(Last Updated On: )
کتنی ہی بارشیں ہوں شکایت ذرا نہیں
سیلانیوں کو خطرۂ سیلِ بَلا نہیں
میں نے بھی ایک حرف بہت زور سے کہا
وہ شور تھا مگر کہ کسی نے سُنا نہیں
لاکھوں ہی بار بُجھ کے جَلا درد کا دیا
سو ایک بار اور بُجھا پھر جلا نہیں
ویسے تو یار میں بھی تغیر پسند ہوں
چھوٹا سا ایک خواب مجھے بھولتا نہیں
سوتے ہیں سب مراد کا سورج لیے ہوئے
راتوں کو اب یہ شہر دعا مانگتا نہیں
اس دن ہوائے صبح یہ کہتی ہوئی گئی
یوسف میاں کے سانولے بیٹے میں کیا نہیں
٭٭٭