رکھا تھا آج بالآخر وہ بھی حل ہو چکا ہے۔ وہ باہر جا کر ڈرامائی انداز سے اعلان کرے گی۔۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔۔ ماما۔۔۔۔ لو میں آ گئی۔ میں تمہارے ساتھ چل رہی ہوں۔
وہ ہمت کر کے دروازے کی طرف بڑھی لیکن کواڑ کھولتے ہوئے اس کی نگاہ اپنے ہیرے کے کنگن سے ٹکرائی۔ سامنے دھوپ میں اس کی ذاتی مرسیڈیز چمکی اور اسے یاد آیا کہ گیارہ بجے اسے گولف کلب پہنچنا ہے۔ کیا یہ سب پل کی پل میں غائب؟ مرمریں غسل خانے میں سے شاور کی آواز آ رہی تھی۔
دوسرا خیال۔ اس خوف ناک انکشاف کے بعد اس کا شوہر اسے خود ہی چلتا نہ کر دے گا؟ اس سے بہتر ہے با عزت طریقے سے خود ان لوگوں کے ساتھ چلی جاؤں۔ اسے چکر آیا جیسے ڈوبتے جہاز پر کھڑی تھی۔ اس نے دروازے کا سہارا لیا۔ بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش لازمی ہے جہد للبقا کا پہلا اصول اس کا کم عقل شوہر تولیہ کا ڈریسنگ گاؤن پہنے غسل خانے سے باہر نکلا۔ یہ باہر کیسا شور ہو رہا تھا؟ اس نے دریچے کی طرف جاتے ہوئے پوچھا۔
کیتھرین نے ایک گہری سانس بھری اور صاف مضبوط آواز میں بولی ’’ڈارلنگ! اس رسالے میں وہ تصویر اور مضمون چھپنا غضب ہو گیا۔ کوئی بدمعاشوں کی ٹولی آن پہنچی ہے بلیک میل کرنے۔ خود کو میرے ماں باپ بتاتے ہیں تمہارے پتا جی الیکشن میں کھڑے ہو رہے ہیں۔ مجھے تو یہ اسی کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔ تمہارے والد کے برہمن ووٹ کو توڑنے کے لیے مخالفوں نے ایک ہریجن عورت کو سکھلا پڑھا کر ایک انگریز بڈھے کے ساتھ یہاں بھیج دیا کہ کہے کہ وہ میری ماں ہے۔ یہ بڈھا سی۔ آئی۔ اے ایجنٹ بھی ہو سکتا ہے۔ پولس کو فون کرو۔۔۔۔ فوراً۔۔۔۔‘‘
راج کمار شیلندر گاؤدی تھا، مگر اتنا نہیں۔ اس نے ابرو اٹھا کر اپنی پری چہرہ یوورانی کو ذرا شک و شبہے کی نگاہوں سے دیکھا۔ کیتھرین کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا اور وہ خوف سے لرز رہی تھی۔
راج کمار شیلندر اسے اپنے راستے سے ہٹاتا دروازہ کھول کر سیدھا اپنے عالی مرتبت باپ کی طرف لپکا جو ہوش میں آ چکے تھے۔ کیتھرین نے تیر کی طرح غسل خانے میں جا کر دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ سامنے پھاٹک پر اس کا فاترالعقل ماموں ہاتھ پھیلائے کھڑا سب کی خیر مانگ رہا ہے۔
کھڑا کبیرا دیر سے مانگے سب کی خیر
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید