کتنا پیارا اور اپناپن تھا اس کے چاروں طرف، لیکن وہ جیسے بالکل ہی بے نیاز بنا ہوا تھا۔ بقول طلحہ کے حارش عالم اپنے اندر کی اَنااور بدگمانی نکال کر دیکھو، آنکھیں کھولو، تمہارے چاروں طرف رب نے خوشیاں بکھیر دی ہیں۔ مگر اسے تو شاید خوشیوں میں رہنے کی عادت ہی نہیں رہی تھی۔ لیکن اب اسے شام میں گھر آنا اچھا لگنے لگا تھا۔ پہلے آتا تو سناٹا استقبال کرتا تھا، مگر اب دادی کی آواز اور حرمین، نرمین کی ہنسی، شور اور ان کے ساتھ طلحہ بھی شامل ہو جاتا تو گھر میں اتنی آوازیں رونق بن جاتیں۔ اس کے اندر کا انسان یہ ہی گھر تو چاہتا تھا۔ آواز، شور، اپناپن، خیال رکھنے والے بڑے، چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر خوش ہونے والے بہن بھائی، یہ ہنسی مذاق ایک دوسرے کے لیے پیار، ایک دوسرے کی ضرورت کا دھیان، اور اس کے پاس اب سب کچھ تھا، تو اس کے اندر کا وہ انسان مر چکا تھا۔ وہ ان کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتا تھا مگر ان میں گھل مل نہیں سکتا تھا۔ ایک عجیب سا تناﺅ اور سردمہری تھی اس میں، جو سب محسوس کرتے تھے مگر برا نہیں مناتے تھے۔ اب اسے اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے بھی پریشان نہیں ہونا پڑتا تھا۔ ہر کام ہر چیز تیار ملتی۔
طلحہ کتنا اچھا تھا۔ وہ ان سب لوگوں میں یوں شامل ہو گیا تھا جیسے شروع سے ان کا حصہ ہو۔ نرمین، حرمین، کاشف سب کے ساتھ گہری دوستی کر لی تھی اس نے، بس وہ ہی کٹا کٹا رہتا تھا۔
اب بھی وہ گھر لوٹا تو سب صحن میں ہی تھے۔ دادی لیٹی ہوئی تھیں۔ حرمین، کاشف، طلحہ اور نرمین بیڈمنٹن کھیل رہے تھے۔ خوب شور کیا ہوا تھا اور دادی ہنگامے سے تنگ ہونے کے بجائے انجوائے کر رہی تھیں۔ طلحہ اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ وہ بھی ہلکے سے مسکرا کر اندر آ گیا۔ فریش ہو کر دوبارہ آیا۔ وہ سب کھیل بند کر چکے تھے اور اب سب آرام سے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
”بس تھک گئے….؟“ وہ طلحہ کے پاس آ کے بیٹھ گیا۔
”نہیں یار! وہ حرمین کا خیال تھا کہ تم تھکے ہوئے آئے ہو اور ہمارے شور سے ڈسٹرب ہو جاﺅ گے اور ویسے بھی ہم تمہارے منتظر تھے کہ تم آﺅ تو ہمیں بھی چائے نصیب ہو۔“ طلحہ ہنستے ہوئے بولا۔
”میں نے کب کہا کہ تم میرا انتظار کرو۔“
”مجھے پتا ہے تو آدم بیزار ہے مگر حرمین کا خیال تھا کہ تمہارے آنے کے بعد سب مل کر چائے انجوائے کریں گے۔“ اس نے کہا تو حارش اسے گھور کر رہ گیا۔ تبھی حرمین سب کے لیے چائے لے آئی، ساتھ اسنیکس وغیرہ بھی تھے۔
”واہ…….. اللہ تمہارے جیسی بہن ہر بھائی کو دے۔“ طلحہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی، وہ مسکرادی۔
”تھینک یو بھیا۔“ حارش نے غیرارادی نظر اس پر ڈالی تھی۔ وہ دادی کے برابر میں بیٹھی چائے پی رہی تھی ساتھ ہی طلحہ کی باتوں پر مسکرا رہی تھی۔ سرخ پرنٹڈ لان کے سوٹ میں چمکتی دمکتی رنگت اور پُرکشش نقوش، اس لمحے جانے کیوں وہ حارش کو بے پناہ اچھی لگی تھی کہ اس کو خود علم نہ ہوا وہ کب تک اسے دیکھتا رہا۔ وہ تو حرمین نے اسے دیکھا تو وہ قدرے شرمندہ ہو کر سر جھکا گیا۔
”دادی! میں گھر جا رہی ہوں۔ کوئی کام ہو تو بلا لیجئے گا۔“ وہ کپ سمیٹ کر کچن میں رکھ آئی تھی اور اب دادی کے سامنے کھڑی تھی۔
”برتن میں آ کے دھو لوں گی، کھانا تیار ہے۔“ وہ ساری تفصیل بتا رہی تھی۔ طلحہ اور کاشف کے ساتھ باتیں کرتا حارش اس کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دے رہا تھا۔
”دادی! صبح میری چھٹی ہے، میں صبح کر دوں گی۔ اب میں جاﺅں….؟“ دادی نے اسے کوئی کام کہا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ بہت انجوائے کرتی یہاں کام کرتے ہوئے مگر حارش کے آنے کے بعد جانے کیوں وہ بھاگنے کی کرتی۔ اسے لگتا کہ حارش کو ان کا آنا پسند نہیں ہے،اور یہ بات وہ شدت سے محسوس کرتی تھی۔ کتنے دن گزرنے کے بعد بھی حارش کا رویہ ان کے ساتھ بہت روکھا اور سرد سا تھا۔ یہ بات حرمین عالم محسوس کرتی تھی تب ہی اس کی کوشش ہوتی کہ حارش کے آنے سے قبل وہ کام مکمل کر لے، حالانکہ طلحہ بھیا کے ساتھ ان کا وقت بہت اچھا گزرتا تھا۔ وہ بالکل اپنے سگے بھائیوں کی طرح ان میں گھل مل گئے تھے۔
”حرمین بہنا! میرا کام کر دیا ہے ناں۔“ وہ جانے لگی تو طلحہ نے پکار لیا۔
”رات میں کروں گی، آپ بے فکر رہیں۔“
”کاشف! لگتا ہے حرمین کچھ بھول رہی ہے۔“ طلحہ نے کاشف کو مخاطب کیا۔ حرمین نے بھی نہ سمجھتے ہوئے کاشف کو دیکھا جو سر ہلا رہا تھا۔
”کیا کاشف بھائی! بتائیں ناں۔“
”رات میں طلحہ سے آئس کریم کھانی ہے۔ کیونکہ یہ کل تم سے شرط ہارا تھا، اور تم خود ہی بھول گئیں۔“ اس نے سر پر ہاتھ مارا۔
”جناب اب یاد ا گیا، میں جلدی جلدی کام ختم کرتی ہوں، آپ تیار رہیں۔ جان نہیں بچے گی آپ کی۔“
”یار کاشف! وہ اچھا خاصا بھول گئی تھی، تم نے لازمی میرا خرچہ کرانا تھا۔“ طلحہ نے کاشف کو گھورا۔
”ابھی سے ڈر گئے آپ بھیا! ابھی حنا بھابی کو تو آنے دیں گھر میں، پھر دیکھیے گا۔“
”حنا بھابی….؟“ حارش نے قدرے چونک کر طلحہ کو دیکھا، وہ یکدم گڑبڑا گیا۔
”اچھا تم ابھی کام کرو جا کے۔“ اسے پتہ تھا کہ اب اس کی خیر نہیں، کیونکہ حارش اس تمام معاملے سے قطعی انجان تھا۔ وہ طلحہ کو گھورنے میں مصروف تھا جب حرمین اور کاشف باہر نکل گئے۔
”یہ کیا چکر ہے ڈفر، اور یہ مجھ سے کیا رازداری؟“
”نہیں یار! بس وہ حرمین اور نرمین نے میرے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے، مجھے بھی اچھی لگی۔ میں نے سوچا، کیا دل توڑوں ان معصوم لڑکیوں کے سو….“ اس نے بات بعد میں مکمل کی تھی، حارش پہلے اس پر حملہ کر چکاتھا۔
”بھیا چلیں ناں پلیز آپ…. بہت مزہ آئے گا۔“ نرمین نے اس کاہاتھ پکڑ کر لاڈ سے کہا مگر وہ اٹھا نہیں، البتہ حرمین خاموش کھڑی تھی۔ طلحہ نے بھی زور دیا۔ اس کا ایک ہی موقف تھا کہ اس کے سر میں درد ہے۔ سب کے کہنے کے باوجود وہ نہیں مانا۔ سو وہ چپ ہو گئے لیکن جب وہ سب باہر نکل رہے تھے تو ایک لمحے کے لیے وہ رکی تھی۔
”آپ ہمیں اچھا نہیں سمجھتے ناں اس لیے آپ کو ہمارے ساتھ رہنا بھی پسند نہیں۔ لیکن اگر آپ ہمارے ساتھ چلتے تو ہمیں بہت اچھا لگتا۔“ وہ کہنے کے بعد اس کے تاثرات دیکھنے کوٹھہری نہیں، فوراً باہر نکل گئی اور حارش بعد میں جانے کیوں خود سے الجھتا رہا۔ سکون نہ آیا تو آ کے دادی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ وہ اسے بے کل ٹہلتا تو دیکھ رہی تھیں اور جب وہ ان کی گود میں سر رکھ کے لیٹا تو جان گئیں کہ وہ کچھ پریشان ہے۔
”حارش بچے! کیا بات ہے….؟“ یعنی دادی اس کی بے کلی محسوس کر گئی تھیں۔ وہ خود کو اتنا عیاں کر گیا تھا۔
”دادی! کچھ نہیں بس سر میں در دہے۔“ اس نے پھر وہی بہانہ بنایا۔
”اچھا…. اٹھ ذرا۔“ دادی نے اسے اٹھایا پھر اٹھ کر تیل لائیں اور اس کے سر کی مالش کرنے لگیں۔ مالش سے ذہنی سکون ملا تھا مگر دل میں جو بے کلی سی چھائی تھی، وہ کم نہ ہوئی اور وہ حد سے سوا ہوئی۔ جب طلحہ اکیلا لوٹا باقی سب باہر سے گھر چلے گئے۔ طلحہ بھی جتنا خوش گیا تھا اتنا ہی خاموش لوٹا تھا۔ اور آتے ہی وہ اپنے بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ چونکہ گرمیاں تھیں اور وہ دونوں صحن میں ہی چارپائیاں ڈال کر سوتے تھے، وہ بھی اس کے ساتھ ہی دوسری چارپائی پر آ لیٹا۔ دادی نماز ادا کر رہی تھیں۔ اس نے دیکھا طلحہ خاموش تھا۔
”طلحہ ! تو خفا ہے….؟“ ظاہر ہے وہ جانتا تھا اسے اچھی طرح۔
”تجھے کیا پرواہ…. تو سو جا آرام سے….“ یعنی وہ شدید خفا تھا تبھی اس کی طرف سے کروٹ بدل لی۔ اس کے اندر کی ہلچل شدت اختیار کر گئی۔ ایک وہ دھان پان سی لڑکی اسے الجھا گئی تھی اور اب طلحہ اتنا شدید خفا ہو گیا تھا بھلا اسے نیند کہاں آنی تھی۔ وہ اٹھ کر طلحہ کی چارپائی پر آ بیٹھا۔
”طلحہ! تو ناراض ہو تو مجھے نیند کب آتی ہے، تجھے پتہ تو ہے پھر بھی۔“
”لیکن تجھے اب میری ضرورت کب ہے، تجھے تو صرف خود سے پیار ہے، آج ٹریٹ میں نے دی تھی، میری خاطر بھی تو نہیں گیا ناں۔“ وہ بھی اسی بات پر خفا تھا۔
”طلحہ! میں کیا کروں بہت سمجھاتا ہوں خود کو مگر پھر دل ہے کہ مانتا نہیں۔ میں سب لوگوں میں بیٹھ کر تمہاری طرح ہنسنا بولنا چاہتا ہوں مگر جانے کیا چیز مجھے ایسا نہیں کرنے دیتی۔“
”تمہاری خودساختہ اَنا، حارش! جو کچھ بھی تمہارا ماضی رہا ہے اسے اللہ کا امتحان سمجھ کر آنے والی خوشیوں کو ویلکم کہو۔ تم نے خود ہی ان خوشیوں سے خود کو دور رکھا ہوا ہے۔ تجھے پتہ ہے آج تیرے رویہ کی وجہ سے حرمین بہت ہرٹ ہوئی ہے۔ وہ بہت حساس ہے اسے پہلے ہی وہم تھا کہ تیرا رویہ ان کے ساتھ اچھا نہیں اور تو نے وہاں نہ جا کر اس کا بہت دل دکھایا ہے۔“ طلحہ کی باتوں نے اس کا دل اور بے کل سا کر دیا۔ وہ چپ چاپ اٹھ کر اپنے بستر پر آ لیٹا، مگر ساری رات اسے نیند نہیں آئی، جانے کیوں….؟ اور صبح جب ناشتہ نرمین نے بنایا تو اسے لگا کہ اس نے اچھا نہیں کیا۔ وہ بھوکا بغیر ناشتے کے آفس چلا گیا۔ یہ بات طلحہ نے نوٹ کی تھی۔ شام کو اسے یقین تھا کہ ٹیسٹی سی چائے اس کی ساری تھکن اُتار دے گی مگر آج چائے میں وہ مزہ نہیں تھا۔ پھر کھانا بھی اچھا نہیں لگا۔ وہ تو اسے بعد میں پتہ چلا کہ آج حرمین نہیں آئی تھی۔ نرمین نے کھانا بنایا تھا۔ کئی دن گزر گئے اسے حرمین نہیں آئی تھی۔ نرمین نے کھانا بنایا تھا۔ کئی دن گزر گئے اسے حرمین نظر نہیں آئی تھی تو آج وہ سیدھا شام میں ان کی طرف آیا تھا۔ وہ بابا کے ساتھ ہی بیٹھی اخبار دیکھ رہی تھی۔ لیمن لان کے سوٹ میں وہ دمکتی رنگت اور پُرکشش نقوش لیے، بال کاندھوں پر کھلے پڑے تھے، خوبصورت سی ہیئرکٹنگ اس پر سُوٹ کر رہی تھی۔ اس نے سلام کیا تو وہ چونک گئی۔ بابا اسے دیکھ کر خوش ہو گئے۔
”ارے میرا بیٹا آیا ہے، آﺅ بچے بیٹھو۔“ ان کی گرمجوشی اسے شرمندہ سی کر گئی۔ کتنے دن بعد مل رہا تھا وہ ان سے۔
”کیسے ہیں آپ بابا….؟“ اس کے منہ سے بابا سن کر انہیں بہت اچھا لگا تھا، حیرت حرمین کو ہوئی تھی۔
”اچھا ہوں…. حرمین! جاﺅ بیٹا اچھی سی چائے لاﺅ، حارش آفس سے آیا ہے، تھکن اُتر جائے گی۔“ اس کے ہاتھ کی چائے کی وجہ سے تو وہ آیا تھا۔ اس نے فوراً حرمین کو دیکھا، وہ دوپٹہ ٹھیک کرتی اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔ وہ بابا کے ساتھ باتوں میں لگ گیا۔ ڈور بیل بجی تو بابا اٹھ کر باہر دیکھنے چلے گئے تبھی وہ چائے لے آئی۔ اسے چائے کا کپ تھما کر وہ باہر کو دیکھنے لگی۔
”بابا کہاں گئے ہیں….؟“
”باہر شاید کوئی آیا تھا ان سے ملنے۔“
”اچھا….“ وہ بابا کی چائے رکھ کر جانے لگی تو حارش نے پکارا۔
”حرمین! تم خفا ہو….؟“ حارش کا لہجہ اور رویہ اتنا اچھا! بہت حیرت سے مڑ کر اس نے دیکھا، وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”کیوں بھلا….؟“ وہ مسکرائی۔
”پھر کئی دن سے گھر کیوں نہیں آئیں….؟“
”بس ویسے ہی….“ وہ سر جھکا گئی، گویا اس نے محسوس کیا تھا۔
”آئی نو…. تم میرے اس رات نہ جانے پر خفا ہو۔“
”حارش بھائی! میں خفا نہیں ہوں، بس مجھے لگا کہ آپ کو ہمارا آنا پسند نہیں تو میں نہیں گئی۔“
”ایسا نہیں ہے حرمین! بس مجھے شاید وقت لگے گا خود کو چینج کرنے میں، ساری عمر تنہا رہا ہوں ناں! اب ایکدم اتنا بڑی چینج دیکھو…. آئی ایم سوری اگر تم میرے رویے سے ہرٹ ہوئی ہو، یہ رویہ میری نیچر کا حصہ ہے۔ ارادتاً ایسا نہیں کرتا میں۔ ہو سکتا ہے تم لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے میں خود کو بدل سکوں۔ پلیز آئندہ میری کسی بھی بات کو دل پر مت لینا، میری عادت سمجھ کر اِگنور کر دینا پلیز….“
”حارش بھائی پلیز…. آپ کیوں اتنی وضاحتیں دے رہے ہیں، میں خفا نہیں ہو۔“ وہ خجل سی ہو گئی۔
”سچ کہوں، تمہارے ہاتھ کی چائے اور کھانے کو مِس کر رہا تھا کئی دن سے۔ آئندہ بابا مجھ سے غلطی ہو بھی جائے تو یہ سزا مت دینا۔ صرف تمہارے ہاتھ سے بنی چائے پینے آیا تھا میں۔ تھینک یو سو مچ، اور مجھے امید ہے صبح مجھے یہ ہی مزیدار چائے ملے گی۔“
”حارش بھائی! آپ بھی بس….“ جانے کیوں اس کا چہرہ تپش سی محسوس کرنے لگا۔ حارش کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو گیا۔ بابا آئے تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”میں چلتا ہوں۔“ حرمین بابا کے لیے دوسری چائے لے آئی تھی کہ وہ ٹھنڈی ہو چکی تھی۔
”حارش بھائی! کھانا نہیں کھائیں گے….؟“ اس کے لبوں کی مسکراہٹ سے حارش عالم پر عجیب سی کیفیت چھائی تھی جسے وہ کنٹرول کر گیا۔
”ضرور کھاتا، مگر آج مجھے کہیں جانا ہے، میں یہ ہی بتانے آیا تھا بابا! میں لیٹ ہو جاﺅں گا۔ ہمارے باس نے پارٹی ارینج کی ہے اور مجھے وہاں جانا ہے۔“
”کوئی بات نہیں، یہ سب زندگی کا حصہ ہے۔“ بابا نے مسکرا کر کہا۔ اس نے ایک بھرپور نگاہ حرمین پر ڈالی اور اللہ حافظ کہتا باہر نکل گیا۔
اس کی طبیعت اچھی نہیں تھی اس لیے آج آفس سے چھٹی کرلی۔ طلحہ صبح تیار ہو کر جا چکا تھا۔ دادی کل سے احسان چاچو کی طرف گئی ہوئی تھیں۔ وہ اب تک کسلمندی سے لیٹا تھا جو اس بات کی تصدیق تھی کہ واقعی وہ اچھا محسوس نہیں کر رہا ورنہ وہ کبھی بھی بے وجہ زیادہ دیر صبح میں نہیں لیٹتا تھا۔ صحن میں دھوپ چڑھی تو اٹھ کر اندر آ گیا۔ ہال روم میں صوفے پر گر گیا۔ جسم میں شدید درد محسوس کر رہا تھا۔ باہر سے آہٹ ہوئی تو وہ اٹھ کر نہیں جا سکا۔ کچھ دیر بعد قدموں کی چاپ اسے اپنے قریب سنائی دی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ حرمین کو دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔
”کالج نہیں گئیں تم….؟“
”نہیں، دل نہیں چاہا، مگر آپ آج گھر پر؟ خیریت ہے….؟“
”طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ ریسٹ کرنے کو دل چاہ رہا تھا۔“ حرمین نے دیکھا بکھرے بال اور چہرے پر بی تازگی نہیں تھی۔ شاید وہ صبحسے اٹھا ہی نہیں تھا۔ جینز اور بنیان میں آج واقعی وہ کچھ بیمار سا لگ رہا تھا۔“
”پھر میڈیسن لی آپ نے….؟“
”نہیں، دل نہیں چاہا کہ اٹھ کرکچھ کروں، سو بس لیٹا رہا۔“ وہ دوبارہ لیٹ چکا تھا۔ حرمین نے دیکھا، پھر واپس مڑ گئی۔ کچھ دیر بعد وہ ٹرے میں چائے اور ساتھ ٹیبلٹس لیے حاضر تھی۔
”حارش بھائی! اٹھیں یہ ٹیبلٹ لے لیں۔“ اس نے بڑے سینٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے اسے آواز دی۔ حارش بمشکل اٹھا تھا۔ اٹھ کر منہ دھو کر آیا۔ پھر اس نے چائے پی اور گولی کھائی۔
”کچھ دیر بعد جب آپ اچھا محسوس کریں تو جا کے دوا لے آئیے گا۔“ وہ اب ہال کی صفائی کر رہی تھی۔ ساتھ اسے ایڈوائز بھی کر رہی تھی۔ ہال کی صفائی کے بعد وہ باہر چلی گئی۔ صحن کی صفائی کی، کچن دیکھا، پھر اس نے حارش کی طبیعت کے خیال سے اس کے لیے دلیہ بنایا۔ اب صرف طلحہ اور حارش کے کمرے صاف کرنے تھے جو اس نے شام پر چھوڑ دئیے۔ وہ دوبارہ ہال روم میں گئی تو حارش صوفے پر لیٹا پھر سو گیاتھا۔ اس نے ڈسٹرب نہیں کیا اور گھر آ گئی۔ امی کو بتایا، امی چلی آئیں۔ حارش بے سدھ لیٹا تھا۔ وہ اس کے قریب آ گئیں۔ پیشانی چھوئی تو ہلکا سا بخار تھا۔ ان کے ہاتھ کے لمس سے حارش نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور سامنے انہیں پا کر اٹھ بیٹھا۔
”تائی امی آپ؟“
”حرمین نے بتایا تمہاری طبیعت خراب ہے، دیکھنے چلی آئی۔“
”جی بس کچھ تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا، آپ بیٹھیںناں۔“ وہ اس کے قریب بیٹھ گئیں۔
”بیٹا! اپنا دھیان رکھا کرو۔ تم ضرورت سے زیادہ خود کو مصروف رکھتے ہو۔تمہاری عمرکے بچے لائف انجوائے کرتے ہیں۔ کچھ وقت اپنے لیے نکالو، ہنسو بولو، دیکھنا تم خود فریش محسوس کرو گے۔“
”شاید آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔“
”آج شام میں ہم سب تمہارے چاچو کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے فون پر تاکید کی تھی تمہیں ضرور ساتھ لائیں۔ تمہارے بابا سویرے جلدی نکل گئے۔ میں نے سوچا تمہیںبتادوں شام میں ہمارے ساتھ چلنا ہے۔ اب تم اٹھ کر دوا لاﺅ۔ حرمین نے تمہارے لیے دلیہ بنا دیا ہے، وہ کھاﺅ اور شام تک فریش ہو جاﺅ۔“ وہ صرف سر ہلا کر رہ گیا۔ اب کچھ بہتر محسوس کر رہا تھا۔ اٹھ کر نہایا تو اور زیادہ فریش محسوس کرنے لگا۔ تبھی حرمین اس کے لیے دلیہ لے آئی۔
”تم نے مجھے پکا مریض بنا دیا ہے، کچھ اور بنا دیتیں۔“ دلیہ دیکھ کر اس کی بھوک اُڑ گئی۔
”آپ کونہیں پسند؟ اچھا کیا کھانا ہے بتائیں؟“ اس نے بہت اپنائیت سے پوچھا۔ حارش اس کے چہرے پر پھیلی معصومیت اور سادگی میں کھو گیا۔
”بناﺅ گی جو میں کہوں گا۔“
”آف کورس بنا دوں گی ، آپ بتائیں تو۔“ اتنی تیز دھوپ، گرمی کی شدت میں اسے اچھا نہیں لگا کہ وہ مزید اسے تنگ کرتا۔
”چلو چھوڑو، میں یہ ہی کھا لیتا ہوں۔ تم نے بنایا ہے تو یہ بھی مزے کا ہو گا۔“
”آپ مجھے خوامخواہ مکھن لگاتے ہیں۔ اتنا اچھا بھی نہیں بناتی میں۔“ اس کی اتنی تعریف پر وہ خجل ہوئی تھی۔
”بلیو می…. مکھن نہیں یہ سچ ہے۔“ اس نے دلیہ چکھتے ہوئے کہا۔ وہ واقعی لذیذ تھا، حرمین اٹھ کھڑی ہوئی۔
”حارش بھائی! اگر کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو کہہ دیجئے گا میں چلتی ہوں۔“
”تم بھی جاﺅ گی شام میں احسان چاچو کے گھر….؟“
”آپ چلیں گے؟“ وہ حیران کن خوشی سے بولی۔
”اگر تم جاﺅ گی تو….“ پتہ نہیں حارش کے لہجے میں کیا تھا اس کا دل زور سے دھڑکا۔
”میںتو صبح آئی ہوں، کل دادی کے ساتھ گئی تھی۔ شام میں آپ لوگ جائیے گا۔“
”تو ٹھیک ہے میں بھی پھر کبھی چلا جاﺅں گا۔“ حرمین نے دیکھا اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی، مگر وہ خاموشی سے اٹھ گئی اور شام میں وہ ہی کیا اس نے جو کہا تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ حرمین واقعی ہی نہیں جا رہی تو منع کر دیا۔
”میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے بابا۔“ کہہ بابا کو رہا تھا دیکھ اسے رہا تھا۔ پہلی بار وہ چاچو کی طرف جا رہا تھا اور صرف حرمین کے نہ جانے سے منع کر رہا تھا۔
”بابا! میں بھی چلو….؟ اکیلے کیا کروں گی یہاں؟“ اس نے ایک نظر اس ضدی انسان پر ڈالی اور بولی۔
”جیسے آپ کی خوشی، آپ نے خود منع کر دیا تھا کہ میں کل تو آئی ہوں
“ وہ تیار ہونے چلی گئی۔
”بیٹا! احسان کو اچھا لگتا اگر آپ بھی چلتے تو…. اس کے بچے آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“
”اچھا میں چلتا ہوں….“ وہ سر جھکا کر بولا۔ لبوں پر آئی مسکراہٹ چھپانے کے لیے اور جب وہ تیار ہو کر آئی تو خود بھی تیار بیٹھا تھا۔ حرمین نے خفگی سے دیکھا اور امی کے پاس آ گئی۔
ض……..ض……..ض
اس کے اندر کے سناٹے ٹوٹنے لگے تھے۔ وہ خوش رہتا تھا، بہت خوش اور اس خوشی کی وجہ وہ تھی۔ طلحہ کو اس کا یہ چینج بہت اچھا لگا تھا۔ احسان چاچو کے بچوں سے مل کر اسے مزہ آیا تھا۔وہ بہن بھائیوں کے لیے ترستا تھا۔ یہاں کتنے بھائی بہنیں تھیں۔ اسے یہ زندگی اچھی لگتی تھی۔ اب اکثر شام میں وہ بھی کاشف، طلحہ اور نرمین کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلتا۔ کبھی لڈو وغیرہ اور خوب مزے کرتا۔ طلحہ کے ساتھ ساتھ اس کا یہ چینج حرمین کو بھی بہت اچھا لگتا تھا کیونکہ جب وہ دل کھول کے ہنستا تھا تو بہت خوبصورت لگتا تھا۔ ہاں وہ بالکل سلطان چاچو کی طرح تھا اور سلطان چاچو بہت خوبصورت تھے۔ سیاہ بڑی بڑی آنکھیں، کھڑی ناک اور سیاہ گھنے بال، لمبا قد اور کشادہ سینہ، چاچو تو فوجی تھے تب ہی اتنی اچھی ہائیٹ اور جسامت تھی، لیکن وہ بھی بالکل ویسا ہی تھا، بس اس کے چہرے پر مونچھیں تھیں اور اس کا خیال تھا وہ اس پر سوٹ بھی بہت کرتی تھیں۔ وہ بہت اچھا تھا مگر اس کی باتیں حرمین عالم کا دل اور دھڑکنیں دونوں ہلا دیتی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں جانے کیا تھا کہ وہ اس کی طرف دیکھ بھی نہ پاتی تھی۔ وہ بہت بدل گیا تھا۔ ہاں یہ اچھا تھا مگر وہ کہتا تھا میں صرف تمہاری وجہ سے زندگی کی طرف لوٹا ہوں۔ اس کے معاملے میں حارش کا اتنا کریزی ہونا اسے اَپ سیٹ کر دیتاتھا۔
ض……..ض……..ض
آج اتوار تھا، سب گھر پر تھے۔ صبح سے ہی شور ہنگامہ شروع ہو چکا تھا، اور جب فریال،عمر اور عثمان آئے تو اور زیادہ ہو گیا۔ موسم صبح سے ہی اچھا تھا۔ بادل چھائے ہوئے تھے، دھوپ کا نام و نشان نہیں تھا، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ وہ لوگ باہر ہی بیٹھے تھے۔
”یار! اتنے اچھے موسم میں اگر پکوڑے سموسے ہوں، پودینے کی چٹنی ہو تو کیا زبردست لگے گا۔“ عثمان اور طلحہ نے رائے دی۔
”یار! تم لوگ چٹورے بہت ہو۔ مجھ سے آج کوکنگ نہیں ہوتی۔“ حرمین کو پتہ تھا شامت اس کی آنی ہے سو پہلے ہی منع کر دیا۔
”اُف او تم تین لڑکیاں ہو مل کے بنا لو۔“
”معاف کرو ہمیں، اتنے اچھے موسم میں کچن…. او گاڈ۔“ نرمین اور فریال دونوں نے منع کر دیا۔ حرمین موڈ آف کرتی امی کے ساتھ کچن میں ہیلپ کرانے لگی۔ اس نے سب کی فرمائش پوری کر دی تھی مگر اب وہ ان کے ساتھ نہیں تھی اور ظاہر ہے حارش عالم کو اس کی کمی محسوس کیوں نہ ہوتی۔ وہ سب کے ساتھ بیٹھا تھا مگر اس کی بے چینی صرف طلحہ محسوس کر رہا تھا۔ اس نے بغور اس کی طرف دیکھ کر آنکھوں میں پوچھا تو وہ سر ہلا گیا اور کچھ دیر بعد اٹھ کر ٹیرس پر چلا گیا۔ ہلکی ہلکی بوندیں اب تیز ہو گئی تھیں اور نیچے سے آتی آوازیں اسے بتا رہی تھیں کہ وہ بارش انجوائے کر رہے ہیں۔ وہ یوں ہی ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ دوسری طرف صحن میں اکیلی بارش میں بھیگتی حرمین عالم اس کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ وہ آسمان کی طرف دیکھتی خودبخود مسکراتی، کبھی چہرہ صاف کرتی کبھی بالوں کو جھاڑتی اسے بہت اچھی لگی تھی۔ اسے تو حرمین عالم ہر حال میں اچھی لگتی تھی، بس اس کے جذبوں نے ابھی اظہار کے لفظ نہیں تلاشے تھے، ورنہ تو اس کے ہر سو صرف حرمین تھی۔ اسے اپنا ہر کام صرف حرمین کے ہاتھ سے ہونا پسند تھا۔ کھانے سے لے کر کپڑے استری تک وہ صرف حرمین سے کام کہتا تھا۔ اگر کبھی نرمین کوئی کام کر دیتی تو اسے اسی وقت پتہ چل جاتا تھا کہ آج حرمین نے یہ کام نہیں کیا۔ ابھی جب وہ غصے میں گئی تو اسے بہت محسوس ہوا تھا، لیکن اب اسے اس طرح مسکراتا بوندوں سے کھیلتا دیکھ کر من شانت ہو گیا تھا۔ وہ بے خود سا دیکھے گیا حرمین کو۔ خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی تھی نظریں اٹھائیں تو ٹیرس پر کھڑا وہ نظر آیا۔ وہ جلدی جلدی دوپٹہ درست کرنے لگی۔ حارش محسوس کر گیا کہ وہ اس کی موجودگی میں ایزی فیل نہیں کر رہی۔ اپنے وجود کو چھپاتی اسے وہ بہت معصوم اور پاکیزہ لگی تھی۔ وہ فوراً ہٹ گیا۔ رات میں جب سب چلے گئے تو طلحہ اس کے پاس آ لیٹا۔
”آج سب انجوائے کر رہے تھے لیکن تو اتنا اَپ سیٹ سا کیوں تھا؟“ یعنی اس کی بے چینی طلحہ نے محسوس کی تھی۔
”طلحہ! مجھے خود علم نہیں ہے یہ کیا ہے؟ یہ بے چینی، یہ بے کلی کیوں ہے؟ مجھے خود پر اختیار نہیں ہے، ایسا کیوں ہے؟“ کتنا کھویا کھویا بول رہا تھا وہ، اتنا خوش تھا پھر یہ بے کلی طلحہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
”طلحہ! میں نے عہد کیا تھا خود سے کہ کبھی شادی نہیں کروں گا۔ کبھی محبت بھی نہیں کروں گا لیکن طلحہ اب مجھے لگتا ہے میں اپنے عہد سے مکر گیا ہوں اس کی معصومیت، سادگی، اس کی ہنسی، اس کی تمام اداﺅںنے مجھ سے میرا سکون چھین لیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ایک پل کو بھی وہ میری نظروں سے اوجھل ہوئی تو میرا دم گھٹنے لگتا تھا۔ مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ میری ہر خوشی اس کے وجود سے وابستہ ہے۔ میرے ہر جذبے میں وہ ہے لیکن میں اس سے صاف لفظوں میں کہہ نہیں پاتا۔“ یہ تبدیلی تو حارش عالم میں سب سے خوبصورت تھی۔ طلحہ کے لبوں پر مسکراہٹ اتری، حارش عالم کی آنکھوں میں اترے کسی کے نام کے رنگ اور دئیے وہ محسوس کر رہا تھا اور شاید وہ جانتا بھی تھا کہ وہ کون ہے مگر اس کے لبوں سے سننا تھا۔
”کون ہے وہ……..؟“ طلحہ نے سرگوشی کی تو وہ چونکا اپنی بے خودی میں وہ طلحہ کو راز دے گیا تھا۔ اب چھپاتا بھی تو کیسے۔
”حرمین عالم۔“ اس کے لبوں سے نام اُبھرا۔
”تیری چوائس اتنی اچھی ہو سکتی ہے، تیرے جیسے پاجی سے امید نہیں تھی۔“ اس نے شرارت سے چھیڑا۔
”طلحہ! میرے دل نے غلط فیصلہ تو نہیں کیا ناں؟“ اس کو کھو دینے کا ڈر اس خوش ہونے نہیں دیتا تھا۔
”دل کے فیصلے غلط نہیں ہوتے، تمہیں ڈر کیسا ہے، وہ کوئی دور ہے تم سے۔“
”لیکن مجھے اپنی قسمت سے ڈر لگتا ہے۔ آج تک مجھے کوئی خوشی ملی جو نہیں۔“ کتنا وہمی ہو رہا تھا وہ، لیکن شاید اپنے ماضی کو لے کر وہ ٹھیک ہی تو وہم کر رہا تھا، بھلا اس نے خوشیاں دیکھی ہی کب تھیں۔ طلحہ نے زندگی میں اسے کھل کر ہنستا بھی اب دیکھا تھا، جب اس کی جگمگاتی آنکھوں سے اسے کسی کے نام کے جذبے اُبھرتے نظر آئے، حرمین کے لیے وہ کریزی تھا اپنا ہر کام صرف اسے حرمین کے ہاتھ سے انجام پانا پسند تھا، لیکن اس کے دل میں حرمین کے لیے اتنی طوفانی محبت ہو گی، اس کا اندازہ نہیں تھا طلحہ کو۔
”لیکن مائی ڈیئر حارش عالم! اب خوشیوں نے تیرے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے، اب انہیں تم تک آنے سے کوئی نہیں روک سکتا، اوکے۔“
”طلحہ! وہ میرا پاگل پن بن گئی ہے۔ اگر اس نے میری چاہت کے اقرار میں ناں کر دی تو؟“
”کم آن حارش! اچھا سو چا کرو، اچھا سوچوگے تو ہر کام خودبخود اچھا ہو گا۔ اب سو جاﺅ اور اچھے خواب دیکھو۔“ اس کے بال شرارت سے بکھیرتا مسکراتا وہ اٹھ گیا۔ حارش بھی سونے کے لیے لیٹ گیا۔
ض……..ض……..ض
”بس مجھے اسی لیے بارش پسند نہیں ہے۔“ وہ خاصے خراب موڈ میں تھا سویرے سویرے۔ حرمین نے بڑے حیران انداز میں دیکھا تھا اسے۔
”بارش پسند نہیں ہے آپ کو؟ بھلا اتنا خوبصورت موسم کیسے ناپسند ہو سکتا ہے کسی کو۔“
”میڈم! تمہارے اس خوبصورت موسم کے باعث میں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں۔“ اس کی بے زاریت چہرے سے عیاں تھی۔
”اب انسان کو اتنا پریکٹیکل بھی نہیںہونا چاہیے کہ اچھے خاصے موسم سے بیزاریت ہو۔ آپ اسے انجوائے بھی تو کر سکتے ہیں۔ کیا ہوا جو ایک دن آفس لیٹ ہو جائیں گے۔“ وہ اسے گھور غصے سے رہا تھا مگر اس کے چہرے کی معصومیت نے سارا غصہ ہوا کر دیا۔ وہ بے خود ہو گیا۔ کاش وہ اپنے جذبوں کو الفاظ دے پاتا۔ جانے کون سی چیز تھی جو ہر بار اس کے لبوں پر آتے اقرار کے لفظ روک دیتی تھی۔
”حرمین“ اس نے بہت بے خودی میں نام پکارا تھا۔ وہ خود ہی گڑبڑا گئی۔ کاش اس لمحے وہ یہاں سے بھاگ سکتی۔ اسے حارش عالم کی یہ دیوانگی ڈراتی تھی۔ اس نے لفظوں میں کبھی اقرار نہیں کیا تھا، لیکن اس کی آنکھیں ہر راز خود عیاں کر دیتی تھیں۔ وہ جان گئی تھی کہ اس کے دل میں کیا ہے….؟ سارے جذبات اسکے دل کی ہر کہانی اس کی آنکھیں بیان کر دیتی تھیں۔ لیکن کیا اسے یہ اختیار ہے کہ وہ اس کے جذبوں کی ہمسفر بن سکے….؟ دل کی سختی اس کی دیوانگی نے اس کے اندر اپنی جگہ بنا لی تھی اور اگر آنکھیں کھول کر دماغ کی سنتی تو شاید اپنی زندگی کے فیصلے کا اختیار اس کے پاس نہ تھا۔ شاید حارش عالم کی خاموشی میں بہتری تھی۔ اس کے جذبے اگر لفظوں میں ڈھل گئے تو بھلا وہ کیسے اور کیا جواب دیتی….؟
”حارش بھائی! میں چلوں مجھے بابا کو بھی ناشتہ دینا ہے۔ وہ انتظار کر رہے ہوں گے۔“ اس نے فرار کا راستہ اختیار کیا لیکن جب باہر نکلنے سے پہلے ہی اس نے اس کی کلائی تھامی تو دل حلق میں آ گیا۔
”مجھے لگتا ہے تم ڈرتی ہو مجھ سے۔“ اس کے انداز میں بے خودی کے ساتھ شرارت بھی نمایاں تھی۔ اس نے گہری سانس خارج کر کے ایک نظر حارش عالم کو دیکھا جو بغور اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”ڈر تو آپ کے اندر بھی ہے۔“ اس کی بات پر حارش کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تھی اس کی کلائی پر۔
”ہاں ڈرتا ہوں، لیکن تم سے نہیں اپنی قسمت سے۔“
”حارش بھی….“ کہنے سے قبل ہی اس نے حرمین کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا، یعنی وہ نہیں چاہتا تھا کہ بھائی کا صیغہ اس کے نام کے ساتھ لگائے۔
”پلیز…….. میرا بازو درد کرنے لگا ہے۔“ اس نے التجائیہ اندازمیں کہا تو مسکراتے ہوئے اس نے بازو چھوڑدیا”مجھے کل آفس کی طرف سے اسلام آباد جانا ہے کچھ دن کے لیے اور جانے سے پہلے میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“ وہ اب بہت سنجیدی تھا۔
”آپ لیٹ ہو رہے ہیں، بارش بھی رک چکی ہے۔“ اس نے حارش کی بات کے جواب میں غیرسنجیدہ انداز اختیار کیا۔
”حرمین پلیز۔“ اس نے سنجیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی نگاہوں میں کچھ تھا کہ وہ خاموش ہو گئی۔
”حرمین…. آئی….“
”حارش…. آجا، بارش رُک گئی ہے۔“ طلحہ کی آواز اور آمد پر اس کا موڈ بری طرح بگڑا تھا اور وہ پیر پٹختا اک نگاہ اس پر ڈالتا باہر نکل گیا۔ اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ خفا ہو گیا ہے۔ طلحہ نے اس کا اتنا خطرناک موڈ دیکھا تو پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
”یہ تیرے تھوبڑے پر بارہ کیوں بجے ہیں صبح صبح۔“
”تجھے بھی اسی وقت مرنا تھا، اگر پانچ منٹ لیٹ ہوجاتا تو قیامت آ جاتی ناں۔“ وہ اس پر برس پڑا۔ طلحہ نے بڑی حیرت سے اسے دیکھا۔
”کیوں، کیا ہوا؟“
”کچھ نہیں۔ اور اب بالکل خاموش ہو جاﺅ، میرا موڈبہت خراب ہے۔“ اس نے غصے سے کہا اور بائیک اسٹار کردی۔
ض……..ض……..ض
صبح جب وہ اسلام آباد گیا تو امی، بابا سے مل کر گیا تھا مگر اس سے شدید خفا تھا، تبھی تو وہ سامنے بھی آئی تو نظر تک نہیں ڈالی۔ جانے کیوں حرمین کے دل میں اداسی نے ڈیرہ ڈال لیا۔ وہ اس سے بنا بات کیے ہی جا رہا تا۔ اس نے ہمت کر کے خود بلالیا۔
”حارش بھائی! چائے لاﺅں آپ کے لیے؟“ اس کے مخاطب کرنے پر ا سنے خفگی بھری نظر ڈالی۔
”نہیں…. تھینکس…. ناشتہ کر کے آیا ہوں۔“ بہت روکھے لہجے میں جواب دے کر امی، بابا سے اللہ حافظ کہتا باہر نکل گیا۔ وہ بہت بے چین دل لیے سارا دن گھومتی رہی، مگر رات کو جب بستر پر لیٹی تو شدت سے رونا آیا۔
”خفا ہو کر تو نہ جاتے کم از کم۔“ وہ ساری رات نہ سو سکی۔ اگلی صبح بھی بے کل سی تھی۔ طلحہ اس کا کھویا کھویا انداز دیکھ رہا تھا۔
”خیریت ہے بہنا! بہت افسردہ ہو، کوئی یاد تو نہیں آ رہا؟“ اس کی شرارت پر مسکرانے کے بجائے اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔
”حرمین! تم رو رہی ہو۔“
”طلحہ بھائی! آپ مجھے حارش بھائی کا نمبر دے سکتے ہیں۔“ اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”مجھے نہیں بتاﺅ گی، کیا بات ہے….؟“
”وہ مجھ سے خفا ہیں، جاتے وقت بھی شدید خفا تھے۔“
”اوہو…….. تو وہ تم سے ناراض تھا اور غصہ مجھ غریب پر نکلا، مگر کیوں……..؟“ طلحہ نے پوچھا، لیکن وہ کیا بتاتی اسے۔
”پتہ نہیں….“ وہ نظریں چرا گئی۔ طلحہ نے مزید بحث بھی نہیں کی اور اسے نمبر دے دیا۔
”حرمین ڈیئر! ایک بات کہوں؟“ حرمین نے طلحہ کا چہرہ دیکھا جہاں اس لمحے بہت سنجیدگی تھی۔
”وہ بہت حساس دل رکھتا ہے اور اس نے اپنی زندگی میں صرف دکھ دیکھے ہیں۔ پلیز خیال رکھنا۔“ شاید وہ مختصر سی بات میں سب کچھ سمجھا گیا تھا۔ اس نے فقط سر ہلایا تھا۔
شام میں اس نے فرصت ملتے ہی اس کے نمبر پر مِس بیل دی تھی لیکن اس نے پلٹ کر کوئی رسپانس نہیں دیاتھا۔
منزلیں بلند ہوں تو مشکلیں بھی آتی ہیں
مشکلوں سے لڑنے کا حوصلہ تو رکھتے ہیں
جو تمہارے اپنے ہوں تم سے پیار کرتے ہوں
ان کا حال کیسا ہے….؟ کچھ پتا تو رکھتے ہیں
حارش نے شام میں فرصت ملتے ہی موبائل چیک کیا تھا اور اس کے دل کو سکون مل گیا تھا۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ ساتھ لفظ سوری اسے صاف بتا گیا تھا کہ یہ کس نے سینڈ کیا ہے۔ جواباً اس نے کال کی تھی اور وہ جیسے منتظر بیٹھی تھی، فوراً ہی اٹینڈ کر لی۔
”اب تک خفا ہیں….؟“ سلام کے بعد پہلا سوال کیا تھا اس نے۔
”خفا تھا، مگر اب نہیں ہوں۔“ وہ مسکرائی تھی۔
”کب آئیں گے؟ دادی یاد کر رہی تھیں آپ کو۔“
”اور تم….؟“
”مجھے کیا ضرورت پڑی۔“ اس کے لہجے میں شوخی تھی۔ حارش عالم ہنس دیا۔
”حرمین! تھینکس….“
”کس بات کا….؟‘ اس نے انجان بن کر پوچھا۔
”یہ آ کر بتاﺅں گا ور اس بار تمہیں سننا ہو گا ورنہ….“
”اوکے…. آ تو جائیں۔“
”مس کر رہی ہو مجھے….؟“ کتنی آس تھی ناں اس کے لہجے میں بھلا وہ کیسے جھوٹ بول سکتی تھی مگر اقرار۔
”بہت زیادہ….“ کئی لمحوں بعد اس کی سرگوشی اُبھری تھی۔ پھر ٹوں’ ٹوں کی آواز، مگر اس کے لیے حرمین کا جواب ہی بہت تھا۔
رات میں طلحہ نے دیکھا اس کا موڈ بہت اچھا تھا۔
”لگتا ہے روٹھے پیا مان گئے ہیں۔“ وہ کھل کر مسکرائی تھی۔
”تھینکس بھیا! نمبر دینے کا۔“ وہ اس لمحے بھی موبائل سے کھیل رہی تھی۔
حنا کیسی ہے؟ اور کب بات کریں گے آپ دادی سے، کتنے دن تو ہو گئے ہیں۔“ اس نے نیا ٹاپک چھیڑ دیا۔
”تم کہتی ہو تو آج ہی کر لیتے ہیں بلکہ…. ابھی۔“ وہ جیسے تیار ہی بیٹھا تھا۔
”چلیں میں بھی فیور کروں گی۔“ اس نے خلوص سے کہا۔ دادی تبھی عشاءکی نماز پڑھ کر آئی تھیں اور اپنی چارپائی پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ وہ دونوں ان کے پاس آ گئے۔
”دادی! طلحہ بھیا آپ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔“ وہ آتے ہی ان سے لپٹ کر بیٹھی تھی۔ دادی نے انہیں دیکھا۔
”ہاں…. تو بولو بچے۔“ طلحہ نے حرمین کو گھورا، پھر ہمت باندھی۔ بات تو کرنی تھی ناں۔
”دادی! آپ جانتی ہیں کہ میرا اب کوئی بزرگ نہیں ہے۔ ان فیکٹ حارش کے بعد اب آپ لوگ ہی ہمارے سب کچھ ہیں۔“
”بیٹا! یہ تو آج کس طرح کی باتیں کر رہا ہے۔ بھلا تجھے کبھی لگا کہ ہم نے تجھ میں اور حارش میں فرق رکھا ہے۔“
”نہیں دادی! میرا مقصد یہ نہیں تھا، دراصل دادی وہ۔“ وہ بڑی تھیں وہ شوخ و شرارتی ضرور تھا، مگر ان کے سامنے اپنے لیے لڑکی منتخب کرنا اور پرپوزل کا ذکر اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ حرمین شاید سمجھ گئی تھی۔
”دادی! بات یہ ہے کہ میں نے بلکہ ہم دونوں بہن بھائیوں نے ایک لڑکی پسند کی ہے اور اب یہ آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ کب آپ لوگ جاکر اسے طلحہ بھیا کے لیے مانگیں۔ دادی بہت پیاری لڑکی ہے۔ طلحہ بھیا کے ساتھ ہی جاب کرتی ہے، پلیز دادی۔“
”اچھا یہ بات ہے، تبھی تو اتنا جھجک رہا تھا۔ بچے میری تو اپنی خواہش ہے جلد سے جلد سارے بچوں کی خوشیاں دیکھ لوں۔ بھلا زندگی کا کیا بھروسہ ہے۔ سب سے زیادہ فکر تو حار ش کی ہے مجھے۔ بچے نے بہت دکھ دیکھے ہیں۔ فرمان سے بات کروں گی تیری بھی اور حارش کی بھی۔“
”حارش کے لیے کوئی لڑکی دیکھ لی آپ نے؟“ اس نے غیرسنجیدگی سے پوچھا۔
”نہیں…. ہو سکتا ہے اس کی کوئی اپنی پسند ہو اور تجھے تو وہ ہر بات کہتا ہے، تجھے تو پتہ ہو گا؟“
”دادی! وہ ایسا نہیں ہے، شریف سا بچہ ہے، لیکن اگر اس نے کوئی پسند کر لی تو کیا آپ اس کی شادی کر یں گے وہاں….؟“
”ہاں…. میں نے اپنے سلطان کے بہت دکھ دیکھے ہیں اور میں حارش کی دفعہ میں چپ نہیں رہوں گی۔ اس کی خوشیوں کے لیے تو ہر پل میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ پاک میرے بچے کو سدا خوشیاں دینا۔ اس کی حفاظت کرنا۔“ وہ حارش کے لیے اتنی ہی جذباتی تھیں، طلحہ کو اس بات کا یقین سا ہو گیا کہ حارش کی خواہش ضرور پوری ہو گی۔
”دادی! میں آتی ہوں۔“ حرمین اٹھ کر چلی آئی۔
سب کچھ بھول کر اسے صرف یہ یاد تھا کہ حارش عالم کی محبت کے آگے وہ ہار بیٹھی ہے اپنا دل…. اس وقت اسے حقیقت کی بالکل بھی فکر نہ رہی تھی۔ یاد تھا تو صرف اتنا کہ حارش عالم اسے دیوانگی سے بڑھ کر چاہتا ہے اور اس کی یہ دیوانگی جانے کب حرمین عالم پر اثر کر گئی۔ یہ سچ تھا کہ اس نے بہت کوشش کی خود کو اس محبت کی آگ میں جلنے سے روکنے کی۔ وہ حارش عالم سے اسی لیے ڈرنے لگی تھی، بھاگنے لگی تھی،لیکن شاید…. اس کی محبت کی گہرائی میں اثر تھا یا اس کی آنکھوں کی سچائی میں….؟ جو بھی تھا حارش عالم اپنی تمام تر وجاہت سمیت اس کے دل میں آ بسا تھا۔ وہ شدتوں سے چاہنے لگی تھی اسے۔ اب اسے صرف اس کی آمد کا انتظار تھا کہ وہ کب آئے گا اور اپنے جذبوں کو لفظوں کا روپ دے گا۔
ض……..ض……..ض
یہ حقیقت ہی تو تھی کہ اس کا من نہیں لگتا تھا یہاں۔ بس چلتا تو کب کا واپس چلا جاتا مگر مجبوری تھی کل کانفرنس تھی اور اس کے بعد ہی وہ واپس جا سکتا تھا۔ صبح طلحہ نے بھی فون کیا تھا اور پہلا سوال یہی کیا تھا۔
”کب آئے گا….؟ تجھے پتا ہے ناں تیرے بنا رہنے کی عادت نہیں ہے مجھے، میرا دل نہیں لگ رہا۔ گھر آنے کو دل نہیں چاہتا۔“
”مجھے کب عادت ہے، تو اتنا یاد آ رہا ہے….؟ بھلا ہم کبھی اتنے دن کے لیے دور ہوئے بھی نہیں۔“ اس نے سچائی سے اعتراف کیا۔
”سچ بتا میں ہی یاد آ رہا ہوں یا کوئی اور….؟“ اس نے چھیڑتے ہوئے کہا تو حارش زور سے ہنس پڑا۔
”بڑا کمینہ ہے تو…. اب یوں مجھے طعنے دے دے کر مارے گا، حالانکہ میں نے کبھی تجھ سے گلہ کیا حنا کے حوالے سے۔“
”کر لینا…. مجھے کیا فرق پڑتا تھا، تجھے پتہ ہے کہ میری زندگی میں پہلے تو ہے پھر کوئی اور….“ طلحہ کی بات پر وہ سو فیصد یقین کرتا تھا۔
”پھر تو نے کیسے سوچ لیا کہ تجھ سے زیادہ میںکسی اور کو یاد کروں گا۔“
”اس لیے مائی ڈیئر حارش عالم! کہ میرے ساتھ اتنے عرصے رہنے کے باوجود بھی کبھی تجھے اتنا خوش نہیں دیکھا نہ ہنستے پایا جتنا کہ جناب اب دانتو ںکی نمائش کرتے ہیں۔“
”طلحہ! تم جل رہے ہو ناں۔“
”اللہ نہ کرے…. میری تو رح مسرور ہوتی ہے تجھے اتنا خوش دیکھ کر، جو میں اتنے سالوں میں نہ کر سکا حرمین نے چند دنوں میں کر دیا اور میں جیلس کس سے ہوں گا وہ میری بہن ہے۔“
”اچھا بابا سوری…. کان پکڑوں۔“
”چل دفع کر، اسلام آباد کے لوگ کیا سوچیں گے اتنا ڈیسنٹ بندہ کان پکڑے کھڑا ہے۔ تجھے ایک بات بتانی تھی صبر نہیں ہو رہا، بس تو جلدی سے آ جا۔“
”تو بتا ناں یار….“
”اوں ہوں…. یہاں آ کے بتانے پر جو مزہ ہے ناں وہ فون پر نہیں۔“
”اچھا…. پھر دو دن اورصبر کر لے۔“
”کیا یار….؟ حارش تین دن تو ہو گئے ہیں اور ابھی مزید دو دن اور…. یار مجھے نیند نہیں آتی اکیلے۔“
”میں یہاں خوشی سے نہیں رہ رہا ہوں، مجبوری ہے۔“
”اوکے! اپنا خیال رکھنا، مجھے آفس جانا ہے۔ اللہ حافظ۔“
”اللہ حافظ!“
ض……..ض……..ض
دادی نے فرمان انکل سے بات کی ہو گی تبھی صبح اسے میسج ملا تھا کہ آفس سے واپسی پر سیدھے گھر آنا اور اس نے عمل بھی کیا تھا۔ وہ ہی بات تھی۔ وہ خوش تھا، بالکل اپنے ماں باپ کی طرح وہ فکرمند تھے ان کے لیے۔“ یہ احساس تک نہ تھا کہ وہ دنیا میں تنہا ہے۔
”حارش آ جائے گا تو ہم باقاعدہ لڑکی والوں کے گھر رشتہ لے کر جائیں گے۔ لیکن بیٹا تم اچھی طرح جانتے ہو ناں لڑکی کو۔ دراصل آج کل جو حالات ہیں، فکر تو رہتی ہے ناں، تم ہمارے بچے ہو، تمہیں فیصلے کا حق ہے لیکن اچھا بُرا جاننا ہمارا فرض ہے۔“
”بابا! لوگ بھی اچھے ہیں اور لڑکی بھی، ہم مل چکے ہیں۔ دراصل جاب کرنا اس کی ضرورت ہے۔ ان کے والد حیات نہیں ہیں، اکیلی ماں ہے اور ایک چھوٹا بھائی۔“ کاشف نے اس کی یہ مشکل بھی آسان کر دی۔ اس نے مشکور نظروں سے اسے دیکھا۔
”مجھے خوشی ہے طلحہ! تم بہت اچھی سوچ رکھتے ہو۔“
”اماں! میں چاہتا ہوں کہ احسان کو بھی جواب دے دو۔ وہ اتنے دن سے کہہ رہا ہے، موقع تو ہے طلحہ کی منگنی کے ساتھ حرمین کی رسم بھی ادا ہو جائے گی۔“ ان کی بات پر جہاں طلحہ کی سوچوں کا رُخ مڑا، حرمین بھی فق چہرہ لیے اٹھ گئی۔ اس کے دل میں عجیب سی لہر اٹھی تھی۔
”حرمین کی رسم….؟“
”جی بیٹا! احسان نے حرمین کے لیے کئی سال پہلے سے کہاتھا اور اب تو وہ مسلسل بضد ہے، عثمان ماشاءاللہ اب سیٹل ہو گیا ہے۔ اچھی جاب ہے۔ ہونہار بچہ ہے۔ حرمین کا بھی یہ آخری سا ل ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب حرمین کی بھی رسم باقاعدہ کروں تاکہ میرے بھائی کو گلہ نہ رہے۔“ کتنے حیرت کی بات تھی ناں….؟ وہ اخلاقاً بھی مسکرا نہ سکا بلکہ ”جی بہتر“ کہتا وہاں سے اٹھ گیا۔ اور جب رات میں حرمین دادی کے لیے چائے دینے آئی تو وہ خود پر قابو نہ پاسکا۔
”حرمین! تم سب جانتی تھیں، پھر تم نے ایسا کیوں کیا….؟“ اور وہ جو پہلے ہی رو رو کے بے حال تھی پھر سے رو پڑی۔
”ہاں میں جانتی تھی اور میںنے کوشش بھی کی تھی کہ حارش عالم کو سچ بتا دوں لیکن بھیا! میں ایسا نہ کر سکی۔ وہ جب کھل کر ہنسا تھا اتنا خوش رہنے لگا تو میرا دل نہ مانا کہ میں اس سے یہ خوشی چھینوں۔ مجھ میں ہمت نہ ہوئی اور اسے حقیقت بتانے کا سوچ کر میں خود بھی اس کی راہوں کی ہمسفر ہو گئی۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی میں اس کی آنکھوں کی سچائی سے ہار بیٹھی تھی۔ میں کیا کرتی بھیا….؟ بھلا محبت پر کبھی کسی کا اختیار رہا ہے۔“ اس نے طلحہ کی طرف چہرہ کیا تو وہ بھی نظریں چرا گیا۔ حرمین کے چہرے کے آنسو گواہ تھے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔
”مجھے فیصلہ کا تو اختیار نہیں طلحہ بھیا! پر میں حارش عالم کو بھی نہیں بھول سکتی۔ جتنا محبت کے سفر میں وہ آگے بڑھ گیا ہے اتنا ہی سفر میں بھی طے کر چکی ہوں۔ کیا آپ میری اور اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے….؟“ کتنی امیدیں تھیں، آس تھی اسے۔
”ابھی تو وقت ہے ناں پلیز طلحہ بھیا!“ اس نے دونو ںہاتھ اس کے سامنے جوڑے تو وہ خود کو بہت بے بس محسوس کرنے لگا۔
”حرمین! میں نے زندگی میں حارش کو کبھی اس طرح کھل کر ہنستے نہیں دیکھا۔ اتنا خوش بھی وہ کبھی نہیں رہا اور اب مجھے ڈر ہے کہ اگر کچھ غلط ہو گیا تو عمر بھر کے لیے وہ بکھر جائے گا حرمین! تمہاری محبت میں اس نے سارے جہاں کی خوشیاں دیکھی ہیں۔ اسے تو کوئی اور خوشی نظر ہی نہیں آتی سوائے تمہارے، میں اسے ٹوٹتا بکھرتا نہیں دیکھ سکتا۔“
”آپ دادی سے بات کریں ناں بھیا! دادی حارش عالم کی خوشی کے لیے ہر قدم اٹھا سکتی ہیں، حارش کی خواہش پوری کر سکتی ہیں، صرف وہ ہی بابا اور چاچو سے کہہ سکتی ہیں۔“ ایک آخری امید بس دادی ہی تو تھیں اس کی۔ طلحہ نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے۔
”جتنا میرے بس میں ہوا ناں بہنا! میں کوشش کروں گا کیونکہ حارش کی خوشی مجھے اپنی خوشیوں سے بڑھ کر عزیز ہے۔ تم پلیز رو مت۔ ان شاءاللہ اچھا ہو گا۔“ اس نے بکھرتی ہوئی حرمین کو تسلی دی۔ حالانکہ خود اس کے اپنے دل کو ایک لمحے کا سکون نہ تھا۔
ض……..ض……..ض
وہ ابھی آفس سے آیا تھا صحن میں حارش کو لیٹا دیکھ کر اس کے پاس آ گیا۔
”کب آیا تو……..؟“ حارش اس کے بولنے پر اٹھ بیٹھا۔ طلحہ اس سے یوں لپٹ گیا جیسے صدیوں سے بچھڑاہو۔
”تجھے پتہ ہے میں کتنا اداس ہو گیا تھا۔“
”مجھے علم نہیں ہو گا تو کسے ہو گا….؟ چل اب آ گیا ہوں ناں۔“ حارش نے اسے خود سے الگ کیا۔ طلحہ کی آنکھوں کی سطح نم تھی۔
”طلحہ کم آن یار! تُو تو یوں بی ہیو کر رہا ہے جیسے میں دنیا سے چلا گیا۔“
”بک نہیں۔“ اس نے حارش کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
”اچھا جا کے فریش ہو جا پھر باتیں کریں گے۔“ طلحہ سر ہلا کے اندر چلا گیا جب فریش ہوکے لوٹا تو چائے اس کے سامنے حاضر تھی۔
”تو نے بنائی ہے….؟“
”ہاں….کیوں….؟“ حارش نے حیرت سے پوچھا۔
”نہیں ویسے ہی پوچھا تھا، حرمین بناتی ہے ناں۔“
”دراصل میں نے سوچا کہ عادت ڈال لوں۔ ۔ پہلے ہی میں اپنی عادتیں بہت بگاڑ چکا ہوں۔ مجھے خود کو دوسروں کا عادی نہیں بنانا چاہیے تھا۔“ وہ خود کو بہت مضبوطی سے سنبھال کے بولا تھا۔ البتہ وہ طلحہ سے نظریں نہیں ملا رہا تھا۔ ہاتھ میں تھامے کپ کو گھور رہا تھا۔
”حارش! تو ایسے کیوں کہہ رہا ہے۔“ اس کی آواز میں لرزش واضح تھی۔
”کیونکہ طلحہ! میں حقیقت پسند انسان ہوں۔ یہ بات تو اچھی طرح جانتا تھا کہ میں نے کبھی کسی کے آسرے پر زندگی نہیں گزاری۔ میرا ایمان ہے انسان اتنا ہی زندگی میں پاتا ہے جتنا اس کے رب نے اس کی زندگی میں لکھا ہوتا ہے۔ زیادہ کی طلب نہیں ہے مجھے۔ غلطی میری تھی میں نصیب سے بڑھ کر اللہ سے مانگ رہا تھا۔ حالانکہ اس رب نے میرا نصیب لکھ دیا ہے، سو میری قسمت میں جو ہے وہی مجھے ملے گا۔“
”تجھے کس نے بتایا؟“
”کل شام بابا نے فون کیا تھا جلد لوٹ آﺅں۔ تیرا رشتہ بھی تو لے کر جانا ہے حنا کے گھر۔“ اس کی بات پروہ مسکرایا بھی نہیں تھا۔
”حارش!! دادی سے….“
”طلحہ! تو میرا دوست ہے ناں…. مجھ سے وعدہ کر کہ آج کے بعد ہم اب اس ٹاپک پر بات نہیں کریں گے۔ بھول جائیں گے کہ کبھی یہ دن ہماری زندگی میں آئے تھے۔ وعدہ کر کہ بھول کر بھی مجھ سے یہ ذکر دوبارہ نہیں کرے گا۔“ اس کا مضبوط لہجہ طلحہ کو توڑ رہا تھا۔ وہ خود کو کتنا بھی کمپوز کرے وہ جانتا تھا کہ اس کے اندر کتنی توڑ پھوڑ ہے۔ جس کی ہستی بکھر جائے بھلا وہ کیسے….
”وعدہ کر….“ اس نے ہاتھ طلحہ کے سامنے پھیلاتے ہوئے اسے دیکھا۔ اس کی آنکھیں ضبط کی شدت سے سرخ ہو رہی تھیں۔ طلحہ نے دو پل صرف دو پل اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا، تبھی وہ ضبط کے سارے قفل توڑ بیٹھا اور طلحہ سے لپٹ گیا۔
وہ اور طلحہ باہر چلے گئے۔ رات گئے لوٹے تھے۔ اب تک وہ کسی سے بھی نہیں ملا تھا تبھی صبح ہوتے ہی دادی آ گئیں۔ اسے خوب پیار کیا، پھر بابا آئے تھے ملنے۔ انہیں آفس جانا تھا سو جلد چلے گئے۔ کاشف بھی ہیلو ہائے کر گیاتھا۔
”ناشتہ ادھر بن گیا تمہارا، نہا دھو لو میں انتظار کر رہی ہوں۔“ دادی نے حکم دیا۔
”دادی! دل نہیں چاہ رہا۔“ وہ کسلمندی سے لیٹا ہوا تھا۔
”تیری طبیعت تو اچھی ہے ناں….؟ دیکھ ذرا آنکھیں کیسے سرخ ہو رہی ہیں۔“ انہیں فکر ہوئی۔ طلحہ ابھی نہا کر آیا تھا، دادی کی بات سن کر اسے دیکھنے لگا۔
”میں ٹھیک ہوں دادی! یہ طلحہ ہے ناں رات بھر باتیں کرتا رہا، جیسے میں برسوں سے بچھڑا ہوا تھا۔ نیند پوری نہیں ہوئی ناں اس لیے سستی ہو رہی ہے۔“ کتنا پرفیکٹ عذر تراشا تھا۔ طلحہ کی سانسیں بھی بحال ہو گئیں۔
”دادی! آج میں نے خود ناشتہ بنایا ہے، آپ بھی ہمارے ساتھ ناشتہ کریں ناں۔“
”آئے ہائے، تجھے کیا پڑی تھی کچن میں گھسنے کی۔ حرمین ابھی لے آتی ہو گی ناشتہ۔ میں نے بچی کو صبح سے لگایا ہوا ہے کہ حارش کے لیے اچھا سا کچھ بنا دے۔ کئی دن کے بعد گھر آیا ہے۔“ انہوں نے طلحہ کو ڈانٹا۔ حارش اٹھ کر واش روم جا چکا تھا۔ نہا کر آیا تو ناشتہ ٹیبل پر لگاتی حرمین پر نظر کی تھی۔ کملایا چہرہ، سوجھی آنکھیں، اس کا چہرہ کھلتا ہوا ہرگز نہیں تھا۔ حارش کے اندر پھر توڑپھوڑ ہونے لگی تھی، لیکن اس نے کمزور نہیں پڑنا تھا۔ اسے حرمین سے کوئی شکوہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ اگر وہ جانتی تھی پہلے سے تو اس سے کہہ دیتی۔ کم از کم وہ خود کو کنٹرول کر لیتا، لیکن اس نے تو اپنی ہر خوشی اس سے وابستہ کرلی تھی۔ اس سے محبت کے بعد تو ہنسنا بولنا سیکھا تھا اس نے اور اب پھر…. وہ خاموشی سے ٹیبل تک آیا تھا۔ حرمین نے ایک نظر اس پر ڈالی اور کسی کام کے بہانے باہر چلی گئی۔ اس میں حارش عالم کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
”کل تمہاری چھٹی ہے، کل حنا کے گھر جانا ہے، تیرے بابانے کہا ہے۔“
”جی دادی! بابانے مجھے بتا دیا تھا۔“ وہ ناشتہ کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
”احسان چاچو بھی جائیں گے….؟“
”مشکل ہے وہ تو لاہور گیا ہوا ہے، عثمان بھی شہر سے باہر ہے۔ شاید ہی کوئی آئے۔ خیر ابھی رشتہ تو ڈال آئیں۔ اللہ نے چاہا تو منگنی کرنے سب جائیں گے۔“
”ان شاءاللہ۔‘ اس نے تہہ دل سے کہا۔ طلحہ ہولے سے مسکرا دیا۔
”بابا نے تو کچھ اور بھی کہا تھا دادی۔“ وہ کہہ نہیں پا رہا تھا۔
”کیا…. وہ حرمین والی بات۔“
”جی ہاں۔“
”ہاں، وہ فرمان کی خواہش تھی کہ طلحہ کے ساتھ ہی حرمین کا نکاح کر دیتے، مگر اب احسان اور عثمان کے آنے کے بعد ہی بات کروں گی ان سے۔“
”اچھا دادی! میں چلتا ہوں۔ دیر ہو رہی ہے۔ شام میں آپ کے پاس بیٹھ کر باتیں کروں گا۔“
”جیتے رہو، صدا خوش رہو!“ انہوں نے دعاﺅ ںمیں اسے رخصت کیا۔ طلحہ بھی اس کے ساتھ ہی نکل آیا۔
”حارش! دادی سے بات کروں….؟“ اس کی بات کے جواب میں حارش نے غصے سے گھورا تھا اسے۔
”طلحہ! ہم یہ ٹاپک کلوز کر چکے ہیں ناں!“
”تو جی لے گا اس کی محبت کے بغیر….؟“
”ساری عمر میں نے محبتوں کے بناءہی گزاری ہے۔ ایک یہ ہی رشتہ باقی رہ گیا تھا ناں، یہ محبت بھی کر کے دیکھ لی ہے۔ طلحہ تجھے اب بھی اندازہ نہیں ہوا کہ میری قسمت میں محبت ہے ہی نہں۔ میرا وجود صرف ٹھکرانے اور ٹھیس دینے کے لیے ہے۔ تو کیوں چاہتا ہے کہ میں اپنی عزت نفس بھی مجروح کروں۔ مجھے کسی سے کوئی امید نہیں ہے۔ پلیزاور میں نہیں چاہتا اب کسی اور رشتے کو امتحان میں ڈالوں اور جو بچے کھچے رشتے ہیں انہیں بھی کھو دوں۔“ طلحہ اس کے جواب میں کچھ نہ بول سکا، مگر سچ تو یہ تھا کہ اس سے حرمین کا اترا چہرہ اور بکھرا وجود بھی نہیں دیکھا جاتا تھا۔
”مجھ سے حرمین کا چہرہ اور اداسی نہیں دیکھی جاتی حارش….؟“
”قصور بھی تو اسی کا ہے طلحہ۔ اس نے تومیرے وجود کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں۔ کاش مجھے پہلے سے سب پتا ہوتا، پر وہ تو جانتی تھی، جانتے بوجھتے بھی اس نے نہ صرف یہ نہیں کہ مجھے منع کرتی خود بھی۔“
”محبت پر بھلا کبھی کسی کا اختیار ہوتا ہے حارش۔“
”اب کسی بھی بات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔“ پتہ نہیں وہ خود کو کیسے اتنا سخت بنا لیتا تھا۔ طلحہ اسے دیکھتا رہ جاتاتھا۔
ض……..ض……..ض