تعارف:حیدر قریشی
جائزے(تحقیق و تنقید) مصنف:ڈاکٹر شفیق انجم
صفحات151: قیمت: 150 روپے ناشر:اسلوب ،اسلام آباد
ڈاکٹر شفیق انجم کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’جائزے‘‘ان کے زاویۂ نظر ہی کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ ادبی طور پر اعتبار بھی حاصل کرتا ہے۔چودہ مضامین پر مشتمل اس کتاب میں قدیم اور نایاب قسم کی کتابوں کا تعارف بھی شامل ہے اور عصرِ حاضر کے بعض اہم لکھنے والوں کا تجزیاتی و تقابلی مطالعہ بھی شامل ہے۔تحقیقی کے میدان میں غیر جانبدارانہ دیانتداری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہوں نے’’ سفرنامہ’سیرِ دریا‘۔۔۔تحقیقی وتنقیدی جائزہ‘‘،’’قیس کا دیوانِ ریختی‘‘،’’سب رس:قیاس،مفروضے اور حقائق ‘‘،’’مثنوی گلزار فقر۔۔ایک جائزہ‘‘جیسے عمدہ مضامین پیش کیے ہیں تو جدید لکھنے والوں میں مجید امجد،میرا جی،ن۔م۔راشداور رشید امجد جیسے اہم لکھنے والوں کے تجزیاتی و تقابلی مطالعات سے اپنی تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔
علمی و ادبی طور پر ڈاکٹر شفیق انجم کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا یہ مجموعہ بعض جہات سے اہمیت کا حامل رہے گا۔
تم مجھے روک لو(شاعری) شاعر: عدیل شاکر
صفحات121 قیمت: 120 روپے ناشر:شام کے بعد پبلی کیشنز۔لاہور
عدیل شاکر ہالینڈ میں مقیم نوجوان شاعر ہیں۔’’تم مجھے روک لو‘‘ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔اس میں غزلیں،نظمیں،قطعات اور متفرق اشعار شامل ہیں۔ان کی غزل اور نظم دونوں میں ان کے امکانات کو دیکھا جا سکتا ہے۔غزلوں کے چند اشعار بغیر کسی انتخاب کے دیکھیے:
مجھے حیران کر آجا کسی دن اے میرے بے خبر آجا کسی دن
سزائیں عشق کی یہ بھی عذاب لاتی ہیں کہ وقت کٹتا نہیں،عمریں بیت جاتی ہیں
لوٹنے میں تمہیں جھجک ہو گی مجھ کو لٹنے میں کوئی عار نہیں
توقع کی جانے چاہیے کہ عدیل شاکر کا دوسرا مجموعہ اس مجموعہ کی خامیوں سے پاک ہو کر اور اس مجموعہ میں اُبھرنے والے ان کے شعری امکانات سے لبریز ہوگا۔میں اس روزِ سعید کا انتظار کروں گا!
حمید سہروردی کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ
مرتب: ڈاکٹر غضنفر اقبال
صفحات276: قیمت: 350 روپے ناشر:کاغذ پبلشرز۔گلبرگہ(کرناٹک)
حمید سہروردی جدید اردو افسانہ کا ایک اہم نام ہیں۔اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر غضنفر اقبال ان کے صاحبزادے ہیں جنہوں نے ’’اردو افسانہ ۱۹۸۰ء کے بعد‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی تھی اور اب پونہ کے ایک کالج میں اردو کے استاد ہیں۔ جدید افسانے کی ابتدا میں ہی اس کی تفہیم کے سوال اُٹھنا شروع ہو گئے تھے،کچھ اس وجہ سے وضاحت کی ضرورت پیش آئی،کچھ تخلیق میں معنی آفرینی کا منظر سامنے لانا مقصود تھا،سو متعدد ادیبوں نے دوسرے جدید افسانہ نگاروں کی طرح حمید سہروردی کے مختلف افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ اپنے اپنے زاویۂ نگاہ سے کیا۔ حمید سہروردی کے اُنیس افسانوں کے تجزیاتی مطالعات کو ڈاکٹر غضنفر اقبال نے یکجا کر کے ’’حمید سہروردی کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیا ہے۔اس کتاب میں شامل افسانوں اور ان کے تجزیہ نگاروں کے اسماء درج ذیل ہیں:
کالے گلاب(عصمت جاوید)،خواب در خواب(حامدی کاشمیری)،روشن لمحوں کی سوغات(عتیق اللہ)،
دشتِ ہُو کی صدائیں(مہدی جعفر۔صدیق محی الدین)،منظروں سے اُبھرتی کہانی(سلیم شہزاد)،اِدھراُدھر(بیگ احساس)،شاہ جُو کی چاندنی اور زمین کی گمشدگی(معین الدین جینا بڑے۔م ناگ۔ناظم خلیلی،سیدہ رفعت ہاشمی)،
عقب کا دروازہ(وہاب عندلیب۔سجاد اختر)،کربلا بہت دور ہے(حامد اکمل)،سمندر(جبار جمیل۔ خلیل خاور۔اختر کریم)،کہانی در کہانی(ارتکاز افضل۔عبدالرب استاد)،سفید کوا(رؤف صادق۔ارتکاز افضل۔اختر کریم ۔ رخسانہ سلطانہ)،کھوئے ہوئے راستوں کی شب(ثاقب انور)،بکھرے ہوئے دن(مادھوری چھیڑا)،نہیں کا سلسلہ ہاں سے(نجم باگ)،کرسی میں دھنسا ہوا آدمی(شکیل احمد خاں۔مجتبی نجم)،بے شناخت(سجاد اختر)،سفید پرندے(شکیل احمد خاں۔میمونہ بیگم سرڈگی)،شکن در شکن(غضنفر اقبال)۔
کتاب کے شروع میں غضنفر اقبال کا پیش لفظ(کہانی کے معانی)،خان شمیم کی نظم حمید سہروردی کے نام،
سید فرید احمد نہری کے مرتب کردہ کوائف،غضنفر اقبال کے بارے میں رفیق جعفر کی تعارفی تحریر شامل ہیں۔ان سب کی واجہ سے کتاب کے مجموعی تاثر کی تفہیم میں آسانی ہوتی ہے۔تاہم عارف خورشید کا مضمون’’وہ ایک افسانہ طراز‘‘
ابتدائی مضامین میں سب سے اہم ہے۔یہ بیک وقت تنقیدی اور شخصی مضمون ہے اور اس سے حمید سہروردی کی شخصیت اور فن دونوں کا پس منظر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔کتاب کے آخر میں کہانیوں کے تجزیہ کاروں کے بارے میں کتاب کے مرتب کی طرف سے مختصر تعارفی نوٹ درج ہیں۔مجموعی طور پر جدید افسانے کے حوالے سے بھی اور حمید سہروردی کی افسانہ نگاری کے حوالے سے بھی ایک عمدہ تفہیمی کتاب ہے۔
لاشعور(شاعری) شاعر :غلام مرتضیٰ راہی
صفحات152: قیمت: 150 روپے ناشر:راہی پبلی کیشنز۔فتح پور(یو پی)
غلام مرتضیٰ راہیؔ انڈیا میں اردو کے معروف و ممتاز شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔اب تک ان کے تین شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔لامکاں، لاریب اور لاکلام۔۔۔(پہلے دو مجموعے بعد میں ایک جلد میں حرفِ مکرر کے نام سے بھی شائع کیے گئے)۔اور اب غلام مرتضیٰ راہیؔ کا چوتھا شعری مجموعہ لاشعور منظرِ عام پر آچکا ہے۔
چاروں مجموعوں کا لا سے شروع ہوناایک خاص معنویت کا حامل ہے۔یہ اُس اثباتِ حق کا حوالہ بھی ہے جو نفی سے شروع ہو کر اثبات تک پہنچتا ہے۔اور ن۔م۔ راشد کے ’لا= انسان‘سے ملتی جلتی کوئی کہانی بھی بنتی ہے۔راہیؔ کی غزل اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہے اور ان کے ایسے اشعار میں اس پہچان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
دریا کی خوشامد نہ کروں پیاس کے ہوتے ہونٹوں پہ زباں پھیر کے نم کرتا چلا جاؤں
نکالا کانٹے سے کانٹا کبھی کبھی ہم نے چبھے تو دونوں،مگر ایک مہرباں ٹھہرا
ہم ہو چکے تھے ریڈیو سن سن کے ہوشیار وہ ٹی ۔وی دیکھ دیکھ کے چالاک ہو گئی
سب اپنے اپنے عدم اعتماد سے مجبور سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہوئی
آدمی چاہتا ہے اب جو خلا میں رہنا دیکھیں بنیاد عمارت کی کہاں رکھتا ہی
یوں ہم نے زندگی کا پورا کیا ہے چکر آغاز سامنے تھا جب اختتام آیا
جب اس کا وعظ توجہ طلب نہیں ہوتا ہم اُس کے منبر و محراب دیکھ لیتے ہیں
مجھ کو اب اپنی اک نئی پہچان چاہیے ٹوٹا میں جس طرح ،مجھے ویسے نہ جوڑئیے
امید ہے ادبی دنیا میں غلام مرتضیٰ راہیؔ کے پہلے شعری مجموعوں کی طرح لاشعور کی بھی پذیرائی ہو گی۔
حرفِ باریاب(غلام مرتضی راہی کی غزل کا تنقیدی مطالعہ) نقاد : عشرت ظفر
صفحات136:: قیمت: 150 روپے ناشر:موڈرن پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی
عشرت ظفر نے اس کتاب میں غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کا تنقیدی مطالعہ کیا ہے۔مختلف ابواب کے عناوین یہ ہیں:راہی کی غزل کا روایت سے رشتہ،معاصر جدید غزل گویوں میں راہی کا مقام،راہی کی غزل میں آفاقی جمالیات و زمانی تصور،راہی کے شعری مجموعوں لا کلام و لا شعور کے نئے شعری افق،راہی کی غزل میں تمثال سازی و حواس و عناصر کی رمزیت،راہی کی غزل اور بیسویں صدی میں غزل کے نئے موڑ،راہی کی غزل جمالِ فطرت کی جولاں گاہ،اور راہی کی غزل کا فنی میزانیہ۔۔۔عشرت ظفر نے خلوص دل اور تنقیدی بصیرت کے ساتھ راہی کی غزل کا مطالعہ کیا ہے اور ان کی غزل کی تفہیم کے نئے در وا کیے ہیں۔