تعارف:حیدر قریشی
رختِ ہُنر(شاعری) شاعر:غالب احمد
صفحات253: قیمت:300 روپے ناشر:نیا زمانہ پبلی کیشنز۔14 بی ٹمپل روڈ،لاہور
غالب احمد شاعروں اور ادیبوں کی اس سینئر صف سے تعلق رکھتے ہیں جس میں ناصر کاظمی،احمد مشتاق،انتظار حسین،حنیف رامے،مظفر علی سید،شہزاد احمد وغیرہ کے اسماء شامل ہیں۔تاہم تخلیقی لحاظ سے متحرک ان تخلیق کاروں کے مقابلہ میں غالب احمد کے تخلیقی سفر کی رفتار کافی دھیمی رہی۔۱۹۵۰ء سے ادبی رسائل میں مسلسل چھپنے کے باوجود ابھی تک ان کا صرف ایک ہی شعری مجموعہ’’راحتِ گمنام‘‘ شائع ہوا تھا،اب ان کا دوسرا مجموعہ شائع ہوا ہے جوان کی شاعرانہ قدروقیمت کے تعین میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔غالب احمد کی غزل میں ایک انوکھی نوعیت کا فکری تغزل ملتا ہے۔چند اشعار سے اس فکری تغزل کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
منظرِ ہوش سے آگے بھی نظر جانے دے جا رہا ہے یہ مسافر تو اُدھر جانے دے
زنجیر میں ہیں دیرو حرم ، کون و مکاں بھی ہے عشق ہمیں ان سے نہیں جن کا گماں بھی
کیوں وقت کی لہریں مجھے لے جائیں کسی اور دائم دل دریا ہوں میں موجوں میں رواں بھی
ابر برسا سُراب کی صورت چار سُو عکسِ آب کی صورت
خواب کی کیا کوئی حقیقت ہے ہے حقیقت تو خواب کی صورت
غالب احمد کی نظمیں ان کی زندگی کے مختلف النوع تجربات سے گزرتے ہوئے ادوارکی ترجمانی کرتی ہیں۔ان میں ایک خاص نوع کی روحانی بالیدگی اور ترفع بھی ملتا ہے۔’’نظمِ نَو‘‘ان کے نظمیہ ارتقاء کو واضح کرنے کے ساتھ نظم نگاری میں ان کے مقام کے تعین میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ نظم کی اختتامی سطروں سے اس طویل نظمکی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور غالب احمد کی نظم نگاری کے تیور بھی سمجھے جا سکتے ہیں:’’وہ دیکھو کہ پھر رحمِ مادر سے نکلا ہوا طفلِ نوزائیدہ،وقتِ نو کہہ رہا ہےزمیں سے ضمانت نہ مانگورگِ جسم و جاں سے شہادت نہ مانگوکہ ضامن ہو تم اس زمیں کےزمانے کے تم خود امیں ہوجہانِ ہنر میں نئی زندگی کی طلب کےنئے آشیانے بساؤ،نیا گھر بناؤکہ یہ نفس کا نقطۂ آسماں ہےکنارِ یقیں ہے،نئی سرزمیں ہےزمانے کو آواز دو،ابنِ آدم بلاؤکہو سب کو آؤنیا گھر ہمارا کھلا ہےیہ وقتِ دعا ہےنئی نظم کی ابتدا ہے!‘‘
پچیس(افسانے) افسانہ نگار:جوگندر پال
صفحات253: قیمت:300 روپے ناشر:اردو اکادمی،دہلی
جدید اردو فکشن میں جوگندر پال کااتنا بڑا حصہ ہے کہ انہیں بلا خوف و تردد اردو فکشن کا ممتاز و معتبرترین تخلیق کار کہا جا سکتا ہے۔افسانچہ،افسانہ،ناولٹ،ناول تک ان کی تخلیقی خدمات کا وسیع تر سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ اردو اکادمی دہلی نے جوگندر پال کے افسانوں کا ایک انتخاب’’ پچیس ‘‘کے نام سے شائع کیا ہے۔اس انتخاب میں جوگندر پال کی ۲۳کہانیاں،’’نہیں رحمن بابو‘‘ سلسلہ کے چند افسانچے اور’’ پرندے‘‘ سلسلہ کے چندافسانچے شامل کیے گئے ہیں۔بے گور،گرین ہاؤس،ہیر رانجھا،کرن کرن،اٹھارہ ادھیائے،پناہ گاہ،سانس سمندر،جیتے جی، مقامات،جاگیردار،مہاجر،مارکیٹ اکانومی،بھوک پریت،سٹرپ ٹیز،باشندے،بیک لین، پادشاہ، ہرامبے، معجزہ،نازائیدہ،بجھتے سورج کا سمے،مہا بھارت اور تمنا کا دوسرا قدم جیسے افسانے بلا شبہ جوگندر پال کے نمائندہ افسانوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔مرغوب حیدر سید نے ’’حرفِ آغاز‘‘اور ڈاکٹر قمر رئیس نے ’’جوگندر پال کا فنّی اسلوب‘‘کے زیر عنوان اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔انتخاب کے آخر میں جوگندر پال کا تحریر کردہ’’خود وفاتیہ‘‘ شامل ہے۔جوگندر پال کے اب تک جتنے افسانوی انتخاب شائع ہو چکے ہیں،ہر ایک کی اہمیت ہے۔یہ انتخاب بعض جہات سے پہلے انتخاب شدہ مجموعوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
شاہ دولہ کا چوہا اور دوسری نظمیں شاعر:ساقی فاروقی
صفحات143: قیمت:250 روپے ناشر:اکادمی بازیافت(اتہ پتہ درج نہیں)
میری ذاتی ترتیب کے لحاظ سے انگلینڈ کے پہلے دس بہترین شاعروں میں صرف ساقی فاروقی کا نام لکھنا پڑتا ہے۔ان کے دس نمبروں کے بعد کسی اور شاعر کو گیارھواں نمبر دے کر شمار کیا جا نا چاہیے۔زیر نظر مجموعہ ساقی فاروقی کی ۷۵نظموں کا ایک انتخاب ہے۔اس میں آزاد نظمیں اور نثری نظمیں سب ملی جلی ہیں۔اپنے دیباچہ کے شروع میں ساقی فاروقی نے لکھا ہے’’یہ احساس کہ جس استعارے کو جنم دینے کی کوشش میری شاعری میں ملتی ہے،اس سے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی ذہن میں کوئی نہ کوئی ارتعاش پیدا ہوگا۔۔۔عجب جان آفریں ہے۔یہ خوش خیالی مجھے خاموش نہیں ہونے دیتی ورنہ یوں ہے کہ لفظوں پر بے اعتباری بڑھتی جاتی ہے۔‘‘
تخلیقی لفظ کبھی بے اعتبار نہیں ہو سکتا،بس تخلیقی تجربہ یاواردات کاکھرا ہونا ضروری ہے۔اس انتخاب سے ساقی فاروقی کی نظم نگاری کے بارے میں ایک واضح تاثر سامنے آتا ہے۔جن تشبیہات،استعارات اور علامات کو ساقی نے اپنی نظموں میں پیش کیا ہے،ان کے بارے میں جدید نظم کے قارئین اپنی اپنی ذہنی سطح کے مطابق تفہیم کے عمل سے گزر یں گے اور سب کی قرات اپنی اپنی جگہ حق بجانب ہو گی۔
شگاف(شاعری) شاعر:جگدیش پرکاش
صفحات368: قیمت:250 روپے ناشر:ساقی بک ڈپو،اردو بازار،دہلی
جگدیش پرکاش اردو کے ایک اچھے شاعر اور اردو ادب کے سنجیدہ قاری ہیں۔ایک عرصہ سے شاعری کر رہے ہیں اور ادبی منظر نامہ کو بھی پوری توجہ اور غور کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔’’دھوپ کی خوشبو‘‘،’’نریندر کے لیے‘‘ اور’’آسمان در آسمان‘‘ ان کے تین شعری مجموعے پہلے چھپ چکے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب’’شگاف‘‘ ان کا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔اس کتاب کو بیک وقت اردو اور ہندی رسم الخط میں شائع کیا گیا ہے۔دائیں طرف سے ۱۸۴صفحات پر اردو رسم الخط میں شاعری درج ہے جبکہ بائیں جانب سے وہ سب کچھ اتنے ہی صفحات پر ہندی رسم الخط میں شامل ہے۔ہندوستان میں اب اس انداز میں بھی کتابیں چھپنے لگی ہیں۔میرے نزدیک ہندوستانی سماج کے تناظر میں یہ ایک اچھا سلسلہ ہے۔اس سے اردو ادب کو ان ہندی والوں تک آسانی سے رسائی ہو سکے گی جو اردو کو سمجھ تو سکتے ہیں لیکن پڑھ نہیں سکتے۔جگدیش پرکاش نے ’’اپنی بات‘‘میں آج کے انسان کے ایک المیہ کو یوں بیان کیا ہے۔
’’مجھے آج کے انسان کے افکار،اس کی زہنیت،اس کی سوچ اور فکر میں بڑے بڑے شگاف نظر آتے ہیں،جن سے محبت،خلوص،رواداری کی ساری خوشبو خارج ہو گئی ہے۔اسی لیے اس مجموعے کے لیے ’’شگاف‘‘کا عنوان میں نے موزوں سمجھا‘‘
ان کی نظموں اور غزلوں میں اس المیہ کو مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔چند اشعار سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ترش رشتوں کو نبھانا بڑا مشکل ہے میاں تاش کے گھر کو سجانا بڑا مشکل ہے میاں
دراڑ دیکھ رہا ہوں پرانے رشتوں میں یہ کیسا دور ہے جس سے گزر رہا ہوں میں
بہ اہتمام جنہیں ہم بلانے والے تھے یہ کیا پتہ تھا وہی گھر جلانے والے تھے
تاہم جگدیش پرکاش کی شاعری صرف اسی المیہ کے اظہار تک محدود نہیں ہے،ان کی شاعری میں زندگی کے دوسرے رویے اور شاعری کے نئے ذائقے بھی ملتے ہیں۔
بستر میں سر چھپا کے کہیں سو گئی ہے نیند مسمار ہو گیا ہے مکاں میرے خواب کا
آنکھیں جب انتظار کے زینے اتر گئیں لمحوں کی شاہراہ سے صدیاں گزر گئیں
کچھ کہے وہ تو میں زباں کھولوں بند آنکھوں میں آسماں کھولوں
انٹرنیٹ کے دروازے سے جھانک گیا کل اک چہرہ دل کہتا ہے ان آنکھوں میں اُس کو روز بلانا ہے
جگدیش پرکاش کی آزاد نظموں میں کچھ غزل کے اثرات ہیں تو کچھ نئی نظم کے۔اور دونوں کے امتزاج سے ان کی نظموں کا مزاج بنتا ہے۔اردو ادب کے ایک خاموش خدمتگارجگدیش پرکاش کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے اور ان کی سراہنا ہونی چاہیے۔
پہلا پتھر(تاریخ و حالات حاضرہ) :کیپٹن نذیرالدین خان
صفحات399: قیمت:400 روپے ناشر:نیو ہورائزن پبلی کیشنز۔گلشن اقبال،کراچی
کیپٹن نذیرالدین خان نے ہندوستان کی مسلم تاریخ کے بہت سارے منفی مطالعہ کو درست تناظر میں پیش کرنے لیے ’’پہلا پتھر ‘‘تحریر کی ہے۔اس میں کئی نام نہاد ہیروزکی اصلیت اور ان کے کرداروں کی ہولناکی کو اجاگر کیا گیا ہے ۔کئی تاریخی مغالطوں کی نہ صرف نشاندہی کی گئی ہے بلکہ اصل حقائق بھی قوم کے سامنے رکھے گئے ہیں۔وہ لوگ جو نام نہاد تاریخی ناولوں کے مطالعہ سے اپنے رومانوی ماضی کے نشہ میں گم ہیں ،انہیں اس طرح سے جھنجھوڑا گیا ہے کہ سارا نشہ ہرن ہوجائے۔ خوشی کی بات ہے کہ طویل عرصہ سییک طرفہ تاریخ کے نام پر دی جانے والی افیون کا اثر زائل کرنے کے لیے حالیہ چند برسوں میں مبارک علی،حسن جعفرزیدی اور نذیرالدین خان جیسے لوگوں نے اپنے اپنے طور پر قابلِ ذکراور بڑا ہی اہم کام شروع کیا ہے۔
’’پہلا پتھر‘‘ٹھہرے ہوئے پانی میں پھینکا گیا پتھرہے جو نہ صرف اس میں ارتعاش پیدا کر سکتا ہے بلکہ اس کا تعفن دور کرکے اسے روانی بھی عطا کر سکتا ہے۔اس کی امید کی جانی چاہیے۔
نئے تنقیدی مسائل اور امکانات(تنقیدی مضامین) مصنف:کرامت علی کرامت
صفحات464: قیمت:350 روپے ناشر:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی
کرامت علی کرامت سینیئر لکھنے والے ہیں۔تخلیق کے ساتھ تنقید کے میدان میں بھی ان کے فکری جو ہر کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔’’نئے تنقیدی مسائل اورامکانات‘‘کے مضامین سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ادبی منظر نامہ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور ادب کی تفہیم کے لیے ان کے سامنے کیا معیارات ہیں۔ہماری تنقید میں جو عمومی انداز اختیار کیا جاتا ہے،اس حوالے سے دیکھا جائے تو کرامت علی کرامت کے مضامین زیادہ بہتر انداز سے سامنے آتے ہیں ۔تاہم مجھے لگا کہ وہ بعض امور میں کسی بہتر نتیجہ تک پہنچنے کی بجائے کہیں آس پاس ہی رہ جاتے ہیں۔صرف دو مثالوں پر اکتفا کروں گا۔’’تحقیق و تنقیدبحیثیت تخلیقی ادب‘‘میں انہوں نے تحقیق و تنقید کو بھی تخلیقی ادب کے دائرے میں شمار کیا ہے۔لیکن اس کے لیے بہت دور تک گھوم آنے کے بعد بھی اصل بات تک پہنچے نہیں بس اس کے آس پاس رہ گئے۔کوئی بھی تخلیق کار جب کسی تخلیقی عمل سے گزرتا ہے تو اس کی معلومات(تحقیق)پہلے سے اس کے شعور و لاشعور میں موجود ہوتی ہے۔اور جب وہ اپنے تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے اسے خوب سے خوب تر پیش کرنا چاہتا ہے تو یہ در اصل اس کا تنقیدی عمل ہوتا ہے۔یوں تحقیق و تنقید اصلاََ تخلیقی ادب کا حصہ نہیں بلکہ جزوی حصہ ہیں۔کرامت صاحب اس نتیجہ تک نہیں پہنچے،البتہ اس کے قریب سے گزرتے گئے۔ایک اور مضمون ’’اسلام اور صنفِ شاعری ‘‘ میں انہوں نے از روئے قرآن شاعری کی ممانعت کے پہلو کو سمجھا ہے اور پھر بعض احادیث اور تاریخی روایات سے شاعری کا جوازپیش کرنے کی کوشش کی ہے۔جن احادیث اور روایات سے انہوں نے یہ جواز دئیے ہیں مستحسن ہیں۔ مثالی ریاست سے شاعروں کو بے دخل کردینے کے باوجود اچھی شاعری کے لیے یونانیوں نے بھی گنجائش رکھی ہوئی تھی۔ایسی شاعری جو دیوی ،دیوتاؤں کی تعریف و توصیف پر مشتمل ہو۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو احادیث اور دوسری روایات سے پیش کیا گیا جواز بڑی حد تک یونانیوں کے نظریہ ہی سے مماثلت رکھتا ہے۔تاہم میرا خیال ہے کہ قرآن کا شاعری کا تصوربہت واضح ہے۔
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ کن کن وادیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ باتیں کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے‘‘
اس سے شاعری کا جو قرآنی تصور میری سمجھ میں آتا ہے ،یہ ہے کہ شاعر کے ظاہر اور باطن میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔اس کی شاعری اس کے باطن کی داستان بیان کرے،نہ کہ محض فرضی محبوب اور فرضی تصورات پر مبنی ہو۔جب باطن کے ساتھ ہم آہنگی ہو گی تو کوئی شاعر پر اعتراض نہ کرے گا۔یوں قرآن کے اس فرمان سے مجھے محسوس ہوا کہ ایسے نظریاتی شاعروں کے بر عکس جو ائیر کنڈیشنڈ ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کرمزدوروں،کسانوں، غریبوں کی زندگی سنوارنے کی شاعری کرتے ہیں وہ شاعر زیادہ بہتر ہیں جو کارزارِ حیات سے گزرتے ہوئے اپنے تجربات کو بیان کرتے ہیں۔اسی طرح داخلی و نفسیاتی معاملات کا اظہار بھی داخل و خارج میں ہم آہنگی کو ظاہر کرے گا اوراز روئے قرآن شاعر جو کچھ کہہ رہا ہوگا دراصل وہی اس کاطرزِ زندگی بھی ہو گا۔یوں میرے نزدیک قرآن شریف شاعری کی ممانعت نہیں کرتا بلکہ ایک واضح تصورِ شاعری بیان کرتا ہے۔ اور اپنے داخل کے بر عکس شاعری کرنے والوں کی مذمت کرتا ہے۔ کرامت صاحب مذکورہ آیت درج کرنے کے باوجوداس پر اس زاویے سے زیادہ غور نہ کر سکے۔تاہم ان کے اس مضمون کو پڑھتے ہوئے مجھے اس تفہیم تک رسائی کا موقعہ مل گیا،جس کے لیے ان کا شکر گزار ہوں۔شاید اسی کو چراغ سے چراغ جلانا کہا جاتا ہے۔کرامت علی کرامت صاحب نے ساختیات کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے،اس پر اب مزید کیا عرض کیا جائے کہ اس عرصہ میں نہ صرف پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ گیا ہے بلکہ کئی پُل اور ڈیم بھی بہہ گئے ہیں۔ کرامت علی کرامت کی تنقید وہاں اپنی خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے جہاں وہ زیادہ سے زیادہ ادب کی تفہیم پر توجہ دیتے ہیں۔ادب کی تفہیم کے لیے ان کا رویہ سمجھانے سے زیادہ سمجھنے کا ہوتا ہے ۔ فن پارے کے باطن تک رسائی کے لیے اپنی پوری سوجھ بوجھ کو بروئے کار لاتے ہیں۔
اس مجموعہ میں ۳۶مضامین شامل ہیں،ان میں نظری مباحث بھی ہلکے پھلکے انداز میں آگئے ہیں۔بعض اصناف اور بعض شاعروں ادیبوں کے حوالے سے انفرادی نوعیت کے مضامین بھی شامل ہیں اور اپنی مقامی زبانوں کے شعرو ادب کے ساتھ اردو کے میل ملاپ کا منظر بھی ہے۔مجموعی طور پر کرامت علی کرامت ان سکہ بند نقادوں سے کہیں زیادہ بہتر ہیں جو سرا پکڑے بغیر تنقید کی ڈور کوسلجھانے میں الجھے ہوئے ہیں۔کرامت علی کرامت اس لیے بھی بہتر نقاد ہیں کہ وہ بنیادی طور پر تخلیق کار ہیں۔
تیری خوشبو (شاعری) شاعر:سلیمان جاذب
صفحات: 152 قیمت:250 روپے ناشر: عظمی پبلی کیشنز،۳۹مزنگ روڈ،لاہور
سلیمان جاذب نے انٹرنیٹ جرنلزم اور ادب کی دنیا میں لگ بھگ ایک ساتھ قدم رکھا ہے اور دونوں میں ان کی کامیابی کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ان کا پہلا شعری مجموعہ’’تیری خوشبو‘‘ابتدائی جوانی کے محبت سے معمور جذبوں کا عمدہ اظہارہے۔ان جذبوں میں اضطراب و سرشاری کی مختلف کیفیات خوبصورت انداز سے آئی ہیں۔ نئی نسل کے قارئین ان سے آئنہ نما گہرا تعلق محسوس کریں گے ،جبکہ میری عمر کے اور مجھ سے بڑی عمر کے لوگ بھی اس شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی جوانی کے زمانوں کا سفر کر لیں گے۔تاہم ابتدائے جوانی کی محبت کے جذبات سے سرشار ہونے کے باوجود سلیمان جاذب کے ہاں فکری پختگی بھی اپنی جھلک دکھانے لگی ہے۔بعض اشعار میں یہ جھلک اتنی نمایاں ہے کہ اس سے سلیمان جاذب کے آئندہ امکانات کا بہتر اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
بر صغیر پاک و ہند سے باہر جعلی اور چور شاعروں کے ہجوم میں جہاں بھی کوئی اوریجنل اور جینوئن شاعر دکھائی دیتا ہے مجھے دلی خوشی ہوتی ہے۔ایسے ماحول میں سلیمان جاذب جیسے نئے اور اچھے شاعر کی اردو ادب میں آمدہوا کے خوشگوار جھونکے جیسی ہے،ایسا خوشگوار جھونکا جس میں اس کے محبوب ہی کی نہیں اس کی اپنی اوریجنلٹی کی خوشبو بھی بھری ہوئی ہے۔میں ’’تیری خوشبو‘‘ کی خوشبودار شاعری کے ذریعے اردو ادب میں اپنا پہلا شعری مجموعہ لانے والے سلیمان جاذب کا دلی مسرت کے ساتھ خیر مقدم کرتا ہوں اور ان کی آئندہ تخلیقی کامرانیوں کے لیے دعا کرتا ہوں! (کتاب کے فلیپ پر درج تاثرات)
کائناتِ فکر و نظر (مضامین) مصنفہ:ڈاکٹر رضیہ حامد
صفحات: 168 قیمت:200 روپے ناشر: باب العلم پبلی کیشنز،بھوپال
ڈاکٹر رضیہ حامداردو ادب کی سنجیدہ اور خاموش خدمتگار ہیں۔بحیثیت مدیرہ اور مرتب کے انہوں نے اپنے رسالہ فکری و آگہی کے کئی یادگار نمبرز شائع کیے ہیں۔بعض ادیبوں اور اہم موضوعات پر عمدہ کتابیں مرتب کیں۔ان کا تحقیقی مقالہ نواب صدیق حسن خان کے بارے میں ایک دستاویزی حیثیت کا کام ہے۔بھوپال کے ادب کے حوالے سے انہوں تاریخی نوعیت کا کام کیا ہے۔’’کائناتِ فکر و نظر‘‘ان کے متفرق مضامین کا مجموعہ ہے۔ان مضامین کے مطالعہ سے ڈاکٹر رضیہ حامد کی تنقیدی سوجھ بوجھ کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اپنے موضوع کے ساتھ ان کا رویہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔اس رویے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ موضوع کے بیشتر مثبت پہلو نمایاں ہوجاتے ہیں۔تاہم اس سے بعض منفی پہلو ؤں کی پردہ پوشی بھی ہوجاتی ہے۔تنقیدی حوالے سے خامیوں سے زیادہ در گزر اچھا نہیں ہوتاتاہم ڈاکٹر رضیہ حامد کے ہاں ہمدردانہ رویے کے ساتھ ایک توازن بھی ملتا ہے۔