(مطبوعہ روزنامہ ’’اعتماد‘‘ حیدرآباد)
چند اور تبصرے …
’’کتاب نما‘‘ کا خصوصی نمبر …نئی نظم کا سفر
مرتبہ: خلیل الرحمن اعظمی
مکتبہ جامعہ اس بات کے لیے قابل تحسین و آفریں ہے کہ مکتبہ علمی اور ادبی خدمات کو صحیح اور پُر خلوص انداز سے انجام دیتا ہے۔ اچھے اور معیاری ادب کی اشاعت اس کا وثیقہ رہی ہے۔ زیر نظر ’’کتاب نما‘‘ کا نئی نظم نمبر ہے۔ جس میں ادارہ نے اردو کی نئی نظم کا ایک خوش طبع انتخاب پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس خاص نمبر کی ترتیب و تالیف خلیل الرحمن اعظمی نے وحید اختر اور منیب الرحمن کی مدد سے کی ہے اور اس کا ابتدائیہ بھی اعظمی صاحب نے لکھا ہے۔ اردو شاعری کا انتخاب شائع کرنا ایک مستحسن عمل ہے بہ شرط یہ کہ اصول انتخاب میں ایک خاص طرز کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ نئے رجحانات کو بھی پیش کیا جائے یعنی نہ صرف یہ کہ شاعری نئی ہو۔ شاعری کی ہیئت، اسلوب اور اندازِ اظہار میں بھی ندرت ہو! اس انتخاب سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرتب نے تمام مکاتیب کے نمائندوں کے گلوں میں ہار ڈال کر انھیں جدید بنانے کی کوشش کی ہے۔
ابتدائیہ میں اعظمی صاحب نے اپنے ان ضابطوں کا اظہار کر دیا ہے جن کو وہ نئی نظم سمجھتے ہیں اور اردو کی نظموں پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ انھوں نے نئی اُردو نظم کو اپنی نوجوانی سے ہم آہنگ کر دیا ہے اور کہا یہ کہ اُردو کی نئی نظم ۱۹۵۵ء سے نہیں ۱۹۳۶ء سے شروع ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اعظمی صاحب کو اس امر پر اصرار ہے کہ نئے طور پر اور روایت سے ہٹ کر جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ سب نئی نظم ہے۔ ملاحظہ فرمائیے صفحہ ۱۳ ’’یعنی اگر ایک شاعر نے اس دور میں (۱۹۳۶ء کے بعد) بھی کچھ ایسی نظمیں لکھی ہیں جو مسائل اور موضوعات کے اعتبار سے نئی اور مختلف ہیں لیکن اسلوب، رویے، مزاج، لہجہ اور آہنگ کے اعتبار سے گزشتہ دور کے شعرا کی یاد دلاتی ہیں تو ہم نے ایسی نظموں سے قطع نظر کیا ہے۔‘‘
اس اصول سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ اس مجموعہ میں شامل ۱۹۳۶ء کے بعد نئے شعرا میں کسی شاعر کی نظم پرانے دور کے شعرا کے اسلوب، رویے، مزاج، لہجہ اور آہنگ کی یاد نہیں دلاتی۔ اب آپ انتخاب اٹھائیے۔ اختر انصاری کی نظم ’’جبر حیات‘‘ اس کے بعد اقبال کی نظم ’’دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب‘‘ کو سامنے رکھیے۔
اس سے پہلے ہم اس بات کو پیش رکھیں کہ ۱۹۳۶ء سے پہلے اردو کے گنتی کے چار پانچ شعراء اس مجموعہ میں قابلِ ذکر ہیں کیوں کہ نظم کا نشہ اتر رہا تھا۔ اس کے باوجود حفیظ جالندھری، اختر شیرانی اور قتیل شفائی کو نہ ہی پرانے موضوع پر نہ ہی پرانے اسلوب کے عنوان سے ناقابل اعتنا کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارا مقصد اگر نئی نظم کی نمائندگی ہے تو کچھ دیر کے لیے اپنی پسند و نا پسند کو پس پشت رکھ انتخاب کرنا ہو گا۔ ایسی حالت میں فراق، سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، مختار صدیقی، یوسف ظفر، سلام مچھلی شہری کو کسی بھی طرح نئی نظم کا شاعر نہیں کہا جا سکتا۔
میرے خیال میں انتخاب کے لیے جس اصول کو پیش نظر رکھا گیا وہ جدید نظم ہی کے لیے نہیں، قدیم نظم کے لیے بھی موافق ہے اور اس طرح انتخاب ناقص ہو جاتا ہے۔ مثلاً کوئی وجہ نہیں کہ جوش کی نظمیں اور اختر شیرانی کی نظمیں رد کر دی جائیں۔ ان کے پاس بھی فراق اور سردار جعفری کی نظموں کے انداز کی ان نظموں سے بہتر نظمیں ہیں اور اگر غور کیا جائے تو ۱۹۳۶ء سے ۱۹۵۰ء تک جو نظمیں لکھی گئی ہیں وہ نظمیں موضوع و اسلوب کے اعتبار سے جدتِ مائل ہیں جدید نہیں سوائے چند شعراء کے۔ ایک اور بات اس انتخاب میں نظر آتی ہے وہ نمائندگی کا فقدان ہے۔ مرتب نے جن شاعروں کی نظمیں منتخب کی ہیں وہ نظمیں ان شاعروں کے نئے شاعر ہونے کو جھٹلاتی ہیں مثلاً سلام مچھلی شہری کی نظمیں جو کہ بہ ہر حال ان کی شاعری کے عام لہجہ سے مختلف ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آپ افتخار جالب کو پڑھیں تو اس نظم کے ذریعہ جو اس کے عام لہجے سے مختلف ہو۔ احمد ہمیش کے ساتھ تو ایسا ظلم ہوا کہ بے چارہ مسخ ہو کر رہ گیا ہے۔ غالباً مرتبین کے دل میں کوئی دشمنی تھی نہ تو یہ نظم اس کو پوری طرح نمایاں کرتی ہے نہ ہی اس کا کھردرا لہجہ محسوس ہوتا ہے۔ شہریار کی نظموں میں اس کی نثری نظموں کی غیر موجودگی کھٹکتی ہے۔ صحیح بات تو یہ کہ مرتب نے نئے لہجوں اور نئے اسالیب کو اہمیت ہی نہیں دی ہے اور وہ ایک ہی طرح کی نظم جمع کرنے میں لگے رہے۔
ڈاکٹر تاثیر کی نظم ’’لندن کی ایک شام‘‘ سے بہتر تو ان کی نظمیں ’’یدبیضا‘‘ اور ’’رس بھرے ہونٹ‘‘ تھیں۔ شاد عارفی اور راجہ مہدی علی خاں کی نظمیں نئی نظم سے مختلف ہیں۔ ساحر اور کیفی کی شاعری اس پیمانے کے مطابق ناقابلِ اعتنا ہے اور ان کو نیا کہنا ادبی سیاست ہے۔
حیدرآباد کے شاعروں سے خاص احتیاط برتی گئی ہے ورنہ نئی نظم میں وقار خلیل، تاج مہجور، حسن فرخ اور رؤف خلش کا نام تو کم از کم آنا ہی چاہیے۔ صادق کی ایک ہی تخلیق لی گئی ہے۔ بشر نواز جیسے نئے شاعر کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ ہاں پاکستان کا ہر شاعر جدید ہے اور قابل اعتنا ہے۔
ان تمام خامیوں کے باوجود اس مجموعے کی اہمیت مسلمہ ہے کہ اس میں اردو کے ستر (۷۰) فی صد اچھے نظم گو شریک ہیں اور بہت ہی اچھی نظمیں موجود ہیں۔ اس لیے اس انتخاب کا مطالعہ ادب کے طالب علم کے لیے مفید بھی ہو سکتا ہے۔
ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی۔ ضخامت: ۳۶۰ صفحات۔ قیمت: ۵۰/۶ روپے۔
انتخاب کی قیمت مناسب اور طباعت خوبصورت ہے۔ (مشمولہ ’’برگِ آوارہ‘‘ ۱۶ جنوری ۱۹۷۳ء)
٭٭٭