تعارف:حیدر قریشی
مطالعۂ اقبالیات(تحقیق و تالیف) محقق و مولف:ڈاکٹر وسیم انجم
صفحات288: قیمت: 250 روپے ناشر:انجم پبلشر،کمال آباد نمبر ۳، راولپنڈی
وسیم انجم کا بنیادی کام اقبالیات سے متعلق ہے،بیچ میں جب انہوں نے مجھ پر کچھ کام کیا تو مجھے اس حوالے سے کافی شرمندگی ہوتی تھی کہ اقبال پر اتنی محنت کے ساتھ کام کرنے والا ادیب اور محقق مجھ جیسے بندے پر کام کر رہا ہے۔شاید وسیم انجم کو اس کا احساس ہو گیا،چنانچہ پھر انہوں نے بعض ایسے ایسے لوگوں پر بھی کچھ کام کر ڈالاجس سے میری شرمندگی اقبال کے حوالے سے تو کم ہو گئی لیکن دوسرے حوالے سے زیادہ ہو گئی۔اب وسیم انجم اپنے اصل موضوع کی طرف توجہ دینے لگے ہیں تو مجھے خوشی ہوئی ہے کہ یہی ان کا اصل میدانِ تگ و تاز ہے۔
زیرِ نظر کتاب’’مطالعۂ اقبالیات‘‘وسیم انجم کے گہرے مطالعہ کاثبوت ہے۔انہوں نے اقبال کو براہِ راست بھی سمجھنے کی کاوش کی ہے اور دوسرے محققین اور ناقدین کے توسط سے بھی اقبال کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔اس مطالعہ میں اقبال کے فلسفیانہ اور شاعرانہ دونوں طرح کے نظریات کو بڑی حد تک مربوط کرکے پیش کیا گیا ہے۔ان کے تحقیقی مطالعہ کے دائرۂ کار کا اندازہ کرنے کے لئے کتاب کے آٹھ ابواب کے عناوین سے کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔مابعد الطبیعیات، ۲۔اسلامی اور انسانی خلافت، ۳۔اقبالؒ کی تخلیقات اور نظامِ اشتراکیت ۴۔اقبالؒ کا خطبۂ پنجم اور ثقافتِ اسلامی کی اساس ۵۔علامہ اقبالؒ کے مجموعۂ خطوط ۶۔علامہ اقبالؒ اور تصورِ پاکستان ۷۔ اقبالؒ کی اردو غزلیں اور غزل نما قطعات کا اسلوب و معنی کے اعتبار سے فارسی شاعری کی تخلیقات سے مماثلت ۸۔پیامِ مشرق ان عناوین کے کئی ذیلی عناوین الگ سے ہیں جن کے نتیجہ میں متعلقہ موضوعات کے بارے میں اقبالی فکر کافی حد تک سامنے آجاتی ہے۔تاہم یہ مطالعہ کسی کتاب کے خلاصہ کی طرح اقبال کے مزید مطالعہ سے بے نیاز نہیں کرتا بلکہ غور و فکر کے نئے در وا کرکے پیش کردہ موضوعات اور مباحث میں مزید مطالعہ کی طرف راغب کرتا ہے۔وسیم انجم کی بنیادی شناخت اقبالیات کے حوالے سے روز بروز گہری ہو رہی ہے۔میں اس میدان میں ان کی مزید کامیابیوں کے لئے دعا گو ہوں!
(کتاب کے فلیپ پر درج رائے)
پرورشِ لوح و قلم(فیض حیات اور تخلیقات) تصنیف: لدمیلا وسیلئیوا
صفحات:296 قیمت:39 5 روپے ناشر:اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔کراچی
ڈاکٹر لدمیلا ماسکو میں اردو کی معروف خدمتگار ہیں اور پوری اردو دنیا میں ان کا نام جانا پہچانا ہے۔یوں تو اردو زبان کے حوالے سے ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں لیکن ان کی ایک اہم شناخت ’’فیض شناسی‘‘ کی ہے۔ سابق سوویت یونین میں فیض احمد فیض کو عزت و توقیر حاصل تھی وہ اظہر من الشمس ہے۔فیض کی زندگی اور ان کی ادبی خدمات کے سلسلہ میں ان کی زیر نظر تصنیف بنیادی طور پرروسی زبان میں لکھی گئی اور اسی میں شائع ہوئی۔اس کے بعد اس کتاب کے چند ابواب کا اردو ترجمہ اُسامہ فاروقی نے کیا۔اسی دوران ان کی وفات ہو گئی تو بقیہ ابواب کا ترجمہ ڈاکٹر لدمیلا نے خود کیا(خدا انہیں سلامت رکھے) اور یوں یہ کتاب اہلِ اردو کے لئے بھی دستیاب ہو گئی۔
اس کتاب میں نہایت محنت اور عرق ریزی کے ساتھ فیض کی زندگی کے حالات جمع کیے گئے ہیں۔ان کی زندگی کے نشیب و فراز کو بڑی حد تک اس میں یکجا کر دیا گیا ہے۔فیض کی شخصیت میں جو نرمی،محبت،صلح جوئی،امن پسندی تھی اور اس نوعیت کی دیگر تمام خوبیوں کے ساتھ وہ ایک انقلابی شاعر بھی تھے۔ان کی انقلابی شاعری میں بھی ان کے شخصی اوصاف نے ایک دھیما پن پیدا کر دیا۔وہ دھیما پن جس نے فیض کو باقی سارے ترقی پسند شاعروں سے منفرد و ممتاز کر دیا۔ فیض کی شاعری کا جائزہ لینے میں ڈاکٹر لدمیلا نے نہایت علمی و ادبی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔جو ہندو پاک میں فیض کے ان مداحوں کے لیے ایک چیلنج ہے،جو فیض کے بارے میں بہت کچھ لکھنے کے باوجود ابھی تک ڈاکٹر لدمیلا جیسی بصیرت تک نہیں پہنچ سکے ۔ڈاکٹر لدمیلا کی تنقیدی بصیرت کا کمال ہے کہ انہوں نے فیض سے اپنی عقیدت کو مجروح بھی نہیں ہونے دیا اور ان کی ادبی خوبیو ں کے ساتھ ان کی ادبی کمزوریوں کو بھی مدِ نظر رکھا ہے۔فیض کی شاعری کا ارتقائی سفر جاننے کے لیے ڈاکٹر لدمیلا کے تجزیے سند کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔
فیض کی زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ ہمیں یوں تو متعدد شخصیات سے تعارف ھاصل ہوتا ہے۔لیکن دو شخصیات کا تعارف بے حد اہم ہے۔ایک ایلس فیض جنہوں نے ایک برطانوی خاتون ہوتے ہوئے کسی بھی مشرقی خاتون سے بڑھ کرفیض سے وفا کی اور سکھ دکھ میں ہمیشہ ساتھ دیا۔دوسری شخصیت فیض احمد فیض کے والد صاحب کی ہے۔سلطان محمد خاں کی زندگی ایسے حیرت انگیز نشیب و فراز کی حامل ہے کہ قاری ہر قدم پر چونکتا ہے ۔جیسے یہ سچ مچ کی نہیں ،کسی طلسماتی کہانی میں بیان کی گئی زندگی ہو۔سچی بات یہ ہے کہ بے شک فیض کی اپنی زندگی جدو جہد، محنت، قربانی اور محبت سے بھری ہوئی ہے، لیکن ان کی طلسماتی شخصیت کی داستان بھی اپنے والد سلطان احمد خاں کی حیرتوں سے بھری زندگی کی داستان کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے۔
اس کتاب میں یوں تو سارے واقعات گہری تحقیق کے بعد بیان کیے گئے ہیں۔ تاہم کلکتہ یونیورسٹی میں فیض کی ملازمت کے حوالے سے مجھے مزید تحقیق کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ڈاکٹر لدمیلا کے بیان کے مطابق
جب فیض صاحب پاکستان سے نکل کر دلی گئے تو وہاں انہیں کئی یونیورسٹیز میں پروفیسر کی جگہ پیش کی گئی،وہ کلکتہ یونیورسٹی کو جائن کرنا چاہ رہے تھے کہ اسی دوران حکومت پاکستان نے حکومت ہند کو اشارا دیا کہ ایک پاکستانی شہری کے لیے اس طرح کا اقدام مناسب نہ ہو گا۔
ہندوستان میں مغربی بنگال ہمیشہ سے کیمونسٹ پارٹی کا گڑھ رہا ہے۔میری معلومات کے مطابق فیض کی جیوتی باسو سے ملاقات ہوئی تھی۔ان کے لیے کلکتہ یونیورسٹی میں ملازمت کی فراہمی کی غرض سے اقبال چیئر کی منظوری ہو رہی تھی۔منظوری کا باضابطہ طریق کار کسی حد تک طویل تھا۔سو انہیں پاکستانی حکومت کے کسی دباؤ کے باعث انکار نہیں کیا گیا تھا۔لیکن اقبال چیئر کی منظوری کے دفتری عمل کی طوالت کے دوران فیض کو لوٹس میں ادارت کی جاب مل گئی اور وہ دلی سے ماسکو ہوتے ہوئے لبنان چلے گئے۔میرا خیال ہے اس حوالے سے مزید تھوڑی سی تحقیق کی ضرورت ہے۔ممکن ہے ڈاکٹر لدمیلا کی بات ہی درست نکلے لیکن احتیاطاََ مزید تحقیق کی تھوری سی گنجائش موجود ہے۔باقی یہ حقیقت ہے کہ فیض پر یہ کتاب ایک دستاویزی حیثیت کی حامل کتاب ہے۔
کاش فیض کے پاکستانی اور انڈین مداح بھی فیض پر اسی پائے کی کوئی کتاب لکھ سکیں۔
غفلت کے برابر(غزلیں) شاعر:ابرار احمد
صفحات:206 قیمت:250 روپے ملنے کا پتہ:ماوراپبلشرز۔لاہور
ابرا ر احمد اگرچہ شروع سے تھوڑی بہت غزلیں کہتے آرہے ہیں تاہم ان کی بنیادی پہچان نظم نگار شاعر کی رہی ہے۔اس کے باوجود ابرار احمد ان نظم نگاروں سے ہمیشہ الگ رہے جو نظم کہنے کے ساتھ غزل کو برا بھلا کہنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے اپنے بیان کے مطابق ۲۰۰۰ء کے دوران ان پر غزل باقاعدہ طاری ہو گئی،اس کیفیت کا ثمر ان کی غزلوں کے مجموعہ غفلت کے برابر کی صورت میں سامنے آیا ہے۔نظم کی طرح غزل میں بھی ابرا ر احمد نے اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ذیل کے چند اشعار سے ان کی غزل کے تیور دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہم نے رکھا تھا جسے ،اپنی کہانی میں کہیں اب وہ تحریر ہے اوراقِ خزانی میں کہیں
یہیں کہیں پہ ہے رستہ، دوامِ وصل کا بھی یہیں کہیں سے ہی راہِ فنا نکلتی ہے
یہ نقدِ جاں لیے آئے تھے ہم تمہارے حضور سو تم بھی کرنے لگے ہم سے بھاؤ تاؤ میاں
کچھ بھی نہیں رہا یہاں،آپ سے کیا چھپائیے دل ہی میں جب لہو نہیں،شور کہاں مچائیی
یہ کوئے خاک ہے یا پھر دیارِ خواب کوئی زمین ہے کہ زماں ہے، مجھے نہیں معلوم
نظم نگاروں کے قبیلہ کی طرف سے غزل کو مطعون کرنے کی بجائے ایسی خوبصورت غزلوں کے مجموعہ کا آنا غزل کے لئے خوبصورت تحفہ ہے اور ادب کے لئے بھی نیک فال ہے۔
خوشبو کا سفر(شاعری) شاعر:طاہر مجید
صفحات 160: قیمت: 150 روپے ناشر:اساطیر۔۴۵۔اے مزنگ روڈ۔لاہور
طاہر مجید ایک عرصہ سے جرمنی میں مقیم ہیں۔شعر کہنے کا سلسلہ پاکستان کے زمانے سے شروع کر رکھا تھا لیکن رفتار اتنی دھیمی رہی کہ پہلا مجموعہ تیار ہونے میں ایک عمر لگ گئی۔انڈو پاک میں’’ شاعر گراستادوں‘‘کی برکت سے جرمنی اور باقی یورپ میں ریڈی میڈ شاعروں کی برق رفتاری کا یہ عالم ہے کہ پچاس کی عمر میں شاعری شروع کرتے ہیں اور دو سال میں تین مجموعے بنے بنائے،چھپے چھپائے حاصل کر لیتے ہیں۔طاہر مجید اس لحاظ سے یورپ کے گنتی کے ان چند شاعروں میں شامل ہیں جو جیسا بھی لکھتے ہیں خود لکھتے ہیں۔خوشبو کا سفر میں ان کی اب تک کی زندگی کے سفر کی وہ ساری خوشبو یکجا ہو گئی ہے جو انہوں نے خوشیوں اور دکھوں سے کشید کی تھی۔
چند اشعار سے طاہر مجید کی شاعری کے مزاج اور موڈ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
پہرے کچھ اس طرح سے لگے اس کی دید پر اس مرتبہ تو چاند بھی نکلا نہ عید پر
برباد کر دیا ہے تو چل بھول جا مجھے چل، میرا ہی قصور تھا،تو بے قصور تھا
الجھ گئے ہیں کچھ ایسے معاملے دل کے اداس ہو گئے ہم اور بھی تجھے مل کے
توقع کی جانی چاہئے کہ طاہر مجید اپنا دوسرا مجموعہ لانے میں پہلے مجموعہ اتنی تاخیر نہیں کریں گے اور ان کے دوسرے مجموعۂ کلام میں ان کے ممکنات زیادہ بہتر طور پر کھل کر سامنے آئیں گے۔
سمندر سوچتا ہے(شاعری اور فن و شخصیت) شاعر:رئیس الدین رئیس
صفحات:357 قیمت:دوسو روپے یا بیس ڈالر ملنے کا پتہ:۱۷۲۵۱۰دہلی گیٹ۔علی گڑھ
رئیس الدین رئیس کا تازہ مجموعہ سمندر سوچتا ہے بظاہر ۳۳۵ صفحات کا مجموعہ ہے،لیکن اس میں شروع کے ۲۱ صفحات کو شمار نہیں کیا گیا۔انہیں شامل کر لیا جائے تو اصلاََ یہ ۳۵۶ صفحات کا مجموعہ ہے۔۲۵۷ صفحات پر شاعری درج کی گئی ہے۔اس میں ان کے پہلے دو مجموعوں اور بعد کے نئے اور تیسرے مجموعہ کا کلام شامل کیا گیا ہے۔لگ بھگ ۱۰۰ صفحات ابتداء، فہرست کے علاوہ رئیس الدین رئیس کی شاعری کے بارے میں مختلف ادیبوں اور ان کے دوستوں کی آراء شامل ہیں۔یوں یہ شعری کلیات کے ساتھ فن و شخصیت قسم کا مجموعہ بھی بن گیا ہے۔اس سب کو ملا کر رئیس الدین رئیس کے بارے میں اور ان کی شاعری کے بارے ایک واضح رائے قائم کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔نمونۂ کلام: میں قطرہ ہوں مگر وسعت پہ میری یہ دریا کیا،سمندر سوچتا ہی
خودی کا رمز تھا جب واشگاف میں بھی ہوا تو اپنے آپ سے بے حد خلاف میں بھی ہوا
آنکھوں کو دن نکلتے ہی تاویل چاہئے یعنی تمام رات کی تفصیل چاہئے