ڈاکٹر منظر حسین(رانچی)
ادب انسانی زندگی کا حسین ترجمان، اُس کے افکار کا پرتو اور اس کے خیالات کا عکس ہوتا ہے۔ لہٰذا ادب اور زندگی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عالمی ادب میں کوئی بھی بڑا ادیب اور فنکار ایسا نہیں جس نے ادب کو زندگی کی بہتری کے لیے استعمال نہ کیا ہو۔ ادب کا وجود زندگی کے وجود پر موقوف ہے اور زندگی کا سب سے عظیم تصور خدا کا تصور ہے۔ خدا کے تصور کے بغیر اعلیٰ شعر و ادب کی تخلیق ممکن نہیں۔ تعمیری ادب کی فکری اساس کے اِس بنیادی تصور کو ہم ’’ذوق عبودیت‘‘ سے موسوم کرسکتے ہیں جو ہماری زندگی کو ایک نیا نشاط، نئی قوت اور نئی توانائی بخشتا ہے۔ طاعت و بندگی کا یہ تصور انسان میں یقین کی روشنی اور ایمان کی حرارت پیدا کرتا ہے۔ ایک شاعر و ادیب جب اس یقین وا یمان سے معمور ہوجاتا ہے تو اُس کا سینہ روشن اور قلب ضیاء بار بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں اُس کی تخلیق سے علم و عرفان اور رشد و ہدایت کی ایسی شعاعیں پھوٹتی ہیں جو ذہنوں کو منور کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے حیات آفریں، باعث سکون و مسرت اور وجہ بصیرت و برکت ثابت ہوتی ہیں۔ طاعت و بندگی کا یہی جذبہ و عمل ابن آدم کے جسم خاکی میں سوز و ساز، درد و داغ اور تب و تاب بخشتا ہے۔ اِسی کیفیت کا دوسرا نام ’’عشق‘‘ ہے۔ تخلیق کائنات اور حیات انسانی کے ارتقاء میں عشق اور معاملاتِ عشق کو ایک بنیادی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اِسی جذبے نے خدا کو تخلیق پر مائل کیا۔ لہٰذا عشق کا جذبہ باعث ایجاد عالم بھی ہے اور مقصد ہستی کے حصول کا ذریعہ بھی۔ عشق ہی کے بدولت انسان کو اس امر کا احساس ہوتا ہے کہ یہ کائنات اس کے اور صرف اُسی کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ عشق وہ نعمت کبریٰ ہے جو یقین کا راستہ دکھاتا ہے، زندگی کو بامقصد بناتا ہے اور مرد مومن میں الٰہی صفات پیدا کرتا ہے۔ اِس میں ہوا و ہوس کا شائبہ تک نہیں ۔ بقول خلیفہ عبدالحکیم:
’’مسلمانوں کے ہاں صدیوں سے عشق حقیقی اور عشق مجازی کی اصطلاحیں زبان زد عام ہیں۔ عشق حقیقی سے بعض اوقات انسانوں کی باہمی بے لوث محبت مراد ہوتی ہے جس میں خود غرضی، نفسانیت یا جنسیت کا کوئی شائبہ نہ ہو اور بعض اوقات اِس کے معنی عشق الٰہی ہوتے ہیں یعنی اشخاص و اشیاء کی محبت کے ماوراء خدا کا عشق اور یہ عشق حقیقی دل میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کا دل ہر قسم کی حرص و ہوس سے پاک ہوجائے:‘‘
سرمد غم عشق بوالہوس را نہ دہند
سوز دل پروانہ مگس را نہ دہند
(فکر اقبالخلیفہ عبدالحکیم) (ص:۲۱۶)
’’عشق‘‘ کی اصطلاح کو عالم گیر قوت حیات کے معنی پہنانے اور عشق کو ایک مستقل نظامِ فلسفہ کی بنیاد بنانے کا سہرا مشہور اسلامی فلسفی بوعلی سینا کو ہے جس نے اپنے رسالہ ’’عشق‘‘ میں عشق کا ایک منظم فلسفیانہ تصور پیش کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’عشق ایک عالمگیر جذبۂ حیات ہے۔ جو حیات کے نباتی اور حیوانی مدارج سے لے کر انسان کے روحانی ارتقا تک ہر سطح پر، حرکت اور ارتقا کے محرک جذبہ کی حیثیت سے کارفرما ہے۔‘‘ (مشمولہ فلسفہ عجم از اقبال ص:۶۳-۶۴)
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان کا ہر عمل عشق کے جذبے سے معمور ہے۔ یہ ایسا آفاقی جذبہ ہے جس کی وسعتیں زمان و مکان کی پابند نہیں۔ عشق سکون و طمانیت کا ضامن بھی ہے و خدا کی معرفت کا ذریعہ بھی اور خالق حقیقی کے قرب کا وسیلہ بھی۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:
یایتہا النفس المطمئنۃOارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃOفادخلی فی عبدیOوادخلی جنتیO
’’اے نفس مطمئن، چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوشپھر شامل ہوجا میرے خاص بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔‘‘
اس آیت میں ’مطمئنہ‘ سے مراد وہ نفس ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اُس کی اطاعت سے سکون و قرار پاتا ہے اور اس کے ترک سے بے چینی محسوس کرتا ہے۔ اب حقیقی مذکورہ آیت میں اپنے لیے واحد متکلم کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے خود صاحب عشق کو اپنی قربت کا احساس دلاتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی ملحوظ خاطر رکھانا چاہیے کہ عشق کی تجلیاں ہر شخص میں یکساں نہیں ہوتیں۔ ہر شخص کے دل میں اس کی بدولت مختلف قسم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ بعض لوگ عشق میں دیوانے ہوجاتے ہیں اور گلیوں میں روتے پھرتے ہیں اور بعض لوگ اِسی عشق کی بدولت عارف ہوجاتے ہیں۔ اِس کی وجہ استعداد کی نوعیت ہوتی ہے۔
کسی شعر و ادب کا حسن و کمال ادیب و شاعر کے فکری و قلبی جلال و جمال کا پر تو اور آئینہ دار ہوتا ہے۔ جیسی حسین و جمیل شخصیت ہوگی، اس کے حسن و جمال کا عکس اس کی تخلیق میں بھی پایا جائے گا۔ اُردو ادب میں صلاح الدین پرویز کی شخصیت مستغنی عن التعارف ہے۔ اُن کے ادبی و شعری کارنامے کو کسی ایک جہت میں مقید نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک اِن کی شاعری کا تعلق ہے۔ ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ اُن کی شاعری میں جمالیاتی و اخلاقی اقدار کو بڑا دخل ہے۔ ساتھ ہی عشق کی سرشاری کو بھی کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ صلاح الدین پرویز اپنے قلم کو خالق کائنات کی امانت سمجھتے ہیں جس کے توسط سے وہ اپنی نیابت الٰہی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اُن کے قلم کی روشنائی میں عبدیت و عبودیت کا رنگ ہم آمیز ہے۔ وہ اپنے نوک قلم سے صفحہ قرطاس پر جو نقوش کھینچتے ہیں وہ زندہ وپائندہ بن جاتی ہیں۔ ان میں فکر و دانش کی روشنی و تابانی اور جذبات کی گرمی و دل سوزی پڑھنے والوں کے ذہن کو منور کرتی چلی جاتی ہے۔ یوں تو صلاح الدین پرویز کی درجنوں تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن کی پذیرائی ملک اور بیرون ملک کے اہل فن نے خوب کیا ہے۔ ان ادبی و شعری نگارشات پر مقالے لکھے گئے۔ ہر جہت سے تجزیہ کیا گیا۔ ادبی قدر و قیمت کا تعین کیا گیا۔ مجھے اس مقالے میں صلاح الدین پرویز کی ایک تصنیف ’’کتاب عشق‘‘ کا ادبی و فکری تجزیہ مقصود ہے۔ صلاح الدین پرویز کی تقدیسی نظموں پر مبنی اس شعری تصنیف کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کا فکری و عملی منبع و سرچشمہ خدا کی عبودیت، علوم نبوت، حکمت رسالت اور بزرگانِ دین کے فیوض و برکات ہیں۔ صلاح الدین پرویز نے طرب و انبساط کی فضا میں اپنے متین اور مقدس خیالات کو منضبط اُتار چڑھاؤ کے ساتھ ہم آہنگ کرکے صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔ پوری کتاب فنکار کے ذہن کی رسائی، فکر کی بلندی، سیرت کی پاکیزگی، جذبہ عبودیت کے علاوہ حکیمانہ تفکر اور شاعرانہ تخیل کی عمدہ مثال ہے۔ کتاب کو دو ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب شاعر کے مختصر پیش لفظ کے بعد خدا کے نام چالیس مکتوب پر مشتمل ہے جس کا عنوان ’’عشق مکتوب‘‘ ہے۔
یوں تو مکتوب نگاری کی تاریخ بہت ہی قدیم ہے۔ عیسائی مذہب میں مقدس حواریوں کے خطوط کو انجیل کا ضروری جز خیال کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں سلیمان علیہ السلام اور سبا کی ملکہ بلقیس کے مابین خطوط کا ذکر ہے۔ لیکن خطوط کی نگہداشت اور تحفظ کا سلسلہ اسلامی عہدسے شروع ہوا۔ مسلمانوں نے خود رسول اکرم ﷺکے خطوط کو محفوظ رکھا اور بعد میں انہیں کتابی شکل دی گئی لیکن بقول سید سلیمان ندوی:
’علماء اور صوفیوں میں امام غزالی المتوفی ۵۰۵ھ کے مکتوبات سے پہلے کی کوئی چیز ہمارے سامنے نہیں۔ صوفیانہ مکتوبات کے سلسلہ میں بھی ہندوستان کا نمبر سب ملکوں سے آگے ہے۔ دنیا میں جب تک تصوف کی دھاریں بہتی رہیں گی مکتوبات شیخ شرف الدین منیریؒ اور مکتوبات مجدد الف ثانی کے کوثر و سلسبیل روحانی پیاسوں کی پیاس کو بجھاتے رہیں گے۔‘‘
(مہدی کے خطوط از حضرت سید سلیمان ندوی)
اُردو میں مکتوب نگاری کی ابتداء منظوم خطوط سے ہوئی جن کا سہرا دو آصف جاہی منصب داروں مرزا یار علی بیگ اور میر ابراہیم جیو کو جاتا ہے۔ یہ خطوط نواب ناصر جنگ شہید کے عہد (۱۱۶۴ھ) میں لکھے گئے اور ابھی بھی ادبیات اُردو حیدرآباد کی ایک بیاض میں محفوظ ہیں۔ ان خطوط کو ہی اُردو مکتوب نگاری کی تاریخ میں اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ اب تو اردو میں مکتوباتی ادب کا سرمایہ بہت ہی وقیع ہوگیا ہے۔ یہ خطوط اپنے دوستوں، عزیزوں، قرابت داروں، ہمعصروں، حکمرانوں، وغیرہ کو لکھے گئے ہیں۔ ان مکاتیب کے مطالعے سے ایک طرف مکتوبات نگار کی نجی اور شخصی زندگی، خیالات و نفسیات کا پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف اس عہد کے سیاسی، معاشرتی، اقتصادی حالات کے علاوہ مختلف تحریکوں اور ادبی سرگرمیوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن میری معلومات کی حد تک صلاح الدین پرویز نے خدا کے نام چالیس مکتوب لکھ کر ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈالی ہے۔ اشن مکاتیب میں عشق کے ایسے بلند حقائق و معارف بیان کئے گئے ہیں جن کی بدولت قاری کو رب کی قربت اور کائنات کا سراغ ملتا ہے۔ صلاح الدین پرویز کا ادبی مطمح نظر حیاتِ انسانی کا بناؤ و سنوار اور اس کی تعمیر و تطہیر ہے۔ اُس کا قلم، اس کی تخلیقی صلاحیت، اُس کا ذہن و فکر سب اللہ کی دین اور امانت ہے۔ اِن مکاتیب میں وہ ایک عظیم مقصد کا داعی، ساری انسانیت کا ترجمان نظر آتے ہیں اور اپنی فکر عالی کی ضوفشانی سے اپنے خیالات کو تابناک اور درخشاں بنا کر پیش کرنے کا گُر جانتے ہیں۔ احساساتی محرکات سے جذبات خودبخود ابھرتے چلے جاتے ہیں۔ چونکہ اِن خطوط کا مکتوب الیہ خدا کی ذات ہے۔ لہٰذا اللہ کی حمد و ثنا اور عبودیت کا اظہار ہے۔ اِس رحمانیت اور رحیمیت کی صفات کے پیش نظر شاعر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے بخشش اور معافی کا خواستگار ہے۔ اندازِ بیان ایسا ہے کہ ’’حسن طلب‘‘ کی صفت پیدا ہوگئی ہے۔ ملاحظہ ہوں یہ اشعار:
کل بھی تھا میں گنہگار اور آج بھی
اور کل بھی رہوں گا
قدر کرتا ہوں اس رات کی
جس میں، میں اور تو، دونوں موجود تھے
نعمتی ہوں تیرا مستحق ہوں بہت
صلاح الدین پرویز شاعری کو ہم ’کیفیاتی شاعری‘ سے موسوم کرسکتے ہیں جس کے توسط سے فکر و دانش کی کرنیں پھوٹتی ہیں اور ذہنوں کو منور کرتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ باطنی تخلیقی تجربات پر محیط صلاح الدین پرویز کے اِن مکاتیب میں گرد و پیش کی زندگی، قدروں کی پائمالی، سیاسی و سماجی بدحالی، ادب و شعر کی بے حرمتی، تہذیبی روایات و اقدار کا انہدام، ماحول کا جبر اور عہد کا کرب وغیرہ شعروں میں ڈھل کر تطہیر قلب کا باعث بن جاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں شاعروں اور ادیبوں کی آپسی چپقلش، گروہ بندی، منافقت، بغض و کینہ و حسد کے علاوہ فن کی بے حرمتی کو نہایت ہی بیباکانہ اور ایماندارانہ طور پر ہدف ملامت بنایا گیا ہے۔ یہ اشعار صلاح الدین کے فکری جلال اور شعری جمال کی آمیزش کے آئینہ دار ہیں:
تیری دنیا کے نااہل کمزور نظموں کے شاعر
بہت بغض کینہ حسد
اپنے سینے میں رکھتے ہیں
کیا جانتے نہیں!
میرا ساز سخن تجھ سے روشن ہے
کچھ نہیں… کچھ نہیں
میں تو کچھ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا سناؤں کتھا!
عقل حیرت سے جلتی ہے
نااہل سارے
ادب شعر کے بیوپاری بنے
ریوڑی اپنے اپنے پیادوں میں تقسیم کرتے ہیں
یہ فن سے بولہبیاں کرنے والے نہیں سوچتے
کل جو آئے گا ان کے لیے
کچھ ندامت کے سر لائے گا
ان اشعار میں دانشورانہ تفکر بھی ہے اور ہمدردانہ تڑپ بھی۔ یہ اشعار اِس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ شاعر اعلیٰ ادبی اقدار اور صالح روایات کا امین ہے۔ لہٰذا ادب کی بے حرمتی کو کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ یہ اُس کی اولوالعزمی اور اعلیٰ حوصلگی کا بین ثبوت ہے کہ اپنے قلم سے تیشہ کا کام لے رہا ہے اور وہ بھی توازن اور اعتدال کے ساتھ نہایت ہنرمندی سے۔
شعر کی دنیا میں خیالات کی ترسیل اور ابلاغ کے لیے فنکار مختلف پیرائے سے کام لیتا ہے۔ اگر جیمس فریزر کی تصنیف ”Golden Bough” پیش نظر ہو تو ہمیں اِس حقیقت کا اعتراف کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ ادب و شاعری میں اساطیر کا استعمال، تلمیحی اشارے فنکار کے مافی الضمیر کو ادا کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔ یہ ایسا صنعت ہے جن کے ذریعے سے بڑی سے بڑی بات نہایت مختصر لفظوں میں ادا ہوجاتی ہے۔ صلاح الدین پرویز نے اپنی تصنیف ’’کتابِ عشق‘‘ میں تلمیحات استعمال کئے ہیں وہ مختلف تہذیبی، تمدنی اور تاریخی عناصر پر مشتمل ہیں اور اسلامی، ہندی، عجمی اساطیر و روایت پر مبنی ہوں۔ اِس سلسلے میں چند مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں:
(۱) میرا دل
چاہ بابل ہو
اس چاہ بابل میں کوئی تو ہو
جس سے میرا تعلق ہو
میرے تعلق کو
تو اپنی چادر اوڑھا
(صفحہ:۳)
(۲) اے خدا
تیرا کنعان ہی میرا دل ہے
میرے کنعان میں
سیف سے ماورا
عشق کی سلطنت مجھ کو دے
(صفحہ:۳۶)
(۳) مملکت حسن کی اُس کی اعلی
ہوئے ہیں سبھی مرد مثل زلیخا
کہ ملتے ہیں اُن کے پراسرار قصے
بیاباں میں ’کوہِ ندا‘ میں حرا میں
وہ کم سن ہے نازک ہے ناکتخدا ہے
(صفحہ: ۴۴)
(۴) میں نے محبوب کے عشق میں جو لکھا ہے
اُسے تیری رقاصہ زہرہ بھی پڑھ لے
کہ وہ وجد میں تجھ کو لے آئے فوراً
شاعرانہ آرٹ کا کمال یہ بھی ہے کہ تخلیق کار اپنے مافی الضمیر کو صاف لفظوں میں بیان نہ کرکے تشبیہات، استعارات، تلمیحات، اساطیر، رمز و کنایہ کے پیرائے میں پیش کرے۔ اِس سے سب سے برا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والا غور و فکر پر مجبور ہو کر مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ جب اُسے ذہنی جدوجہد کے بعد مفہوم سمجھ میں آجائے گا تو اُسے ذہنی لطف و مسرت حاصل ہوگا۔ علامہ اقبال نے کہا:
برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائی است
حدیث خلوتیان جذبہ رمز و ایمانیست
صلاح الدین پرویز نے اپنے مکاتیب میں تلمیحات و استعارات کا خلاقانہ استعمال کیا ہے۔ اِن میں معنی و مفاہیم کی ایک دنیا آباد ہے۔ بعض الفاظ اور اشارے اتنے نادر اور جدید ہیں کہ پڑھنے والا کلیجہ پکڑ کر رہ جاتا ہے۔ اِس سے صلاح الدین پرویز کی تاریخی بصیرت اور متنوع مشاہدہ اور تجربہ کا بھی پتہ چلتا ہے۔ واقعات کے بیان کے لیے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اُن میں توانائی اور ہمہ گیری ہے اور پڑھنے والے پر ایک سرور و انبساط کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ الفاظ کی طہارت و ندرت، جذبے کی پاکیزگی اور صداقت، فکری و فنی بالیدگی، لہجے کی شیرینی، فطرت نگاری کا وصف، اللہ کی رحمانیت و رحیمیت پر شاعر کا مکمل ایقان، عصری تقاضوں اور قلبی و ارادت کا حسین امتزاج ’’کتاب عشق‘‘ کے پہلے حصے ’’عشق مکتوب‘‘ کی شناخت بن چکی ہے۔ صلاح الدین پرویز نے شاعری کی صنف میں مکاتیب کے توسط سے گوہر آبدار کو پیش کرکے اُردو ادب و شاعری میں منفرد اور ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ طوالت کے خوف سے ہر جہت کا تجزیہ ممکن نہیں۔
کتاب کا دوسرا حصہ دراصل مقاماتِ تحیرات کا سفرنامہ ہے جو شاعر کے کیفیت جذب کا پتہ دیتا ہے۔ عارفانہ رنگ نگاہ و دل کو محصور کرلیتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں برصغیر کے نامور ادیب اور ممتاز نقاد جیلانی کامران کا مقدمہ بہ عنوان ’’عکس نامہ‘‘ ’’کتاب عشق‘‘ کا گائیڈ پیپر ہے۔ جیلانی کامران نے اِس کتاب کا ہر جہت سے تجزیہ کرتے ہوئے اِس کا مغز اس طرح ابھارا ہے:
’’صلاح الدین پرویز نے حصار بند دنیا کو جو سیکولر جدید دنیا کے اسم سے موسوم، چاہِ بابل سے نسبت دی ہے اور اِسے جہانِ فسوں گری کہا ہے جس میں انسان ہاروت و ماروت کا عکس بن کر اپنی قید کے دن گذار رہا ہے۔ اِس زندگی کو قفس کا استعارہ بھی بیان کرتا ہے۔ اِس نظم کی زبان میں قفس خارج میں بھی ہے اور جسم و بدن کے وجود کی شکل میں بھی انسان کو حراست میں لیے ہوئے ہے۔ اِس قفس کی رہائی صرف عشق کے ذریعہ ممکن ہے۔‘‘
(کتاب عشق صفحہ:۶۳)
جیلانی کامران کے اِس اقتباس سے میرے نظریے کی تائید ہوتی ہے کہ ’’کتاب عشق‘‘ شاعر کے باطن اور اس کی روح کا ترجمان ہے۔ شعر و شاعری کے پردے میں صلاح الدین پرویز نے انسان اور خالق کائنات کے اس رشتہ ازلی پر روشنی ڈالی ہے جو رہروان محبت کی اخری منزل ہوتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے ’’ہم تو بندے کے شہہ رگ سے بھی قریب ہیں اور پھر یہ کہ ہم نے بندے میں اپنی روح پھونک دی ہے۔ صلاح الدین پرویز سیماب پا، متحرک اور متلاشی روح کی طرح نئی منزلوں کی طرف چل نکلتے ہیں تاکہ اپنے فن میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پالیں۔ بلاد ہند سے فارس تک ننگے پاؤں چلتا ہوا ششدر و مبہوت تحیرات کے اِس سفر میں صلاح الدین نے لفظوں کو نئے نئے معنی بخشے ہیں جس کی تفہیم و تعبیر قاری کو اعلیٰ و ارفع حقائق کا پتہ دیتی ہے۔ اُس کا عشق پر شور ہے۔ اُس میں جوش و سرمستی غالب ہے اور قرب الہیٰ عشق محمدی، تہذیب نفس اور تزکیہ و تالیف قلب کا ذریعہ بھی۔ یہ کارنامہ رشد و ہدایت کا وسیلہ بھی ہے۔ نئی اقلیم عشق اور ایک نیا عالم جستجو کو طے کرنے والا شاعر پر شروع سے آخر تک سپردگی کی کیفیت ہے۔ عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کے سفر میں تحیرات کی کئی منازل اور مناظر آتے ہیں۔ تخاطب اور خود کلامی کا انداز ایسا کہ کشفی، القائی اور رویائی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ایک درویشانہ بے نیازی ہے۔ دیکھئے یہ اشعار:
عشق!
یہ میں کس کہستان سے گزر رہا ہوں
کبکان اور بازان ایک ساتھ
اڑرہے ہیں
یہ سب کہاں جارہے ہیں!
انہیں میں صرف سن رہا ہوں
فردوس بریں میں لیکن
چشمہ کوثر کے کنارے
سلیمان
ان کے مفہوم سے آشنا ہورہے ہیں
یہ اشعار ایک خاص کیفیت کے آئینہ دار ہیں اور شاعر کے مقدس سوچ سے مملو۔ صلاح الدین پرویز نے ’’کتاب عشق‘‘ میں اپنے ذہنی اور قلبی تقاضے کے پیش نظر حضور اکرمؐ کے فضائل، محامد اور کمالات و صفات کو جس عقیدت اور فنکارانہ جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ اُن کے جذبے کی صداقت کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے حضور اکرم کی سیرت مبارکہ اُن کے سراپائے مبارک۔ اُن کے معجزے، عادات و اطوار کو نہایت عقیدت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
کتاب کا باب ’’ببار اشک‘‘، ’’انا من اہوی‘‘، ’’از بس کہ…‘‘ وغیرہ کے اشعار مخصوص والہانہ کیفیت کے حامل ہیں۔ یہاں میں صرف چند شعر پر اکتفاء کرتا ہوں:
خمخانۂ قرب کے ساقی!
آپ کا حکم اللہ کا حکم ہے
عرش کی کرسی آپ کی لپیٹ میں ہے
ے انوار کو موجود کرنے والے!
میری مدد فرمائیے
میری خوشی بھی موجود کیجئے
میری معافی قبول کیجئے
مجھے یقین ہے کہ آپ کا کرم
موسلادھار بارش کی طرح
مجھ پر برسنے ہی والا ہے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صلاح الدین پرویز نپے تلے الفاظ حسن خطاب اور حسن بیان کے ساتھ تمام تفصیلات اور باریکیوں کو صحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ تمام اشعار دل کی گہرائیوں سے نکلے ہیں اور موتی کی لڑیوں کی طرح صفحۂ قرطاس پر چمک رہے ہیں۔ عالم تحیرات کے اِس سفر میں حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت امام حسینؓ، حضرت امام حسن اور دوسرے بزرگوں کی شان میں جو منقبت پیش کئے گئے ہیں ان میں بڑی بلند آہنگی اور نشاط انگیزی ہے۔ ہر لفظ شاعر کی بے پناہ عقیدت کا مظہر ہے۔ خصوصاً ’’لحن ہندی و رقص داؤدی‘‘ کے عنوان کے تحت خواجہ معین الدین چشتی کے منقبت میں عقیدت اور موسیقیت ہم آغوش نظر آتی ہیں۔ کلام میں سلاست و روانی کا وصف دلکشی پیدا کرتا ہے اور یہ وصف اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب شاعر زبان اور انتخاب الفاظ دونوں پر قادر ہو۔ ہر شعر سے قصیدے کی شان، الفاظ کا شکوہ اور بیان کا زور اجاگر ہے۔ تخلیقی تجربے کے اظہار کے لیے صلاح الدین پرویز نے نہ صرف نیا ذخیرہ الفاظ پیش کیا ہے بلکہ اظہار بیان کے نئے سانچے بھی پیش کئے ہیں مثلاً دہل گلیم کے اندر نہیں بجائے جاتے۔ علم صحرا کے وسط میں ہی گاڑے جاتے ہیں، بوسوں کی نرم رفوگیری، پانچ نمازوں کے آبھوشن، دارالشفاء کی نہر خلوت، بختیاری روٹی، میرا کی سی ہوئی جھولی، غیب کا پرکھن ہار وغیرہ ایسے استعارے اور تلازمے ہیں کہ پڑھنے پر ذہن میں ایک ترنگ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ تمام تلمیحات، استعارے، اسلامی، ہندی، عجمی اساطیر و روایات پر مبنی ہیں جن سے صلاح الدین باطن کا شعور حاصل کرتے ہیں۔ حضور اکرمؐ کی یثرب میں آمد پر بنونجار کی بیٹیوں کے ذریعہ گانے والے استقبالیہ گیت کے سلسلے میں جو منظرنگاری کی گئی ہے اس میں Cinematographyکی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ’’کتاب عشق‘‘ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوگئی ہے کہ تصوف اور تقدس پر مبنی اس شعری تصنیف میں مقامی رنگ و آہنگ، ہندی لفظیات، مقامی بولیاں، ہندوستانی روایات، رقص، موسیقی کے اصطلاحات کے استعمال نے شروع سے آخر تک وحدت تاثر کو قائم رکھا ہے۔ یہی نہیں کہ یہ تصنیف اسلامی اور ایرانی اصحاب و بزرگوں کا پر تو ہے بلکہ ہندوستانی شخصیات اور اُن کی روحانی خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس جہت سے دیکھیں تو اس سے صلاح الدین پرویز کی وسیع المشربی، مذہبی رو اداری احترامِ آدمیت اور بزرگوں کے تئیں عقیدت کا اندازہ ہوتا ہے۔
جہاں تک اِس کتاب کی ہیئت (Diction) کا سوال ہے اِس ضمن میں اتنی بات کہوں گا کہ یہ القاء اور کشف پر مبنی نظم ہے جو سکر کی حالت میں تخلیق کی گئی ہے۔ ساتھ ہی شاعر پر جذب کی کیفیت ہے۔ لہٰذا اِس میں تسلسل اور ربط کی تلاش بے سود ہے۔عالم تحیرات کے سفر میں اچانک ہی ایسے مقامات آتے ہیں جس کا ذکر شاعر کے لیے لازمی ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کہ ایک طویل نظم کا خالق اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے اپنا ماڈل خود تیار کرتا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی مثال بالکل سامنے ہے۔ مختلف غزلوں میں انہوں نے مقطع کا شعر پیش نہ کرکے قافیہ و ردیف بدل دیا اور انگریزی شاعروں میں YEATsکی شاعری میں بھی باتیں ہیں۔ کولرج کی نظم ’’قبلاخاں‘‘ میں بھی تسلسل اور ربط کا فقدان ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ طویل نظموں میں تسلسل، ربط یا ڈکشن کا سوال بیجا ہے۔ خصوصاً القائی، الہامی، رویائی شاعری میں۔ یہ ایک ایسی تقدیسی نظم ہے جس نے صلاح الدین پرویز کے اندر لذت پرواز پیدا کردی ہے۔ میرے خیال سے صلاح الدین پرویز کی تصنیف ’’کتاب عشق‘‘ اکیسویں صدی میں رویائی شاعری پر مشتمل ایک اہم اور گراں قدر تصنیف ہے۔