نیبوکوف گہری نیند سے اٹھا تو اپنی خشک آنکھیں ملنے لگا۔ اس رات پھر اسے خواب میں ماہی گیروں کی کشتیاں مستول اور لنگر نظر آئے تھے۔ کشتی کے نچلے حصے میں برف اور نمک کے آمیزے سے محفوظ مچھلی کی بو خواب سے بیدار ہو جانے کے بعد بھی اس کے حواس پر چھائی ہوئی تھی۔ وہ کروٹ بدل کر دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگا۔
نیبوکوف فری لانس فوٹو گرافر تھا۔ وہ کئی ہفتوں سے ایک اخبار کے لیے ڈیموں کی افادیت اور ماس کو کی آبی پالیسیوں بارے جاری پروجیکٹ کی تصویری عکاسی کر رہا تھا۔
اسی پروجیکٹ کے دوران اسے دس سال قبل ارل جھیل کی ساحلی بستیوں میں گزرا وقت بہت یاد آنے لگا تھا۔ چند روز سے وہ مسلسل خواب میں ماہی گیروں کی کشتیوں نمکین ساحلوں اور اپنے پرانے دوست زولفیزار اور ڈی نیزا کو دیکھ رہا تھا۔ اخبار کی طرف سے معاوضے کی رقم ملتے ہی اس نے ازبکستان کی فلائیٹ لی اور اپنے پرانے ماہی گیر دوستوں سے ملنے چلا گیا۔
زولفیزار اور ڈی نیزا اسے اپنی بستی کے اسٹیشن پر خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔ اسے ان دونوں کی حالت دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ ان کے بالوں کی رنگت اڑی ہوئی، جلد چمڑے کی مانند خشک اور ہونٹوں پر پپڑیاں جمی تھیں۔ ان کے ہاتھوں کی پشت پر ایگزیما کے زخموں کے نشان نمایاں تھے۔
یہ کیا ہوا تمہیں زولفیزار؟
نیبوکوف تم فش ہاربر تک آؤ سب معلوم ہو جائے گا۔
ہاں زلفے میں ارل جھیل میں ڈولتی کشتیوں اور پس منظر میں غروب ہوتے سورج کی عکاسی کرنے کے لیے بیتاب ہوں۔
کچھ ہی دیر میں وہ پرانے ہاربر پر آن پہنچے۔
نیبوکوف اپنے دوستوں کو پیچھے چھوڑتا ہوا لکڑی کے بوسیدہ تختوں پر آگے بڑھا تو اس کی آنکھیں حیرت کی شدت سے پھٹنے لگیں۔
دور حد نظر تک ریت اڑ رہی تھی۔ کئی کشتیاں آدھی ریت میں دھنسی ہوئی تھیں اور کئی کشتیوں کے لنگر بھی ریت کے ژولیدہ لہریوں میں سے جھانکتے نظر آ رہے تھے۔ پھیکا زرد سورج گرد کا غلاف اوڑھے ارلکم صحرا میں آگ برسا رہا تھا۔
اس نے گھبرا کر پیچھے دیکھا ویران فش ہاربر میں ریت کے بگولے آسیبوں کی طرح رقصاں تھے۔ دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں تھا فقط اس کی سرخ آنکھوں میں دو نمکین آنسو تیر رہے تھے۔
دریا چہ خوارزم کے نمکین آنسو۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭