میری لکھنے میں عمر گزری ہے
تیری پڑھنے کی عمر ہے لڑکی
تیری سوچوں کی سب خبر ہے مجھے
مجھ پہ یہ وقت آ کے بیت چکا
میں بھی خود سے سوال کرتا تھا
کس کی غزلوں میں کس کے جلوے ہیں
کس کا چہرہ ہے کس کی نظموں میں
کون روتا ہے کس کے لہجے میں
کس کے شعروں میں کس کی باتیں ہیں
پھر جوابات مل گئے مجھ کو
اب ہنسی آتی ہے سوالوں پر
اور تجھ پر بھی — اور خود پر بھی
تجھے معلوم کیا کہ ایک آمد
کتنے جذبوں سے حاملہ ہو کر
لیٹ کر ایک بیسوا کی طرح
کورے کاغذ کے سرد بستر پر
وہ حرامی کلام جنتی ہے
جس پہ فتوے فقیہِ وقت کے ہیں
جو خداؤں کو گالی لگتا ہے
جس پہ رجعت پسند کڑھتے ہیں
جس پہ جدت پرست ہنستے ہیں
جس کا ٹھٹھا اڑاتے ہیں لونڈے
جس کے فن کا زمانہ بیت گیا
جس سے نفرت ہے علم والوں کو
جس پہ خود مجھ کو غصہ آتا ہے
جسے تو بھی سمجھ نہیں پاتی
نام اپنا کھرچ کے جس پر سے
میں نے ردّی میں بارہا بیچا
اور سگریٹ خریدے اپنے لیے
اور اس دل کو آگ میں پھونکا
جس کے جذبوں سے حاملہ ہو کر
کورے کاغذ کے سرد بستر پر
لیٹ کر ایک بیسوا کی طرح
میری قدرت کی شاہکار آمد
وہ حرامی کلام جنتی ہے
تیری سوچوں کی سب خبر ہے مجھے
میرے شعروں میں کون ہے مت سوچ
تیری پڑھنے کی عمر ہے لڑکی
اور پھر سوچنے سے کیا حاصل
باروَر جستجو ہوئی بھی تو کیا
میری غزلوں میں تُو ہوئی بھی تو کیا