جب سے آرین نے کرن کو دیکھا تھا اسے جیسے پہلی نظر کا پیار ہوگیا ہو وہ دو منٹ کی ملاقات کافی دنوں تک اس کے ذہن میں اجاگر رہی۔ اس وقت بھی آفس میں بریک ٹائم چل رہا تھا اور سارے سٹاف ممبران ایک جگہ جمع ہو کر ہنسی مذاق کرتے ہوئے کھا پی رہے تھے۔
موضوع گفتگو رانا مبشر صاحب ہی تھے تو آرین نے بھی حصہ لینا غنیمت سمجھا۔
“ویسے تم لوگوں نے ان کی بیوی دیکھی ہے۔” اس نے کافی کا گلاس اٹھائے ہوا کہا۔
“ہاں دیکھی تھی۔۔۔۔۔ ان کے ریسپشن پارٹی میں” ایک ہم منصب نے بسکٹ کھاتے ہوئے کہا۔
“پر تُو نے تو ان دنوں جوائن نہیں کیا تھا۔۔۔۔ پھر تو نے کہاں دیکھ لی” دوسرے دوست نے تجسس سے پوچھا۔
“وہ اس دن گھر پر گیا تھا نا۔۔۔۔۔ وہاں ملاقات ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔ کتنی young ہے۔۔۔۔۔ پہلے تو مجھے لگا بیٹی ہوگی۔” آرین نے خلاء میں سوچتے ہوئے کہا۔
سب دوستوں میں ہلکا قہقہہ گونج اٹھا۔
” ہاں آج لڑکیاں اپنے سے ڈبل عمر کے آدمیوں کو پیسوں کے لیے پھنسا لیتی ہے۔۔۔۔ ہمیں تو کوئی پوچھتا بھی نہیں” تیسرے دوست نے افسردگی سے کہا۔
“اررےے۔۔۔۔ اتنی بھی جوان نہیں ہوگی۔۔۔۔ وہ آج کل تو لڑکیاں خود کو جوان دکھانے کے لیے پتہ نہیں عجیب و غریب انجیکشن لگاتی ہیں۔۔۔۔ دوائیاں کھاتی ہیں۔۔۔۔ کوئی سو طرح کی کریم لگاتی ہے۔۔۔ ویسا ہی کچھ کیا ہوگا۔” پہلے دوست نے سرسری ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔
“ہممم نہیں یار۔۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتا وہ ایسی ہوگی۔۔۔۔۔ بلکل کلین فیس تھی 25 20 سے زیادہ کی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ اور میرا نہیں خیال کہ وہ سکیم گرل ہے۔۔۔۔۔ شاید کوئی مجبوری رہی ہو رانا صاحب سے شادی کرنے میں۔” آرین نے حمایتی انداز میں کہا۔
سارے دوست کھل کر اس پر ہنسے تو آرین چھنپ سا گیا۔
“تجھے بہت ہمدردی ہورہی ہے اس سے۔۔۔۔۔ اب جیسے بھی ہے باس کی بیوی ہے۔۔۔۔ ہمارا کیا جا رہا ہے۔” تیسرے دوست نے مذاحیہ ہنستے ہوئے کہا۔
آرین نے کافی کا گلاس ٹرے میں رکھا اور خاموشی سے آکر بیٹھ گیا۔
“آرین۔۔۔۔ رفیق بات تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔۔ وہ سکیم گرل ہو یا نہ ہو۔۔۔۔۔ پر وہ ہمارے باس کی بیوی ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں پتا تیرے اندر کیا چل رہا۔۔۔۔ لیکن اس کے لیے تیرے جو بھی فیلنگ ہو اسے یہی ختم کر دے۔” پہلے دوست نے آرین کی کیفیت بدلتے دیکھ کر اسے سمجھایا۔
آرین نے سمجھتے ہوئے سر کو جنبش دی اور زخمی مسکرا دیا۔
ماحول کشیدہ ہوتے دیکھ کر دوسرے دوست نے کوئی لطیفہ سنا کر موضوع بحث کو تبدیل کیا۔ آرین سمیت سب اس دوست کے لطیفے پر ہنسنے لگے اور بریک ٹائم ختم ہونے پر واپس اپنے اپنے سیٹ پر آگئے۔
آرین نے ظاہری تو رویہ بدل دیا لیکن دل ہی دل وہ اب بھی کرن کے چہرے کو ذہن سے مہو نہیں کر پا رہا تھا۔
****************&&&&***************
اس دن وہ نور سے کال پر بات کر کے لاؤنج میں ٹی وی دیکھنے بیٹھی۔ ان دنوں نور دوبئی میں قیام پذیر تھی۔ ان کا چھ مہینے کا ٹرپ ختم ہونے میں اب کچھ ہفتے باقی تھے اور کرن کو ان کے واپسی کا بے صبری سے انتظار تھا۔ اکیلے بہت تنگ ہوگئی تھی۔
چچی سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے تھے۔ اس دن چچی اس کے گھر آئی اور اسے ساتھ شاپنگ پر چلنے کی ضد کرتی رہی۔
“اففووو۔۔۔۔۔ تم تو گھر کی ہو کر رہ گئی ہو۔۔۔۔ چلو آج تجھے شاپنگ کرواتی ہوں۔” چچی نے احسان جتانے والے انداز میں کہا۔
کرن مسلسل انکار کرتی رہی لیکن چچی نہیں مانی۔ کہی نہ کہی کرن کا بھی دل تھا کہ وہ کچھ دیر باہر گھوم آئے باہر کی دنیا دیکھے۔ اس نے چچی کی بات مانتے ہوئے رانا صاحب سے پوچھنے انہیں کال ملائی۔
رانا صاحب نے کال اٹھائی تو کرن کے کچھ کہنے سے پہلے چچی نے اس کے ہاتھ سے فون چھپٹا اور خود رانا صاحب سے گفتگو کرنے لگی۔
“کیسے ہے آپ رانا صاحب۔۔۔۔۔ میں نگار۔۔۔۔۔ پہچان تو لیا ہوگا۔۔۔۔ ھھھھ۔۔” انہوں نے دوستانہ انداز میں کہا۔
رانا صاحب ایر پوڈ کان میں لگائے نگار بیگم سے بات کرتے ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ بھی کر رہے تھے۔
“فرمائے۔۔۔۔۔ نگار بیگم۔۔۔۔۔۔ کیسے یاد کیا۔” انہوں نے بھی دوستانہ انداز میں جواب دیا۔
“رانا صاحب مجھے کچھ دیر کے لیے کرن ادھار چایئے آپ سے۔۔۔۔۔ میں اسے اپنے ساتھ شاپنگ پر لے جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ پر وہ کہہ رہی تھی جب تک آپ نہیں کہے گے وہ نہیں جائے گی۔” نگار بیگم نے سرسری انداز میں شانے اچکا کر کہا۔
رانا صاحب کے جبڑے سخت ہوگئے تاثرات سنجیدہ۔
“ہممم ٹھیک ہے لے جائیے گا۔۔۔۔ میری بات کروائے کرن سے۔” آج رانا مبشر کو بہت بڑا ڈیل ملا تھا وہ خوشگوار مزاج میں تھا تو کرن کو اجازت دے دی تھی۔ ان کے ہدایت پر نگار بیگم نے فون کرن کو تھمایا۔ اس کی ہیلو سن کر رانا صاحب سپاٹ انداز میں گویا ہوئے۔
“دو گھنٹے کی اجازت دے رہا ہوں۔۔۔۔۔ میری اگلی کال تک تم گھر پہنچ چکی ہو۔۔۔۔ اوکے”۔ انہوں نے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا۔
کرن ان کے اجازت دینے سے بہت خوش ہوگئی تھی اس نے اثابت میں سر ہلاتے ہوئے رانا صاحب سے الوداع کیا اور تیار ہونے کمرے میں چلی گئی۔ گھر سے نکلتے وقت اس نے موبائل میں ڈیڑھ گھنٹے کا الارم لگایا تاکہ پھر آدھ گھنٹے میں وہ گھر واپس پہنچ سکے۔
****************&&&&**************
آرین اپنے ہم منصب رفیق اسلم کے ساتھ اس مال کے کافی شاپ میں موجود تھا۔ میٹنگ کر لینے کے بعد وہ ان صاحب سے الوداع کرتے ہوئے مصاحفہ کر رہا تھا جب آرین نے کرن کو مال میں دیکھا وہ اسے پہلی نظر میں ہی پہچان گیا۔ اس کے پیچھے جانے کے لیے وہ پھرتی سے آگے آیا۔
“رفیق۔۔۔۔ تو آفس جا۔۔۔۔۔ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔” اس نے دوست کو مخاطب کیا۔
“آفس ٹائم میں کہاں جا رہا ہے۔۔۔۔۔ باس کو پتہ چلا نا۔۔۔۔۔ تو خیر نہیں۔” اس نے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
“یار۔۔۔۔ کہہ دینا پرسنل کام سے گیا ہو۔۔۔۔۔ اب تو جا۔” اس نے ہاتھ جھلا کر ہڑبڑی میں کہا اور آگے بڑھ گیا۔
رفیق کو بھیجنے کے چکر میں کرن اس کے نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی لیکن وہ اتنا مطمئن تھا کہ مال میں ہی ہے تو وہ منزل بہ منزل اسے ڈھونڈنے لگا اسے کرن سے رانا صاحب کے غیر موجودگی میں ملنے کا یہ موقع نہیں گنوانا تھا۔
کرن بے دلی سے چچی کے ساتھ دکان بہ دکان جاتی رہی چچی کا مقصد صرف اس کا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا تھا اس لئے اسے ساتھ لے کے آئی تھی۔
تیسری منزل پر وہ اسے نظر آگئی لیکن ساتھ دوسری عورت کے ہوتے ہوئے آرین کو کرن کے سامنے جانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہورہی تھی۔ اس نے ہمت کر کے قدم بڑھائے اور اس دکان میں داخل ہوگیا جہاں کرن کھڑی تھی۔
“ہائے۔۔۔۔” آرین نے کرن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
کرن نے غور سے اسے دیکھا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔
“میں آرین۔۔۔۔۔ اس دن گھر پر ملا تھا۔۔۔ رانا سر سے فائل سائن کروانے۔” اس نے اپنا تعارف یاد کروایا۔
کرن کو جب یاد آیا کہ اسی کے لیے دروازہ کھولنے پر رانا صاحب نے اسے جھڑکا تھا تو وہ بد مزہ ہوگئی۔ اس کے کچھ کہنے سے پہلے چچی اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
“اچھا۔۔۔۔۔ رانا صاحب کے کلرک ہو۔۔۔۔۔ ” نگار چچی نے آگے بڑھ کر کہا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے شاپنگ بیگ اسے پکڑائے۔
آرین نے خود کو کلرک بلائے جانے پر تیکھے تاثرات سے دیکھا اور منہ بھسورتے ہوئے سامان پکڑ لیا
کرن چچی کی اس حرکت پر شرمسار ہوگئی۔
“چچی کیا کر رہی ہو آپ۔ ” اس نے جھپتے ہوئے کہا اور ہاتھ آگے کر کے آرین سے شاپنگ بیگ واپس لینے لگی۔
“لاو۔۔۔۔ مجھے دو۔” اس نے سنجیدگی سے کہا۔
“نہیں میم۔۔۔۔۔ میں اٹھا لوں گا۔۔۔۔ its ok” آرین کہتے ہوئے پیچے ہوگیا اور خود کو نارمل کرنے کے لیے جعلی مسکرایا۔
“رہنے دے کرن اٹھا لے گا۔۔۔۔ چل ہم وہ سامنے والے دکان پر جاتے ہیں۔” چچی نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔
کرن نا چاہتے ہوئے ان کے ساتھ چل پڑی اور آرین ان کے پیچے چلتا رہا۔ اس کی موجودگی میں کرن کو بیچینی ہو رہی تھی۔ سامنے دکان میں جاتے ہوئے کرن کے موبائل کا الارم بجنے لگا تو وہ الرٹ ہوگئی۔
“چچی مجھے واپس جانا ہے۔” کرن نے تیزی سے چچی کو کہا۔ چچی کے ساتھ ساتھ آرین بھی اس کی ہڑبڑی پر پریشان ہو گیا۔
“لیکن ابھی تو دوسرے شاپنگ مال بھی جانا ہے۔” چچی نے چڑ کر کہا۔ آرین کو تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک سے کرن کو ہو کیا گیا۔
“چچی۔۔۔۔ میں کریڈٹ کارڈ دے جاتی ہوں آپ اپنی شاپنگ پوری کر لو۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ یہ ہے نا ساتھ۔” اس نے آرین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“سنو۔۔۔۔۔ تم ان کے ساتھ سامان گھر تک ڈراپ کر کے جانا اوکے۔” کرن نے کریڈٹ کارڈ چچی کو دیتے ہوئے رخ موڑ کر آرین کو ہدایت دی اور خود تیزی سے لفٹ کے جانب لپکی۔
وہ کار سے اتر کر تیزی سے اندر گئی۔ لاؤنج میں پہنچ کر وہ صوفے پر بیٹھی۔ نئی ملازمہ کو پانی لانے کا کہا جو آج صبح ہی کام پر آئی تھی۔ کرن پانی پی رہی تھی جب اس کا موبائل بجا۔
“کیا شاپنگ کی۔۔۔ ” رانا صاحب نے سلام دعا کرتے ہوئے پوچھا۔
“میں نے اپنے لیے تو کچھ نہیں لیا۔۔۔۔۔ چچی ہی کرتی رہی شاپنگ۔۔۔۔۔ اور میں اپنا کارڈ ان کو دے آئی ہوں آپ ان سے منگوا لینا۔۔۔۔۔۔ اور میں بیس منٹ پہلے ہی آگئی ہوں۔” کرن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
“ہاں دیکھ رہا ہوں۔” رانا صاحب نے لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے ہوئے کہا جہاں وہ اپنے گھر میں نسب کئے خفیہ کیمرے سے کرن کو دیکھ رہے تھے۔
کرن ان کی بات پر حیران ہوئی۔
“کیا دیکھ رہے ہے” اس نے تصدیق چاہی کرن کو لگا اسے رانا صاحب کی بات سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔
“مطلب تم نے کال اٹھا لی ہے تو دیکھ رہا ہوں تم اپنے وعدے کے مطابق صحیح وقت پر گھر واپس آگئی۔۔۔۔۔ اور کارڈ میں منگوا لوں گا تم فکر مت کرو۔” رانا صاحب نے اس کا اندیشہ ختم کرنے کے لیے بات بدل دی تا کہ اسے کوئی شک نہ ہو۔
*************&&&&&**************
رانا صاحب ایک مہینے کے لیے سفر پر جانا تھا۔ کرن کو ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن چونکہ بزنس کے سلسلے میں جانا تھا تو کرن نے منع کر دیا۔ جہاں بھی وہ جاتی 4 دیواری میں بیٹھی رہتی اور اگر وہ چلی بھی جاتی اور کسی سے صحیح منہ بات بھی کر لیتی تو رانا صاحب نے چھڑپ پڑنا تھا اس لیے اس نے گھر میں رہنا پسند کیا۔
آج رانا صاحب کو گئے دو دن ہوگئے تھے۔ جو نئی ملازمہ انہوں نے رکھی تھی وہ اپنے کام کے علاوہ کوئی دوسری بات تک نہیں کرتی۔ کرن کے پاس اپنی بوریت ختم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ اسے بلاوجہ رانا صاحب کی یاد آرہی تھی پچھلے پانچ مہینوں میں تو اسے رانا صاحب کے ڈانٹ اور چھڑپ کی بھی عادت لگ گئی تھی۔
سرما کے وہ دن اس پر بہت طویل گزرتے۔ ایک دن وہ بے مقصد بنگلے میں گھوم رہی تھی اور روحان کے کمرے میں داخل ہوکر وہ چاروں طرف جائزہ لینے لگی اسے شیلف پر رکھی کتابوں میں کچھ انگلش ناولز کی کتابیں پڑی ملی جو یقیناً نور نے اسے تجویز کی ہوگی۔ وہ ان میں سے ایک ناول نکال کر وہی صوفے پر بیٹھ کر پڑھنے لگی۔ ناول پڑھتے ہوئے اس کا کافی ٹائم پاس ہوگیا۔
“واقعی کتابیں انسان کی سچی ساتھی ہے کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑتی” اس نے اٹھتے ہوئے سوچا۔
اگلے کئی دنوں تک اس کا یہی شغل رہا وہ کبھی باہر لان میں کتاب ساتھ لے آتی کبھی لاونج میں ہیٹر کے پاس بیٹھ جاتی کبھی چہل قدمی کرتے ہوئے پڑھتی اور کبھی وہ روحان کے کمرے میں ہی بیٹھ جاتی۔ روحان کا کمرا بلکل سمپل کمرا تھا جہاں چیزیں نفاست سے تو تھی اور باقی گھر جیسے مہنگی بھی تھی لیکن جیومیٹری کے حساب سے نہیں رکھی تھی نہ کوئی پابندی تھی صرف وہی پر اسے زندگی کا احساس ہوتا وہی بیٹھ کر اسے انسان ہونے کا احساس ہوتا۔
یہی سے اسے کتابیں پڑھنے کا شوق ہوا ان دو سے تین دنوں میں وہ چار کتابیں متعلہ کر چکی تھی۔ اب وہ ساتھ میں پڑھتے ہوئے قلم کاغذ بھی اٹھا لیتی اور کوئی کشفی لائن یا حوصلہ افزائی کرنے والا جملہ ملتا وہ اسے لکھ کر اپنی الماری میں لگا لیتی۔
اس دن بھی وہ روحان کے کمرے میں کتاب پڑھتے تھک گئی تو کچھ سستانے کے لیے اٹھی اور کھڑکی کے پاس آئی تو اسے ایک ٹیرس نما جگہ ملی جہاں بہت سے گلدان رکھے تھے کچھ بیلیں وسطی دیوار پر اوپر جارہی تھی پرندوں کے پانی کے لیے چھوٹا سا فوارہ لگا تھا پالتو جانور کے سونے کے لیے ڈبہ بھی۔ دو آمنے سامنے راکنگ چیئر تھے ساتھ میں ایک گیٹار پڑا تھا۔ اور بھی چھوٹے چھوٹے نمائشی شو پیس رکھے تھے جو اس جگہ کی خوبصورتی کو حسین بنا رہی تھی۔ کرن اس ٹیرس کو دیکھ کر بہت محظوظ ہوئی اور حیران بھی کہ اتنے دنوں میں اس نے پہلے یہ جگہ کیوں نہیں دیکھی۔ روحان کا کمرا نیچے منزل پر تھا اور گھر کے آخری حصہ کے جانب تھا اس لئے ٹیرس کی چار دیواری چھوٹی تھی اگر کوئی کھڑا ہوتا تو آدھا باہر دیکھ سکتا تھا اور ایسے ہی باہر کا انسان اندر۔
اس نے تجسس سے آس پاس اوپر نیچے دیکھا کہ جب اتنی حسین آوٹ ڈور جگہ بنائی ہے تو اس میں جانے کا راستہ بھی ہوگا دوسری کھڑکی سے باہر جھنکا تو دو سیڑھیاں نیچے اترتی دکھی نظر گھما کر دیکھا تو اسے وہ کھڑکی کھولنے کا ہینڈل مل گیا جسے گھما کر اس نے کھڑکی کھولی اور اس سبزہ میں قدم رکھا۔ پہلا قدم رکھتے ہی اسے خوشگوار مسرت کا احساس ہوا۔ وہ پھرتی سے کتاب لینے واپس اندر آئی اور کتاب لے کر وہی پڑھنے بیٹھی اور کھلی فضا میں کتاب پڑھنے سے لطف اندوز ہوتی رہی۔
************&&&&**************
آرین کو رانا صاحب کے سفر کا اچھا فائدہ مل گیا تھا۔
اس دن وہ آفس وقت میں 11 بجے نکلا اور اپنی بایئک دور کھڑی کر کے پیدل چل کر کرن کے گھر کے رقبے میں آیا۔ گھر میں جانے کے بجائے وہ بنگلے کے وسطی دیوار کے ساتھ چلنے لگا۔ آخری حصہ سے اندر جانے کا راستہ ڈھونڈتے ہوئے بار بار اندر جھانکتے ہوئے اسے چھوٹے سنزہ میں بیٹھی کرن کی پشت نظر آئی۔
کرن سر جھکائے کتاب پڑھنے میں مصروف تھی جب اسے دیوار پھلانگ کر کسی کے اندر آنے کا سایہ نظر آیا۔ اس نے سہم کر پیچے دیکھا آرین کپڑے جھاڑ رہا تھا۔ اس نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے دیکھا کرن تنے تاثرات سے اسے گھور رہی تھی۔
“ہائے۔۔۔۔ ” اس نے ہاتھ اٹھا کر ہلایا اور مسکرا دیا۔
کرن کے کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اس کے ارادے جانچتے ہوئے تفصیل سے اس کے حرکات و سکنات کو مشاہدہ کر رہی تھی۔
” رانا صاحب ٹور پر گئے ہے۔۔۔۔۔ آپ کو ان سے جو بھی کام ہے۔۔۔۔۔ فون کر کے پوچھ لے۔” کرن نے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔ وہ اس طرح آرین کے اس کے گھر گھسنے کی وجہ جاننے کے لیے گھما پھیرا کر بات کر رہی تھی۔
“نہیں نہیں۔۔۔۔۔ مجھے رانا سر سے کوئی کام نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں تو تم سے ملنے آیا ہوں۔” آرین نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
اسے آگے آتے دیکھ کرن سہم کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔
“مجھ سے کیوں ملنا ہے۔” اس نے اضطراب میں پوچھا۔
آرین نے کرن کو اس کے قریب جانے سے ڈرتے دیکھا تو قدم جما لیئے۔ وہ کرن کو خود سے بدگمان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“اس طرح کسی کے گھر چوری چھپے جانے کا کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔ چلو نکلو یہاں سے” کرن نے آرین کو جھڑکتے ہوئے واپس جانے کا کہا۔
آرین کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کرن کو کیسے تسلی کرے۔ کرن بنا اس کی سنے اسے جھڑک رہی تھی۔ اس نے بولنے کے لیے منہ کھولا پر کرن مسلسل بولے جارہی تھی اسے بولنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔
“تم جاتے ہو یا میں سیکیورٹی کو بلاوں۔” کرن نے ماتھے پر بل بنائے اور تیز آواز میں کہا۔
چونکہ روحان کا کمرا گھر کے آخری حصہ میں تھا اس لیے یہاں ملازمین کا زیادہ آنا جانا نہیں ہوتا اور ملازمین کو بھی اس ٹیرس کے کھلنے کا پتا نہ تھا۔ کرن کھڑکی کے جانب مڑ کر بلند آواز میں سیکیورٹی کو بلانے لگی تھی کہ آرین نے اسے مخاطب کیا۔
“ٹھیک ہے بلا لو۔۔۔۔۔ لیکن پہلے تم خود ہی پھنسو گی۔۔۔۔ پھر دیتی رہنا رانا سر کو جواب۔” آرین نے تیزی سے کہا تو وہ رک گئی۔
“بات تو ٹھیک کہی۔۔۔۔۔ سیکیورٹی والے بتائے گے تو رانا صاحب پہلے مجھ پر ہی برسے گے کہ میں یہاں کیوں آئی۔” اس نے دل میں سوچا اور نرم مزاج بنا کر رخ آرین کی طرف کیا۔
“اوکے میں نہیں بلاتی سیکیورٹی کو۔۔۔۔۔۔ تم جیسے آئے تھے ویسے ہی واپس چلے جاو۔” اس دفعہ کرن نے نرم لہجے میں کہا۔
“چلا جاوں گا۔۔۔۔۔ پر میرا تم سے ایک سوال ہے۔۔”اس نے ہاتھ باہم مسلتے ہوئے پر سوچ انداز میں کہا۔
“کیسا سوال۔” کرن نے اسے تعجب سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“یہی کہ۔۔۔۔۔” وہ کہتے کہتے شیو کھجاتے ہوئے آگے آیا ۔ کرن کی دھڑکن تیز ہوگئی۔
“تم نے رانا سر سے شادی کیوں کی۔” اس نے حیرت سے کرن کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
کرن کے تاثرات بدل گئے۔
“یہ میرے ذاتی معاملات ہیں۔۔۔۔۔ میں تمہیں کیوں بتاوں۔۔۔۔۔ چپ چاپ چلے جاؤ۔۔۔ ” اس نے منہ بھسورتے ہوئے کہا اور انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی ۔ آرین سنجیدہ انداز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا تو کرن پیر پٹختی منہ چڑاتی اندر بھاگی اور تیزی سے کلپ دبا کر لاک لگا دیا۔
آرین اسے روکنے آگے بڑھا پر وہ تب تک کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ وہ واپس مڑا اور افسوس سے سر جھٹکتا واپس دیوار پھلانگ کر چلا گیا۔
کرن کافی پریشان ہوگئی تھی لیکن منفی خیالات جھٹک کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اگلے دو تین دن تک وہ ٹیرس پر جانے سے گریز کرتی رہی اسے خوف تھا کہی آرین پھر سے نہ آجائے۔ پھر جیسے اسے بھول کر وہ تیسرے دن کتاب لے کر ٹیرس پر آئی۔
آرین ترتیب سے روز اس وقت وہاں سے گزرتا لیکن کرن کو نا پا کر مایوس ہو کر واپس چلا جاتا۔ آج اس نے آخری مرتبہ چکر لگانے کا سوچا اور اسے کرن مل بھی گئی پر آج دیوار کے پار ہی کھڑے کھڑے اس نے کرن کو مخاطب کیا۔
“ہائے کرن۔۔۔” اس نے جوشیلے انداز میں ہاتھ بلند کرکے کہا۔
کرن مخاطب ہونے پر پلٹی اور آرین کو دیکھ کر ہنہ کرتے ہوئے کتاب اپنے سر پر ماری۔
“کیوں آجاتے ہو تم۔۔۔۔۔ لگتا ہے یہاں بھی سکون سے بیٹھنا نصیب نہیں۔۔۔۔۔ ضرور رانا صاحب نے تمہیں مجھ پر نظر رکھنے بھیجا ہے۔۔۔۔۔ افففف” اس نے افسردگی سے منہ بنائے ہوئے کہا۔
“نہیں۔۔۔۔ مجھے کسی نے نہیں بھیجا۔۔۔۔۔ میں اپنی مرضی سے آیا ہوں۔۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں۔۔۔۔۔ خود ہی تمہارے جانب قدم بڑھ جاتے ہے۔۔۔۔۔۔ اندر سے محسوس ہوتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ تم تکلیف میں ہو۔۔۔۔ اور کسی کو بتا بھی نہیں سکتی۔” آرین نے معصومیت سے کہا۔
کرن کو لگا کسی نے اس کے دل کی بات کہہ دی ہو۔
“اس نے میری اندرونی کیفیت کیسے جانچ لی” اس نے تعجب سے آرین کو دیکھ کر سوچا۔
“کرن۔۔۔۔۔ میں اندر آو۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ غصہ مت کرنا۔۔۔۔۔۔ ایک دفعہ تسلی سے میری بات تو سنو” آرین نے دیوار پر بازو ٹکائے ہوئے التجائی انداز میں کہا۔
کرن کو اس سے الجھن ہونے لگی وہ نہیں چاہتی تھی کہ آرین اس کے دل میں دفنائے راز جان لے۔
“کوئی ضرورت نہیں ہے۔” کرن نے اٹھتے ہوئے کہا اور جانے کے لیے مڑ گئی۔
“اچھا تمہارے لیے کچھ لایا تھا۔۔۔۔۔ کم از کم یہ تو لے لو” آرین نے ہاتھ میں دو چاکلیٹ بار اٹھا کر لہرائے۔
کرن چاکلیٹ بار دیکھ کر یادوں میں کھو گئی اسے اپنے شادی کے شروعات کے دن یاد آئے جب رانا صاحب اس کا دل بہلانے اس سے اپنی تسکین کے اظہار پر چاکلیٹ بار دیتے۔
“اتنے کم عرصے میں کتنے بدل گئے ہے رانا صاحب۔۔۔۔۔۔۔ کیا سارے شوہر ایسی ہوتے ہے یا۔۔۔۔۔” اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ اس کے یادوں کی لڑی آرین کی پکار پر ٹوٹی۔
” بم نہیں ہے جو اتنا سوچ رہی ہو۔۔۔۔۔ چاکلیٹ ہے یار۔”آرین نے کرن کو گہرے سوچ میں دیکھ کر کہا۔
کرن کے ہوش بحال ہوئے تو بنا کچھ کہے اندر چلی گئی اور آرین منہ بھسورتا رہ گیا۔
کرن کا دل مایوسی میں ڈوب گیا تھا اسے پہلے والے رانا صاحب کی بہت یاد آرہی تھی جن کی محبت نے اسے ان کے ساتھ اپنے رشتے کو اپنانے کی ہمت دی تھی۔ جن کو دل سے اپنا کر وہ اپنے نئے آشیانے کے خواب دیکھتی تھی۔ دو آنسو ٹوٹ کر اس کے رخسار پر بہہ گئے۔ اس نے آنکھیں بند کر کے بقایہ آنسو اپنے اندر اتارے اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
شام میں وہ غیر ارادی طور پر روحان کے کمرے میں داخل ہوئی اور کھڑکی کے پاس آکر دیکھا آرین نے چاکلیٹ وہی ریلنگ پر رکھے تھے اور خود چلا گیا تھا۔ وہ پھیکا مسکرائی اور آکر چاکلیٹ اٹھا لیئے۔
رانا صاحب ان دنوں اپنے انٹرنیشنل ڈیل میں کافی مصروف تھے اس لیے کرن پر نظر رکھنے یا ہر وقت فون پر پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تھا اور گھر میں واحد روحان کا کمرا ایسا تھا جہاں اس کی پرائویسی کا لحاظ کرتے رانا صاحب نے خفیہ کیمرہ نصب نہیں کروایا تھا اس لیے وہ آج کل کرن کے مصروفیات سے بے خبر تھے۔
**************&&&&***************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...