اچانک ایسا ہوا جیسے گھر میں کوئی طوفان آ گیا ہو۔ گھر کے تمام افراد طوفان کے گزر جانے کے بعد سناٹے کی طرح خاموش تھے۔ معلوم ہوتا تھا جیسے ہر فرد لرز کر رہ گیا ہے۔ ابّا شیر کی طرح گرجے تھے اور اس گرج میں آسمان سے ایسی بجلی گری کہ گھر کی خوشیاں جھلستی ہوئی معلوم ہوئیں۔ بات صرف اتنی تھی کہ شاہانہ کی محبت کا راز افشاں ہو گیا تھا۔ بدنامی کے خوف سے کسی کے منہ سے اُف تک نہیں نکل رہی تھی۔ بوڑھے دادا دادی تک کو خاندان میں اپنی بنائی ہوئی عزت داغدار ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی تھی۔ ہر ایک کے لئے یہ حکم تھا کہ اپنی زبانوں پر قفل لگائیں۔ بات کھڑکی دروازوں تک سے باہر نہ جائے۔ لڑکی کی رسوائی پر خاندان کی زندگی بھر کی رسوائی منحصر ہوتی ہے۔ اچانک لگنے لگا تھا کہ بیس سال کی شاہانہ بہت بڑی ہو گئی ہے۔ ابھی تک تو کسی نے اس کی شادی کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کی تو تعلیم بھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ اس سے بڑی بڑی لڑکیاں خاندان میں ابھی کنواری بیٹھی تھیں۔ دادی جو پُرانے معاشرے کی پروردہ تھیں اور اکثر کہتی تھیں کہ بیس سال کی عمر میں تو میں دو بچّوں کی ماں بن گئی تھی۔ وہ بھی نئے زمانے کے ساتھ ہم آواز تھیں کہ تعلیم مکمل ہونے اور شعور اچھی طرح بالغ ہونے کے بعد ہی لڑکیوں کی شادی ہونی چاہئے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد انھیں بھی شاہانہ کی شادی کی فکر لاحق ہو گئی اور بہو سے کہنے لگیں:
’’دلہن اب تو کوئی بھی اچھا رشتہ آئے تو اس کے ہاتھ پیلے کر دو۔‘‘
’’ہاں امّی! لیکن آئے تو سہی۔ ابھی تو اس بارے میں سوچا بھی نہیں تھا، اب پتہ تو تھا نہیں کہ اندر ہی اندر کیا چل رہا ہے۔‘‘
’’اے میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ لڑکیوں کو برقع پہناؤ۔ لیکن میری کون سنتا ہے۔ لڑکیاں ہیں کہ اُڑنکا۔ سر کھولے، بال بکھرے، پینٹیں پہنے، لڑکوں کی طرح بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں۔ نہ جانے کا وقت پتہ، نہ آنے کا‘‘
دادی کو پورا موقع مل گیا تھا اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا۔
’’ابّا کو تو بس کمانے کی لت لگی ہے، اولاد کیا گل کھلا رہی ہے کچھ پتہ نہیں۔ ہمارے زمانے میں تو لڑکیوں کو زور سے بولنے بھی نہیں دیا جاتا تھا کہ غیر مرد آواز سنیں گے۔‘‘
’’ارے امّی آپ کا زمانہ اور تھا اب تو لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھتے ہیں۔ کہاں تک روکیں گے، اور پیسہ بھی تو بچّوں کے لئے ہی کما رہے ہیں۔‘‘
دادی نے موقع کی نزاکت کا لحاظ دیکھتے ہوئے کچھ نرم لہجہ میں کہا:
’’ہاں وہ تو ٹھیک ہے۔ پیسہ بچّوں کے لئے تو ہے لیکن زیادہ پیسہ بچّوں کو بگاڑ بھی تو دیتا ہے۔ اب دیکھو علی خاں کے ذرا ذرا سے بچّے شراب تک پینے لگے۔ کون سا عیب ہے، جو ان میں نہیں ہے۔ پڑھائی کے نام پر صفر۔ بس باپ نے دولت کمالی۔ بڑے آدمی بن گئے۔ بڑی بڑی گاڑیاں لے لیں۔ جب تک منہ بند رہتا ہے۔ ٹھیک۔ منہ کھولیں تو جہالت کا پتہ چل جاتا ہے۔ دولت سے ذات نہیں بدلتی کسی کی۔‘‘
شاہانہ کی ماں کا ساس سے الجھنے کا بالکل ارادہ نہیں تھا۔ اُس نے موضوع بدلتے ہوئے کہا:
’’چھوڑئیے امّی! ہمیں کیا مطلب۔ کوئی کچھ کرے۔ ہمیں تو اپنا گریبان دیکھنا ہے۔ آصف تو بہت پریشان ہیں۔ وہ تو شاہانہ سے بات بھی نہیں کر رہے۔‘‘
دادی بیٹے کی پریشانی سن کر متفکر ہوئیں۔
’’نہیں دلہن۔ تم اُسے سمجھاؤ۔ اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ صحیح وقت پر پتہ چل گیا۔ کچھ اونچ نیچ ہو جاتی تو منہ دکھانے لائق نہیں رہتے۔‘‘
’’ہاں امّی! اللہ نے خیر کر دی۔ خاندان تو اس لڑکے کا بُرا نہیں ہے۔ لیکن گھر کا ماحول۔ اور خود لڑکا۔ اللہ توبہ۔ دسویں پاس بھی نہیں ہے شاید۔ اس سے بہتر ہے۔ گلا گھونٹ دوں لڑکی کا۔‘‘
دادی ریحانہ بہو کا درد سمجھ رہی تھیں۔ خود بھی پریشان تھیں۔ بات ہی کچھ ایسی تھی کہ جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ کسی عزیز و قریب سے کہہ کر دُکھ کم بھی نہیں کر سکتے تھے۔ وہ سب تو اس بات سے مطمئن اور کسی حد تک خوش بھی تھے کہ شاہانہ نے خاموشی تو اختیار کی تھی لیکن احتجاج یا باغیانہ تیور نہیں اپنایا تھا۔ ریحانہ کو اُمید تھی کہ آہستہ آہستہ سب بھُول جائے گی۔ وہ ہر طرح سے اس کی دلجوئی کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔ شاہانہ کی ہر بات کا پہلے سے زیادہ خیال رکھتی تھی۔ اُسے خوف تھا کہ ہمارے سخت رویے سے محبت کی دبی ہوئی چنگاری دوبارہ نہ بھڑک جائے۔ وہ جانتی تھی کہ یہ چنگاری آسانی سے بجھتی نہیں۔
اب ریحانہ ہر چھوٹی بڑی تقریب میں شاہانہ کو اپنے ساتھ لے جاتی تھی، تاکہ سب اُسے دیکھیں اور کہیں سے اچھی پیشکش آ جائے۔ اُن کی فکریں دن بدن بڑھتی جا رہی تھیں۔ اب ریحانہ کو شاہانہ کی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار نہیں تھا لیکن وہ جلد بازی میں یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ تمام عمر پچھتانا پڑے۔ وقت گزرتا گیا۔ جو رشتے آئے وہ کسی نہ کسی وجہ سے ناپسند کئے جاتے رہے اور جن لڑکوں کو انھوں نے پسند کیا وہاں شاہانہ کو کسی نہ کسی وجہ سے لڑکے والوں نے قبول نہیں کیا۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہو رہا تھا۔ قسمت کیا چاہتی تھی۔ آصف اور ریحانہ کی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جا رہی تھیں۔
بیٹے کی خاموشی دیکھ کر دادا اور دادی اور بھی زیادہ بوڑھے لگنے لگے تھے، وہ اکثر آصف سے کہتے تھے:
’’بیٹا تمہارے پریشان ہونے سے مسئلہ حل تو نہیں ہو جائے گا۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ تم نے بچّوں کی فکر میں اپنی جان کو بیماریاں لگا لی ہیں۔ اس عمر میں ہم نے کبھی اتنی دوائیں نہیں کھائیں، جتنی تم کھا رہے ہو۔ تم اتنا کماتے ہو لیکن کھاتے کتنا سا ہو۔ تمہیں اگر کچھ ہو گیا تو ان بچّوں کو کون دیکھے گا۔‘‘
باپ کے سمجھانے پر آصف خود مجبور باپ کی طرح کہتا:
’’لیکن ابّا اب میں کیا کروں۔ سوچتا ہوں، زہر دے دوں اس لڑکی کو اور خود بھی کھا لوں‘‘
بیٹے کی بے بسی پر باپ دلاسا دیتا:
’’پھر اس کے بعد۔ صحیح بات مت سوچنا۔ ارے دعا کرو۔ انشا اللہ سب بہتر ہو گا۔‘‘
’’لیکن کب تک۔ میں تو پریشان ہو گیا۔ کسی میں کوئی کمی۔ کسی میں کوئی کمی۔ کبھی کبھی تو سوچتا ہوں، اُسی لڑکے کو ڈھونڈ کر اُسی سے شادی کر دوں۔‘‘
آصف کی اس بات پر سب چونک پڑے۔ ریحانہ ساس سسر کی طرف دیکھنے لگی۔ دونوں خاموش تھے۔ انھیں یاد تھا کہ انھوں نے اپنی لڑکیوں کے رشتوں کے لئے کتنے سمجھوتے کئے تھے اور انھیں لڑکیوں کی سعادت مندی بھی یاد تھی کہ ان کے فیصلوں پر کسی نے اُف نہیں کی تھی۔ سب کو خاموش دیکھ کر ریحانہ بول اٹھی:
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ تھوک کے نہیں چاٹا جاتا۔‘‘
’’تو پھر یونہی لئے بیٹھی رہو۔‘‘ آصف جھنجھلا گیا۔
’’کوئی بات نہیں دو روٹی ہم پر بھاری نہیں ہیں۔‘‘
باتوں میں تلخی پیدا ہونے لگی تھی کہ دروازے کی گھنٹی نے سب کو چونکا دیا۔ تابش نے دروازہ کھولا، وہی لڑکا جس سے شاہانہ نے محبت کی تھی، دروازے پر کسی کے ساتھ کھڑا تھا۔
آصف یہ پوچھتا ہوا کہ کون ہے؟ دروازے پر آیا، لڑکے نے سلام کیا:
’’انکل! میں، رمیز۔ اور یہ میری مسز ڈاکٹر نوشین۔‘‘
’’کیا ہم شاہانہ سے مل سکتے ہیں؟‘‘
اچانک تمام روشنیاں بند ہو گئیں۔ سنّاٹا اور گہرا ہو گیا۔
٭٭٭