اَشک آنکھوں میں لے کر تمھاری قسم خط تیرے رات بھر ہم جلاتے رہے
تیری یادوں کے جھرمٹ میں تنہا صنم ہم محبت کی برسی مناتے رہے
میری تربت سجی دلہنوں کی طرح آنسوں اور پھولوں کے تحفے ملے
سلسلہ رات بھر یوں ہی چلتا رہا لوگ آتے رہے لوگ جاتے رہے
کسی بے وفا نے دیا موت کا انعام ہے آخری یہ آج میری زندگی کی شام ہے
امیر ہے توفیق اسے دی ہے خدا نے کفن کا تحفہ مجھے بھیجا بےوفا نے
اس بے وفا کو میرا آخری سلام ہے آخری یہ آج میری زندگی کی شام ہے
دوستوں میں اوڑھ کے زمین سو جاؤں گا اُس بیوفا کو نہ یاد کبھی آؤں گا
پیار میرا کر دیا جس نے نیلام ہے آخری یہ آج میری زندگی کی شام ہے
دور کیوں کھڑے ہو ذرا پاس میرے آؤ ناں دیکھ لو رقیبوں آج نظریں چراہو ناں
آج میری موت کا تماشہ سرعام ہے آخری یہ آج میری زندگی کی شام ہے
بے وفا نے لال جوڑا پہن لیا غیر کا آج میری لاش پہ ہجوم سارے شہر کا
صادقؔ محبتوں کا کیسا انجام ہے آخری یہ آج میری زندگی کی شام ہے