(Last Updated On: )
ڈیوڈ محویت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔وہ صحیح نظر نہیں آرہی تھی وہ آڑ میں تھی لیکن پھر بھی وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ سلام پھیر کر اسنے دعا مانگنی شروع کردی۔۔اسکے وجود کا سکون ڈیوڈ کو اپنے اندر اترتے ہوئے محسوس ہوا تھا۔۔۔
دعا مانگ کر اسنے آنکھیں کھولیں تو ڈیوڈ نے تیزی سے اپنا رخ سمندر کی طرف موڑا۔۔اسکی نظر پڑی اشک والی جگہ پر کارڈ گرا ہوا تھا۔۔
ذیشان اشتیاق۔۔
اس پر استنبول کی کسی جگہ کا اڈریس اور نمبر لکھا ہوا تھا۔۔وہ شاید اسکے پرس سے گرا تھا۔۔
چلو آتی ہے تو دے دیتا ہوں۔۔ ڈیوڈ نے کارڈ اٹھا کر جیب میں ڈال لیا۔۔
داؤد۔
اسنے پیچھے سے آکر پکارا ۔۔
ہاں ۔۔
چلو واپس چلتے ہیں۔
ڈیوڈ نے غور کیا وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتی تھی۔۔ بلکہ اسکی آنکھیں جھکی رہتی تھیں
۔۔واپس۔۔ نہیں میں تو ابھی میڈن ٹاور جانا چاہتا ہوں۔۔
وہ اتنی جلدی اسکا ساتھ چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔
میڈن ٹاور ۔۔؟؟
اشک نے ڈھلتے سورج کو پریشانی سے دیکھا۔۔ کیسپئن اپنا رنگ بدل رہا تھا۔۔
ہاں تم بھی چلو نا بہت مزا آئے گا۔۔
نہیں ۔۔ تم چلے جانا مجھے ہوٹل واپس جانا ہے۔۔
ٹھیک ہے تم جاؤ ہوٹل۔۔ میں نہیں جا رہا۔۔
وہ ناراض سا ایک طرف چلنے لگا۔وہ مزید پریشان ہوگئ۔۔ اسنے کرنسی ایکسشینج نہ کروا کر کتنی بڑی غلطی کی تھی اسے اب احساس ہو رہا تھا۔۔ اسے سمجھ نہیں آئی ڈیوڈ کو کس طرح بتائے کہ اسکے پاس پیسے نہیں ہیں۔۔
داؤد۔۔
وہ اسکے پاس جا کر بولی۔۔۔وہ رک گیا اسنے منہ دوسری طرف ہی کر رکھا تھا۔۔
آج واپس چلے جاتے ہیں کل چلے جانا میڈن ٹاور۔۔
تم میرے ساتھ چلوگی۔۔
اسنے ہوا میں تیر چلایا۔۔
مم۔۔میں نہیں تو۔۔ تم اکیلے چلے جانا ۔
وہ ہچکچائی۔۔
پھر میں آج ہی جاؤنگا۔۔
اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اسے منا لے گا۔۔
اچھا ٹھیک ہے میں چلونگی۔۔ لیکن ابھی واپس چلو پلیز۔۔
وہ ہار مانتے ہوئے بولی۔۔
وعدہ۔
ہاں وعدہ ابھی چلو۔۔
ٹھیک ہے۔۔
ڈیوڈ نے بمشکل اپنی خوشی پر قابو پایا۔۔اشک خاموش رہی ۔وہ غروب ہوتے سورج کو دیکھ کر پریشان تھی۔۔ ڈیوڈ مڑ کر اسکے ساتھ چل پڑا۔۔ شام اپنے سائے پھیلا چکی تھی۔۔کیسپئن کا رنگ سرخ ہو چکا تھا۔ ڈیوڈ آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکا سفر جلد ختم ہو۔۔ اشک چپ تھی
۔ ہوٹل واپس آنے تک بھی اسنے کوئی بات نہیں کی۔۔ وہ میڈن ٹاور نہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔
روم میں آکر بھی وہ اسی بات سے پریشان رہی۔۔آج کا دن بہت اچھا اور بھرپور گزرا تھا۔۔ لیکن اسے افسوس بھی تھا۔۔ اسلام اسے کسی ایسے غیر مرد کے ساتھ سیر ہ تفریح کی اجازت نہیں دیتا تھا۔۔
وہ بہت خوش تھا۔۔۔ اسے میڈن ٹاور جانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔وہ صرف اشک کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔۔
وہ بے چہرہ لڑکی۔۔اسلام اور اسکے اصولوں پر بہت آسانی سے عمل پیرا تھی۔۔اسکے کسی انداز سے نہیں لگتا تھا کہ اس سے کچھ زبردستی کروایا جاتا ہے۔۔اسے اشک کے ساتھ ساتھ اسلام بھی دلچسپ لگنے لگا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن اشک نے ناشتہ کمرے میں ہی منگوا لیا۔۔ اسکا نیچے جانے کا یا ڈیوڈ کا سامنا کرنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔۔
داؤد اسے بلانے نہیں آیا تھا۔۔ وہ اطمینان سے کھڑکیاں کھول کر دھوپ سینکنے لگی۔۔تقریبا دو گھنٹے بعد اسکے دروازے پر دستک ہوئی۔۔ اسکا موڈ خراب ہوا۔۔ توقع کے عین مطابق دروازے پر ڈیوڈ ہی تھا۔۔
جی بولیں۔۔
وہ دروازہ کھول کر رکھائی سے بولی۔۔
آپ کے گھر سے کال ہے۔۔
ڈیوڈ نے موبائل آگے بڑھایا۔۔وہ اپنے انداز پر شرمندہ ہوگئی۔۔ فون لیکر وہ دروازہ بند کر گئی۔۔دوسری طرف دادو تھیں جو اسکی خیر خیریت اور فلائٹ کا وقت معلو م کرنا چاہ رہی تھیں۔۔ دس منٹ بعد اسکی کال ختم ہوئی تو اسے ڈیوڈ کا خیال آیا۔۔
داؤد تو چلا گیا ہوگا۔۔
اسنے سوچتے ہوئے دروازہ کھولا تو وہ باھر ہی دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔۔اسے شرمندگی نے آن گھیرا۔۔
یہ لیں تھینک یو۔سوری آپکو کھڑا کرنے ک لیے۔۔
اسنے موبائل اسکی طرف بڑھایا۔
کوئی بات نہیں۔
وہ مسکرایا۔۔ اشک نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا وہ نظریں جھکا گئی۔۔
its time to fulfil muslim’s promise..
ڈیوڈ کو لگا وہ نہیں جانا چاہتی پھر بھی اسنے کہہ دیا۔۔ وہ شاید شرمندہ ہونے کا گھنٹہ تھا وہ کتنے آرام سے نہ جانے کا سوچ رہی تھی اور وہ ئسکی بات کو ایک مسلمان کے وعدے کے طور پر لے رہا تھا۔۔
میں دس منٹ میں آتی ہوں۔۔
اسنے مرے ہوئے انداز میں کہا۔۔
ٹیک یور ٹائم۔۔ میں بھی چینج کرلوں۔۔
وہ مڑتے ہوئے بولا۔۔اشک نے کمرے میں آکر عبایا پہنا اور نقاب لگا کر نیچے آگئی۔۔ڈیوڈ کچھ دیر بعد آیا۔۔
وہ خاص تیار ہو کر آیا تھا۔۔ اسنے بلیک تھری پیس پہنا ہوا تھا۔۔
میڈن ٹاور نوشیرواں شاہ نے بنایا تھا۔۔اسے آذربائجان کے قومی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔۔
واقعی زبردست جگہ ہے۔۔
وہ دونوں اسکی چھت پر کھڑے تھے۔۔ وہاں سے باکو کی اولڈ سٹی کا نظارا بہت خوبصورت تھا۔۔
مسلم آرکیٹیکچر۔۔
اشک نے فخر سے کہا۔۔وہ بھی مبہوت تھی
میں یہ دیکھے بغیر چلا جاتا تو افسوس کا مقام تھا۔۔
وہ کیمرہ نکالتے ہوئے بولا۔۔ اشک نے دل ہی دل میں اسکی تائید کی۔۔وہ اب تصویریں لے رہا تھا۔۔؎
اشک ٹاور کو دیکھنے لگی۔۔ وہ گولائی لیے ہوئے تھا۔۔آذربائیجان کے قومی دن اس پر روشنیوں سے جھنڈا بنایا جاتا تھا۔۔اسکے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا میوزیم تھا۔۔وہ دونوں گھومتے رہے۔۔
میں نماز پڑھ لوں۔۔
اشک نے سورج کو ڈھلتے دیکھ کر کہا۔۔
ہاں وضو کرنا ہے تمنے۔۔
نہیں میرا وضو ہے۔۔
کہاں پڑھوگی نماز۔؟؟
اوپر ایک کمرہ خالی ہے میں وہاں پڑھ لونگی۔۔
ٹھیک ہے مٰن انتظار کر لیتا ہوں۔۔
وہ سیڑھیوں میں بیٹھتے ہوئے بولا۔۔اشک نماز پڑھنے چلی گئی وہ چادر ساتھ لائی ہوئی تھی۔۔وہ واپس آئی تو داؤد کچھ گا رہا تھا۔۔ وہ خاموشی سے کھڑی سننے لگی۔۔ اسکی آواز بہت خوبصورت تھی۔۔وہ جرمن میں گا رہا تھا اشک کو سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن سننے میں اچھا لگ رہا تھا۔۔
ڈیوڈ کو اپنے پیچھے کسی کا احساس ہوا تو اسنے مڑ کر دیکھا۔۔وہ کافی اوپر کھڑی تھی۔وہ اسے دیکھ کر سکرایا تو وہ نیچے آنے لگی۔۔ ڈیوڈ نے اسکے سراپے کو بغور دیکھا۔۔وہ کسی شہزادی کی طرح سہج سہج کر اتر رہی تھی اسکا عبایا سیڑھیوں پر اسکے پیچھے پھسلتا آرہا تھا۔۔اسکے انداز میں ایسی شان اور تمکنت تھی کہ ڈیوڈ کی نظریں بےاختیار جھک گئیں۔۔ وہ اس سے اوپر والی سیڑھی پر آکر بیٹھ گئی۔۔ڈیوڈ نے دیکھا وہ اس سے کچھ فاصلے پر تھی
لیکن انکے درمیان ایسے غیر مرئی دیوار تھی جسے وہ پار نہیں کر سکتا تھا۔۔۔
کیا گا رہے تھے تم۔؟
وہ بولی۔۔اسنے جرمن سانگ پہلی دفعہ سنا تھا۔۔
یہ میرا فیورٹ ہے مام سنایا کرتی تھیں مجھے۔۔
تمہاری آواز بہت خوبصورت ہے۔
ہاں میرے دوست کہتے ہیں میری آواز میسمرائزنگ ہے۔۔
وہ مسکرا کر بولا۔
نام کا اثر ہے۔۔
وہ آہستگی سے بولی۔۔
وہ کیسے۔۔؟؟
وہ چونکا۔۔
حضرت داؤدؑ کی آواز دنیا کی سب سے خوبصورت آواز تھی۔۔وہ جب زبور پڑھتے تھے تو دنیا کی ہر چیز میسمرائز ہو جاتی تھی۔۔ اڑتے ہوئے پرندے بھی ۔۔
ایک منٹ ،یہ نام تم نے ائرپورٹ پر بھی لیا تھا نا۔۔
وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔۔
کون ہیں یہ۔۔ اور زبور کیا ہے؟
ڈیوڈ نے دلچسپی سے پوچھا۔۔
داؤدؑ اللہ کے پیغمبر تھے ۔۔اسرائیل کے بادشاہ اور زبور ان پر نازل ہونے والی کتاب۔انجیل مقدس کا ایک حصہ۔۔
اسی لیے تم مجھے داؤد کہتی ہو۔؟؟
وہ سمجھتے ھوئے بولا۔۔
ہاں ۔
وہ اٹھتے ہوئے بولی۔۔
کہاں جا رہی ہو؟؟
وہ حیرت سے بولا۔۔
واپس چلتے ہیں۔۔
کچھ دیر تو رک جاؤ۔۔ یاد رکھو۔۔ یہ وقت شاید زندگی میں پھر کبی نا آئے۔۔
ڈیوڈ بھی کھڑا ہوگیا
واپس چلتے ہیں پلیز۔۔
وہ سیڑھیاں اترنے لگی۔
آخر تمہیں مسلہ کیا ہے۔۔؟؟
وہ جھنجھلایا۔۔
وہ مجھے۔۔۔ مجھے واپس جانا ہے بس۔۔
لیکن کیوں؟؟
وہ مجھے۔۔بب۔۔بھوک لگی ہے۔۔
وہ سر جھکا کر ایسے بولی جیسے قتل کا اعتراف کر رہی ہو۔۔
اوہ۔۔ تو مجھے بتاؤ نا میں کھلاتا ہوں کچھ۔۔
ڈیوڈ کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔۔
نہیں میں ہوٹل سے کچھ۔۔
اشک نے کہنا چاہا۔۔
آؤ میرے ساتھ۔۔
ڈیوڈ نے اسکا ہاتھ پکڑنے کے لیے ہاتھ آگے کیا۔۔ اگلے ہی لمحے اسے اپنی غلطی کا احسا س ہوا انکے ہاں ہاتھ پکڑنا عام بات تھی۔۔۔اشک نے حیرت سے اسے دیکھا تو وہ پلٹ کر تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔ ۔۔
کیا کھاؤگی؟؟
وہ ریٹورینٹ کے باھیر کھڑا ہوکر پوچھ رہا تھاجیسے وہ اکثر اسے ایسی آفر کرتا رہتا ہو۔
پتہ نہیں یہاں کیا ملتا ہے میں حیات ریجنسی جا کر کھالونگی۔۔
اشک نے کہا عصر ہوچکی تھی۔۔
چکن چیز رول۔ فش رول۔۔ پاستہ۔۔ برگر ۔۔ یا کچھ اورر۔۔
وہ اسکی بات نظرانداز کرتے ہوئے بولی
فش چیز رول۔۔
اشک نے ہار مانتے ہوئے کہا۔۔وہ چکن مشکوک ہونے کی وجہ سے نہیں کھانا چاہتی تھی۔۔
ڈیوڈ ریسٹورینٹ میں چلاگیا۔۔ وہ باہر کھڑی رہی۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ آیا تو اسکے ہاتھ میں دو رہل اور پانی کی بوتل تھی۔۔
یہ لہ تمہارا۔
وہ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔۔ اس نے خاموشی سے لے لیا۔وہ اب بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈ رہی تھی۔۔
کیا ہوا کھاؤ نا۔۔
ڈیوڈ نے پوچھا۔۔ مجھے بیٹھنا ہے کہیں۔۔
وہ پریشانی سے بولی۔۔
آؤ آگے کوئی بنچ وغیرہ ہوگا اس پر بیٹھ جائنگے۔۔
ڈیوڈ بولا تو وہ دونو چلنے لگے۔۔
آؤ وہاں بیٹھتے۔۔
اشک نے ایک درخت کی طرف اشارہ کیا۔
وہاں بنچ نہیں ہے تم کیسے بیٹھوگی۔۔ تمہارا یہ گندا ہوجائے گا۔۔
ڈیوڈ کو عبائے کا نام لینا نہیں آیا۔اشک ہنس پڑی۔
انگلیش میں اسے گاؤن کہتے ہیں۔۔
وہ درخت کی طرف جاتے ہوئے بولی۔
آؤ بیٹھو۔۔
اشک نے اپنے گرد لپیٹی ہوئی نماز والی چادر بچھا دی۔۔
میں اس پر کیسے بیٹھوں۔۔؟؟ یہ تمہاری عبادت والی چادر ہے۔۔
وہ جھجک رہا تھا۔۔
کیوں تمہیں منع ہے کیا؟
اشک نے حیرت سے کہا۔۔
مطلب تم مسلم۔۔ میں
اس نے بات ادھورہ چھوڑٰی۔۔
آؤ بیٹھو۔۔ تم ہماری مسجدوں میں بھی چلے جاؤ تو کوئی نہیں روکے گا۔۔
اسکی آنکھیں مسکرائیں۔۔ ڈیوڈ شوز اتار کر بیٹھ گیا۔۔ وہ خاموشی سے رول کھا رہی تھی۔۔ وہ اسے دیکھنے لگا۔۔
دو دن ساتھ ہونے کے باوجود ڈیوڈ کو نہیں پتہ تھا وہ کیسی ہے۔۔؟؟ کون ہے؟ اور وہ خود کیوں اسکے ساتھ ہے؟
وہ بلکل الگ تھی۔۔ بلکل مختلف۔۔ ڈیوڈ کی دنیا سے بلکل الگ۔۔ لیکن اسے اس میں ایسا کچھ نظر نہیں آیا تھا جسے ناپسندیدہ کہا جا سکے۔۔اسکی عزت کرنے کا دل کرتا تھا۔۔اسکی بات مان کر خوشی ہوتی تھی۔۔وہ اسکی سوسائٹی کی لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔۔وہ خاص تھی بہت خاص۔۔ اتنی کہ وہ اسکی سوسائٹی میں رہ ہی نہیں سکتی تھی۔۔
فکر نا کرو نوالہ میرے منہ میں ہی جا رہا ہے۔۔
وہ اسکی نظریں محسوس کرتے ہوئے بولی۔۔وہ گڑبڑا کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔۔
میں یہ سب کبھی نہیں بھولونگی۔۔
وہ خود کلامی کر رھی تھی۔۔
میں بھی۔۔
ڈیوڈ نے عجیب سے انداز سے کہا۔۔ انکے درمیان خاموشی چھا گئی۔۔انکے سامنے سے ایک جوڑا گزرا۔ وہ ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ دالے جا رہے تھے۔
تمہارا دل نہیں کرتا تم بھی ایسے تیار ہو؟؟ خوبصورت لگو۔۔
ڈیوڈ نے اس جوڑے کو دیکھ کر کہا۔۔
ہاں کرتا ہے۔۔ لیکن جب سوچتی ہوں کہ اللہ کو ایسے پسند ہوں تو میری پسند اللہ کی پسند پر حاوی ہوجاتی ہے۔۔
اشک کے ذہن میں جنت کے پتے کا ڈائلاگ گھوما۔۔وہ پھر خاموش ہوگیا۔۔ حالانکہ وہ اس سے ڈھیروں باتیں کرنا چاہتا تھا۔۔لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بولے۔۔
داؤد چلو واپس چلتے ہیں۔نماز کا وقت نکل رہا ہے۔۔؟
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
تئمھیں کیسے پتہ چلتا ہے نماز کا۔۔
سورج سے۔۔
وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ۔۔اسنے رول نہیں کھایا تھا۔۔
اچھا میں کیب روکتا ہوں۔۔
اشک نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔ وہ چادر اٹھا کر اپنے گرد لپیٹ چکی تھی۔۔وہ ہوٹل سے کچھ فاصلے پر اترے۔۔ ڈیوڈ کچھ دیر پیدل چلنا چاہتا تھا ۔۔
رکو۔۔
وہ چلتے چلتے بولا۔۔ اشک نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا۔۔
ایک دفعہ جی بھر کر اپنے ارد گرد دیکھ لو۔۔ باکو کو۔۔ یہ وقت دوبارہ نہیں آئے گا۔؎اشک نے اسکی بات پر سر اٹھا کر دیکھا۔۔ سامنے حیات ریجنسی نظر آرہا تھا۔اسنے مڑ کر دیکھا وہ جس راستے سے آئے تھے۔۔ باکو میں سورج سرخ ہوچکا تھا۔۔کیسپئین سی اسے اپنے اندر مدغم کرنے ک لیے تیار تھا۔۔
وہ کہاں کھڑی تھی؟؟آذربائجان کے صنعتی شہر میں اکیلی کھڑی تھی۔۔کوئی جاننے والا اسکے ساتھ نہیں تھا۔۔تقدیر کے آگے سب بےبس ہوتے ہیں ۔۔ اسے ادراک ہواتھا۔۔۔وہ کبھی اکیلے محلے میں کسی رشتے دار کے گھر نہیں گئی تھی۔۔ آج وہ کسی انجان ملک میں کھڑی تھی۔۔ اجنبی لوگ،اجنبی شہر،اجنبی زبان۔۔ سب کچھ اجنبی تھا۔۔
اسنے اپنے دائیں طرد دیکھا۔۔ داؤد کھڑا تھا۔۔اخروٹی رنگ کے بال جو ماتھے پر گرے رہتے تھے۔۔ گرے آنکھیں۔ چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی۔۔ جب وہ مسکراتا تو اس میں سے ڈمپل نمایاں ہوتا تھا۔بلیک پینٹ کوٹ پہنے وہ غروب ہوتے سورج کو دیکھ رہا تھا۔۔گرے آنکھوں کا رنگ شام کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا جا رہا تھا۔۔اشک نے پہلی بار اسے غور سے دیکھا تھا۔۔اسے وہ اجنبی نہیں لگ رہا تھا۔۔
داؤد نے گھڑی دیکھی۔۔باکو کے وقت کے مطابق ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔۔اسنے اشک کی طرف دیکھا وہ اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ان کی نظریں چار ہوئیں۔۔ سیاہ آنکھیں۔۔ اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر تیزی سے جھکی تھیں۔۔اور پھروہ رخ موڑ گئی۔۔
وہ لڑکی۔۔۔وہ ایک مسلمان باپردہ لڑکی کے ساتھ کھڑا تھا۔۔اسکا عبایا زمین کو چھو رہا تھا۔۔بلیک اور گولڈن چادر اسنے کمر کی طرف سے کندھوں پر ڈالی ہوئی تھی۔۔ان کے درمیان بہت فاصلہ تھا بہت فرق تھا پھر بھی وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔۔اسکی زندگی میں بہت سی لڑکیاں آئی تھیں۔۔لیکن اس بےچہرہ لڑکی میں کیا تھا وہ سمجھ نہیں سکا۔۔
اسکا دل چاہا انکی فلائٹ اڑتالیس گھنٹوں کے بجائے اڑتالیس دن لیٹ ہوجائے۔۔انہیں واپس نا جانا پڑے۔۔وہ باکو میں ہی گھومتے رہیں فش رول کھائیں۔۔ اشک نماز پڑھے اور وہ اسکا انتظار کرتا رہے۔۔ اسکے ہاتھ میں رول ابھی تک تھا۔۔
داؤد ۔۔
وہ ہیشہ ایک لفظ سے مخاطب کرتی تھی۔۔
ہاں۔۔
چلو چلیں۔۔
رک جاؤ۔۔ سورج غروب ہوتا دیکھ کر جائیں گے۔۔
اشک نے اسکی بات پر سورج کو دیکھا۔۔ جو آہستہ آہستہ کیسپئن میں گم ہو رہا تھا۔۔۔۔ وہ یہ وقت کبھی نہیں بھولنے والی تھی۔۔سورج ڈوبا تو وہ دونوں مڑ گئے۔۔ ایک ساتھ چلتے ہوئے وہ دونوں ایک دوسرے کا حصہ معلوم ہو رہے تھے۔۔۔۔حیات ریجنسی یں وہ دونوں آگے پیچھے داخل ہوئے۔۔اسے وہ خود سے بہت بلند محسوس ہو رہی تھی۔۔اسکی دسترس سے بہت دور۔۔ جس تک پہنچنا اسکے بس میں نہیں تھا۔۔۔وہ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم اندر آگئے۔۔
سر۔ میڈم۔۔ وی نیڈ ٹو چیک یور پاسپورٹس پلیز۔۔
وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئے ریسپشن پر بیٹھی لڑکی نے انہیں روکا۔۔
کیوں؟؟
داؤد نے پوچھا
آپ کی فلائٹ قریب ہے تو ائرپورٹ سے کال آئی ہے ویری فکیشن کے لئے۔۔
اسنے پیشہورانہ مسکراہٹ سے بتایا۔۔
اوکے ہم لے کر آتے ہیں۔۔
۔۔وہ اپنا پاسپورٹ لیکر آیا تو اشک لفٹ کی طرف جا رہی تھی۔
لاؤ میں لے جاتا ہوں۔۔
ڈیوڈ نے کہا۔۔
شکریہ۔۔ میں نے ابھی تک عصر نہیں پڑھی۔۔
وہ ممنونیت سے بولی۔۔
مائی پلئیر۔۔
وہ مسکراتا ہوا بولا ۔۔ انکے درمیان کوئی فارمیلٹی نہیں رہی تھی۔۔اجنبیت کب ختم ہوئی تھی وہ نہیں جانتے تھے۔۔وہ کمرے میں آکر نماز پڑھنے لگ گئ۔۔
اسنے دونوں پاسپورٹ کاؤنٹر پر دے دیے۔۔اسے پانچ منٹ انتظار کا کہا گیا۔۔وہ ہوٹل لاؤنج میں بیٹھ گیا۔۔
آپ یہ لے سکتے ہیں۔۔ فلائٹ ٹائم پر آپکہ کال کرلی جائے گی۔۔
لڑکی نے کہا تو وہ دونوں پاسپورٹ لے کر آگیا۔۔ اسے تھکاوٹ ہورہی تھی۔۔ وہ سونا چاہ رہا تھا۔۔
اسنے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا۔۔ اسکے ہاتھ میں پاسپورٹ تھے۔۔اسکا دل چاہا وہ اشک کی تصویر دیکھ لے۔۔
آخر وہ دکھتی کیسی تھی۔۔ اسنے اسکا پاسپورٹ سامنے کر لیا۔۔
وہ شش و پنج میں تھا کہ کھولے یا نہ کھولے۔۔ لفٹ کا دروازہ کھل گیا۔۔ وہ باہر نکل آیا۔۔ اشک کے کمرے کی طرف بڑھتے ہر قدم کے ساتھ اسکی خواہش بڑھتی جا رہی تھی۔