موبائل سائیڈ میں رکھ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا۔ دو تین دفعہ موبائل مزید بجا پھر خاموش ہوگیا۔ بسمہ کی دھڑکن بہت بڑھی ہوئی تھی اور چہرے پہ آجانے والی مسکراہٹ اب اس سے کنٹرول نہیں ہورہی تھی۔
اور پھر آہستہ آہستہ باسط کے میسجز مزید شوخ ہوتے چلے گئے۔ کہیں کہیں پہ وہ صرف شوخ نہیں ہوتے بلکہ بسمہ کو لگتا کہ کافی فحش ہیں مگر وہ منع بھی کرتی تھی تو باسط مذاق میں بات اڑا دیتا۔ زیادہ سختی سے وہ کچھ کہہ بھی نہیں پاتی تھی۔ ورنہ باسط ناراض ہوجاتا تھا ایک دو دفعہ اس نے کہہ بھی دیا کہ یار تمہیں میری باتیں اتنی بری لگتی ہیں تو ہم نہیں کرتے بات۔ تم سے ایک بات برداشت نہیں ہوتی زندگی بھر مجھے کیسے برداشت کرو گی۔
پتا نہیں یہ دھمکی ہی ہوتی تھی یا نہیں مگر بسمہ کو دھمکی ہی لگتی تھی۔ پھر وہ بھی عادی ہوتی چلی گئی۔ زیادہ عجیب تب ہوا جب ایک دو بار اسماء آپی نے بغیر پوچھے اس کا موبائل دیکھا بھی اور کچھ ایسے ویسے ٹائپ کے جوک اس سے پوچھے بغیر اپنے نمبر پہ فارورڈ بھی کر لیئے۔ وہ دیکھتی رہ گئی اس کا خیال تھا کہ گھر میں کوئی ہنگامہ وغیرہ ہوگا کہ بسمہ منگیتر سے اس قسم کی باتیں کرتی ہے مگرباتوں باتوں میں اسماء آپی ایک دن کہہ گئیں
“یار بسمہ تیرے منگیتر کا سینس آف ہیومر اچھاہے شکر کر میرے میاں کی طرح بورنگ نہیں ہےوہ”۔
اس سے پتا نہیں آپی کی کیا مراد تھی مگر اسے اچھا نہیں لگا۔ اب اسے شادی شدہ خواتین کی محفل میں بیٹھنے کی بھی اجازت مل گئی تھی اور جو باتیں بڑی روانی سے یہاں کی جاتیں باسط کے میسجز اسے ان کے مقابلے میں تمیزدار لگتے تھے۔ کبھی کبھی تو وہ خود سٹپٹا کے کمرے سے نکل جاتی جتنی ذاتی باتیں بہت آرام سے زیر بحث ہوتیں۔ اور پھر وہ ان باتوں کی بھی عادی ہوتی چلی گئی۔ وقت گزرتا جارہا تھا شادی کی تاریخ بھی قریب آرہی تھی۔ باسط چاہ رہا تھا کہ شادی کا سوٹ اور کمرے کا فرنیچر پسند کرنے کے لیئے وہ اور بسمہ ساتھ جائیں اور بسمہ کا خون خشک ہورہا تھا یہ سوچ سوچ کر کہ بھیا تو جائیں گے ہی ان کے سامنے وہ بول ہی کیا سکے گی۔
پہلے تو باسط ڈائریکٹ اصرار کرتا رہا پھر ایک دن اس کی بہنیں اور دو بھابھیاں آگئیں اجازت لینے، اس وقت تو امی نے کہا ہم گھر کے مردوں سے پوچھ کے بتائیں گے مگر ویسے سب راضی تھے بس دادی کو منانا تھا۔ دادی کی بھی سب سے مضبوط دلیل یہی تھی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اور ہمیشہ کی طرح امی کی مرضی ہی فیصلہ ٹہری۔ مگر نہیں ہمیشہ کی طرح نہیں بسمہ کو یاد ہے جب وہ چھوٹی تھی اور دادی اتنی کمزور نہیں ہوئی تھیں، بھیا بھی اسکول میں تھے تب دادی کی کہی ہوئی بات پتھر پہ لکیر ہوتی تھی۔امی کے لیئے اس سے الگ کوئی فیصلہ کرنا تو دور کی بات اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی ممنوع تھاتب تک دادا زندہ تھے گھر دادا کے نام تھا۔ دادا کے انتقال کے بعد ابو نے تھوڑابہت جو جو بھی دونوں بھائیوں کا حصہ بنتا تھا وہ دے کر اور بہن سے حصہ معاف کروا کر گھر اپنے نام کروالیا تھا۔ دونوں بھائی ویسے ہی کافی عرصہ پہلے الگ گھر لے چکے تھے۔اس کے بعد سے ہی کب یہ فیصلے کا اختیار دادی سے امی کے ہاتھ میں آیا بسمہ کو پتا نہیں چلا۔ بس کبھی کبھار امی کو کہتے سنتی کہ اماں کو غنیمت سمجھنا چاہیئے کہ انہیں ہم نے ساتھ رکھا ہوا ہے ورنہ نبھا کے تو انہوں نے کسی بہو سے نہیں رکھی۔ یہ بات براہ راست دادی کو کبھی نہیں کہی گئی مگر اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا کہ وہ سن نا لیں۔ ایک ہی کمرے میں تو وہ اور دادی رہتے تھے۔ اس نے کئی بار باہر امی کو یہ کہتے سنا اور دادی ساتھ بیٹھی ہوتیں۔ ان کے چہرے کی تاریکی بسمہ کو اداس کرجاتی تھی۔ مگر اسے حیرت اس بات پہ ہوتی کہ اس کے باوجود دادی کے لیئے سسرال کا یہ چلن ٹھیک تھا اور ایسے ہی چلتا آیا ہے اور چلے گا۔ وہ اپنے اس چلن کو بھگت رہی تھیں مگر اپنے خیالات میں تبدیلی پہ تیار نہیں تھیں۔ سسرال میں نبھانے کے طریقے بتاتے ہوئے وہ ان کی دادی نہیں بلکہ ماں کی ساس کی حیثیت سے مشورے دیتی تھیں۔ جن میں سرفہرست سسرال میں چپ چاپ خدمت کرنے کی تلقین ہوتی۔ اس سے بھی حیرت کی بات یہ کہ امی اس نصیحت کی حامی تھیں۔ اور اب دادی کی اسی سوچ کو ان پہ استعمال کیا گیا کہ اسے جن لوگوں کے ساتھ جا کر گزارا کرنا ہے وہی ساتھ شاپنگ کرانا چاہتے ہیں تو ہم منع کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ بقول ابوکے کہ منگنی کر کے ہم نے بیٹی آدھی تو بیاہ دی۔ سسرال کے مسئلے ہیں بہت سوچ سمجھ کے چلنا پڑتا ہے۔
خیر ایک دن باسط کے گھر سے کافی بڑا لشکر آیا اس کی تینوں بہنیں دونوں بھابھیاں بہنوں اور بھائیوں کی بڑی بیٹیاں اور گود والے بچے۔ طے یہ پایا کہ خواتین کی ٹولی بسمہ کو ساتھ لے کر جائے گی اور بھیا جاکر باسط کو شاپنگ کروائیں گے۔ دلہن کے سوٹ کے لیئے کئی دکانیں چھانی گئیں بسمہ خاموش بیٹھی تھی اور جو صلح مشورہ ہورہا تھا وہ باسط کے گھر والوں میں آپس میں ہی ہورہا تھا۔ بڑی دیر کے بعد ایک لمبے کرتے کے ساتھ اسٹائلش سا لہنگا سب کو پسند آیا ڈیزائن وغیرہ تو ٹھیک ہی تھا مگر رنگ بسمہ کو پسند نہیں آیا زیادہ، مگر جب فائنل کر کے اس سے پوچھا گیا تو وہ صرف ہاں میں ہی سر ہلا سکی۔ اب کیا بولتی؟ اتنے میں باسط کی دوسری نمبر کی بھابھی کے پاس باسط کی کال آگئی۔ باسط اور بھیا فرنیچر کی دکان پہ تھے۔ جو یہاں سے آدھا گھنٹہ دور دوسری مارکیٹ میں تھی فورا سب کچھ فائنل کر کرا کے ٹیکسی کی گئی اور سب فرنیچر کی دکان پہ پہنچ گئے۔ بسمہ کچھ حواس باختہ سی ہوگئی تھی۔ باسط اور بھیا ایک ساتھ تھے۔ بھیا کافی جھنجھلائے ہوئے تھے کیونکہ اول تو دکان ہی کافی مہنگے فرنیچر کی تھی پھر یہ بات بھی بسمہ نے سن ہی لی تھی جو پچھلی مارکیٹ سے نکلنے سے پہلے باسط کو کہی گئی تھی کہ ابھی کچھ فائنل نہیں کرنا ہم بس “پانچ منٹ” میں آتے ہیں۔ دکان پہ آتے ہی فرنیچر پسند کرنے کا چارج بڑی بہن اور بھابھی نے سنبھال لیا۔ بقول ان کے کہ کمرا بڑا ہے صرف بیڈ سائیڈ ٹیبلز اور ڈیوائڈر سے تو عجیب لگے گا۔ اور اب وہ کوئی ایسا سیٹ دیکھ رہی تھیں جس سے کمرہ بہتر طور پہ سج سکے۔ باسط کا دھیان اب فرنیچر کی بجائے بسمہ پہ تھا۔ ہر کچھ دیر بعد وہ بسمہ کے کسی سائیڈ پہ آجاتا اور بسمہ سٹپٹا کے ایک دو قدم آگے یا ایک دو قدم پیچھے ہوجاتی۔ ایک جگہ بسمہ کے پیچھے ہونے پہ وہ بھی رک گیا سب آگے نکل گئے۔
“کیا مسئلہ ہے یار تھوڑی دیر میرے ساتھ نہیں چل سکتیں۔ کھا جاوں گا کیا؟” اس نے کافی دھیمی آواز میں کہا تھا مگر پھر بھی بسمہ گھبرا گئی۔
“افف آہستہ بولیں نا بھیا نا سن لیں”
“ارے ریلیکس نا تمہارے بھیا ابھی فرنیچر کے مسئلے میں الجھے ہیں انہیں یاد بھی نہیں ہوگا کہ تم ساتھ ہو۔”
“اتنے بےچین کیوں ہورہے ہیں ایک مہینہ ہی تو رہ گیا ہے بس۔ مل لیتے آرام سے”
“اسی لیئے تو زیادہ بے چین ہوں جیسے جیسے دن قریب آرہے ہیں تمہارے بغیر رہنا مشکل لگ رہا ہے”
“اچھا نا اتنا صبر کرلیا تو اب اور کرلیں” وہ کہہ کر جلدی سے آگے بڑھ گئی۔
آخر کار بڑی مشکل سے باسط کے گھر والوں کو ایک بیڈ روم سیٹ پسند آیا جس میں بیڈ، سائیڈ ٹیبل، ڈیوائیڈراور ڈریسنگ ٹیبل کے علاوہ ایک صوفہ، شوکیس، آئرن اسٹینڈ، بلاوجہ کا لیمپ اور اس کی ٹیبل بھی تھی۔ اور وہ بھی ان کے خیال میں بس ٹھیک تھا۔ فرنیچر کی بکنگ وغیرہ کروا کے وہ لوگ باہر نکل رہے تھے تو سامنے ہی بسمہ کو اپنی ایک کلاس فیلو نظر آگئی وہ قریب کی ایک دکان پہ شاید اپنے گھر والوں کے ساتھ دکان سے باہر رکھے آئیٹمز دیکھ رہی تھی۔ ان سے کچھ دور پانچ چھ لڑکوں کا ایک ٹولا مسلسل ان پہ کمنٹس پاس کررہا تھا۔ لڑکوں کی عمریں پچیس سے تیس کے درمیان ہی تھیں۔ ایک دو فقرے انہوں نے اتنی زور سے اور ایسے کہے کہ سب کی ہی توجہ ان لڑکوں کی طرف گئی۔ باسط کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
“شرم نہیں آتی لوگوں کو بچیوں کو بھی نہیں چھوڑتے”
بسمہ بتانے ہی والی تھی کہ یہ اس کی کلاس فیلو ہے مگر “بچیوں” سن کے وہ سن سی ہوگئی۔
اس نے کچھ بھی بولنے کا ارادہ بدل دیا۔ وہاں سے پھر بھیا اور باسط کسی اور طرف چلے گئے اور خواتین کا ٹولا میچنگ کے جوتے لینے نکل گیا۔ کافی ڈھنڈائی کے بعد جوتے پسند کیئے گئے اور واپسی ہوئی۔ بسمہ چونکی تب جب ایک انجان گھر کے سامنے ٹیکسی رکی اور سب اترنے لگے۔ بڑی باجی اسے ہچکچاتا دیکھ کے بولیں آو کچھ چائے وغیرہ پی کے تھکن اتارتے ہیں تم اپنا کمرہ بھی دیکھ لینا۔ اسے بہت عجیب لگا کہ اس سے ہوچھنا تو الگ بات اسے بتانے کی بھی زحمت نہیں کی گئی کہ اسے سسرال والے گھر لے کے جارہے ہیں۔ کہنے کو یہ کوئی خاص بات نہیں تھی مگر اسے کافی تذلیل محسوس ہوئی کہ اس کی رائے کی کوئی اہمیت ہی نہیں جو جہاں لے جائے بغیر پوچھے؟
سب اندر آگئے ساس اور دیور کافی خوش دلی سے ملے۔ ساس نے فورا صدقے کے پیسے نکالے۔ میری بہو پہلی بار اپنے گھر آئی ہے۔ گاڑی میں محسوس ہونے والی تذلیل کا اثر کچھ کم ہوتا محسوس ہوا۔ سب بسمہ کے اردگرد تھے خاص طور سے بچے چاچو کی دلہن چاچو کی دلہن کرتے ہوئے اردگرد گھوم رہے تھے۔ پھر سب اس کے اردگرد بیٹھ گئے ایک دو بچے اس سے جڑ کے بیٹھے ہوئے تھے اور ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک تو وہ بولتے میں ہی جھجھک رہی تھی ساری باتیں دوسرے ہی کر رہے تھے پھر کوئی بات کرتے کرتے ان بچوں پہ نظر پڑ جاتی تو وہ اور گڑبڑا جاتی۔ باسط کی چھوٹی بھابھی نازیہ کو شاید اندازہ ہوا کہ وہ پرسکون نہیں ہوپارہی تو اس نے اسے وہاں سے اٹھا لیا کہ چلو تمہیں گھر دکھائیں اور کمرہ بھی۔ گھر ٹھیک ہی تھا بس جیسا متوسط طبقے کے گھرانوں کا ہوتا ہے نیچے ساس سسر کا کمرہ بڑے بھائی اور بھاوج کا کمرہ اور بیچ میں تھوڑا بڑا ہال ٹائپ کمرہ جسے لاونج کے طور پہ استعمال کیا جارہا تھا۔ اوپر کے پورشن میں دو ہی کمرے بنے ہوئے تھے اور ایک کونے میں اٹیچ باتھ تھا۔ دونوں کمرے باہر سے ایک جتنے ہی لگ رہے تھے ایک نازیہ بھابھی کا کمرہ تھا دوسرا باسط کا۔ پہلے نازیہ بھابھی نے اپنا کمرہ دکھایا پھر دوسرے کمرے میں لے آئیں یہاں فرش پہ ایک سنگل میٹرس بچھا ہوا تھا اور پرانا سا کارپٹ تھا۔ ایک طرف چھوٹی میز پہ ایک لیپ ٹاپ پڑا تھا۔ ایک کرسی پہ باسط کے کپڑے پڑے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے اس کے دماغ میں اس کمرے کا تصور الگ تھا بلکل سیٹ سجا ہوا۔ مگر پھر خیال آیا کہ فرنیچر تو لیا ہی ابھی ہے۔ مطلب باسط کےکمرے میں پہلے سےفرنیچر ہےہی نہیں؟ اس کے ذہن می پہلی بار خیال آیا کہ باسط کی تنخواہ کیا اتنی کم ہے کہ وہ تھوڑا بہت سامان بھی نہیں لے پایا کمرے کے لیئے۔ شادی کے بعد خرچے چل بھی پائیں گے یا نہیں؟ کمرے کو نا بکھرا ہوا کہا جاسکتا تھا نا سمٹا ہوا۔ نازیہ بھابھی کمرے کی حالت دیکھ کر ہنس دیں۔
“دیکھ رہی ہو اپنے منگیتر کی حالت؟ سب پھیلا کے رکھتا ہے،اب تم ہی آ کے سنبھالنا”
اور بلا وجہ ہی بسمہ کے ذہن میں ایک بات آئی
“غیر شادی شدہ فرد کیا فیملی کا حصہ نہیں ہوتا کہ اس کی ضرورتیں اس کی بیوی ہی آکے پوری کرے گی؟”
“کیا سوچ رہی ہو۔ پریشان مت ہو یار سب مردوں کی یہی عادت ہے یہ بھی آفس جاتے ہوئے سب پھیلا کر جاتے ہیں کپڑےیہاں پھینکے تولیا وہاں اف۔ چلو ادھر ہی بیٹھتے ہیں میں بتا آئی تھی زہرہ بھابھی کو وہ اوپر ہی لے آئیں گی چائے۔ نازیہ بھابھی نے بڑی والی بھابھی کا نام لے کر بتایا۔
بسمہ کی کیفیت عجیب سی تھی کمرہ اجنبی بھی تھا مگر باسط کی چیزوں کا اردگر ہونا اسے بہت رومانوی احساس دلا رہا تھا۔ نازیہ بھابھی ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہیں مگر بسمہ کا دھیان ان کی باتوں پہ کم ہی تھا۔ وہ ایسے بیٹھی ہوئی تھی کہ دروازے کی طرف اس کی پیٹھ تھی
“ہمیں گھر سے بھگا کر ہماری منگیتر کو یرغمال بنایا ہوا ہے” اسے پیچھے سے باسط کی شوخ آوازسنائی دی۔ وہ چونک کے مڑی تو دروازے میں باسط کھڑا ہوا تھا۔
“تمہارے لیئے ہی یرغمال بنا کر لائیں ہیں جناب” نازیہ بھابھی نے بھی شرارتی انداز میں کہا۔ کہنے کو کافی رومانوی سچویشن تھی ایسی سچویشنز بسمہ نے کئی بار کہانیوں میں پڑھی تھیں۔ مگر وہ بالکل بھی ویسا محسوس نہیں کرپائی جتنا رومانوی وہ ان سچویشنز کو سمجھتی تھی۔ اسے شدید بے چینی اور اختلاج قسم کا احساس ہورہا تھا۔
“بھابھی ہم نیچے چلیں چائے بن گئی ہوگی۔ دیر بھی ہوگئی ہے”
“ہاں تم بیٹھو میں لے کر آتی ہوں۔ اپنے منگیتر سے کچھ باتیں کرلو باولا خود ہورہا ہے اور ہمیں بھی کردے گا” وہ بھی نازیہ کے ساتھ کھڑی ہوگئی
“بھابھی میں بھی ساتھ چلتی ہوں”
“اففو منگیتر ہے تمہارا کوئی بات نہیں دومنٹ بیٹھ کے بات کرلو، بے فکر رہو اوپر کوئی نہیں آئے گا” وہ پریشان کمرے کے بیچ میں کھڑی رہ گئی اور نازیہ اسے چھوڑ کے نیچے چلی گئی۔
باسط دو تین قدم بڑھ کر اس کے قریب آگیا۔ بسمہ کو اس کے پرفیوم کی خوشبو اپنے اردگرد محسوس ہوئی۔ مگر کچھ مختلف سی تھی شاید اتنی دیر باہر گھومنے پہ پسینے کی بھی مہک تھی۔ اتنے قریب اس کے جسم کی خوشبو سے اسے اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہورہے تھے۔ ایک دم ہی حلق خشک ہوگیا۔ اس کی نظریں باسط کے جوتوں پہ تھیں۔
“یار سر تو اٹھاو۔ نیچے جوتے ہی دیکھتی رہو گی کیا؟ بسمہ ۔۔۔۔ ” اس نے آہستہ سے بسمہ کا ہاتھ پکڑا۔ بسمہ کواس گرفت میں اور اسلم کی گرفت میں کافی فرق لگا۔باسط کی گرفت میں استحقاق تھا جیسے اسے پتا ہو کہ بسمہ ہاتھ نہیں چھڑوائے گی۔ مگر پھر بھی بسمہ نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔
“او یار منگیتر ہوں میں تمہارا کیوں اتنا شرماتی ہو۔ ایک مہینے بعد کیا کرو گی۔تب بھی اجازت ملے گی یا نہیں”
“وہ تو نکاح کے بعد ہوگا نا”
“نکاح بھی تو ساتھ جینے کا اقرار ہے وہ تو پہلےہی کرچکے ہم۔ زندگی آپ کے نام ہے میری جان”
باسط نے آہستہ سے اپنے ہونٹوں سے اس کا گال چھوا۔
بسمہ کو بہت کراہیت کا احساس ہوا۔ وہ ایکدم پیچھے ہٹ گئی۔
“میں نیچے جارہی ہوں” وہ باسط کی طرف دیکھے بغیر کہہ کر دروازے سے نکل آئی۔ پھر کب اس نے چائے پی کب گھر واپس آئی اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ مستقل اسے محسوس ہورہا تھا کہ اس کے چہرے پہ کوئی مکروہ چیز لگ گئی ہے آتے ہی واش بیسن کھول کے کھڑی ہو گئی۔ بار بار چہرے پہ پانی ڈالتی بار بار صابن رگڑتی۔ دادی نے آخر ٹوک دیا
“ارے چھوڑ دے پانی کا پیچھا۔ ایک دن کی دھول مٹی سے کالی نہیں ہوجائے گی۔ ویسے بھی وہ کیا پھیشل کرواتی ہیں دلہنیں وہ تو ہوگا ہی۔”
وہ نلکا بند کر کے گیلا چہرہ لے کر ہی پنکھے کے نیچے بیٹھ گئی۔
“ائے کیا ہوا؟ تھک گئی کیا؟”
دادی کو اس کے تاثرات سے کچھ گڑبڑ کا احساس تو ہوا مگر سمجھ نہیں آیا کہ اسے ہوا کیا ہے۔ ان کے حساب سے تو اسے خوش آنا چاہیئے تھا کہ اپنی شادی کا جوڑا خرید کے آئی تھی۔ مگر اس کے چہرے پہ پھیلی وحشت نے انہیں واقعی کافی ڈرا دیا تھا۔
“دادی بہت گرمی ہے آج، شاید اسی وجہ سے گھبراہٹ ہورہی ہے۔”
وہ اس وقت بالکل چپ رہنا چاہتی تھی مگر دادی کی نظریں جواب طلب انداز میں مسلسل اس کے چہرے پہ ہی تھیں ایسے میں بالکل چپ رہنا ناممکن ہی تھا۔ جواب دے کے وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی۔ بستر پہ ساکت لاش کی طرح لیٹ گئی۔ اس کی نظریں چلتے پنکھے پہ تھیں مگر ذہن وہیں باسط کے کمرے میں تھا۔ بار بار وہ منظر ذہن میں آتا اور ہر بار اسے خود سے اور باسط سے پہلے سے زیادہ کراہیت محسوس ہوتی۔
اسلم کی بار میں اسے احساس شرمندگی ضرور تھا کہ اس نے اسلم پہ غلط اعتبار کیا مگر کم از کم اسے اتنا آگے نہیں بڑھنے دیا۔ اسے اطمینان تھا کہ اب اسلم اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لیئے نکل گیا ہےمگر اب اسے شدید احساس گناہ اور احساس بے بسی تھا۔ احساس گناہ اس لیئے کیونکہ اسے لگا کہ باسط کے نامناسب میسجز پہ اگر وہ پہلے ہی سختی سے روک دیتی تو باسط کی اتنی ہمت نا ہوتی۔ اور بے بسی اس لیئے کیونکہ وہ باسط کو اپنی زندگی سے نکال نہیں سکتی تھی۔ اسے ایک نامحرم نے چھوا ایک نام کے رشتے کا سہارا لے کر اور وہ روک بھی نہیں پائی۔ وہ بے تاثر چہرہ لیئے لیٹی تھی اور آنسو نکل کر بالوں میں جذب ہورہے تھے۔ اسے یقین تھا کہ غلطی اسی کی ہے۔ اسے ہمیشہ یہی سکھایا گیا تھا کہ مرد ہمیشہ عورت کی شہہ پہ ہی کچھ کرنے کی ہمت کرتا ہے اور اب تو واضح تھا اس نے باسط سے اتنی بات چیت کی تھی تبھی باسط یہ سب کرنے کی ہمت کرپایا۔ اسے احساس ہی نہیں ہواکہ وہ کتنی دیر ایسے ہی ساکت پڑی رہی وہ چونکی تب جب مغرب کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں آئی ایک سحر کی سی کیفیت میں اٹھی اور باتھ روم میں گھس گئی۔ شاور کھول کر کافی دیر صرف پانی بہاتی رہی جسم پہ۔ کئی دفعہ صابن لگایا۔ جب کپڑوں کی طرف ہاتھ بڑھانے کا سوچتی تو لگتا ابھی تو ٹھیک سے جسم پاک ہی نہیں ہوا اور پھر صابن لگا لیتی۔ تقریبا ڈیڑھ گھنٹے بعد جب امی نے دروازہ بجایا تو باہر آئی۔ پھر وضو کے لیئے واش بیسن پہ کھڑی ہوگئی چہرے پہ پانی ڈالنے کی باری آئی تو بس ڈالتی ہی رہی، اسے مسلسل نجاست کا احساس ہورہا تھا۔
“ہٹ بھی چک لڑکی مجھے بھی وضو کرنا ہے ٹائم نکلوائے گی کیا نماز کا”
دادی نے کہا تواس نے چونک کے جلدی جلدی وضو ختم کیا اور نماز پہ کھڑی ہوگئی۔ اسے نہیں یاد کہ اس نے کتنے سجدے کیے،کتنے رکوع اور کتنے قیام بس ذہن میں ایک بات تھی کہ کسی طرح گناہ کی معافی مل جائے۔ آخر جب بالکل تھک گئی تو مصلا سمیٹ کر بستر پہ آکر لیٹ گئی۔
اور پھر کئی دن تک یہ پانی کا کھیل چلتا رہا نہانے جاتی تو گھنٹوں لگا دیتی، ہاتھ منہ دھونے کھڑی ہوتی تو صابن ملتی رہتی، نماز پہ کھڑی ہوتی تو تھک کر ٹانگیں بے جان ہوجاتیں تب ہی مصلا چھوڑتی۔ اس کی چہرے اور ہاتھوں کی جلد خشک پپڑی کی مانند ہوگئی۔
جب کسی بھی طرح سکون نا ملا تو ایک دن چادر اوڑھی اور کہہ کے نکل آئی کہ میں فائزہ کے گھر جارہی ہوں۔ امی اور دادی اسے جاتا دیکھتی رہ گئیں۔
فائزہ اسے دروازے پہ دیکھ کر حیران بھی ہوئی اور خوش بھی۔ وہ فورا اسے لے کر اپنے کمرے میں آگئی۔
” یار تھوڑی دیر بیٹھ، امی ابھی کوئی لیکچر وغیرہ کے نوٹس بنا رہی ہیں تب تک ہم تھوڑی باتیں کر لیتے ہیں پھر امی سے جو بات کرنی ہو کرلینا۔”
فائزہ کو یاد تھا کہ بسمہ نے منگنی سے بھی پہلے اس سے کہا تھا کہ وہ آنٹی سے مشورہ کرنا چاہتی ہے وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ بسمہ مشورے کے لیئے آئی ہے۔
“اچھا رک میں پانی وانی لاوں پھر آرام سے باتیں کرتے ہیں۔”
وہ جانے کے لیئے پلٹی مگر بسمہ نے ہاتھ پکڑ کے روک لیا اور ایک دم رونا شروع کردیا۔ فائزہ اسے ایسے روتے دیکھ کر پریشان ہوگئی۔
“بسمہ کیا ہوا یار سب ٹھیک ہے؟ باسط بھائی نے کچھ کہا؟ کچھ ہوا ہے ان کے گھر پہ؟ یا کسی نے تجھے کچھ کہا ہے؟”
بسمہ کوئی بھی جواب دینے کی بجائے روتی رہی۔ فائزہ نے مزید سوال کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا وہ اسے روتا دیکھتی رہی۔ کافی دیر رونے کے بعد خود ہی اس کے رونے کی شدت میں کمی آگئی اور پھر جب صرف سسکیاں رہ گئیں تو فائزہ اٹھ کر پانی لے آئی۔
“چل منہ دھو کے آ پھر بتا مسئلہ کیا ہے”
بسمہ ساتھ ہی بنے واش روم سے جلدی جلدی منہ پہ ایک دو چھپاکے مار کے آگئی۔
کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی جیسے سمجھ نا آرہا ہو کہ کہاں سے شروع کرے
“فائزہ کل باسط کے گھر والے آئے تھے مجھے ساتھ شاپنگ پہ ”
“اچھا پھر سوٹ پسند نہیں آیا”
“ابے پاگل ہے کیا تیرے خیال میں اس بات پہ اتنا روءوں گی۔ مجھے کونسا اپنی پسند کے کپڑے پہننے کی عادت ہے۔”
“تو”
“وہاں سے وہ لوگ گھر لے گئے اپنے ان کی دوسری نمبر کی بھابھی کمرہ دکھانے لے گئیں تو پیچھے سے باسط آگئے۔ ان کی بھابھی ہمیں اکیلا چھوڑ کر نیچے چلی گئیں”
“اچھا پھر”
“یار انہوں نے مجھے زبردستی کس کیا میں منع بھی کر رہی تھی”
“ہمم اور تیرا دھرم بھرشٹ ہوگیا؟”
“ہاں تو ایسے کیسے؟منگنی کوئی شرعی رشتہ تو نہیں ہوتی جو انہوں نےایسے کس کرلیا”
“اچھا اور وہ جو تو ناولز پڑھتی ہے بڑے شوق سے اس میں کونسا بڑی شرعی رشتے داریاں دکھائی جاتی ہیں۔ ہر دوسرے ناول میں ہیرو ہیروئین کے معانقے و بوسے ہوتے ہیں شادی کے بغیر”
اپنی بات کے طنز کو ظاہر کرنے کی کوشش میں فائزہ بہت گاڑھی اردو استعمال کر گئی۔
“یار سچی بات ہے میں خود بھی حیران ہوں کہ یہ سب رومینٹک لگنا چاہیئے تھا مگر نہیں لگ رہا بہت شدید احساس گناہ ہورہا ہے کہ میں نے انہیں اتنا بڑھنے کی ہمت دی ہی کیوں؟ ”
” یعنی تجھے لگتا ہے یہ تیری غلطی ہے”
فائزہ نے بھنویں اچکا کر پوچھا
“تو نہیں ہے”
“تو نے فرمائش کی تھی کہ کس کریں مجھے”
“پاگل ہے کیا تجھے پتا ہے میں تو انہیں ہاتھ پکڑنے کا بھی نا کہوں خود ،میری تو اتنی ہمت شاید شادی کے بعد بھی نا ہو”
” تو جب تیری مرضی کے بغیر انہوں نے تجھے چھوا اور اس کی انہیں کوئی شرعی اور قانونی اجازت بھی نہیں تو غلطی ان کی ہوئی نا۔۔۔۔۔ اچھا یہ بتا اس کے بعد سے تیری باسط بھائی سے کوئی بات ہوئی؟ کیا کہہ رہے ہیں وہ اس کے بارے میں؟”
” میں نے تب سے موبائل ہی نہیں دیکھا اٹھا کر جو پرس لے کر گئی تھی اسی میں پڑا ہے ابھی تک۔ تب سے بس دماغ پہ یہ سوار ہے کہ کسی طرح یہ گناہ دھل جائے کبھی نہاتی ہوں کبھی وضو کرتی رہتی ہوں فائزہ میں پاگل ہوجاوں گی”
” تبھی اتنی ڈرائے اسکن ہورہی ہے تیری؟ بسمہ تو باسط بھائی سے بات کر ہوسکتا ہے وہ صرف اپنی محبت کی شدت کے اظہار کے طور پہ یہ سب کر گئے ہوں۔ دیکھ منگیتروں کے درمیان آج کل یہ سب اتنا عام ہے کہ عموما لوگوں کو یہ غلط لگتا ہی نہیں ہے۔ نا انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں برائی کیا ہے۔ تیری بھی مرضی ہوتی تو بات الگ تھی مگر اب یہ صرف ان کی غلطی ہے مگر وہ بھی شاید جان بوجھ کے کی گئی غلطی نا ہو۔”
” فائزہ مگر یار یہ گناہ ہے”
“بیٹا جی رشوت لینے سے لیکر قتل تک کونسا گناہ ہے جو آج کل نہیں ہورہا؟ تیرے پاپا نے کبھی رشوت نہیں لی؟ تو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا؟ تیری امی نے کبھی کسی کی غیبت نہیں کی؟ اگر ان سب گناہوں پہ ہم رشتے نبھانے کے لیئے کمپرومائز کر لیتے ہیں تو کم از کم باسط بھائی کو اپنا موقف بتانے کا موقع تو دے۔ باقی شادی سے انکار کرنا تیرا شرعی حق ہے تجھے لگے کہ تو ایسے بندے کے ساتھ نہیں رہ پائے گی تو منع کردے”
*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...