تبصرہ نگار:حیدر قریشی
پار پرے (ناول) مصنف:جوگندر پال
صفحات:13 2 قیمت:15 0 روپے
ناشر: انشاء پبلی کیشنز25-B Zakaria Street,Kolkata-70007 3, India
جوگندر پال تخلیقی ذہن رکھنے والے اردو کے انتہائی زرخیز فکشن رائٹر ہیں۔افسانہ،افسانچہ ،ناولٹ اور ناول تک ان کی تخلیقات بجائے خود اردو فکشن کی کہکشاں سی بنا چکی ہیں۔پار پرے ان کا تازہ ناول ہے۔یہ ناول جوگندر پال تخلیقی فعالیت کا حیران کن مظہر ہے۔عمر کے اس حصے میں جہاں ہمارے بیشتر لکھنے والے یا تو لکھنے سے توبہ تائب ہوجاتے ہیں یا خود کو دہراتے چلے جاتے ہیں،جوگندر پال ایک انوکھے موضوع کے ساتھ اپنا ناول پار پرے لے کر آئے ہیں۔
دس ابواب اور ایک پس لفظ پر مشتمل یہ ناول بنیادی طور پر بابا لالوکی داستان ہے۔لیکن اس داستان میں اور بھی کئی کرداروں کی کہانیاں آتی چلی گئی ہیں۔جالم سنگھ جیسے رحم دل سنگھ سردار کی کہانی،مولوی منظور احمد کی کہانی،انڈیمان کے جاروائی قبیلے کی کہانی،شبو چور کی کہانی،بھائی شری رام کی کہانی،اور بہت ساری کہانیاں۔گوراں چاچی کی کہانی تو خود بابا لالو کی کہانی سے مل کر اگلی کہانیوں کو جنم دیتی ہے۔یہ ساری کہانیاں جزائر انڈیمان کے معروف اور عبرتناک مقام کالے پانی سے ابھرتی ڈوبتی ہیں۔متحدہ ہندوستان میں خطرناک مجرموں کو سزا کے طور پر کالے پانی کی سزا دی جاتی تھی۔حکمران جن خطرناک مجرموں کو سزا کے طور پر وہاں بھیجا تھا ان میں سے اکثر نہ صرف خطرناک نہیں تھے بلکہ اتنے معصوم تھے کہ زندگی بھر اپنے معاشرے کے معززین کے استحصال کا نشانہ بنتے رہے۔ اور اسی کے نتیجہ میں یہاں پھینکوادئیے گئے۔
بابا لالو کو اپنے آگا پیچھے کا کچھ پتہ نہیں ہے۔وہ بے سہارا تھا اور ماسٹر اﷲ دتہ اسے ترس کھاکر اپنے گھر لے گئے۔وہاں انہوں نے اسے بیوی کی طرح رکھا اور باپ کی طرح پالا۔اسکول ٹیچر کی وفات ہوئی تو اسکول منیجر ستیہ وتی اسے ترس کھاکر اپنے ہاں لے گئی اور وہ ماسٹر اﷲ دتہ سے بھی دو ہاتھ آگے نکلی۔پھر ایک بار ستیہ وتی نے اپنے بوڑھے شوہر کے ساتھ جھگڑے کے دوران اسے گولی مار دی۔الزام بابا لالوکے سر لگا دیا گیا۔اور جب معاملہ عدالت میں پہنچا تو بقول بابا لالو’’ستیہ وتی کے وکیل کی بحثیں سن کر مجھے بھی یقین آگیا تھا کہ خونی میں ہی ہوں‘‘۔
بابا لالو کا یہ ایک جملہ تیسری دنیا اور بالخصوص جنوبی ایشیا کے ممالک کے نظامِ عدل پر اور معاشرے کی اصلیت پر ایک کاری ضرب ہے ۔ یوں بابالالو اندھے انصاف کی بھینٹ چڑھ کر قاتل کا گناہ اپنے ذمہ لے کر کالے پانی کی سزا کے لئے بھیج دیا گیا۔یہاں اس کی ملاقات ایک طوائف گوراں چاچی سے ہوتی ہے۔گوراں چاچی کو ایک گاہک نے کام کے بعد معاوضہ نہیں دیا تو اس نے اسے دھکا دیا اور وہ اوپری منزل سے نیچے گر کر ہلاک ہو گیا اور گوراں چاچی قتل کے الزام میں سزا پا کر کالے پانی بھیج دی گئی۔بہر حال دونوں کے درمیان بات بڑھتی ہے تو دونوں شادی کر لیتے ہیں۔قید سے رہائی کے بعد کالے پانی کے بیشتر سزا یافتہ لوگ وہیں بس جاتے ہیں۔یوں پورٹ بلیئر ایک شہر بن کر پھیل چکا ہے۔
کالے پانی کے سزا یافتہ ان لوگوں کی بڑی تعداد اپنے رہن سہن سے رام راج یا ست یگ کی یاد دلاتی ہے۔پیار ،محبت،ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک۔۔دینی غیرتوں اور تہذیبی بے غیرتیوں سے پاک صاف ۔
مسلمان،ہندو،سکھ،مسیحی،اور مقامی جاروائی لوگ،سب تعصبات سے پاک اچھے انسانوں کی طرح جی رہے ہیں۔
لالو اور گوراں کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوتے ہیں۔اپنے دوست جالم سنگھ کے کہنے پر وہ پہلا بیٹا واہگورو کو دے دیتا ہے۔اس کا نام بیکل سنگھ رکھا گیا۔دوسرا بیٹا ہوا تو اسے مسلمانوں کے حوالے کرنے کا سوچتا ہے اور اس کا نام علی رکھ دیا جاتا ہے۔میاں بیوی دونوں ہندو۔بیکل سنگھ بڑا ہو کر اچھا کاروباری ثابت ہوتا ہے ۔باپ کی کریانے کی چھوٹی سی دوکان کو بڑھا کر پرویژن سٹور میں بدل دیتا ہے۔چھوٹا بیٹا پڑھائی کی طرف توجہ دیتا ہے اور گریجوایشن کرکے اسکول ٹیچر بن جاتا ہے۔ذہنی طور پر وہ غور و فکر میں مبتلا رہتا ہے۔اس کا انگریز پرنسپل بھی اس کی ذہنی صلاحیتوں کی قدر کرتا ہے۔بیکل سنگھ کی سادی ایک لڑکی سے ہو جاتی ہے۔علی ایک مقامی لڑکی سو کو پسند کر چکا ہے۔
اسی دوران ہندوستان سے بعض ہندو رہنما پورٹ بلیئر آتے ہیں اور وہاں کے ہندوؤں کو بتاتے ہیں کہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں نے ان کے آباؤ اجداد پر کیا کیا مظالم ڈھائے تھے۔سنگین مقدمات میں سزا یافتہ لوگوں سے بسا ہوا شہر پورٹ بلیئر سزایافتہ لوگوں کا گڑھ ہونے کے باجود امن و سکون کا گہوارہ تھا اور مذہبی نفرت کے زہر سے ابھی تک پاک تھا۔لیکن ہندوستان سے آنے والے ہندو رہنماؤں نے پہلی ہی اشتعال انگیز تقریب میں زہر پھیلایا تو اسی تقریب میں بابا لالواور گوراں کا بیٹا علی کھڑا ہو گیا۔اس نے مقرر کو مخاطب کرکے کہا:
’’کیا آپ اس وقت تاریخ کے پَنوں میں سانس لے رہے ہیں یا بیسویں صدی کے خاتمے پر یہاں پورٹ بلیئر میں؟آپ آخر چاہتے کیا ہیں؟۔۔۔فرقہ وارانہ فساد؟۔۔مارا پیٹی؟۔۔۔وحشیانہ قوت؟۔۔۔کیا؟۔۔۔کیا چاہتے ہیں آپ؟۔۔۔ہماری جانیں؟‘‘
علی کی اس بے ادبی پر ہنگامہ ہو گیا۔پولیس نے فائرنگ کرکے فساد پر قابو پا لیا۔لیکن اس فائرنگ سے انتہا پسندوں کا ایک ساتھی مارا گیا۔ پولیس انسپکٹر نے خود کو بچانے کے لئے اس کے قتل کا الزام علی پر لگوا دیا۔مقدمہ چلا۔علی کا کہنا تھا کہ وہ نفرت پھیلانے والے مذہبی لوگوں سے نفرت کرتا ہے لیکن اس نے کوئی قتل نہیں کیا۔لیکن اس کی نفرت کا اعتراف اور جائے وقوعہ کے دوسرے شواہد کی بنا پر ہی اسے عمر قید سنا دی گئی۔کالے پانی میں رچے بسے ہوئے خاندان کے نوجوان کو نئے کالے پانی کی سزا سنا ئی گئی۔اسے بال ٹھاکرے جی کے شہر بمبئی کی جیل میں بھیج دیا گیا۔
بابا لالو جو خود قتل کے جھوٹے الزام میں کالے پانی کی سزا بھگت چکا تھا ،اب اپنے پڑھے لکھے اور ذہین بیٹے کو قتل کے جھوٹے الزام میں سزا کے لئے جاتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔علی کے ساری بہی خواہ ،سارے عزیزاس نا انصافی پر اس ظلم پر گھلنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔بابا لالو علی کے پرنسپل سے شاید من ہی من میں باتیں کر رہا ہے:
’’میری کہانی تو پوری ہو لی ہے۔پر کہاں پوری ہو ئی ہے۔پِٹ سن صاحب؟وہ تو بمبئی جیل میں جا کھوئی ہے،اور اس کی پرچھائیاں مجھے یہاں گھیرے رکھتی ہیں۔۔۔۔خدارا میری مدد کیجئے۔۔۔ پِٹ سن صاحب،جو ابھی ہونا ہے وہ سارے کا سارا ایکدم ہو جانے دیجئے۔
ہاں،آپ کیا کر سکتے ہیں؟۔۔۔۔ہاں،پِٹ سن صاحب کوئی پوری کہانی بھلا کہیں پوری ہوتی ہے؟‘‘
بابا لالو کی اسی خود کلامی پر ناول کا اختتام ہوجاتا ہے اور باقی کہانی ہم سب اپنے اپنے ذہنوں سے سوچتے ہوئے علی کی،بابالالو کی،گوراں کی،جالم سنگھ کی، فادر ڈینیئل بخش کی،اور مقامی جاروا لڑکی سُو کی،اور کئی دوسرے کرداروں کی کتنی ہی کہانیاں بنا سکتے ہیں۔
جوگندر پال اپنے مخصوص ڈکشن کے ساتھ اس ناول میں خوشیوں اور دکھوں کے کتنے ہی پھول سجائے ہوئے ہیں۔آئیے ان کے چند جملوں کے پھولوں کو کسی حوالے کے بغیر دیکھتے ہیں۔
٭٭’’اتنا نیک تھا،معلوم نہیں اتنا دکھی کیوں تھا۔۔۔۔‘‘
’’بابا۔۔کسی نے اسے ٹوکا۔۔جب اتنا نیک تھا تو دکھی تو ہوگا ہی‘‘
٭٭بیرکوں کی قید اور کام سے چھٹی پا کر بابا لالو کو سب سے پہلے یہ مسئلہ لاحق تھا کہ اب رہیں گے کہاں۔
’’اس میں کیا مشکل ہے‘‘ گوراں چاچی نے اُس سے کہا’’تم میرے دل میں رہوگے اور میں تمہارے دل میں‘‘
’’اس طرح تو ہم کبھی مل ہی نہ پائیں گے۔‘‘
٭٭’’رب کے ان نیک بندوں کو اپنی سجا بھگتنا بھی نئیں آتا بھابھی ۔ہماری تراں چورڈاکوہوں توجیل کو بھی سسرال بنا لیں‘‘
٭٭مولوی کو بھُنے ہوئے چنے بہت مرغوب تھے۔۔۔جالم سنگھ نے اُس کے سامنے اپنی ہتھیلی کھول دی۔ ’’موجھے تو ایوائی پھکر کھائی رکھدی ہے مولویا،کے جنت میں تو سِرپھ دودھ اور شہد کی ندیاں بہتی ہیں،تجھے اوتھے بھنے ہوئے چنے کیسے ملیں گے‘‘
٭٭’’تم ایک نہاتی بہت ہو بی بی‘‘
’’تم جو نہیں نہاتے،بابا۔تمہارا نہانا بھی نہ نہا لیا کروں تو تمہارے قریب کھڑا ہوکے سانس لینا بھی دشوار ہو جائے‘‘
٭٭فادر ڈینیل بخش نے لاکھ زور لگایا کہ بِلّو اور بیکل کی سادی عیسائی ریتی رواج کے مطابق چرچ میں انجام پائے،پر جالم سنگھ اڑ گیاکہ وہ اپنے بیکل کا بیان خود آپ گرنتھ صاحب کے روبرو گوردوارے میں کرائے گا۔
’’اوئے میرے پیارے فادر،میری بات کان دھر کے سن‘‘جالم سنگھ فادر کو سمجھاتا رہا’’تمہارا یسوع ، واہگورو کا ہی پتر ہے نا۔۔بول،ہے کہ نئیں؟۔۔ہے!۔۔۔تو پھر اسے بھی اپنے واہگوروکے سامنے بیٹھ کے بیاہ کا نجارہ کرنے سے کیوں روکدیے ہو؟۔۔کیسے پھادر ہو پھادر؟باپ بیٹے کو مل بیٹھنے کا موکا مل ریا ہے تو انہوں کو مل بیٹھنے دو،کیاؤں ان کی ملاخات میں روڑا اٹکاتے ہو؟‘‘۔۔۔یہ اچھا ہوا جالم کی بات آخر فادر کی سمجھ میں آگئی۔
٭٭جب ہم آپ یادداشت کھو بیٹھیں تو ہماری یادداشت بھی ہماری تلاش میں نکلی ہوتی ہے۔
٭٭اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ گاندھی نے بات بات میں ہندو،مسلم،سکھ اور عیسائی کے بھائی بھائی ہونے پر اتنا زور کیوں دیا۔جو ہوں ہی بھائی بھائی ،اُنہیں کیا ایک دوسرے کو ہمہ وقت بھائی بھائی کہے بغیر اپنا رشتہ یاد نہیں رہے گا؟
وہ جی ہی جی میں یہ دیکھ کر ہنس رہا ہے کہ ہمارا علی اپنی بامنی ماں کو یقین دلا رہا ہے ،ماں،ہم بھائی بھائی ہیں۔
اس ناول کا ایک کمال تو یہ ہے کہ اس میں کالے پانی کے سزایافتہ لوگوں کی جوگندر پال نے ایسی خوبصورت تصویر کھینچی ہے کہ دل ان کی محبت سے بھرنے لگتا ہے۔یہ ناول ہمارے معاشرے کی منافقتوں کو بالواسطہ طور پر بے نقاب کرتا ہے۔بے قصوروں یا معمولی قصورواروں کو بڑا مجرم بنانے کے باوجود ہمارے معاشرے سے گندگی ختم نہیں ہوتی لیکن وہی لوگ جنہیں گندہ قرار دے کر پورٹ بلیئر میں بسا دیا گیا تھا وہ وہیں اپنی جنتِ ارضی بسا لیتے ہیں۔اور پھر اس جنت ارضی میں بھی انسان کو بہکانے والے پہنچ جاتے ہیں۔
ناول کے سرورق پر چار تصاویر سلیقے سے سجائی گئی ہیں۔۱۔ایبرڈین بازار پورٹ بلیئر کے سیلولر جیل کے بیرونی دروازے کی تصویر۔۲۔جیل کے طویل برآمدے کی تصویر۔۳۔جیل کی باہر سے اور فضاسے لی گئی تصویراور
۴۔بیلوں کی جگہ قیدیوں کے کولہو چلانے اور تیل نکالنے والے مقام کی تصویر۔اسی مقام کو بطور خاص کالے پانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
پورٹ بلیئر شہر کو اور کالے پانی کے مکینوں کی نفسیات کو جوگندر پال نے اتنی خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ
بیان کیا ہے کہ ان کی اس مہارت پر رشک آتا ہے ۔قاری نہ صرف خود پورٹ بلیئر جا پہنچتا ہے بلکہ سچ مچ وہاں جا کر کالے پانی کے صاف دل ، میٹھے لوگوں سے ملنے کی خواہش کرنے لگتا ہے۔کم از کم میرا تو بہت جی کرنے لگا ہے کہ خود کو سزا کے طور پر نہیں بلکہ جزا کے طور ایک بار کالے پانی لے جاؤں اور وہاں کے ان سارے اندر ،باہرسے ٹوٹے ہوئے کرداروں سے ملوں،جو ایک دوسرے سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں، جنہیں جوگندر پال نے امر کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سخنِ ملتوی(شاعری) شاعر:رؤف خیر
صفحات:۱۲۸ قیمت:۱۰۰روپی
ناشر:خیری پبلی کیشن۔9-10-202/19 رسالہ بازار۔قلعہ گولکنڈہ۔حیدرآباد(آندھرا پردیش)
رؤف خیر اردو کے معروف شاعر ہیں۔’’سخنِ ملتوی‘‘ان کا چوتھا اور تازہ شعری مجموعہ ہے۔اس میں غزلیں،نظمیں،ترائیلے،ہائیکو،ماہیے اور دیگر شعری اصناف شامل ہیں۔غزل رؤف خیر کی شاعری کی اصل شناخت ہے۔ان کی نظمیں بھی بنیادی طور پر غزل کے زیرِ اثر ہیں۔یعنی پابند نظمیں۔مختلف شعری پیمانوں میں اظہار سے غالباََ رؤف خیر کی قادرالکلامی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔لیکن ان کی شاعری کے بارے میں کوئی حتمی رائے ان کی غزلوں کی بنیاد پر ہی دی جا سکے گی۔یہاں ان کی غزلوں سے چند منتخب اشعار پیش ہیں۔
سمجھنے لگتا وہ دنیا کو ملکیت اپنی جو ہمکلام کسی سے ذرا بھی ہوتی تھی
قلم کے ساتھ قلم کی روایتیں بھی گئیں جو بے قلم ہیں قلم ان کے ہاتھ مت کرنا
بڑا سہی وہ مگر اس کی بات چھوٹی تھی اسی لئے تو اطاعت نہ ہو سکی مجھ سی
ہر اک مقام پہ کچھ دَل بدل تو ہوتے ہیں بدلنے والے بھی اکثر سپھل تو ہوتے ہیں
ہم اپنے شعر کا لیتے رہے مزہ پہروں کہ چھوٹتا ہی نہیں ہے یہ آئینہ پہروں
شیشے میں بال ہے کہ انہیں خط نہیں ملا اب تک، کمال ہے کہ انہیں خط نہیں ملا
کاغذ پہ رکھ دیا تھا کلیجہ نکال کے کتنا ملال ہے کہ انہیں خط نہیں ملا
اب ان کے گھر ہی سلامت نہ سر سلامت ہیں جو مانگتے تھے دعائے سلامتی بھی بہت
وہ اپنے کیفرِ کردار کو پہنچ کے رہے جو لے کے پھرتے تھے دستے حفاظتی بھی بہت
ترائیلے کی صنف اپنے گھر میں بھی یادگار کے طور پر جانی جاتی ہے لیکن اردو میں اس صنف کے ساتھ رؤف خیر کی وابستگی مستقل حوالے جیسی بن گئی ہے۔رؤف خیر کی بیشتر نظمیں پابند نظمیں ہیں اور ان کے ہاں ترقی پسند وں اور علامہ اقبال کے آہنگ کا امتزاج دیکھا جا سکتا ہے۔اس نوع کی نظموں میں ’’دینِ ضعیف‘‘۔’’ایڈس‘‘ اور ’’چلو سب خداؤں کو غرقاب کر دیں‘‘کو ان کی نمائندہ نظمیں کہا جا سکتا ہے۔رؤف خیر کے ماہیے اور ہائیکو ان اصناف سے ان کے اخلاص کو ظاہر کرتے ہیں۔’’تکونی‘‘اور ’’یک مصرعی نظموں‘‘سے رؤف خیر کی مہم جو طبیعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اپنی شاعری کے بارے میں رؤف خیر کا یہ دعویٰ ہے
اشعار نہیں ہوتے آسان زمینوں میں ہم پھول کھلاتے ہیں بے جان زمینوں میں
میر انیسؔآسمان سے اپنی زمینیں لاتے تھے اور اور ان کی فکر بلند بیں تھی جبکہ رؤف خیر زمین سے منسلک رہ کرشاعری کی بے جان زمینوں میں جان ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔اسی لئے ان کے ہاں اپنے ثقافتی مظاہر کی رنگا رنگی ملتی ہے۔امید ہے اس شعری مجموعہ کی ادبی دنیا میں مناسب پذیرائی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنسو آنسو برکھا (اردو گیت) گیت نگار:ڈاکٹر فراز حامدی
صفحات:گیت اردو اور ہندی دونوں اسکرپٹس میں پیش کئے گئے ہیں۔اردو سیکشن۱۰۱صفحات پر مشتمل ہے اور ہندی سیکشن ۹۶صفحات پر مشتمل ہے۔ قیمت200 روپی
ناشر:ادبی دنیا پبلی کیشنز۔۱۲۳۔جے پی کالونی۔شاستری نگرجے پور۔۳۰۲۰۱۶۔راجستھان
ڈاکٹر فراز حامدی ویسے تو شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں لیکن’’گیت‘‘کہتے وقت ان کی طبع کچھ اور رواں ہو جاتی ہے۔یوں گیت کو ان کی شاعرانہ شناخت کا پہلا اور بنیادی حوالہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ہندی گیت اپنے مزاج کے لحاظ سے جسم کی خواہش کا بے تابانہ اظہار ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا نے بجا طور پر اسے’’جسم کی والہانہ پکار‘‘قرار دیا ہے۔ہندی گیت جب اردو میں آیاتو اس میں مختلف رویے ابھر کر آئے۔ہندی میں گیت عورت کی آواز ہے۔اردو میں اس روایت کی پیروی بھی کی گئی اور اس کے بر عکس مرد کی آواز میں گیت بھی لکھے گئے۔ہندی کے نرم و نازک الفاظ کو بھی اردو میں برتا گیا اور فارسی تراکیب کو بھی اردو گیت میں استعمال کیا گیا۔ہندی گیت دھرتی سے منسلک اور جسمانی طلب سے مملو ہے،اردو میں اس روایت کو ترک نہیں کیا گیا لیکن اردو میں بلند پروازی اور روحانی طلب کا اظہار بھی ہوا ہے۔یہ سارے رویے اردو گیت نگاروں کے ہاں جزوی طور پر دیکھیجا سکتے ہیں۔ڈاکٹر فراز حامدی کے اردو گیتوں میں یہ سارے رویے پہلی بار یکجا دکھائی دے رہے ہیں۔
یوں دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ ہندی گیت سے اردو گیت تک کے سفر میں جتنے چشمے،ندیاں اور نالے آئے تھے وہ سب جیسے ایک دریا میں ڈھل گئے ہیں اور اردو گیت کے اس دریا کا نام ہے ڈاکٹر فراز حامدی!
مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر فراز حامدی کے گیتوں کا یہ مجموعہ گیت نگاری کی جمود سے ملتی جلتی یکسانیت کو توڑنے کا باعث بنے گا اور اس کی اشاعت سے اردو گیت ،گیت کے بنیادی اوصاف کو برقرار رکھتے ہوئے مزید وسعت اختیار کرے گا۔ نمونۂ کلام کے طور پر دو گیتوں کے دو بند:
دیکھ ذرا دنیا کی چال انہیں حوصلوں کی کہانی بنے گی
قدم قدم پر بچھے ہیں جال یہی رسم تو زندگانی بنے گی
اپنی الگ اک راہ نکال چلو تیز دھاروں کا رخ موڑ جائیں
پگلے من کا بھید نہ کھول نشاں اپنا پانی پہ ہم چھوڑ جائیں
بات جو بولے۔۔۔۔۔ امر ہو ں گے چرچے ہمارے تمہارے جو تم اُس کنارے۔۔۔