آئینے کے سامنے کھڑی وہ بڑی توجہ اور غور سے اپنے تیکھے نقش کو دیکھ رہی تھی ۔۔جیسے کچھ ڈھونڈنا چارہی ہو ۔۔مگر کیا ؟؟؟
شاید دکھ تکیف یا پھر اذیت مگر اندر باہر تو خالی ویرانے کی طرح سائیں سائیں کر رہا تھا ۔۔۔
“” جلیس یہ بابا کیا رہے ہیں تم نے نکاح کرلیا یار ؟؟سچ ہے کیا ؟؟ ”
ہائیسم کے لفظ ایک بار پھر ہتھوڑے کی طرح کان میں برسے تھے ۔۔ان لفظوں پر جلیس کے چہرے پر آئی رونق ترتیل کو اندر تک ہلا گئی تھی ۔۔
اس کی پانچ سال کی محبت ریاضت انتظار کا کیا ؟؟ دن رات جس کو دل میں بسا کر پوجتی رہی وہ صنم واقعی مٹی کا بت ہی نکلا جس نے آندھی کی طرح اس کی الفت کی دیواروں کو ڈھیر کر دیا اور خود کو اس کے لیے پتھر کا کر لیا۔۔۔
“” ہاں جی کرلیا نکاح ؟؟اور اس سے بڑی بات مجبوری کا نکاح میری زندگی کی سب سے بڑی اور خوبصورت حقیقت بن چکا ہے ۔میری منکوحہ سے مل کر تمہیں واقعی حیرت ہونے والی ہے بہت زندہ دل لڑکی ہے
I just love her ..most worderful lady in my whole life…”
ان لفظوں کی گونج سے ایک بار پھر ہر جگہ سانٹے سے گونجے تھے ۔۔
کیوں کیا ایسا اس نے ۔۔کیوں اس کی محبت سے ہر وقت آنکھیں چراتا رہا صرف اس لیے کیونکہ وہ ایک ادھوری نقص زدہ جسامت کی مالک تھی ۔۔مگر جذبات تو مکمل تھے ۔۔
اپنے ہی عکس نے شیشے میں قہقہہ لگا یا تھا ۔۔۔
” تمہارے بال بہت اچھے ہیں ترتیل کون کون سے ٹریٹمنٹ کرواتی ہو ۔۔؟؟
بہت پہلے کی گئی جلیس کی شرارت بھری آواز سنائی دی ۔۔وہ پیچھے ہی تو کھڑا تھا ۔۔وہ شیشے سے دیکھ کر پیچھے مڑی مگر وہ حیولہ ہوا میں تحلیل ہو گئی ۔۔۔
” آآآآآآآآ۔ آآآ۔ ۔۔۔۔”
گھٹنوں کے بل بیٹھ کر زور دار چینخ حلق سے نکلی تھی ۔۔وہ پھر تب تک چینختی رہی جب تک حلق میں درد کی ٹسیں نا بڑھ گئیں ۔۔۔
” نہیں ہیں یہ بال خوبصورت ۔۔۔کیا فائیدہ ان بالوں کا ۔۔میرا ہاتھ میرا ساکت بے جان ہاتھ میری ہر اچھائی کو کھا گیا ۔۔میری ہر خوشی کو نگل گیا ۔۔”
دیوانہ دار ڈریسنگ میں ہاتھ مارتی بڑبڑانے لگی ۔۔۔
کمر پر جھولتے لمبے کالے سلکی بالوں سے کیچر نوچتی بے دردی سے پکڑ کر کاٹنے لگی ۔۔وہ جیسے دماغی توازن کھو بیٹھی تھی ۔۔اور پھر تب تک کاٹتی رہی جب تک پوری کمر کو ڈھانپتے بال کندھوں تک نا آ گئے ۔۔
فودیل ایک جست میں دروازہ کھول کر اس کے پاس آیا تھا ۔۔مگر اس کے بالوں کا حال دیکھ کر سینے میں درد سے بل پڑ گئے ۔۔۔بے یقینی اور صدمے سے ترتیل کو زمین پر پاگلوں کی طرح تڑپتے ہوئے دیکھنے لگا ۔۔۔
” یہ ۔۔۔یہ کیا ترتیل ۔۔۔یہ کیا کر دیا تم نے ۔صرف اس انسان کے لیے تم نے خود کو اس حد تک بے مول کر لیا۔۔”
سرسراتی سی آواز کی سمت ترتیل نے اپنی سرخ بوٹی کی مانند آنکھیں آٹھا کر دیکھا ۔۔یہ دیکھنا غضب تھا ۔۔فودیل کتنے ہی پل کچھ بول نا سکا ۔۔آگے بڑھ کر بہن کو دونوں باہوں میں لے کر سینے سے لگا کر زمین پر پڑے اس کے کٹے بالوں کو دیکھنے لگا ۔۔
” بھائی مجھے اپنے اس ہاتھ سے بہت نفرت ہے ۔۔بہت زیادہ ۔۔اتنی زیادہ کہ دل چاہتا ہے اس بےجان گوشت کے بوجھ کو اپنے کندھے سے اکھاڑ کر مٹی میں دفن کر دوں ۔۔
اس معذور ہاتھ کے ٹکرے ٹکرے کرنے کو جی کرتا ہے ۔میں کیوں ہوں ایسی ۔۔بتائیں نا مجھے میں کیوں باقی لڑکیوں کی طرح نہیں ہوں ۔اپنے اردگرد لوگوں کی رحم بھری ترس کھاتی نظریں مجھے میری ہی نظروں میں دوکوڑی کا کر دیتی ہیں ۔۔”
اپنے دائیں کندھے پر ہما وقت رہنے والی کالی چارد اتار کر اپنا بے جان بازو دیکھاتی بے بسی سے پوچھنی لگی ۔
فودیل کے دل پر جیسے کسی نے چلتی ٹرین گزار دی تھی اتنی تکلیف بے بسی اس نے پہلے کبھی محسوس نا کی ہوگی۔۔۔
” اس نے شادی کر لی ۔میری آنکھوں میں بسی اس کے انتظار کی شمع آج گل ہو گئی ۔۔میں تو اس کو بے وفا بھی نہیں کہہ سکتی بھائی وفا نبھانے کی منزل پر تو ہم پہنچے ہی نا تھے ۔پھر کیوں میرا اندر باہر ویران سا خالی خالی ہو رہا ہے سمجھ ہی نہیں آرہا ۔۔”
خلاوں میں دیکھتی وہ پتا نہیں خود سے مخاطب تھی یا فودیل سے وہ سمجھ نا سکا البتہ اس کی حالت فودیل کی برداشت سے باہر تھی ۔۔
” کیا پاگل ہو گئی ہو ۔۔ہوش میں آو ترتیل ۔۔میں تمہیں منع کرتا تھا اس انسان کے خواب مت دیکھو۔وہ تمہاری قسمت میں نہیں ہے ۔مگر تم نے نہیں سنی میری ۔کاش تم سن لیتی کاش میں ہی تمہیں اتنا آگے نا جانے دیتا ۔۔”
ترتیل کو بری طرح جنجھوڑ کر بولا ۔۔۔
” ہوش ۔۔ہاں ہوش تو آگئی ہے مجھے اور ایسی ہوش آئی ہے کہ مجھے میری اوقات پتا چل گئی ۔۔
Miserable hadicapped girl …
Disable child …
ارے بیٹا معذور ہو ؟؟
بے چاری کا ہاتھ خراب ہے ۔۔
اپاہج ہو کیا ؟؟؟
یہ ہے میری اوقات میری حقیقت ۔اس معذوری کی وجہ سے بے ساکھیوں کے سہارے جیتی میری محبت بھی آج دم توڑ گئی ۔۔”
فودیل کی آغوش سے نکل سے چلا کر بولی ۔۔زمین پر بیٹھ کر بری طرح کٹے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتی سسک پڑی ۔۔دروازے پر کھڑے سب کچھ سنتے ہائیسم میں مزید ہمت نا تھی ۔۔ اپنی محبت کا ماتم مناتے وہ تڑپ رہی تھی ۔تو کیا اسے بھی رونا چائیے تھا ۔اس کی تڑپ تو انیس سال کی تھی ۔۔اپنے پیدائیش کے پہلے دن سے وہ ہائیسم کے اندر تمام تر خامیوں کے باوجود گہرائیوں تک بس چکی تھی ۔۔ترتیل کی پانچ سالہ محبت اس کی انیس سالہ محبت کے آگے کوئی وقعت نا رکھتی تھی ۔۔مگر سارا مسئلہ تو بے خبری کا تھا وہ جاتنی نا تھی کوئی ہے جو اس پر دل و جان سے خود کو وار سکتا ہے ۔۔
فودیل اس کو یوں ہی روتا بلکتا چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا مگر دروازے پر کھڑے ہائیسم کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا ۔۔
” اچھا نہیں کیا تمہارے بھائی نے ۔”
فودیل غرا کر بولا ۔۔اس کے سینے میں اس وقت بھانبڑ اٹھ رہے تھے ۔۔
” تمہارے بہن نے کون سا اچھا کیا میرے ساتھ ۔۔”
اس کی دھیمی سی سرگوشی پر فودیل نے ناسمجھی سے دیکھا پر سرجھٹک کر نیچے والے پورشن پر چلا گیا ۔۔ہائیسم بھی ایک آخری ترسی نگاہ اس پر ڈال کر اپنے قدموں پر لوٹ گیا ۔۔پیچھے رہ گئی صرف ماتم کرتی ترتیل جسے اس وقت صرف اپنی محبت کی قبر پر فاتحہ پڑھنی تھی ۔۔
رات کے دو بجے کیچن شلیف پر ایک جانب کتاب رکھے وہ بڑے انہماک سے فرائی پین میں چیس فرائی کر رہی تھی ۔دوسرے چولہے پر ہلکی آنچ پر چائے پک رہی تھی ۔۔
رات کو دیر تک پڑھنے کے ساتھ کچھ نا کچھ کھانا اس کی عادت تھی ۔۔ورنہ خالی پیٹ پڑھنے سے سر میں درد شروع ہوجاتا تھا ۔۔
ڈارک براون آنکھوں پر لگے نظر کے چشمے کو انگلی کی مدد سے ناک پر ٹکا کر کیبن سے کپ نکالے ۔۔
” ایک کپ چائے مل جائے گی ۔”
عالم کی آواز پر ہاتھ میں پکڑا کپ بڑی مشکل سے نیچے گرنے سے بچا ۔۔ایک دم پکارنے پر وہ ڈر گئی تھی ۔۔
” آپ اس وقت یہاں کیا رہے ہیں ۔۔آپ تو سو نہیں جاتے گیارہ بجے تک ۔۔”
روفہ کو حیرت ہوئی ان کی آمد پر ۔۔۔
” ہاں بچے سو تو جاتے ہیں پر آج میں نے سوچا کیوں نا اپنے بیٹے سے کچھ بات چیت کر لی جائے ۔ورنہ تو سارا دن یونیورسٹی پھر پڑھائی میں مصروف ہوتی ہو ۔۔”
اس کے سر کے بال سنوارتے محبت سے بولے روفہ ان کی فکر پر ہلکا سا مسکرا دی ۔حقیقت قبول کرنا بہت مشکل تھا اور اس ایک سال میں اس نے یہ کام بہت ہمت سے کیا تھا کافی حد تک وہ زندگی کے سچ کو قبول کر چکی تھی ۔مگر اب بھی ایک بے نام سی جھجھک آڑے آ جاتی جس کو ختم کرنے کی ہائیسم جلیس عالم اور فضا نے بھرپور کوشش کی تھی ۔۔۔
” یہ لیں آپ کی چائے ۔ چینی نہیں ڈالی میں نے ۔۔”
نرمی سے کہتی دوسرے کاونٹر پر دونوں کپ اور فرائیز کی پلیٹ رکھ کر کرسی پر بیٹھ گئی دوسری کرسی پر عالم بیٹھ کر چائے پینے لگے ۔۔
” فضا جیسی بنی ہی بالکل ۔”
ان کا اشارہ چائے کی جانب تھا ۔۔روفہ ہنس دی ۔۔
” تعریف کا انوکھا انداز ہے ۔”
عالم کندھے اچکا کر خوش دلی سے مسکرا دیئے ۔۔روفہ کو اپنے ماں باپ کی محبت کا اندازہ اس ایک سال میں بڑی اچھے سے ہو گیا تھا ۔۔
” جلیس نالائیق نے تو اب اپنی مرضی کر لی ہے ۔میں نے کیا کچھ سوچ لیا تھا تم دونوں کو لے کر میرے ارمانوں پر بالٹی بھر پانی گرا دی اس گدھے نے ۔۔”
وہ ابھی تک جلیس کی حرکت سے کچھ کچھ خفا تھے البتہ فضا کو کوئی خاص اعتراض نا تھا ۔۔۔
” بابا وہ کوئی بچہ نہیں ہے اس نے سوچ سمجھ کر یہ سب کیا ہو گا ۔جب زندگی اس نے گزارنی ہے تو آپ کا اس معاملے میں اعتراض کرنا نہیں بنتا ۔”
روفہ صاف گوئی سے بولی ۔۔عالم نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر اس کو غور سے دیکھا ۔۔وہ کافی حد تک فضا سے مشاہبت رکھتی تھی ۔۔
” تم خود ہی کوئی لڑکا پسند کر لیتی تو مجھے اب اتنی فکر نا ہوتی ویسے تو اب کافی رشتے بھی آنے لگے ہیں آپ کے ۔۔ہر دن کوئی نا کوئی دفتر میں یا گھر میں آیا ہوتا ہے ۔۔”
روفہ نے ان کی بات پر آنکھیں سکیڑ کر ان کو تعجب سے دیکھا ۔۔
” آپ شاید پہلے والد محترم ہیں جو بیٹی کو خود سے لڑکا پسند کرنے کا کہہ رہے ہیں ۔۔کچھ زیادہ ہی لبریل نہیں ہوگئے ۔۔اب اولاد پر اتنا بھی اندھا اعتماد اچھا نہیں ہوتا ۔”
عالم نے اس کی سنجیدگی دیکھ کر گہری سانس بھری وہ عمر کے لحاظ سے کافی میچور اور سمجھدار تھی اس بات کا اندازہ ان کو اچھے سے تھا ۔۔
” اعتماد تو اس پر ہی کیا جاتا ہے جو اس قابل ہو ۔مجھے گھر کے کسی بھی لڑکے پر اتنا اعتبار نہیں ہے جتنا آپ پر ہے ۔۔اندازہ ہے مجھے رمشا نے کتنی سٹرونگ پرسنیلٹی آپ کے اندر ڈیویلپ کی ہے ویسے میں نے ایک فیصلہ کیا ہے آپ کے لیے امید ہے جلیس کے پرپوزل کی طرح اس پر بھی آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔”
اس نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔فرائز وہ کھا چکی تھی اب چائے کے گھونٹ بھر رہی تھی ۔۔
” شخصیت میں پختگی حالات نے پیدا کی ہے تربیت نے نہیں البتہ تربیت کی بنیاد ضرور اعلی اقدار پر تھی ۔۔اور آپ کہیں جو کہنا ہے ۔۔”
عالم اس کے الفاظ میں الجھ کر بات کرنے کو گلا کھنگارنے لگے ۔۔۔
” روفہ میرا ارادہ ہے کہ جلیس کے ولیمے کے ساتھ آپ کی شادی فودیل سے کر دی جائے ۔۔فضا بھی میری رائے سے متفق ہیں مگر آپ کی مرضی جاننی ہے ۔”
چائے کا گھونٹ پڑی مشکل سے وہ حلق سے اتار پائی تھی ۔۔پھر کتنے ہی پل وہ بس ان کو دیکھ کر رہ گئی ۔عالم کو اس کے چہرے پر پریشانی صاف نظر آرہی تھی ۔۔جس سے ان کا ماتھا ٹھنکا ۔۔۔
” آپ نے یقینا فودیل زکی کا ہی نام میرے سامنے رکھا ہے ۔مگر افسوس کے ساتھ وہ مجھے ناپسند کرتا ہے ”
اپنے لفظوں پر زور دے کر ٹھہر ٹھہر کر بولی ۔۔۔
” آپ کو کس نے کہہ دیا ۔۔وہ ناپسند تو نہیں کرتا ۔۔وہ بھلا ایسے کیوں کرے گا ”
وہ الجھن سے ماتھے ہر شکن لیئے روفہ سے بولے ۔۔روفہ نے اپنے ماتھے پر خارش کر کے دونوں ہاتھوں کو ٹیبل پر آپس میں الجھا کر ان کی طرف دیکھا ۔۔
” کہنا ضروری نہیں ہے ۔۔ یہ بات میں جانتی ہوں ۔۔اگر آپ کو یقین نہیں تو اس سے براہ راست پوچھ لیں ۔۔”
” مجھے نہیں لگتا بیٹا ایسا کچھ ہے ۔۔میں نے تو آپ کو کبھی ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے یا لڑتے ہوئے بھی نہیں دیکھا اس ایک سال میں ۔۔”
وہ ماننے کو تیار نا تھے ۔۔یہ واقع لمحائے فکریہ تھا فودیل ایک آخری راستہ تھا روفہ کو ہمیشہ کے لیے اس گھر میں رکھنے کا جلیس نے تو مایوس ہی کیا تھا ۔۔
” یہ ہی تو ۔۔۔یہ ہی تو کہنا چاہ رہی ہوں وہ مجھ سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتا ۔پہلے دن سے میرا وجود اس کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔۔شاید آپ بھول گئے ہیں شروع کے دنوں میں وہ کیسے مجھ پر طنز کرتا تھا ہر وقت میرے خلاف دوسروں کے کانوں میں سرگوشیاں کرتا رہتا تھا ۔۔بھلا ایک ایسے مرد کے ساتھ میں کیسے ساری زندگی گزار دوں جو مجھ پر کزن ہونے کی حیثیت سے بھی اپنے الفاظ تک ضائع نا کرنا چاہتا ہو ۔۔”
وہ جیسے اپنا موقف ان کو پہچانے میں کامیاب ہوئی تھی مگر یہ بات عالم کو مزید پریشان کر گئی ۔۔۔
” ہم لوگ آپ کو اس گھر سے دور نہیں بھیجنا چاہتے ۔۔جلیس اگر یہ حرکت نا کرتا تو ہم تو بالکل بے فکر ہوجاتے آپ کو لے کر ۔۔مگر اب فودیل ہی آخری آپشن ہے ۔۔فضا آپ کا رشتہ کہیں باہر کرنے پر کبھی نہیں مانے گی ۔۔بالکہ وہ کیا میں خود بھی ایسا نہیں چاہتا ۔۔روفہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو ۔۔”
روفہ نے کرسی سے ٹیک لگا کر خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا ۔ان کی پریشانی وہ اچھے سے سمجھتی تھی ۔۔بیس سال بعد اولاد کو پاکر وہ کبھی بھی اس کو دور نا بھیجتے ۔۔
” دیکھیں بابا میں ایک ضدی نافرمان اولاد ہرگز بھی نہیں ہوں میں ان لوگوں میں سے ہوں جو زندگی کے بڑے فیصلے بڑوں پر چھوڑ کر جیتے ہیں ۔۔شادی کو لے کر میری کوئی فینٹسی نہیں ہے ۔۔یہ سب خرافات سوچنے کو نا تو میرے پاس وقت ہے نا ہی میں نے کبھی ضروری سمجھا ۔۔حقیقت میں جینا ہی میرا اصول ہے ۔۔اور اصول پرست ہونا ہی میری پہچان ہے ۔میری آپ جس سے بھی شادی کریں گے مجھے کوئی بھی اعتراض نہیں ہوگا ۔۔کوئی بھی نہیں۔۔جلیس کو بھی آپ نے چنا تھا فودیل کو بھی آپ نے ہی ترجیح دی ۔۔
آپ کو جو بہتر لگے آپ کر سکتے ہیں ۔مگر میں چاہوں گی کہ ایک بار آپ فودیل کی بھی رضا مندی پوچھ لیں ۔۔”
روفہ کی حقیقت پسندی انہیں معترف کر گئی ۔۔ایسی لڑکیاں آج کل میں انہوں نے بہت کم دیکھیں تھیں جو اس قدر اصولوں کی قائیل ہوں۔۔۔
” آپ واقعی ایک بہترین اولاد ہو اور مستقبل قریب میں ایک بہترین ورکنگ وومن کے ساتھ بیوی اور ایک بہترین ماں ثابت ہوگی ۔۔”
عالم کی پیشن گوئی پر اس نے آبرو اچکا کر داد دینے والے انداز میں سر خم کیا ۔۔۔
” دیکھتے ہیں مجھے آپ کی پیشن گوئی کے سچ ہونے کا اتنظار رہے گا ۔۔”
عالم اس کا ماتھا چوم کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔
” اب چل کر سو جاو ۔۔اتنی دیر رات تک مت پڑھا کرو۔۔باقی میں فودیل کی راضامندی جان کر آج یا کل کوئی فیصلہ لے لوں گا ۔۔”
روفہ نے کپ کے کناروں پر انگلی پھیرتے ہوئے ان کو جاتے ہوئے دیکھا ۔۔ زندگی میں مزید ایک اور تبدیلی اس کی منتظر تھی ۔۔۔
چاچو کے فیصلے پر وہ کتنی ہی دیر کنگ سا انہیں دیکھے گیا۔۔
” اگر تو یہ مذاق تھا تو بہت ہی کوئی برا تھا ۔۔آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں ۔۔”
دبے دبے سے لہجے میں اس نے اعتراض کیا ۔کتنی مشکل سے اس نے ضبط کیا تھا یہ وہ ہی جاتنا تھا ۔۔
” کیوں کیا کمی ہے میری بیٹی میں ۔۔کیا شکل و صورت کی بری ہے یا پڑھی لکھی نہیں ہے ۔بدتمیز ہے یا پھر اخلاقیات سے گری ہوئی ہے کوئی ایک اعتراض بتا دو مجھے میں یہ بات ابھی ختم کردوں گا کبھی روفہ کا نام تک سننا نہیں پڑے گا تمہیں ۔۔”
بیٹی کا معاملہ تھا اور اپنا سگا بھتیجا ان کی اکلوتی بیٹی کو ریجیکٹ کر رہا تھا ۔۔لہجہ خود بخود سخت ہوگیا تھا فودیل نے عضے سے لب بھینج لیئے ۔۔
” چاچو گستاخی معاف آپ کی بیٹی کے لیئے لڑکوں کی سیل نہیں لگی ہوئی کہ جلیس نامی سوٹ کسی اور گاہک کو پسند آگیا تو کوئی بات نہیں فودیل نامی سوٹ تو ہے نا اس پر ہی صبر شکر کر لو ۔۔پوری زندگی کا معاملہ ہے یار چاچو ۔خود غرض نا بنیں صرف اپنی اولاد کا سوچ رہے ہیں ”
اس کے شکوے پر عالم نے افسوس اور دکھ سے فودیل کو دیکھا ۔۔آخر کیا نہیں کیا تھا انہوں نے ان دونوں بھائی بہن کے لیے اب اپنی اتنی قابل بیٹی اس کو سونپنا چاہتے تھے اور وہ کتنے دھڑلے سے منہ پر انکار کر رہا تھا ۔۔
” یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے فودیل ”
سپاٹ سے انداز میں بول کر عالم نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں ۔۔اگر مجبوری نا ہوتی تو کبھی فودیل جیسے ضدی اپنی دھن میں رہنے والے کو اپنی بیٹی دینے کا نا سوچتے ۔۔
” مجھے آپ کی بیٹی جیسی احساس سے عاری لڑکی نہیں پسند ۔۔مجھے اس میں کچھ بھی نہیں پسند اس کا مغرور انداز کھمنڈی لہجہ خود کو کوئی توپ چیز سمجھنے والا رویہ کچھ بھی نہیں پسند ۔۔جو لڑکی اپنے ماں باپ کی موت پر نا روئے اس سے کیا توقع رکھوں میں ۔۔مجھے دنیا سے قدم سے قدم ملا کر وقت کے دھارے کے ساتھ چلنے والی لڑکی چائیے چاچو۔۔چار گز کی چادر اوڑھ کر دقیہ نوسی ایک غریب محلے سے آئی لڑکی نہیں ۔۔۔۔”
ضبط سے عالم کا سرخ پڑتا چہرہ اس کی نظروں سے مخفی نہیں تھا ۔۔مگر آج وہ یہ موقع گنوا کر خود کو روفہ نامی بلا کے لیے ہرگز بھی قربان نہیں کر سکتا تھا ۔۔
” اچھا تو ایسی بات ہے ۔۔ٹھیک ہے پھر اب تو بات یہاں ختم نہیں ہوگی بیٹے ۔۔”
عالم نے طنزیہ ذومعنی لہجہ اپنایہ فودیل نے ٹھٹھک کر ان کر جانب نگاہ کی وہ کچھ سمجھ نا پایا تھا ۔۔
” تمہیں میری بیٹی سے شادی کرنی ہے فودیل اس کو تم اب میری گزارش نہیں حکم سمجھو ۔۔چار گز کی چارد اوڑھنے والی ایک غریب گھر میں پرورش پالنے والی مغرور کھمنڈی ہی تمہاری بیوی بنے گی ۔۔۔”
ان کا لہجہ کسی بھی احساس سے عاری مگر دو ٹوک تھا ۔فودیل ایک دم ہنس دیا ۔۔۔
” میں کوئی لڑکی نہیں ہوں جس کو آپ مجبور کر لیں گے ۔میں نا تو آپ کی کسی بھی دھمکی میں آنے والے ہوں نا ہی کسی جذباتی پن کی مجھ سے امید رکھئیے گا میں یہ گھر ہی چھوڑتا ہوں آپ کو اپنی بیٹی مبارک۔۔”
سر جھٹک کر صوفے سے اٹھ کر سٹڈی سے اٹھ کر جانے لگا آج زندگی میں پہلی بار چاچو سے اس انداز میں بات کی تھی مگر اسے کوئی افسوس نا ہوا تھا ۔۔اپنے احسانوں کے بدلے وہ بھاری قیمت چکانے کو بول رہے تھے ۔۔۔
” ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی فودیل بیٹا جی ۔۔ترتیل تمہاری عزیزجان بہن ۔۔۔شاید تم جانتے نہیں ہو اس کے بیس برس کے ہونے تک اس کے تمام اختیارات مجھے حاصل ہیں اس کی جائیداد سے لے زندگی کے ہر فیصلے تک کے ۔۔مرنے سے پہلے یہ کام تمہاری ماں نے کر دیا تھا تم شاید بھول رہے ہو ۔۔تمہیں جانا ہے تو جاو وہ کہیں بھی نہیں جائے گی ۔اور اگر اس دوران میں نے اس کی شادی اپنے پسند کے انسان سے کردی تو ظاہری بات ہے وہ انسان تو پھر اس کے کل اختیارات کا مالک ہوگا ۔۔تو پھر فودیل زکی اپنی بہن کو تو تم بھول جاو ۔۔۔
Now choice is your’s..”
دروازہ کھولتا ہاتھ جہاں تھا وہ ہی جم گیا ۔۔یہ بات وہ کیسے بھول گیا ۔۔اس ہی وجہ سے تو آج تک وہ نانا کے ساتھ نہیں رہا تھا یہاں ہی رہنے کو مجبور تھا ۔۔اور اب ترتیل کی شادی کی بات پر اس کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے ۔۔ابھی ایک ستم پر وہ سنبھلی نا تھی کہ دوسرا سر اٹھائے سامنے آکھڑا ہوا تھا ۔۔۔
” آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے چاچو ۔۔اپنی بہن پر کوئی ظلم برداشت نہیں کروں گا میں ۔اس کو بیچ میں مت گھسیٹیں ۔۔اپنے اختیارات کا آپ غلط استعمال نہیں کر سکتے آپ کو کیا لگتا ہے میں اگر آپ کی بیٹی سے شادی کر بھی لوں تو کیا نبھاوں گا اس بے جوڑ شادی کو۔۔ اگلے ہی دن طلاق دے دوں گا ۔۔۔۔”
وہ پل میں آپے سے باہر ہوا تھا ترتیل اس کی کمزوری تھی جس کا فائیدہ چاچو بڑے ہی غلط انداز میں اٹھا رہے تھے ۔۔
” میں ترتیل کی شادی ہائیسم سے کرنے والا ہوں ۔۔وٹا سٹا ہوگا اب ۔۔تم میری بیٹی کو طلاق دو گے تو بہن کو بھی مطلعقہ دیکھنے کے لیے تیار رہنا ۔۔میں نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں بیٹا جی ۔۔۔جو سلوک تم میری بیٹی کے ساتھ کرو گے وہ ہی تمہاری بہن کے ساتھ ہوگا یاد رکھنا ۔۔۔”
مٹھیاں بھینجے وہ گہرے گہرے سانس لے کر خود پر قابو پانے کی ناکام سی کوشش کرنے لگا مگر ساتھ پڑا گلدان پوری قوت سے دیوار پر دے مارا ۔۔عالم خاموشی سے اس کی کاروائی دیکھنے لگے ۔۔۔
” آپ ایک لڑکی کے لیے مزید تین زندگیاں برباد کر رہے ہیں ۔یہ آپ بہت زیادتی کر رہے ہیں ۔۔اپنی سیاست رشتوں کے معاملے میں مت کھیلیں ۔بخدا صرف خسارہ ہوگا اور کچھ نہیں ۔۔اور جانتے ہیں سب سے زیادہ اس کا ہی ہوگا جس کے لیے اتنی بڑی گیم کھیلی ہے آپ نے ۔۔”
عالم نے سگار کا ایک کش لے کر پرسکون انداز میں اس کو دیکھا جس کا بس چلتا تو ابھی سارا گھر تہس نہس کر دیتا ۔۔
” تم اس چیز کی فکر مت کرو صرف اپنی اور اپنی بہن کی فکر کرو۔۔۔اگلے ہفتے کے جمعے کو دونوں جوڑیوں کی مہندی کے ساتھ نکاح ہوگا ۔۔گھر کی شادیاں ہیں اس لیے میں نے خود ہی تاریخ طے کرلی ۔۔اپنی بہن کو بتا دینا اپنے بچوں کو میں خود بتا دوں گا ۔۔جاتے ہوئے دراوزے بند کرجانا ۔۔”
ٹھاہ کی دھمک کے ساتھ درازہ بند ہوا تھا ۔۔عالم نے اس کی بدتمیزی پر خود کو بڑی مشکل سے روک رکھا تھا ۔فودیل نے آج بہت ہی دل برداشتہ کیا تھا ۔۔۔
لکڑی کے موتی جڑے قیمتی ڈبے میں ہائیسم کب سے نظریں جمائے سٹڈی ٹیبل پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔ترتیل کے کٹے بال جو وہ بے دردی سے کاٹ کر پھینک چکی تھی ۔۔ان کو کسی اثاثے کی طرح اس ڈبے میں محفوظ کر لیا گیا تھا ۔۔
ان بالوں کی نرماہٹ وہ اپنے انگلیوں کی پوروں پر محسوس کر کے مسرور ہو رہا تھا ۔۔
” بہت چاہتے ہونا اس کو ۔۔اس کے کٹے بالوں سے بھی محبت ہے آپ کو ”
روفہ کی آواز سن کر اس کی محویت ٹوٹی تھی ۔۔وہ دونوں بھائی بہن اب اکثر ہی رات کو ایک دوسرے کے کمرے میں جاکر یہاں وہاں کی باتیں کرکے سوتے تھے ایک سال سے یہ عادت کافی پختہ ہوگئی تھی ۔۔
” ہممم بے تحاشہ ۔۔۔”
مختصر جواب پر روفہ مسکرا دی ۔۔۔جانے کیوں اس پل روفہ کو ترتیل پر رشک سا محسوس ہوا ۔۔
” مجھے سمجھ نہیں آرہی آخر ہم دونوں کی شادی کی ماما بابا کو اتنی جلدی کیوں ہے ۔ترتیل اپنی جگہ راضی نہیں ہورہی جبکہ کارڈز بھی چھپ کر آنے والے ہیں اور فودیل کو بھی پتا نہیں بابا نے کون سی بوٹی سنگھا کر منایا ہے کچھ پلے نہیں پڑ رہا ”
ہائیسم کو وہ سخت الجھی پشیمان سی لگی ۔۔
” ترتیل کو کیسے منانا ہے میں اچھی طرح جانتا ہوں ۔اس کے بھائی نے کافی بگاڑ دیا ہے اس کو ایک بار شادی ہو جانے دو اچھی طرح سیدھا کر لوں گا ۔۔کل وہ خود اپنی رضامندی کا اظہار سب کے سامنے کرے گی ۔۔”
روفہ نے صوفے پر بیٹھ کر گال کے نیچے ہاتھ رکھ کر کچھ سمجھ کر معنی خیزی سے سر ہلایا ۔۔یائیسم نے بے پرواہی سے کندھے اچکا دئیے ۔۔
” زیادہ ہیرو پنتی مت دکھانا ۔۔یہ نا ہوں معاملہ مزید خراب کر لو۔باقی آل دی بیسٹ ۔۔میں خوش کہ آخر آپ کو آپ کی محبت مل جائے گی ۔۔اور اس بات کا یقین بھی ہے کہ جلیس کو پوری طرح بھولنے پر آپ اسے مجبور کر دوگے ۔امید ہے کل آپ اس پر ترس کھا کر شادی کرنے والی غلط فہمی بھی دور کردو گے ۔۔”
چشمے کو ناک پر سیدھا کر کے نرمی سے بولی ۔۔روفہ کو دیکھ کر ہائیسم کو بہت فخر سا محسوس ہوتا تھا ۔۔اس کے کردار کی مضبوطی شخصیت کا اعتماد اور پھر ذہانت جس کی بناہ پر وہ بورڈ تو کیا پچھلے سیمیسٹر میں ٹاپ بھی کر چکی تھی یہ سب باتیں ان کے خاندان کی کسی لڑکی میں نا تھی ۔۔۔دوسروں کی طرح نازک مزاجی اس کی طبیعت کا خاصا تو تھا ہی نہیں شاید حالات نے کافی ضربیں لگا کر اس کو بے حد مضبوط بنا دیا تھا ۔۔
” انشااللہ ۔۔۔”
بے ساختہ ہی اس کے منہ سے نکلا ۔۔اپنی بہن اس کو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید عزیز ہوتی جارہی تھی ۔۔