اگلے دن ہی اسے ہسپتال سے اپنے گھر منتقل کیا گیا ۔۔تابین اور حدید کے کہنے پر بھی وہ انکے ساتھ نہیں گئے ۔۔۔
کتنے مہینوں بعد انہوں نے اپنے گھر میں قدم رکھا تھا ۔۔۔ایک دل فریب اطمنان اور راحت محسوس ہو رہی تھی ۔۔
اتنا سب کچھ ہو گیا تمہارے ساتھ اور مجھے خبر تک نا ہوئی ۔۔۔۔اس دن تمہیں ہسپتال میں دیکھ کر ٹھٹھک گیا ۔۔اپنے کیفے کا اونر نہ سہی ۔۔کم از کم ایک انسان ایک ہمدرد سمجھ کر مجھے بتا دیتے ۔۔۔
سب کچھ کیسے اور کن حالات میں ہوا کہ پتا ہی نہیں چلا ۔۔باسط نے جواباً کہا ۔۔
خیر اب تو تم ٹھیک ہو نا ۔۔۔وہی کافی ہے ۔۔۔جہانزیب نے کہا ۔۔
اچانک اسکی نظر مناہل پر پڑی جو چائے لے ٹیبل پر رکھتے ہوئے جانے لگی ۔۔
میں نے انہیں ہسپتال میں آواز دے کر روکنا بھی چاہا ۔۔مگر یہ کسی لڑکے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے بہت اجلت میں چلی گئیں ۔۔۔۔
لڑکے کے نام پر جہاں مناہل کے قدم تھمے تھے ۔۔وہاں باسط بھی حیران ہو کر رہ گیا تھا ۔۔۔
"ویسے کوئی رشتہ دار ہے آپ کا ” اس نے مناہل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جو اسے ہی گھور رہی تھی ۔۔۔
وہ بنا جواب دیئے وہاں سے چلی گئی ۔۔۔
ہمارے ہاں تو کوئی ایسا رشتے دار نہیں ۔۔۔یقیناً وہی ہوگا باسط کا دوست ۔۔جسکے گھر میں وہ اتنا عرصہ رہی ۔۔نوشین نے باسط کی جانب دیکھتے جلتی پر تیل چھڑکنے والا کام کیا ۔۔۔
یہ چائے لیں نہ آپ ۔۔۔۔۔دونوں کو خاموش پاکر نوشین اسے چائے دیتے ہوئے بولی ۔۔
بہت شکریہ ۔۔۔۔۔
۔*************۔
ہمم ۔۔۔۔اس دن پاکستان سے فون آیا تھا ۔۔۔۔
پاکستان کے نام پر وہ چونک اٹھا ۔۔۔
کس کا تھا ۔۔۔۔؟ لہجے میں اداسی نمودار کرتے ہوئے اس نے پوچھا ۔۔
حدید کا ۔۔۔۔۔۔گہری سانس لیتے ہوئے زرش نے جواب دیا ۔۔۔
گہری خاموشی چھا گئی ۔۔۔
پوچھ رہا تھا تمہارے بارے میں ۔۔۔بات کرنا چاہتا تھا تم سے ۔۔۔لیکن میں نے فون ملازم کو پکڑا کر کہہ دیا کہ بول دو گھر پر کوئی نہیں ہے ۔۔
میں جھوٹ نہیں بول سکتی تھی اس سے ۔۔۔۔۔۔زرش نے اسے تفصیل بتانا شروع کی ۔۔
اچھا کیا ۔۔۔۔۔۔بظاھر تو اس نے کہہ دیا تھا مگر اندر سے وہ کیا محسوس کر رہا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا ۔۔
"میری بات مانو گے ۔۔اب جو ۔۔۔۔گر لوٹو تو پاکستان جاؤ” ۔۔۔
ہمم سوچوں گا ۔۔۔۔۔یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا ۔۔۔۔
افف ۔۔۔۔حزی ۔۔۔حالات نے کیسا بدلا ہے تمہیں ۔۔۔۔۔وہ سوچتی ہی رہ گئی ۔۔۔
۔**************۔
بھائی کے سامنے وہ سب بول کر تم کیا ثابت کرنا چاہتی تھی ۔۔۔جہانزیب کے جاتے ہی مناہل اس پر برس پڑی ۔۔۔
کیا بول رہی ہو تم ۔۔۔۔
بس ۔۔۔بہت اچھی طرح سے جان گئی ہوں میں تمہاری اصلیت ۔۔زیادہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔مناہل نے اسکی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا ۔۔
کتنی لمبی زبان ہو گئی ہے نہ تمہاری وہاں جا کر ۔۔۔۔لگتا ہے بہت کچھ سکھایا ہی انہوں نے تمہیں ۔۔۔۔۔۔
جی ۔۔۔۔اور ساتھ میں یہ بھی سکھایا ہے کہ برے وقت میں اپنوں کا ساتھ دے کر کس طرح سے رشتے بچائے جاتے ہیں ۔۔۔تمہارا یہ دوسرا روپ تو اس دن میں نے ہسپتال میں دیکھ لیا تھا جب تم امل سے بھائی کے بارے میں بات کر رہی تھی ۔۔۔۔۔سب جان گئی ہوں میں ۔۔۔۔مناہل ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔
جبھی نوشین کا رنگ ذرد پڑنے لگا ۔۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم مناہل ۔۔۔۔میں تو تمہیں اپنی چھوٹی بہن سمجھتی ہوں اور تم مجھ پر ہی الزام لگا رہی ہو ۔۔۔افف ۔۔۔اچانک اسکے تیور بدلتے دیکھ کر مناہل حیران رہ گئی ۔۔۔
جب نظر دروازے پر پڑی تو سامنے باسط کو دیکھ کر وہ سب سمجھ گئی ۔۔۔۔
تم جیسی مکار لڑکی میں نے دنیا میں نہیں دیکھی ۔۔۔مناہل اسکا جائزا لیتے ہوئے بولی ۔۔
مناہل ۔۔۔۔۔باسط کی بلند آواز سے اسکی زبان کو بریک لگے ۔۔۔
دیکھ رہے ہو باسط ۔۔۔۔۔میری وجہ سے کہیں اسکی اصلیت تمہارے سامنے نہ آجائے ۔۔اسی وجہ سے یہ مجھ پر الزام لگا رہی ہے ۔۔وہ بھرپور اداکاری کرتے ہوئے بولی ۔۔
کیسی اصلیت ۔۔۔۔؟ باسط نے پوچھا ۔۔
یہ اور حدید ۔۔۔۔۔۔۔مجھے تو بتانے میں بھی شرم آرہی ہے ۔۔
نوشین کی اس بات پر مناہل کے قدموں تلے زمین نکل گئی ۔۔۔اتنا بڑا الزام وہ بھی اپنے کردار پر ۔۔۔۔
بھائی یہ ۔۔۔۔۔۔!!
جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔۔باسط نے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا ۔۔
وہ سسکی دباتے ہوئے وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ گویا ہوئی ۔۔۔
باسط وہ بچی ہے ۔۔اور اس عمر میں ایسے جذبے سے سب آشنا ہوتے ہیں ۔۔۔
شٹ اپ ۔۔۔۔۔۔۔!!! چلی جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔۔وہ اسکی بات کاٹتے ہوئے غصے میں بولا ۔۔۔
وہ حیرانگی سے اسکا چہرہ تکنے لگی ۔۔۔
اچھی طرح سے جانتا ہوں تمہیں ۔۔۔روز نت نئے لڑکوں کے ساتھ جاکر آئیسکریم کھائی جارہی ہے ۔۔۔باسط کی یہ بات اپنا اثر دکھانا شروع کر گئی ۔۔۔
جس کا کردار خود گندگی سے میلا ہو ۔۔وہ دوسروں کے کردار کو کیا صاف کہے گی ۔۔۔۔
باسط کی بات سے نوشین کے پسینے چھوٹ گئے ۔۔
تم ۔۔تم ۔۔الزام لگا رہے ہو مجھ پر ۔۔یہ جھوٹ ہے فریب ہے ۔۔۔۔وہ اٹکتے ہوئے بولی ۔۔۔
میں بات کو مزید بڑھانا نہیں چاہتا ۔۔تمہارے لیئے بہتر یہی ہے کہ تم یہاں سے چلی جاؤ ۔۔اور آئندہ یہاں قدم رکھنے کی ضرورت نہیں ۔۔یہاں اب تمہارے لیئے کچھ نہیں بچا ۔۔۔تم بہت پہلے سے سب کچھ کھو چکی ہو ۔۔۔وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے نہ جانے اسے کیا باور کروا رہا تھا ۔۔۔
وہ رہا باھر کا دروازہ ۔۔۔۔خدا حافظ ۔۔۔۔۔۔
۔*************۔
وقت بڑ ی تیزی سے گزرنے لگا ۔۔۔۔
ایک دو بار حدید نے باسط سے ملنے کے لیئے اسکے گھر آنے کی خواہش ظاھر کی ۔۔مگر باسط نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ٹال دیا ۔۔وہ لوگوں کو اور موقع نہیں دینا چاہتا تھا اپنی بہن کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کا ۔۔
باسط کا یہ رویہ دیکھ کر وہ حیران ضرور ہوا مگر کچھ کہا نہیں ۔۔۔
بھابھی اس نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ وہ تابین سے پہلے اپنی شادی کے بارے میں اب کچھ نہیں سننا چاہتا ۔۔۔
کیا پاگل ہو گیا ہے وہ ۔۔۔پہلے تو بہت جلدی مچائی تھی ۔۔اب کیا ہو گیا اسے ۔۔
پتا نہیں ۔۔۔یہ لڑکا تو میری سمجھ سے بلکل باھر ہے ۔۔۔
اماں اور طائ جان کی بات سن کر اس نے حدید کے کمرے کا رخ کیا ۔۔۔
دروازہ کھٹکھٹانے سے پہلے اس نے دستک دینا ضروری سمجھا ۔۔
اجازت پاکر وہ اندر داخل ہوئی ۔۔
واہ ۔۔۔۔تابین میڈم نے کسی کے کمرے میں داخل ہونے کے آداب بھی سیکھ لیئے ۔۔۔وہ جو بیڈ پر لیٹا کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھا ۔۔فوراً بولا ۔۔
اب یہ نیا ڈرامہ کیا شروع کیا ہے ۔۔۔؟ اسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ پوچھنے لگی ۔۔۔
کونسا ۔۔۔۔؟؟ یہ کتاب پڑھنے والا ۔۔۔۔؟
اوہ فو ۔۔۔۔میں شادی کی بات کر رہی ہوں ۔۔۔کیا کہا ہے تم نے طائ جان سے ۔۔۔وہ سر پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی ۔۔
اوہ ۔۔مطلب پتا چل گیا ۔۔۔وہ سر کو کھجاتے ہوئے دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوا ۔۔۔
یہی ۔۔۔کہ میری شادی سے پہلے تمہاری شادی ہوگی ۔۔۔۔
کیوں ۔۔۔۔۔؟؟؟
کچھ دیر اسے دیکھنے کے بعد وہ بولا ۔۔۔
کیوں کہ میں ایسا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
پر میں ایسا نہیں چاہتی ۔۔۔۔وہ فوراً بولی ۔۔۔
کیوں ۔۔۔۔۔۔؟ اس بار سوال حدید کی جانب سے تھا ۔۔
” بعض اوقات ۔۔کیوں کا جواب نہیں ہوتا ” اور میرے بارے میں سوچنے سے بہتر ہے تم اپنے بارے میں سوچو ۔۔۔میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔وہ یہ کہتی ہوئی بنا رکے وہاں سے چلی گئی ۔۔
” ہمم ۔۔شادی تو تمہاری ہوگی وہ بھی مجھ سے پہلے "۔۔۔وہ چاہتا تو شادی کر بھی لیتا ۔۔مگر تابین کو اداس دیکھ کر وہ خوشی کی جانب کیسے سفر کرتا ۔۔آخر کو تو وہ اسکی کزن اور دوست ہونے کے ساتھ ساتھ بہن بھی تھی ۔۔۔
۔***********۔
گھر میں تابین کے رشتے کی بات آگے بڑھنے لگی ۔۔
بلاآخر ۔۔۔۔آج شام کو انہوں نے ذیشان کی ماں کے ساتھ ذیشان کو بھی دعوت نامہ بھیجا اسی بہانے کھانے کے ساتھ ساتھ کچھ ضروری باتیں بھی ہو جائیں گی ۔۔
کتنی خوش قسمت ہو نہ تم ۔۔۔ذیشان جیسا ہینڈ سم ۔۔داشنگ بندہ تمہاری قسمت بننے جارہا ہے ۔۔وہ ٹھوڑی پر ہاتھ ٹکائے کسی خیال میں گم ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔
” میرا تو دل آگیا ہے ذیشان پر ۔۔ہائے عمر جہانگیر ۔۔۔۔بلکل عمر جہانگیر جیسا بندہ لگتا ہے ”
وہ تابین کے ساتھ بیٹھی اس سے اپنے دل کا حال بیان کر رہی تھی ۔۔مگر تابین میڈم تو کتاب تھامے پڑھنے میں مصروف تھی ۔۔
تابی ۔۔۔۔۔!!!اسکے ہاتھ سے کتاب جھپٹتے ہوئے بولی ۔۔۔
تم کچھ سن بھی رہی ہو کب سے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔
تابین کی کروائی دیکھتے ہوئے اسکی زبان کو بند لگے ۔۔جو کانوں سے روئی نکالنے میں مصروف تھی ۔۔
ہاں بولو کیا کہہ رہی تھی تم ۔۔۔۔۔۔۔تابین کے اس سوال پر وہ غصے سے گھورنے لگی ۔۔۔
کب سے کتوں کی طرح بھونکے جارہی ہوں پر تم سن ہی نہیں رہی ۔۔واہ ۔۔۔۔۔۔اناسہ اسے داد دیئے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔۔
جاؤ اب میں نہیں بولتی ۔۔۔کوئی میرے دل کا حال سنتا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہ غصے سے پیر پٹختے ہوئے چلی گئی ۔۔۔
۔***************۔
سب مل بیٹھ کر چائے کے ساتھ ساتھ باتوں میں بھی مصروف تھے ۔۔۔
ذیشان پر سے تو اناسہ کی نظریں ہی نہیں ہٹ رہی تھیں ۔۔۔
بار بار اناسہ کی نظریں خود پر محسوس کرتے ہوئے اس نے فوراً اناسہ کی جانب دیکھا ۔۔۔
نظروں سے نظریں ملیں ۔۔۔اناسہ نے بوکھلاتے ہوئے نیچے دیکھنا شروع کیا ۔۔۔
ذیشان ہنسی دباتے ہوئے دوبارہ باتوں میں مصروف ہو گیا ۔۔۔
سب سے الگ تھلگ شام کے منظر میں وہ چھت پر آبیٹھی تھی ۔۔نہ جانے دل کیوں اداس تھا ۔۔۔
شاید اسکی نسبت ذیشان سے طے ہونے جارہی تھی اسی لیئے ۔۔
نہ جانے کس خیال کے تحت تابین کا ہاتھ موبائل پر سے ہوتا ہوا اسکے نمبر پر اٹک گیا ۔۔۔
” وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ کتنا عرصہ وہ اسکے بنا کس حالت میں رہی ۔۔اسے بتانا چاہتی تھی وہ کہ آج وہ حذیفہ سے ذیشان تک کا سفر کرنے جارہی تھی ”
کہتے ہیں زندہ رہنے کے لئے محبوب کی ایک نظر ہی کافی ہوتی ہے ۔۔۔اگر اسکا غم کوئی تابی سے پوچھتا تو وہ بتاتی ۔۔۔
” کہ زندہ رہنے کے لئے محبوب کی یادیں ہی کافی ہوتی ہیں ”
دھڑکتے دل کے ساتھ گہری سانس کھینچتے ہوئے اس نے فون ملا ہی ڈالا ۔۔۔۔۔۔
پہلی بیل پر ہی اسکی سانسیں تھمنے لگیں ۔۔۔
آنکھوں میں نمکین پانی لہرانے لگا ۔۔
بلا آخر اسکی ساری امیدیں ٹوٹ کر بکھر گئیں ۔۔۔۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بیل جاتی رہی مگر کسی نے اٹھانا گوارہ نہ کیا ۔۔۔
تو ثابت ہو گیا ۔۔۔۔کہ اب تمہارے لئے میری کوئی اہمیت نہیں رہی ۔۔۔پلکوں پر رکا آبشار ایک دم آنکھوں سے بہہ نکلا ۔۔۔
میں قسم کھاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔”آج کے بعد تمہاری شکل دیکھنا بھی گوارہ نہیں کروں گی ” دل میں خود سے عہد کرتے ہوئے اسکا نمبر ڈیلیٹ کرتے ہوئے فون بند کرتے ہوئے دور جا پھینکا ۔۔
جونہی وہ واشروم سے نکلا ۔۔موبائل پر نمبر دیکھ کر بے اختیار اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔۔
وہ کیسے بھول سکتا تھا ۔۔اس نمبر کا ایک ایک ڈیجٹ اسکے دل پر نقش تھا ۔۔
ایک منٹ زائع کیئے بغیر وہ کال بیک کرنے لگا ۔۔۔
” آپکا ملایا ہوا نمبر اس وقت بند ہے ۔۔برائے مہربانی تھوڑی دیر بعد کوشش کریں ”
بیل جانے کے بعد یہ آواز اسکے کانوں میں کسی جلتے انگارے کی مانند محسوس ہوئی ۔۔۔۔
وہ غصے میں فون کی سکرین کو دیکھتا رہ گیا ۔۔۔
۔*************۔
آپ ناراض ہے مجھ سے ۔۔۔۔کھانا کھاتے ہوئے مناہل نے اس سے پوچھ ڈالا ۔۔جسکا رویہ پہلے سے بھی زیادہ تلخ تھا ۔۔
بھائی ۔۔۔۔۔۔میرا یقین کریں ۔۔وہ جو بھی بول کر گئی ہے سراسر جھوٹ ہے ایسا کچھ بھی نہیں ۔۔۔آپ نہیں جانتے وہ کس قدر مکار پر چالاک ہے ۔۔اور ۔۔۔۔
باسط کی تپی ہوئی نظریں خود پر محسوس کرتے ہوئے اسکی زبان کو بریک لگے ۔۔۔
اچانک کھانا سے اٹھ کر وہ کچن کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔
اسے اٹھتے دیکھ کر باسط بھی گہری سانس لیتا ہوا اٹھ کر اسکے پیچھے چلا گیا ۔۔
جو کچن میں کھڑی آنسو بہا رہی تھی ۔۔
کسی کی آہٹ پاکر جلدی سے وہ اپنے آنسو صاف کرنے لگی ۔۔۔
تم جانتی ہو نہ ۔۔۔اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ بھی یہی رد عمل ظاھر کرتا ۔۔
کسی غیر کے منہ سے میں تمہارے لیئے اس طرح کے الفاظ نہیں سن سکتا ۔۔۔وہ اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار سے سمجھانے لگا ۔۔
لیکن وہ سچ نہیں ہے ۔۔۔آپ نہیں جانتے کہ اس نے امل کو آپ کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا ۔۔وہ اب بھی اسی بات پر اٹکی تھی ۔۔۔
کیا کہا تھا اس نے امل کو ۔۔۔۔؟ باسط ناسمجھی سے پوچھنے لگا ۔۔۔
اسنے ہسپتال میں ہونے والی ساری روداد اسکے گوش گزر دی ۔۔۔
جسے سن کر باسط کو احساس ہوا کہ اسنے اپنوں کی شکل میں کیسے کیسے آستین کے سانپ پال رکھے تھے ۔۔۔
۔*************۔
وہ کچن میں کھڑی برتن دھو رہی تھی جبھی موبائل بجنے لگا ۔۔۔
ہاتھ خشک کرتے ہوئے اس نے اجلت میں فون کان سے لگایا ۔۔۔
ہیلو ۔۔۔۔۔۔۔۔!!
کیا حال ہیں جناب کے ۔۔۔۔؟ دوسری جانب سے حدید کی آواز سن کر اس نے جلدی سے فون کاٹ دیا ۔۔۔۔
رات ہی تو اس نے بھائی سے کہا تھا کہ وہ آئندہ کسی سے بات نہیں کرے گی ۔۔۔
ہاں کاٹ دیا ۔۔۔۔؟ دوسری جانب سے وہ حیران ہوا ۔۔۔
نظر انداز کرتے ہوئے اس نے دوبارہ فون ملایا ۔۔۔
مگر فون بجتا ہی رہا دوسری جانب سے اٹھایا نہیں گیا ۔۔
یہی عمل دھراتے ہوئے اسے کوئی نویں مرتبہ تھا جب وہ اسے فون ملانے لگا ۔۔
تنگ آکر مناہل بھی کال اٹھاتے ہوئے پھٹ پڑی ۔۔
” کیا مسلہ ہی آپکا ۔۔۔کیوں بار بار فون کر کے تنگ کر رہے ہیں ۔۔”؟
کیا ہو گیا ہے ۔۔۔برتن دھو کر آئی ہو کیا جو اتنا غصہ ۔۔۔۔۔حدید کی بات پر وہ چونک گئی ۔۔
اسے کیسے پتا چلا ۔۔وہ سوچتی ہی رہ گئی ۔۔۔
زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ۔۔اصل میں لڑکیاں زیادہ تپ جاتی ہیں نہ جب انھیں برتن دھونے کا کہو ۔۔۔اس بات کی تصدیق خود حدید نے ہی کر ڈالی ۔۔۔
مہربانی کر کے آئندہ مجھے تنگ کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔آپ کی وجہ سے میں کس مصیبت میں پھنسنے والی تھی آپ کو اندازہ بھی نہیں ۔۔
خدا حافظ ۔۔۔۔۔!!یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر ڈالا ۔۔۔
دوسری جانب سے وہ حیرانگی اور غصے کے ملے جلے تاثرات لیئے فون کو گھورتا رہا ۔۔۔۔
۔************۔
تابین سے ملنے سے پہلے ۔۔کچھ احتیاطی تدابیر ہیں آپ کے لیئے ۔۔اگر یاد رکھیں گے تو فائدے میں رہیں گے ۔۔۔اناسہ نے ذیشان کے ساتھ چلتے ہوئے کہا ۔۔
مثلاً ۔۔۔وہ ہنسی دباتے ہوئے اسکی جانب پلٹا ۔۔۔
وہ بوکھلاتے ہوئے پیچھے ہٹی ۔۔۔مثلاً یہ کہ ۔۔۔وہ بہت غصہ کرتی ہے ۔۔۔لہٰذا ۔۔۔اس سے دو قدم کے فاصلے سے دور دائیں ہاتھ پر بلکل کھڑے نہیں ہونا ۔۔
کیوں ۔۔۔۔۔۔۔؟
ارے اگر اسکو آپ کی کوئی بات بری لگی اور کہیں تھپڑ وپڑ مار دیا تو ۔۔۔۔وہ آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولی ۔۔
ارے آپ شاید جانتی نہیں ۔۔۔پولیس والے پکے کھلاڑی ہوتے ہیں ۔۔وہ مرتے ضرور ہیں مگر مار نہیں کھاتے ۔۔۔۔ذیشان نے جواباً کہا۔۔۔
اسی لیئے تو آپ پر دل ہار بیٹھے ۔۔۔۔۔اناسہ نے بہت ہی مدھم آواز میں کہا ۔۔۔
جی ۔۔۔۔۔۔۔؟؟
کچھ نہیں ۔۔۔۔!! آپ چلیں ۔۔۔۔وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے راستہ دکھاتے ہوئے بولی ۔۔۔
۔************۔
دو ماہ بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاآخر اسے انصاف مل ہی چکا تھا ۔۔۔۔
ٹاپ پر آنے کی وجہ سے اسے بھاری رقم کے ساتھ ساتھ ایک اچھی جاب کی بھی آفر ہوئی ۔۔
جس سے دو ماہ میں اس نے اپنا اچھا گھر اور ساتھ ساتھ ایک گاڑی بھی خریدی ۔۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس نے اس آفس کے ساتھ پارٹنر شپ کر لی تھی جس میں فیفٹی میں سے بیس پرسنت شیرز اسی کے تھے ۔۔۔۔۔۔
۔**************۔