تیسرے دن چلتے چلتے شام کو کوہِ طور پر پہنچے۔ دور سے پہاڑ نظر آئے۔ ایک باغ نفیس تھا بیچ میں اُن کے۔ دیکھنے اُس کے سے میں بہت خوش ہوا، پھولا نہ سمایا۔ تمام عمر میں دو مرتبہ مجھ کو جتنی خوشی حاصل ہوئی ویسی کبھی خیال میں نہیں آتی ہے۔ ایک دیکھنا زمین جزیرۂ کیپ طراوت آباد کا، دوسرے بعد از صحرا نوردی مشاہدہ اس باغِ ارم بنیاد کا۔ اُن دونوں پہاڑوں میں سے جو داہنی طرف تھا، کوہ ِ طور نام رکھتا۔ پہاڑ کے اوپر ایک قلعہ بنا ہے، بلندی میں آسمان سے باتیں کرتا ہے۔ اگر اتنا بلند نہ ہوتا، مال اور اسباب اُس کا لُٹ جاتا۔ اس لیے کہ بدوی ہمیشہ مستعد تاراج و یغما رہتے ہیں، قابو پانے پر مال و اسباب لوٹ لے جاتے ہیں۔ باغ اور قلعہ میں گریک کے دو سو پادری ترکِ دنیا کر کے بیٹھے ہیں۔ تما م عمر عورت سے نہیں واقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ حال اُن کا مشہور ہے، معلوم ِ نزدیک و دور ہے مگر حال باطن اُن کے کا خدا جانتا ہے کہ دل مکدّر ہے یا صفائی رکھتا ہے۔ قوم گریک کے رئیس نے قلعہ کے اندر ایک مسجد بنوائی ہے، رضامندی بدویوں کے لیے یہ بات بنائی ہے تا کہ بدوی اُن کو محض کافر نہ گنیں۔ اُن کی طرف سے دل میں محبت رکھیں۔ اسی واسطے دو سو بدویوں کو ہر روز کھانا کھلاتا ہے، عناد و خصومت سے باز رکھتا ہے۔ پھر بھی وہ آمادۂ غارت گری رہتے ہیں، قابو پانے پر نہیں چوکتے ہیں۔ قلعہ جانے کی راہ ایک دروازہ مستحکم ہے۔ راہ باغ کی بھی اُسی سے توام ہے، اور طرف کوئی دروازہ نہیں لگا ہے۔ وہ ایک بھی خوف بدویوں سے ہمیشہ بند رہتا ہے۔ سابق دروازہ پر گھنٹے تھے کہ مسافر جب وہاں پہنچتے گھنٹا ہلاتے۔ لوگ قلعہ کے اُس کی آواز سے خبردار ہو کر مسافر کو اندر لے جاتے۔ بدوی کئی بار اُن کو اُٹھا لے گئے۔ اب انھوں نے لاچار ہو کر دروازہ پر ایک لکڑی رکھی کھڑکھڑانے کے لیے۔ مسافر جب جاتا ہے وہ لکڑی دروازہ پر دے مارتا ہے۔ قلعہ والے جب آواز اُس کی سنتے ہیں، مسافر کو اندر بلا لیتے ہیں۔ ہم لوگ بھی جب وہاں پہنچے، اطلاع کے لیے لکڑی دروازے پر بجانے لگے۔ قلعہ والے دوڑے۔ بلندی پر ایک کھڑکی تھی اُس کے پٹ کھولے، نیچے دیکھا۔ ہمارا حال پوچھا۔ کلن صاحب نے چٹھی سفارش کی اُن کے نام پر لکھوائی تھی، دکھلائی۔ انھوں نے ایک رسّی پیچ لگی ہوئی، نیچے لٹکائی۔ چٹھی پیچ میں رکھوا کر اوپر کھینچ لی۔ بعد اس کے اُسی رسّی پیچ دار کو پھر لٹکایا۔ ہم کو اور اسباب ہمارے کو اوپر کھینچ لیا۔ اندر لے جا کر مہمانی میں مشغول ہوئے۔ دو ایک صاحب نہایت مہربانی فرما کر دو چار کلیسوں میں جو وہاں تھے لے گئے۔ ایک کلیسا قدیمی بہت بڑا تھا۔ اندر اُس کے اسباب چاندی سونے کا رکھا۔ فرش سنگِ مرمر سپید و سیاہ کا مانند خانون شطرنج کے بنا ہوا۔ جھاڑ چاندی کے چھت اور دیواروں پر لٹکے۔ فریم تصویر اولیا انبیا کے جا بجا لگے۔ قدرت خدا کی اس مکان والا شان سے پیدا۔دوسری طرف ایک اور مکان گنبددار تھا۔ حضرت موسیٰ اسی جگہ روشنی اور تجلیّ خدا کی دیکھ کر سجدہ میں آئے تھے۔ اب تلک وہاں جانے والا کانپتا ہے ہیبت سے۔ اندر اس کے بتیاں اگر کی جلتیں اور ہر طرح کی خوشبوئیں تھیں۔ اُس کے سامنے ازراہِ ادب جوتا پہنے کسی کو جانے نہیں دیتے ہیں۔ گریک اور انگریز اور ہر کوئی برہنہ پا ہو کر زیارت اُس کی کرتے ہیں۔ میں نے اور ہمراہیوں میرے نے وہاں جا کر زیارت کی۔ بعد اس کے رہنمائی اُن دونوں صاحبوں سے تہ خانہ کی راہ سے جو ملحق باغ سے تھی، باغ میں آئے، اُس کا تماشا اور سیر دیکھتے رہے۔ عجب باغ نادر اور سر سبز تھا کہ نہال خشک قلم مدح نگاری اس کی سے بارور ہوا۔ شعر:
دراں باغ مرغان بجوش آمدہ
زہریک دگرگون خروش آمدہ
درخت بادام، پستہ، ناریل، زیتون اور ہر ایک میوہ کے پھلوں سے لدے ہوئے۔ ہر قسم کے پھل اور میوے وہاں موجود تھے۔ وہ پادری تارک الدنیا جو وہاں رہتے، سوائے کھانے کے وہ میوے کھاتے۔ اسی سیر میں شام ہوئی، دل کو خواہشِ طعام ہوئی۔ ازانجا کہ مقیموں پر دعوت مسافروں کی لازم ہے، یہی طریقہ ہمیشہ سے قائم ہے، ہم ان کو مہمان نوازی پر منتظر رہے۔ زیادہ تر اس سبب سے کہ کوئی جا گہ خرید و فروخت کھانے کی نہ جانتے۔ اتنے میں میز پر دستر خوان بچھا، ستھرے برتنون صاف کو اُس پر چُنا۔ دو تین بڑے برتنوں میں چاول تر بتر پلاؤ کی صورت لائے۔ اسی قدر روٹی سیاہ بد ہئیت۔ ترکاری روغنِ زیتون کی پکی ہوئی۔ قہوہ اور شراب بھی آئی۔ چاولوں کو دیکھ کر بندہ بہت محظوظ ہوا کہ مدّت کے بعد پلاؤ میسّر آیا۔ جب کھانا آ چکا اور ہر ایک برتن میز پر قرینے سے جما۔ کھانا شروع ہوا۔ چاولوں پر میں نے پہلے ہاتھ ڈالا اور ایک لقمہ کھایا، تیل کا پکا ہوا پایا۔ ایسا تنفّر ہوا کہ پھر کوئی نوالہ اُس کا حلق سے نہ اُترا، مگر ترکاری وغیرہ سے البتہ قدرے قلیل کھایا او ر قہوہ بھی پیا۔ ہیڈ صاحب نے بھی میری طرح عمل کیا۔ مگر پرنکل صاحب نے چند لقمہ روٹی کے کھائے، بعد اس کے خاموش ہو کر بیٹھے۔
کلن صاحب مرد خود نما تھے، ہاتھ بڑھا کر ایک برتن کے چاول صاف کر گئے۔ پھر دوسرا برتن اپنے آگے کھینچ لیا، اُس میں سے بھی تھوڑا سا کھایا۔ ہم اور سب لوگ مانع ہوئے کہ چاول تیل کے پکے ہرگز ہضم نہ ہوں گے۔ انھوں نے کچھ خیال نہ کیا، از راہِ جہالت شکم سیر کھایا اور کہا تم اس کھانے کا مزا نہیں جانتے ہو، یہ کھانا خوب ہوتا ہے، ناحق منع کرتے ہو۔ میں نے ترکوں کے ساتھ اکثر کھایا، اس نے کبھی مجھ کو ضرر نہیں کیا۔ کچھ زبانِ عربی بھی سمجھتے تھے۔ اُن لوگوں کے جواب میں تعال ہیں، تعال ہیں کہتے، لیکن ہم لوگ زبان عربی اور گریک کچھ بھی نہ سمجھتے۔ جب کھانے پینے سے فراغت ہوئی، قہوہ اور چپک کی نوبت آئی۔ اسی کیفیت میں رات ہوئی۔ کلن صاحب کے پیٹ میں درد اُٹھا، شور و غل مچایا۔ منگوا کر عرق انگور کا ایک پیالہ پیا، تب کچھ افاقہ ہوا۔ مگر ہنوز دردِ خفیف باقی تھا کہ وقتِ فجر ہوا۔ میں نے اُٹھ کر بعد سلام رسمِ خاص و عام کے ان کے مزاج کا حال پوچھا، انھوں نے حال بتایا اور کہا وہ روغن سوائے زیتون کے کچھ اور ہی تھا۔ ورنہ اتنا رنج نہ دیتا۔
دوسرے دن ہم نے پادریوں سے کہا کہ ہم میں سے کوئی زیتون وغیرہ کھانے کی عادت نہیں رکھتا، اگر گھی میسر آئے تو البتہ ہضم ہوئے۔ انھوں نے جواب دیا ہم لوگ ترک ِ لذات کر کے یہاں بیٹھے ہیں، انہی چیزوں کو کھاتے ہیں۔ میں نے پرنکل صاحب سے کہا: قرینہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہم سے کچھ پاویں، راضی ہو کر کھانے نفیس کھلاویں۔ پرنکل صاحب میرے کہنے پر راضی ہوئے، ایک کو اُن میں سے پانچ روپے دیے۔ اُس دن دوپہر کو جب میز پر دستر خوان بچھا، پستہ، بادام، انڈا، روٹی، چاول اور ہر طرح کا کھانا موجود ہوا۔ میں نے دل میں کہا سبحان اللہ، با وصف یہ کہ انھوں نے ترک تعلقات کر کے یہاں بیٹھنا اختیار کیا، اُس پر بھی دل سے دنیا کی محبت کو نہ چھوڑا۔ تھوڑے روپے دینے سے کیا کیا تکلف کیا اور اقسام اقسام کا کھانا سوائے گوشت کے میز پر لگایا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اُن کا اظہار نانِ خشک کا بیجا تھا۔ میوے اور کھانے مرغّن کھاتے۔ نہیں تو ایسے موٹے کیوں کر ہو جاتے کہ سب جنگلی سور کی طرح پھولے تھے اور لنبے چوڑے نظر آتے۔ دوسری دلیل یہ کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، ایک شخص ایک برتن کندھے پر رکھے آتا، پکی مچھلیوں سے بھرا تھا۔ اُن پادریوں کے لیے لایا۔ مخفی جگہ پر بیٹھ کر انھوں نے کھایا۔ تیسرے پہر کو میں نے چھپ کر اُن کے کھانے کا مکان دیکھا۔ ہر ایک طرح طرح کی نعمتیں کھا رہا تھا اور شراب و چپک پیتا۔ انھی دنوں دو انگریز ایک کا نام ڈاکتر ہال رائے صاحب، دوسرا ایندرو صاحب وہاں سیر کے لیے وارد ہوئے۔ دونوں دولت مند اور صاحب ثروت تھے۔ فقط سیر اور تجربہ اور حصول علموں اور صنعتوں کے پھرتے۔ چنانچہ روم، شام، عربستان طے کرکے یہاں پہنچے تھے۔ ڈاکتر ہال رائے صاحب جس ملک کو دیکھتا نقشہ اس کا کھینچتا، ایندرو صاحب حال ہر ملک کا لکھتا دونوں صاحب پوشاک عربی پہنے تھے۔ اس لیے ہم ان کو شیخ عرب سمجھے۔ بعد کلام کرنے کے ثابت ہوا اُن کا انگریز ہونا۔ ایک لڑکا حبشی خدمت کے لیے اور ایک ڈیرہ و خیمہ چھوٹا بوجھ ایک گدھے کا ان کے ہمراہ تھا۔ میں بہت اشتیاق سے اُن کی ملاقات کرنے گیا۔ اُس وقت وہ کھانا کھا رہے تھے۔ دونوں اپنے ہاتھ سے نوالہ اُٹھا کر منہ میں لے جاتے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا چھری کاٹنے سے کھانا کیوں موقوف کیا۔ انھوں نے کہا: سفر میں اس قدر بوجھ اُٹھانا اور لباس انگریزی پہننا عقل کے خلاف دیکھا۔ عربی پوشاک پہنی، اس ملک میں جہاں ہم جاتے ہیں لوگ اخلاق سے مل کر اچھی جاگہ عزّت سے بٹھلاتے ہیں۔ وہ ایسے تپاک سے مجھ سے ملے اور کلمات نصائح بیان فرمائے کہ اُن کے پاس سے اُٹھنے کو دل نہ چاہتا۔
صاحبانِ انگریز کیا عقل رسا اور فہم و ذکا رکھتے ہیں کہ باوجود ثروت کے ہمیشہ علم و ہنر کے طالب رہتے ہیں، ایک لحظہ اپنی اوقات برباد نہیں کرتے ہیں۔ مستعدِ تلاش امور عجیب کے ہوتے ہیں۔ ایک نئی بات حاصل کر کے اہل جہاں اور واماندوں کے لیے یادگار چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسی ہی باتوں سے ملک ہندوستان وغیرہ اپنے قبضۂ تصرف میں کیا اور کرتے جاتے ہیں۔ وائے بحال رئیسانِ ہندوستان کہ زندگی اپنی بیجا باتوں میں برباد دیتے ہیں۔ کبوتر اور مرغ اور بٹیر اور قماربازی میں مشغول رہتے ہیں۔ دنیا اور مافیہا سے خبر نہیں رکھتے ہیں۔ خوشامدی اُن کے پاس بیٹھ کر تعریفیں فضول کرتے ہیں۔ غرض وہ تحصیل علوم اور فنون سے کاہل ہیں، آمادۂ امورِ بے حاصل اور لاطائل ہیں۔ اس سبب سے روز بروز مغلوب اور ضعیف ہوتے جاتے ہیں۔ انگریز اپنی مستعدی چالاکی سے اُن پر غالب آتے ہیں۔ سابق انگریزوں کے قبضہ میں سوائے انگلستان کے دوسرا ملک نہ تھا۔ اب انھوں نے اپنی مستعدی سے کتنے ملکوں کو سر کیا۔ شاہ ہندوستان جو کابل و قندھار تک قبضہ رکھتا، اب کاہلی اور نامستعدی سے مثل شاہِ شطرنج کے اپنے گھر میں بھی بے دخل ہوا۔ اے قلم! تو ارادہ مطلب نگاری کا رکھتا ہے۔ اظہار عیب و ہنر سے ہر ایک کو ناحق دشمن اپنا بنا کر بات بڑھاتا ہے۔
قصہ مختصر دوسرے دن بندہ مع احباب ہمراہ کے اور ایک عرب سقّے کے کوہ ِ طور پر آیا۔ ایک شخص راہ بتانے والا قلعہ سے ساتھ لیا۔ کوہ طور آٹھ ہزار فٹ بلندی رکھتا۔ اوپر چڑھنے کو ایک زینہ پتھر کا قدیم سے بنا ہوا۔ اُس زینہ سے رستہ آمد و رفت کا مشہور ہے کہ وہ ہزار برس کا شاہ گریک کا بنوایا ہے۔ کوہ ِ طور پر ایک حوض نظر آیا۔ کنارے اُس کے ایک درخت سرو کا لگا۔ اگرچہ حوض پانی سے خالی تھا مگر ایسا تر و تازہ اور سیدھا درخت سرو کا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ آگے بڑھ کر ایک غار دیکھا پانی اس کا شربت سا میٹھا۔ میں اُس کو پی کر چپ و راست پھرا۔ پہاڑ عظیم الشان نظر آیا۔ تھوڑا آگے بڑھا۔ نشان پیٹھ حضرت موسیٰ کا پتھر میں پایا۔ تفصیل اُس کی یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت موسیٰ تحریر احکام الٰہی میں مشغول تھے۔ ناگہاں ایسی چمکاری نور کی چمکی کہ حضرت موسیٰ پیٹھ پہاڑ سے لگا کر حیران ہوئے۔ ازراہ اعجاز پتھر میں نقش پیٹھ آنحضرت کا پڑ گیا، یہ وہی پتھر اعجاز نشان تھا۔ حضرت محمد مصطفیٰ کا بھی معجزہ وہاں تھا۔ یعنی اُن کے اونٹ کے سم کا نقش پتھر پر بنا تھا۔ یہ حال سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور عرب سے حال اُن کا مفصل سنا۔ عبادت خانہ گریک اور اہل اسلام کا اُس پہاڑ پر تھا۔ یہ سیر دیکھ کر اور مقام پر گیا کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے بہت مبالغہ سے پانی مانگا۔ حضرت موسیٰ نے عصا اپنا پتھر پر مار کر چشمہ پانی کا نکالا۔ اب اُس میں پانی نہ تھا مگر نشان ثابت ہوتا اور ایک جگہ پر نشان سرِ گوسالہ پرستش بنی سرائیل کا تھا۔ جب حضرت موسیٰ نے اُن کو پرستش سے منع کیا اور غصّہ کر کے سمجھایا، تب بنی اسرائیل کے سرداروں نے اس گوسالہ کو سر کے بل دے مارا۔ سر اُس کا مع سینگوں کے پتھر میں دھنس گیا۔ نشان اُس کا اب تلک باقی رہا۔ عرب نے حال کہا کہ اگر مینھ برسے اتنا کہ پہاڑ ڈوبے تو بھی پانی اُس گڑھے میں نہ آوے۔ یہ بات میں نے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھی، پر عربوں کی زبانی سنی۔ ایک اور جگہ تھی وہاں مسلمان بھیڑی بکری کی قربانی کرتے ہیں اور اس قربانی کو سبب برکت اور زیادتی بکریوں کا سمجھتے ہیں۔ آگے بڑھ کر ایک پتھر دیکھا۔ جس پر بیٹھ کر وعظ کہتے تھے حضرت موسیٰ۔ ان سب باتوں کو دیکھ کر بندہ نے اعتماد کیا۔ قدرت الٰہی سے بعید نہ جانا۔ مگر بعضے انگریز جو کم عقل رکھتے ہیں، ان امروں کو محض جھوٹ جان کر کہتے ہیں، کیوں کر حضرت موسیٰ سمندر سے پار اُتر گئے ہوں گے۔ اگر بالفرض پانی بھی سوکھا ہو، جال درخت مونگے کے کس طرح راہ سے ہٹے ہوں گے۔ اسی طرح سارے حال قصے کہانی جانتے ہیں، دل میں یقین نہیں لاتے ہیں۔ مجھ کو اُن کی نادانی پر تاسّف آتا ہے کہ جو شخص تحصیل معاش کے فنون سے خبر نہیں رکھتا ہے، قدرت خدا اور معجزہ انبیا سے کیا جان کر انکار کرتا ہے، عمداً گمراہی میں بھٹکتا ہے، اس واسطے کہ قدرت خدا کی عقل میں نہیں آتی۔ عقل کو کیا طاقت اس کے بھید دریافت کرنے کی۔ حال ان لوگوں کا مانند حال اُس دولت مند کے ہے کہ ایک فقیر لازرس نام نے ساتھ اُمید ٹکڑے روٹی کے اُس کے دروازہ پر رہنا اختیار کیا۔ مرضِ جذام میں گرفتار، سراپا فگار تھا۔ وہ دولت مند بخیلی کے سبب سے اُس کو کبھی پارۂ نان نہ دیتا اور اپنی تن پروری خوب طرح کرتا۔ ایک دن فکر بارہ برس کے سامان کی کرتا تھا، ایک بارگی قضا آئی مر گیا۔ وہ فقیر بھی خرابی اور مفلسی میں مرا۔ دولت مند دوزخ میں داخل ہوا۔ فقیر حضرت ابراہیم کی گود میں آرام سے بیٹھا۔ دولت مند نے فقیر کو حضرت ابراہیم کی گود میں بیٹھا دیکھا، لجاجت سے کہنے لگا: اے نبی اللہ کے! مجھ کو بھی اس مصیبت سے چھڑا کر اپنے پاس بلا۔ آنحضرت نے جواب میں فرمایا: ہمارے اور تیرے درمیان ایک بڑا غار ہے، آنا جانا اس کے سبب سے دشوار ہے۔ تو دنیا میں سائلوں محتاجوں کو اپنے دروازہ سے نکالتا تھا او ر خدا کے دیے ہوئے سے کچھ نہ دیتا تھا۔ اُس کے عوض خدا تعالیٰ نے یہاں تجھ کو اپنی نعمت سے محروم رکھا۔ دولت مند نے پھر عرض کیا: میں مستحق اس ظلم و جفا کا ہوں۔ اب یہ التماس رکھتا ہوں کہ ان مردوں میں سے کسی کو ارشاد ہووے تا کہ میرے بھائیوں زندوں کو خبر میری مصیبت و تکلیف کی پہنچاوے۔ آنحضرت نے فرمایا اگر انھوں نے کتاب خدا اور رسول مقتدیٰ پر اعتماد نہ کیا، ایک مردے کی خبر دینے سے کیا فائدہ ہوئے گا۔ اسی طرح اگر کوئی معجزون انبیا کا نہیں قائل ہوتا ہے، عاقبت اپنی خراب کرتا ہے۔ میں نے یہ سب معجزے پیغمبروں کے اپنی آنکھ سے دیکھ کر اس کتاب میں لکھے۔ اگر کوئی اعتبار نہ کرے اپنی بلا سے۔
ہم نے بعد زیارت ایسے مکانون پاک کے نیت سوئیس پھرنے کی کی۔ اُن پادریوں سے اجازت رخصت چاہی۔ چلتے وقت انھوں نے زادِ راہ اور قہوہ اور روٹی سیاہ چھوٹی اور تھوڑی سی شکر دی۔ وہ بھی چھ منزل راہ میں پوری نہ پڑی۔ اس خیال سے کہ یہ مسافر انعام نہ دے چلے، گھبرائے ہوئے تھے۔ فی الحقیقت ان کو کچھ دینا ضرور نہ تھا۔ اس لیے کہ کئی ہزار روپے کا سالیانہ سرکار شاہ گریک سے اُن کو ملتا۔ چنانچہ ہر ایک صاحبِ نصاب تھا۔ میوون باغ کا کچھ حساب نہ تھا۔ سوا اس کے فقیروں کو روپے لینے سے کیا غرض و مدعا۔ بخل اور امساک جبلّی سے چلتے وقت ہم کو میوون باغ یا کھانون نفیس سے سوا روٹی سیاہ اور تھوڑی شکر کے کچھ نہ دیا۔ شاید انھوں نے قول شیخ سعدی کا نہیں سنا کہ ہمارے ساتھ ایسا معاملہ کیا، شعر:
بزرگان مسافر بجاں پرورند
کہ نامِ نکوشاں بعالم برند
اُن کو لازم ہے کہ سب روپیہ اپنا خدا کی راہ پر دے ڈالیں، اگر بھلائی دنیا و آخرت کی چاہیں۔ نہ یہ کہ بخیلوں کی طرح روپے جمع کر کے اُس کی محبت دل میں رکھیں اور مسافروں سے انعام کی خواہش کریں۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا: جس چیز کو زیادہ دوست رکھتے ہو بُت ہے تمھارا۔ پرستش اُس کی کرتے ہو۔
اس زمانہ میں مسلمان، ہندو، انگریز وغیرہ سے میں کسی کو نہیں دیکھتا ہوں کہ روپے کا عشق دل میں نہ رکھتا ہو۔ سب لوگ مذہب زر پرستی رکھتے ہیں، اپنے طریقے پر نہیں چلتے ہیں۔ زیادہ اس سے کیا ہو گا کہ ان پادریوں نے دنیا اور عزیزوں قریبوں کو چھوڑا، جنگل پہاڑ پر رہنا اختیار کیا۔ خدا تعالیٰ سے دھیان لگایا۔ افسوس کہ زر پرستی سے باز نہ آئے۔ ہمیشہ طالب روپیے کے ہیں۔ جب میں نے دیکھا کہ انھوں نے ہمارے انعام نہ دینے سے چہرہ پر آثارِ ملال ظاہر کیا، میں نے پرنکل صاحب سے اشارہ سے کہہ کر انعام اُن کو دلوایا۔ سردار پادری نے روپیوں کو لے کر کپڑے میں مضبوط باندھا اور اپنے مقام پر گیا۔ ظاہراً اسی امید پر ٹھہرا تھا۔ جب پا گیا رخصت ہوا۔ ہم سب جس طرح قلعہ پر گئے تھے، اُسی طرح ہنڈولے میں بیٹھ کر نیچے اُترے اور روانہ منزل مقصود ہوئے۔
بروقت روانگی کلن صاحب اور پرنکل صاحب کے آدمی سے کسی بات پر تکرار ہوئی۔ وہ ہمیشہ اُس کو جان کہہ کر پکارتے۔ اس وقت بھی تعال ہیں، تعال ہیں جان کہتے۔ چاند اُن کو کلم کلم کہتا۔ اسی بحث و تکرار میں دو گھڑی کا عرصہ ہوا، آخر ہم نے مشکیزے پانی کے اونٹوں پر لا دے اور آپ بھی اونٹوں پر سوار ہوکر سوئیس چلے۔ سب رستہ کو ہستان ہے۔ تکلیف اور مصیبت بیحد و پایاں ہے۔ ہم کو راہ میں ایسی تکلیف ہوئی کہ نہیں طاقت بیان کی۔ تپش آفتاب کی اس درجہ پر تھی کہ ساری جلد منہ اور بدن کی جلی، رنگت سیاہ ہوئی۔ پرنکل صاحب اور ہیڈ صاحب اوّل مرتبہ لندن سے ہندوستان آتے تھے، صعوبتِ سفر سے خبر نہ رکھتے تھے۔ یہ سب تکلیفیں سہتے مگر حرفِ شکایت زبان پر نہ لاتے۔ خوراک سوا سیاہ روٹی اور شکر کے کچھ نہ تھی۔ سو بھی بخیال کمی اور بہم نہ پہنچنے کسی چیز کے ایک ایک روٹی حصّہ میں آتی۔ سوئیس کے قریب نوبت آدھی روٹی کی بلکہ اس سے کم کی آئی۔ پرنکل صاحب ہمیشہ دودھ گائے اور بھیڑ کا پیتے تھے، یہاں تک کہ قہوہ بھی بے دودھ نہ پیتے۔ راہ میں نہ ملنے اُس کے سے سخت حیران ہوئے۔ اگر کہیں گلّے بکریوں بدویوں کے ملتے۔ کلن صاحب خوش طبع تھے، ازراہ خوش طبعی دودھ بکریوں کا پی لیتے۔ پرنکل صاحب کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑتے۔ بلکہ ازراہ سادہ مزاجی تھن بکریوں کے منہ میں لیتے اور بے تکلف دودھ پیتے۔ بدوی شوروغل مچاتے۔ مگر وہ کچھ بھی نہ سنتے، پتھر پہاڑوں پر سے ڈھکیلتے۔ ایک مرتبہ قریب تھا کہ اُس کے ساتھ آپ بھی گر پڑتے۔ مگر عنایت الٰہی سے بچ گئے۔ ایک چھری پاس رکھتے۔ جہاں کہیں ڈیرہ قنات استادہ ہوتی طناب اور میخیں اُس سے کاٹ ڈالتے اور چھوڑ دیتے۔ جابجا تعال ہیں تعال ہیں کہتے۔ غرض کہ تما م راہ میں یہی حرکتیں کرتے رہے۔
راہ میں ہم نے ایک بکری کو بدویوں سے مول لے کر ذبح کیا، گوشت اُس کا کھایا۔ جو باقی رہ گیا، شتربانون عرب کو تقسیم کر دیا۔ عجب احمق و نادان تھے کہ گوشت پوست مع ناخونوں کے بھون کر کھا گئے۔ فقط سینگ بسبب سختی اور نہ چبائے جانے دانتوں کے پھینک دیے۔ اونٹ ہماری سواری کے جب منزل پر پہنچتے، شتربان اُن کو پہاڑ جنگل میں چرنے کو چھوڑ دیتے۔ اُس اطراف میں سوا ایک قسم سوکھی گھاس کے نہیں ہوتی ہے۔ شام تک اونٹ اُس کو چرتے رہتے۔ جب اندھیرا ہوتا اونٹ والے اپنے اپنے اونٹ کو اُس کا نام لے کر پکارتے، اونٹ اپنے مالکوں پاس بلا تحاشا دوڑ آتے۔ اونٹ والے قریب سیر بھر کے دانہ اُن کو کھلاتے، پانی تین تین روز تک نہ پلاتے۔ مگر باوجود اس کمی دانہ کے بارثقیل اپنے اوپر لاد کر منزل تک پہنچاتے۔ اگر اونٹ اُس طرف نہ ہوتا، ریگستان اور کوہستان میں گذرنا دشوار تھا۔ مصر؏:
بے چارہ خار می خورد و بار می برد
اونٹ والے عرب شام کو بھوسی سے کوئی چیز نکالتے، اُس کو حریرے کی طرح اونٹ کی مینگنیوں میں پکا کر کھاتے۔ عقل و تمیز سے مطلق بہرہ نہ رکھتے۔ جانوروں کی طرح سب افعال اُن کے تھے۔
ہم چلتے چلتے قریب سوئیس کنارے دریا کے جا پہنچے۔ اُس کشتی پر سقّے پانی بیر موسیٰ سے بھرے لیے آتے تھے، سوار ہوئے۔ کلن صاحب جلدی سے ایسا کود کر ناؤ پر چڑھے کہ پرنکل صاحب اُن کے دھکے سے ناؤ میں گر پڑے۔ کلن صاحب نے شرمندہ ہو کر پرنکل صاحب کو اُٹھا کر بٹھلایا اور عذر کیا۔ انھوں نے راضی ہوکر معاف کیا کہ یہ امر اختیاری نہ تھا بلکہ سہواً ہوا؛ اس میں کیا مقام رنجش کا۔
اس مصیبتوں سے بچ کر سولھویں تاریخ مارچ کے دن جمعہ کے، دریا کے پار جا کر سوئیس میں پہنچے اور مج صاحب کے مکان پر اُترے۔ انھوں نے فی الفور برسمِ دعوت کھانے نفیس منگوائے، ہم لوگوں کو کھلوائے۔ اس وقت وہ کھانے مزیدار بہشت کے کھانے اور میوے معلوم ہوتے، اس لیے کہ بہت دنوں بعد کھانے میں آئے۔ انھیں دنوں میں فابر صاحب مع اپنی بی بی کے اور ارکٹ صاحب گورنر جرنیل کے بیٹے ہندوستان جانے کو مصر سے سوئیس آئے۔ جہاز کی انتظاری میں مقام کر کے خیمے کھڑے کروائے اور کئی صاحب بنبئی سے لندن جاتے تھے۔ وہ بھی یہاں پہنچ کر سستانے کے لیے چند روز رہ گئے۔ سب صاحبوں سے ملاقات ہوئی، ہر ایک نے مجھ سے مہربانی اور عنایت فرمائی۔ الّا فابر صاحب اور ان کی بی بی اور ارکٹ صاحب سے مجھ سے زیادہ تر موافقت ہوئی۔ اس لیےکہ انھوں نے شفقت بزرگانہ میرے حال پر مبذول کی۔ اتفاقاً لشکر پیدل شاہ مصر کے نے آ کر وہاں کئی دن مقام کیا۔ حبش کی لڑائی کا قصد رکھتا۔ خیمہ اور ڈیرہ لشکر کا مانند فوج انگریزی کے صاف اور خوشنما تھا۔ اچھی جگہ پر استادہ ہوا۔ میں نے اُن لوگوں سے ملاقات کی۔ ہر ایک کی صورت دردناک اور غم گین تھی۔ حال پوچھا کہ تم لوگوں کو کیا صدمہ ہوا۔ انھوں نے کہا: ملک حبش بہت گرمی رکھتا ہے ہم میں سے زندہ بچ کر ایک بھی پھرتا نہیں نظرآتا ہے۔ ہر ایک کی ماں بہنیں سوئیس تک پہنچانے آئیں تھیں۔ گویا لب قبر تک پہنچانے چلیں۔ مجھ کو ان کی جوانی پر رحم آیا کہ افسوس ہر ایک جوان مارا جائے گا، برداشت گرمی اور مقابلہ اہل حبش کی کون لائے گا۔ بعد دو تین دن کے جہاز اٹلنٹا سے آیا۔ سبھوں نے پہنچنا اُس کا غنیمت جانا اور فکر روانگی میں ہوئے۔ مگر میرے پاس روپے خرچ کے تھوڑے باقی رہے اور کرایہ جہاز کا سوئیس سے بنبئی تک آٹھ سو روپے تھے۔ ہم متردّد ہو کر اس بات پر مستعد ہوئے کہ عرب کے بگلے پر سوار ہوکر جدّے جاویں، وہاں جو کچھ بن پڑے سو کریں۔ پرنکل صاحب نے میرا حال دریافت کرکے کہا: بنگلہ عرب کا جدے میں جا کر ٹھہرتا ہے۔ جب ہو ا موافق ہوتی ہے وہاں سے رواں ہوتا ہے۔ اس سبب سے تم کو بنبئی پہنچنے تک پانچ چار مہینے کا عرصہ ہو گا۔ خرچ پاس نہ رہے گا اور زیادہ تر دد ہوگا۔ جب میں جہاز کے مکان دیکھنے جاؤں گا تو صاحب کپتان جہاز سے تمھاری سعی کر کے کوئی جگہ ٹھہرادوں گا۔ میں نے ان کا کہنا قبول کیا۔ بہتری سمجھ کر راضی ہوا۔ جب پرنکل صاحب اور ہیڈ صاحب جہاز پر مکان دیکھنے گئے، کپتان جہاز سے سفارش کر کے میرے لیے بھی ایک مکان ٹھہرا آئے۔ میں نے ادائے شکر اُن کا کیا۔ بعد اس کے اس درویش سائل کے رہنے کا ٹھکانا چاہا۔ خدا ان صاحبوں کو ترقی مرتبہ پر پہنچاوے۔ میرے حال پر کیا کیا عنایتیں فرماتے۔ میری خاطر سے اُس کو بھی جہاز پر جگہ دی اور یہ بات کہی کہ تم اور لوگوں کرایہ دینے والوں سے زیادہ آرام پاؤ گے۔ کسی طرح تکلیف نہ اُٹھاؤ گے۔
تیسویں تاریخ مارچ کی بندہ ہمراہ اُن صاحبون عالیشان کے سوار ہوا۔ ایک کمرۂ ہوادار پر بیٹھ کر خانسامان جہاز کے ساتھ بنبئی چلا۔ کپتان صاحب نے تخفیف کرایہ کے واسطے نام میرا نوکروں میں لکھوایا۔ اس سبب سے کرایہ بنبئی تک کا چالیس روپے پر ٹھہرا۔ میں ہوادار کمرے میں خانساماں کے ساتھ بیٹھا آرام سے جاتا تھا۔ خانساماں فارسی نژاد عدل جُو نام، سراپا عدل تھا کہ اپنے اوپر تکلیف گوارا کرتا مگر مجھ پر کوئی تکلیف نہ ہونے دیتا۔ ارکٹ صاحب بعد کھانے کے میرے پاس آ کر چپک پیتے، باتیں مصر اور ہر ایک شہر کی کہتے سنتے۔ چلتے چلتے جہاز مخے میں پہنچا۔ قہوہ وہاں کلکتہ سے آتا ہے اور وہیں سے کویلہ وغیرہ جہاز کے لیے خرید ہوتا ہے۔ اس خیال سے کہ مبادا راہ میں کویلہ خرچ ہو جاوے۔ جہاز دودی جودھویں کے زور سے چلتا ہے روانگی سے باز نہ رہے۔ کپتان صاحب نے جہاز ٹھہرایا اور کویلہ وہاں سے خرید کیا۔ میں نے دور سے مخے کو بہت آباد دیکھا مگر جب وہاں جا پہنچا گلیوں کو تنگ، آدمیوں کو لا نبا دبلا پتلا پایا۔ ہر ایک بدشکل، سیا ہ رنگ تھا۔ گرمی کا ایسا زور کہ ٹھہرنا دشوار ہوا۔ قہوہ خانے یہاں کے بُرے تھے۔ مانند قہوہ خانون مصر کے ستھرے نہ تھے۔ چنانچہ میں نے ایک قہوہ خانہ میں قہوہ پیا، پسند نہ آیا۔ سابق یہ شہر عملداریٔ عرب میں تھا۔ اب محمد علی شاہ حاکم مصر نے زور شمشیر سے اس کو قبضہ اپنے میں کیا۔ آدمی شاہ مصر کے چوکی پہرے کو مقرر تھے۔ توپیں پرانی پڑی تھیں۔ قریب دیوار شہر پناہ کے مسلمان اور انگریز حبش کے جو شاہ مصر کے ہاں پکڑے آئے تھے، بھوکے پیاسے دھوپ میں بیٹھے پک رہے تھے۔ میں ان کا حال دیکھ کر بےقرار ہوا، جہاز پر آیا۔ دیکھا کہ مخے کے لوگ کویلوں کو جہاز میں بھر رہے ہیں، آمد و رفت میں گرد و غبار اڑا رہے ہیں۔ صورت ان کی ہوبہو بندر کی سی الّا ایک فرق کہ دُم نہ تھی۔ کپتان صاحب نے جب جہاز کولوں سے بھرا، لنگر کھولا، جہاز چل نکلا۔ مکلا میں پہنچ کر ٹھہرا۔ میں اتر کر اس شہر میں گیا۔ آدمیوں کو سیاہ رنگ، بدصورت پایا۔ وہاں دو تین ہندو پیشہ ور تھے۔ نہیں معلوم عربوں میں کیوں کر گذران کرتے۔ پھر ایک چھوٹی ناؤ پر سوار ہو کر جہاز پر آیا۔ ملاحون عرب کے لڑکوں نے ناؤ پر مجھ سے کہا کہ اگر ایک پیسا دو ہمارا تماشا دیکھو، یعنی غوطہ ماریں جہاز کے نیچے سے نکلیں۔ بندہ نے بموجب خواہش ان کے ایک لڑکے کو ایک پیسا دیا۔ اس نے غوطہ مارا جہاز کے نیچے سے نکل آیا، ڈر مچھلی گھڑیال کا نہ کیا۔ میں اس کو دیکھ کر متحیر ہوا کہ یہ لڑکے مچھلی کی طرح تیرتے ہیں۔ آفتون دریا سے ہر گز نہیں ڈرتے ہیں۔
جاتے جاتے جہاز قریب ملک سلون کے پہنچا، ہندی میں نام اس کا لنکا۔ سامنے اس کے سمندر میں دونوں طرف سے دو پہاڑ برابر سر نکالے ہیں۔ اس کے مابین سے جہاز کی راہ ہے۔ ہندو ان کو راون کا پل کہتے ہیں۔ رام لچھمن نے اس کو وقت لڑائی راون کے بیچ سے توڑا دیا۔ میں یہ سیر و تماشے جزیروں کے دیکھتا آتا تھا، ناگہاں وہ بیمار عیسائی قریب ہلاکت پہنچا۔ علاوہ اس کے دھوپ کی گرمی سے سخت حیران تھا۔ پرنکل صاحب سے حال غلبۂ مرض اور تکلیف دھوپ میں بیٹھنے اس کی کی بیان کی۔ انھوں نے کپتان صاحب سے کہہ کر ایک جگہ سایہ دار اس کے رہنے کو ٹھہرا دی۔ وہ طاقت ایک قدم چلنے کی نہ رکھتا۔ میں نے جہازیوں سے اس کو اس جگہ پر اٹھا لانے کو کہا، میرا کہنا کسی نے نہ سنا۔ آخر ایک گورا ولایتی ثواب جان کر اس کو دھوپ سے چھاؤں میں اٹھا لایا۔ از انجا کہ وہ قریب المرگ ہو رہا تھا، حال اس کا زیادہ تر بگڑا۔ مجھ سے کہا میرا مذہب عیسوی ہے، اس وقت کوئی سرہانے میرے بندگی پڑھے۔ میں نے سبھوں سے کہا کوئی بندگی پڑھنے پر راضی نہ ہوا۔ مگر پرنکل صاحب نے عنایت کر کے سرہانے اس کے بندگی پڑھی۔ بندگی سنتے ہی اس نے قضا کی۔ ہم نے اس کو طریقۂ عیسائی پر کفن پہنا کر دریا میں ڈالا اور ڈوب جانے کے لیے ایک گولہ توپ کا کمر اس کی سے باندھا۔ اس کی بیکسی اور مفلسی دیکھ کر عبرت آئی کہ بےزر کا دنیا میں کوئی نہیں ساتھی۔ بے روپے کے کوئی حاجت نہیں بر آتی۔ حسب حال یہ شعر یاد آیا، شعر:
اے زر تو خدا نای ولیکن بخدا
ستّارِ عیوب و قاضی الحاجاتی!