تاجدار عادل(کراچی)
کسی کے ذکر کا جب ہم ارادہ رکھتے ہیں
تو ہنسنے والے بھی آنسو زیادہ رکھتے ہیں
جو اپنے گلشنِ ہستی سے پھول چنتے رہے
لہو میں آگ کی گردش زیادہ رکھتے ہیں
ہمیشہ رہتے ہیں خوش پوش اس کی یادوں سے
ہم اہل عشق مہکتا لبادہ رکھتے ہیں
وہ جس نے خون کیا ہے ہر اک تمنا کا
اُسی کے سامنے احوال سادہ رکھتے ہیں
ہماری خاک کو نسبت ہے میر و غالب سے
ادب کا ہم بھی بڑا خانوادہ رکھتے ہیں
بسائے رہتے ہیں دل میں جو آرزو تیری
ہمیشہ یاد کوئی جھوٹا وعدہ رکھتے ہیں
ہمیشہ وقت نے خاکے میں سچے رنگ بھرے
ہمیشہ ہم کوئی تصویر سادہ رکھتے ہیں
ستارہ وار سجاتے ہیں اشک آنکھوں میں
ہُنر پہ خاک نشیں کچھ زیادہ رکھتے ہیں
جو چاہے آئے محبت کے پھول لے جائے
ہم اہل خیر بہت دل کشادہ رکھتے ہیں
بساط وقت کے شاطر عجیب شاطر ہیں
ہمیشہ شاہ کے آگے پیادہ رکھتے ہیں
وہ انقلاب جو اٹھتے ہیں ان نگاہوں سے
ہمارے دل سے تعلق زیادہ رکھتے ہیں
وفا کی راہ میں دھوکا ہوا جو پھر عادلؔ
تو واپسی کا مسافر ارادہ رکھتے ہیں