فجر کے وقت اذہاد کی قرآن پاک کی دل سوز آواز سے حجاب کی آنکھ کھل گئی اذہاد کی تلاوت میں رب کریم کی عقیدت کا سوز تھا جو سننے والے پر وجد کی کیفیت طاری کر دیتا تھا۔ حجاب اٹھ کر بیٹھ گی اور سر پر دوپٹہ اوڑھ کر اذہاد کی مسحور کن آواز میں کھوگئی ۔
پھر ایک خیال سے اس کا دل دھک کر رہ گیا اگر تحریم اور اماں نے اذہاد کی آواز سن لی تو کیا ہوگا اسی دوران اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی حجاب کو گھبراہٹ کے مارے پسینہ آ گیا اس نے دروازہ کھولا تو صباحت اس کے سامنے کھڑی تھی ۔
“بیٹی نماز کا وقت ہو گیا ہے نماز پڑھ لو ‘‘
”جی اماں میں نماز پڑھ لیتی ہوں ۔‘‘ حجاب نے جواب دیا۔
صباحت کے رویے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسے اذہاد کی تلاوت کی آواز نہیں آرہی اس نے مسکرا کر حجاب کے سر پر ہاتھ پھیرا اور چلی گئی ۔
حجاب نے اطمینان کا لمبا سانس کھینچا اور وضو کر نے لگی اس نے نماز پڑھی اور پھر دوڑتی ہوئی اذہاد کے کمرے کے قریب گئی۔
وہ انار کے درخت کے پیچھے چھپ کر اذہاد کو دیکھنے لگی۔ وہ قرآن پاک کی تلاوت میں محو تھا۔ اس نے اپنی تلاوت مکمل کی اور قرآن پاک الماری میں سنبھال دیا۔ ایک پل میں وہ حجاب کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
” کہاں غائب ہو گیا، ابھی تو الماری کے قریب کھڑا تھا۔” وہ پیچھے پلٹی تو اذہاد سے جا ٹکرائی ۔ اس نے بھنویں سکیٹر تے ہوۓ اذہاد کی طرف دیکھا۔
”میں تمہیں کمرے میں دیکھ رہی ہوں اور تم میرے پیچھے کھڑے ہو۔‘‘ اس نے اذہاد کا ہاتھ تھاما اور اسے کھینچتی ہوئی بالکونی میں لے آئی۔ “یہ تم…..”
وہ بات کرنے ہی لگی تھی کہ تحریم کی آواز آئی۔ حجاب اذہاد کو دروازے کے پیچھے دھکیلتے ہوئے اس کے ساتھ دروازے کی اوٹ میں چھپ گئی ۔
تحریم بالکونی تک آئی اور پھر پلٹ گئی ۔اذہاد، حجاب کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھ کرمسلسل مسکرا رہا تھا۔
حجاب کو اپنے اس قدر قریب پا کر سکوں و طمانیت کا دل فریب احساس اس کی رگوں میں سرایت کر گیا تھا اچانک اس کی مسکراہٹ قہقہوں میں بدل گئی وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔ حجاب نے اس کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھا۔
“تم اس طرح کیوں ہنس رہے ہو ۔‘‘
’’تم مجھے دوسروں کی نظروں سے چھپارہی ہوں جبکہ اس وقت سوائے تمہارے مجھے کوئی اور نہیں دیکھ سکتا‘‘
حجاب نے خفگی سے اس کے بازو کو جھٹک دیا۔
’’ تم اتنی دیر سے مجھے بیوقوف بنا رہے ہو، بتا نہیں سکتے تھے۔ میں جانتی ہوں کہ اکثر تم اس حالت میں ہوتے ہو جب تمہیں میرے علاوہ کوئی اور نہیں دیکھ سکتا لیکن میں کسی بھی حالت میں رسک نہیں لے سکتی تمہارا مادی وجود ہمیشہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا اور میں تم سے یہی کہنا چاہتی ہوں کہ تم دوبارہ اس کمرے میں مت رہو ۔ تم یہاں سے چلے جاؤ ۔ اگر میری اماں کو شک ہو گیا تو تمہاری جان کو خطرہ ہوسکتا ہے اور میں تمہارے لئے کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتی ۔‘‘
اذہاد مسکرا تا ہوا کسی چھلاوے کی طرح دیوار پر جا بیٹھا۔
’’حجاب صاحبہ، آپ کو معلوم ہو یا نہ ہو، میں تو ہمیشہ اس گھر میں تمہارے ساتھ آتا ہوں۔ رات تم نے میری چوری پکڑ لی ورنہ میں تو ہمیشہ اسی کمرے میں ہی ہوتا ہوں اور رہی بات میری جان کی تو یہ جان تمہاری ہے، میرا اس پر کوئی حق نہیں۔” یہ کہہ کرا ہاد کسی غبار میں تبدیل ہو گیا اور وہ غبارہ لان میں لگے پام کے درختوں میں غائب ہو گیا۔ عین اسی وقت صباحت کی آواز حجاب کی قوت سماعت سے ٹکرائی تو وہ وہیں سے چلائی۔
’’آ رہی ہوں اماں‘‘ صباحت کی آواز کچن سے آ رہی تھی ۔
حجاب کچن میں داخل ہوئی تو صباحت نے اسے دیگچی پکڑادی ۔
“بیٹی باہر گوالا آیا ہے دودھ تو لے لواور دودھ لینے کے بعد اپنے کمرے میں جا کر سو جانا۔ ہاسٹل میں تو تمہاری نیند ہی پوری نہیں ہوتی ہوگی ۔‘‘
حجاب نے ایساہی کیا، دودھ ماں کو پکڑا کے سوگئی۔ حجاب سوکر اٹھی تو سب نے مل کر ناشتہ کیا۔ تحریم تو ناشتہ کر کے کالج چلی گئی حجاب نے سکول سے دو دن کی چھٹی لی تھی۔
صباحت اور حجاب گھر کی سیٹنگ کرنے لگی پھر ملازمہ آئی تو اسے کام سمجھا کر دونوں ماں بیٹی کمرے میں بیٹھ گئیں ۔
صباحت حجاب سے فیضان کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھی مگر اسے بات سجھائی نہیں دے رہی تھی کہ کس طرح بات کرے حجاب محسوس کر رہی تھی جیسے صباحت اس سے کچھ کہنا چاہتی ہو
”کیا بات ہے اماں! کوئی الجھن ہے۔” حجاب نے ماں کی بے چینی بھانپتے ہوئے کہا
صباحت نے حجاب کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
“بہت سوچا کہ تم سے پوچھے بغیر انکار کر دوں مگر میرے دل ودماغ نے بار بار یہی کہا کہ ایک بار تم سے پوچھ لوں ‘‘
“میں سمجھی نہیں اماں! آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔ آپ وضاحت سے بتائیں کہ کیا بات ہے۔‘‘ حجاب نے صباحت کو بات کرنے کا حوصلہ دیا۔
صباحت نے حجاب کو ساری بات تفصیل سے بتائی لیکن صباحت نے تحریم کے رشتے کے متعلق حجاب کو کچھ نہیں بتایا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ حجاب ہمیشہ اپنی خوشیوں کے آگے اپنی بہنوں کی خوشیوں کو اہمیت دیتی رہے۔ حجاب نے خاموشی سے آنکھیں جھکالیں۔ صباحت اس کی طرف دیکھتی رہی مگر وہ جیسے ماں سے آنکھیں چرانے لگی ۔ وہ کافی دیر کے بعد ماں سے گویا ہوئی۔
”مجھے یاد آ گیا۔ میں بچوں کے پیپرز لائی ہوں ، ابھی فراغت ہے چیک کر لیتی ہوں۔‘‘ حجاب اٹھ کے جانے لگی تو صباحت نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’ادھر بیٹھو میرے پاس، اپنی ماں سے نظر میں مت چراؤ ۔‘‘
حجاب اپنا آنچل سنبھالتی ہوئی دوبارہ اپنی ماں کے پاس بیٹھ گئی۔
صباحت نے حجاب کا چہرہ اوپراٹھایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔صباحت پریشان ہوگئی۔
“میں جانتی ہوں کہ یہ سب کچھ سن کر تمہیں دکھ ہوگا۔ لیکن بیٹی اپنا فیصلہ سنا کر مجھے فیصلے کے اس بوجھ سے آزاد کر دو۔‘‘
حجاب نے پیار سے ماں کی طرف دیکھا
’’اماں میرے آنسو دیکھ کر پریشان نہ ہوا کریںان آنکھوں میں تو جیسے آنسوؤں کا موس ٹھہر گیا ہے کس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ جب انسان مجبور ہو جا تا ہے تو ان مجبوریوں کے سودے کر نے والے بہت آ جاتے ہیں۔ ایسے رشتوں سے بہتر ہے کہ آپ مجھے اپنے پاس ہی رہنے دیں۔ مجھے کسی سے شادی نہیں کرنی۔ میں اپنی اسی زندگی میں بہت خوش ہوں۔ مجھے کسی سے بھی کوئی شکایت نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر حجاب وہاں سے چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد کافی دیر تک گہری سوچ میں گم رہی جونہی تحریم کالج سے گھر آئی تینوں ثانیہ کے گھر کے لئے روانہ ہو گئے ۔
ثانیہ نے کھانے میں مزے مزے کی ڈشز تیار کی تھیں۔ تحریم تو چٹخارے لے کر کھانا کھاتی رہی تعریفیں کرتی رہی ۔احسن نے کھانا بہت جلدی کھایا اور معذرت کر کے اپنے کام کے لئے چلا گیا۔
کھانے کے بعد ملازمہ برتن سمیٹنے لگی تو ثانیہ آئسکریم لے کر حجاب کی طرف بڑھی۔
’’ آؤ حجاب آپی! ہم سب آئس کریم اندر بیڈ روم میں بیٹھ کر کھاتے ہیں‘‘
حجاب تحریم اور صباحت ، ثانیہ کے کمرے میں چلی گئیں ۔ثانیہ نے سب کو آ ئسکریم ڈال کر دی ۔ جونہی وہ اپنا کپ لے کر سب کے ساتھ بیٹھی بڑے شوخ انداز میں بولی ۔
’’ آپی حجاب ،اماں نے آپ سے فیضان بھائی کے بارے میں بتایا۔‘‘ حجاب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ثانیہ کے لہجے کی شوخی مزید بڑھ گئی ۔
کچھ نہ پوچھو آپی ! وہ لوگ اس قدر امیر ہیں کہ اگر آپ کی شادی وہاں ہوگئی تو آپ کسی ریاست کی شہزادی سے کم نہ ہوں گی ۔ ہم جیسوں کو تو آپ پوچھیں گی بھی نہیں ۔‘‘
“بس کرو ثانیہ! میں نے کبھی بھی دولت کو اتنی اہمیت نہیں دی۔اصل بڑائی تو انسان کا اعلی ظرف ہونا ہوتا ہے۔ جہاں زیادہ دولت ہوتی ہے وہاں سچے جذبوں کا فقدان ہوتا ہے۔ میں ظاہری شان وشوکت والے کھو کھلے لوگوں کو پسند نہیں کرتی۔”
“تمہاری یہ کتابی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔” ثانیہ نے منہ بسورتے ہوئے تحریم کی طرف دیکھا تو تحریم نے بھی ہونٹ چباتے ہوۓ اپنے سر کو جھٹک دیا۔
حجاب نے اپنی بہنوں کے رویے کوصاف محسوس کر لیا۔ صباحت نے حجاب کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’جو حجاب کی مرضی ہوگی وہی ہوگا۔ ہم میں سے کوئی بھی حجاب پر اپنی مرضی صادر نہیں کرے گا۔‘‘
ثانیہ برتن اٹھا کے کچن میں رکھنے لگی تو حجاب بھی اس کے پیچھے پیچھے برتن لے کر کچن میں چلی گئی ۔
حجاب نے برتن سینک میں رکھے تو ثانیہ اتنہائی خلوص میں بولی ۔
“اگر میری کوئی بات بری لگی تو میں معذرت چاہتی ہوں مگر۔۔۔۔۔”
“مگر کیا….؟” حجاب نے کہا۔
ثانیہ کچھ دیر خاموش رہی پھر بولی “آپکے اس فیصلے کا اثر تحریم کی زندگی پر بھی پڑے گا”
“تحریم کی زندگی پر میں سمجھی نہیں” حجاب الجھ سی گئی
”تم سے اماں نے ذکر نہیں کیا ، فیضان کے بھائی زریاب کے بارے میں ۔‘‘ ثانیہ نے کہا۔
“نہیں تم بتاؤ کیا بات ہے۔‘‘ حجاب بے چین ہو گئی ۔اپنی بہنوں کو خوشیاں اس کی کمزوری جو تھیں ۔ ۔
ثانیہ نے موقع جانچتے ہوۓ بات شروع کی ۔
”مسز آفتاب زیدی نے احسن سے اور مجھ سے یہ بات کی ہے کہ اگر اماں فیضان بھائی کے لئے تمہارا ہاتھ دے دیتی ہیں تو وہ لوگ زریاب کے لئے تحریم کا ہاتھ بھی مانگ لیں گے اور زریاب جوایک فرم میں نہ صرف انجینئر ہے بلکہ کئی مربعوں کا مالک ہے۔ 25 سال کا ہینڈسم نو جوان ہے ۔ اس کے رشتے کے لئے تو بڑی بڑی امیر فیملیز تیار ہیں مگر یہ تو اپنی تحریم کے نصیب ہیں کہ ایسارشتہ مل رہا ہے۔ حجاب تھوڑا سا پریکٹیکلی سوچو، تمہاری عمر کی لڑکیوں کو اس عمر کے لڑ کے ملتے ہیں جتنی عمر فیضان بھائی کی ہے۔ تم بھی خوش رہوگی اور تحریم بھی خوش رہے گی۔”
دروازے پر کھڑی تحریم نے دونوں کی ساری باتیں سن لیں۔ اچانک ایسی خبر تحریم کے لئے کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ تو سن ہو کر رہ گئی ۔ اس سے پہلے کہ حجاب اور ثانیہ اسے دیکھتیں وہ جلدی سے صباحت کے پاس جا بیٹھی۔
برتن سمیٹنے کے بعد حجاب اور ثانیہ بھی صباحت کے پاس آ گئیں ۔حجاب نے صباحت کو بالکل بھی ظاہر نہ کیا کہ ثانیہ نے اس سے کیا بات کی ہے۔ بس اس نے تھوڑی دیر بعد ہی جانے کا اصرار کیا۔ ثانیہ نے انہیں چاۓ کے لئے رکنے کا کہا لیکن صباحت نے بھی گھر جانے کے لئے کہا۔
ثانیہ نے حجاب کو عجیب الجھن میں ڈال دیا تھا گھر آنے کے بعد حجاب سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ثانیہ کی شادی کی تصاویر اور ویڈیو مں قید خوشگوارلمحات کو وہ اپنے غموں کو بھولنے کے لئے آئی تھی مگر ایک نئی الجھن نے اسے پریشان کر دیا تھا۔ اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ اسے ہر مسکراہٹ کی قیمت چکانا پڑتی ہے ۔اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔ موسم خوشگوار تھا مگر اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ جیسے کسی نے اس کے سینے پر پتھر رکھ دیا تھا۔ یہ غموں کا بوجھ تھا، احساس ذمہ داری کا بوجھ تھا اس کی بڑھتی عمر کے سالوں کا بوجھ، جس نے ایک پل میں ہی حجاب کی ہمت تو ڑ دی تھی ۔
وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی ، وہ خود سے باتیں کرنی لگی ۔
”کیوں یہ وقت بھیس بدل بدل کر مجھ سے قربانیاں مانگتا ہے۔ کبھی میرے لئے بھی تو یہ وقت مسیحا بن کر آۓ اور کہے کہ خوشیاں تمہاری منتظر ہیں۔ مجھے دولت مند گھرانے سے کوئی غرض نہیں نہ ہی میں خواہشات کی غلام ہوں اور نہ دولت میری کمزوری ، میں تو ایسا جیون ساتھی چاہتی ہوں جو عمر میں مجھ سے چند سال بڑا ہو یا میرا ہم عمر ہو۔ وہ اعلی ظرف ہو، اچھا اور نیک انسان ہو۔ دنیاوی دولت بس اتنی ہو کہ ہم اپنے چھوٹے سے گھر میں اچھی زندگی بسر کرسکیں ، ہم کسی کے محتاج نہ ہوں۔ ”
انہی لمحوں میں اس کے ذہن میں ثانیہ کی آواز گونجی۔
تمہاری عمر کی لڑکیوں کو فیضان کی عمر کے لڑ کے ہی ملتے ہیں ۔
حجاب آئینے کے قریب ہوگئی اور اپنے چہرے کو چھونے لگی ۔
”میرے چہرے پر ابھی جھریاں تو نہیں پڑیں۔ پھر وہ اپنا ہاتھ اپنے بالوں تک لے گئی۔ اس کے سیاہ بالوں میں کہیں کہیں چاندی کی سفید تار میں چمک رہی تھیں ۔ مصروفیت میں حجاب کا ان کی طرف بھی دھیان ہی نہ گیا۔
ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ حجاب کی عمر کے سال بھی زینہ چڑھتے رہے۔ اتنا وقت دبے پاؤں ہی گزر گیا۔ حجاب کی آنسوؤں سے بھری دھندلی آنکھوں میں اذہاد کا دھندلا سا عکس ابھرا۔ وہ شیشے میں اس طرح دکھائی دے رہا تھا جیسے وہ حجاب کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ حجاب کو اپنے آس پاس کوئی نظر نہیں آیا۔ حجاب نے بے یقینی کی کیفیت میں آئینے کو چھوا۔
” تم کہیں میرا خیال تو نہیں ہو۔”
اذہاد مسکرایا۔ ”میں ہی ہوں تمہارا دوست تمہارے آنسو مجھے یہاں تک لے آۓ ۔ جب میری آنکھوں میں آنسو تھے تو تم مجھ سے میرے رونے کی وجہ پوچھتی رہی۔ میرے آنسوؤں کی وجہ بھی وہی بات تھی جس نے آج تمہیں رلا دیا۔ میں نے تمہاری ماں کی باتیں سن لی تھیں ۔ ثانیا اور تمہاری امی فیضان سے تمہارے رشتے کی بات کر رہے تھے۔ فیضان کی ماں نے جس طرح تمہاری خوشیوں کا سودا طے کیا، میں ساری صورتحال سے واقف ہوں۔ میں خود فیضان کے گھر گیا تھا بس تم سے ذکر نہیں کیا، چاہتا تھا کہ تمہاری ماں ہی اس رشتے کے بارے میں تم سے بات کرے۔حجاب تم اپنوں سے ایک اور دھوکہ کھانے جا رہی ہو حجاب تم اس رشتے کے لیئے ہاں مت کہنا فیضان دماغی مریض ہے تحریم کے اچھے مستقبل کے لیئے اپنی خوشییوں کر داؤ پر مت لگاؤ”
“اذہاد مسلسل سمجھوتوں کے بعد یہ لگتا ہے جیسے میرے خواب دیکھنے کی عمر گزر گئی ہے” حجاب شکستہ لہجے میں بولی
اذہاد نے اپنا ہاتھ اکڑالیا۔ “نہیں حجاب ایسا مت کہو، خواب دیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ یہ خواب ہی تو ہمارے جسم میں روح کا احساس ہیں۔ ہماری زندہ دلی ہماری کوششیں سب ان خوابوں ہی کی بدولت ہیں ۔ جب آنکھیں بے خواب ہو جائیں تو آنکھیں اندھیروں میں ڈوب جاتی ہیں۔”
حجاب جیسے تڑپ اٹھی ۔ ”تو میں بھی تو یہی چاہتی ہوں کہ میری آنکھیں اندھیروں میں ڈوب جائیں ۔ میں اپنوں کے چہروں میں مطلب پرست لوگوں کے چہرے نہ دیکھ سکوں۔ میرا دل اپنوں سے محبت کرنے پر مجبور ہے اور میرا نصیب ٹھوکریں کھانے پر، میں کیا کروں ۔‘‘حجاب دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ کر رونے لگی۔ اذہاد اپنے عکس سے مادی وجود میں آ گیا۔ اس نے حجاب کے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹاتے ہوۓ اپنے ہاتھوں میں لے لیئے
’’سب کچھ جان کر بھی خودکو فریب مت دو، فیصلہ تم نے کرنا ہے۔ آج بھی اگر تم نے دوسروں کے لئے اپنی ذات کو نظرانداز کر دیا تو تم دوسروں کی نظروں میں غیر اہم ہی رہوگی، یہ اذیتیں، یہ تمہیں کسی نے نہیں دیں تم نے خود اپنے لئے چنیں ہیں۔ کہہ دوسب سے تمہیں اپنی خوشیوں کی سودے بازی نہیں کرنی۔ اس رشتے سے انکار کر دو۔ میں تمہارا سچا دوست ہوں، اگر فیضان کی جگہ اگر کوئی ایسا شخص ہوتا جوتمہیں خوش رکھ سکتا تو میں بھی اپنی خوشی بھول کے تمہاری خوشی میں شامل ہو جاتا مگر فیضان ذہنی مریض ہے وہ تمہیں کبھی خوش نہیں رکھ سکتا”
حجاب نے اپنی بھیگی آنکھوں سے اذہاد کو دیکھا جن میں خلوص اور وفا کے سچے جذبات امڈ آۓ تھے۔
”میں تو اپنی زندگی اپنے پیارے دوست کے ساتھ ایسے ہی گزارنا چاہتی ہوں کوئی رشتہ بنانے میں میرا دل نہیں ہے مگر تحریم کو ایسا رشتہ دوبارہ نہیں ملے گا۔‘‘
اذہاد نے حجاب کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھا۔ اس سے پہلے کہ اذہاد کچھ کہتا صباحت کمرے میں داخل ہوئی وہ کرسی پر براجمان ہوگئی۔ حجاب ماں سے نظر میں چراتے ہوئے الماری کی سیٹنگ میں مصروف ہوگئی ۔ صباحت نے ایک نظر حجاب کو دیکھا۔
’’ ثانیہ بے وقوف ہے سوچ کر نہیں بولتی تم اس کی باتوں کی طرف دھیان مت دینا۔بس میں اس معاملے کو زیادہ لمبا نہیں کرنا چاہتی ۔ میں آج ہی عائشہ بیگم کوفون کر کے اس رشتے سے منع کر دوں گی۔‘‘ حجاب کپڑے چھوڑ کے صباحت کے پاس بیٹھ گئی۔
“اتنی جلد بازی مت کر میں، ایک دو روز ٹھہر جائیں ‘‘
صباحت نے حجاب کی آنکھیں دیکھیں ۔ “تم رورہی تھی۔ کیا بات ہے تم سے کسی نے کوئی بات کہی ہے۔‘‘ حجاب نے آنکھیں جھکالیں ۔
’’اماں جو بدنصیب ہوا سے رونے کے لئے کسی بات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں تو جب بھی تنہا ہوتی ہوں، ذہن میں ان گنت غموں کا ہجوم اکٹھا ہو جا تا ہے۔‘‘
صباحت نے حجاب کا سراپنی گود میں رکھ لیا اور اس کے بال سہلانے لگی۔ اگر تم اس رشتے کی وجہ سے پریشان ہو تو بیٹی تو جس گھر میں جوان بیٹیاں ہوں وہاں رشتے آتے ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ رشتے اچھے ہوں ۔ والدین کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ یہ رشتہ منظور کریں یا نہ کریں ۔”
حجاب نے ٹھنڈی آہ بھری۔
“اچھے رشتے بھی اس دہلیز پر آتے ہیں جہاں صاحب حیثیت لوگ رہتے ہیں ہم غریب لوگوں کی دہلیز پر اچھے رشتے کب آتے ہیں اگر میری شادی ہو بھی جائے تو آپ کی تنگدستی بڑھ جائے گی پھر تحریم کا ہاتھ کون مانگنے آۓ گا۔”
صباحت نے حجاب کے سر سے اپنا ہاتھ ہٹالیا۔
“یہ تم مجھ سے ثانیہ کی زبان میں بات کیوں رہی ہو۔‘‘
حجاب اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
’’اماں آپ میری….“
صباحت تپ کر بولی ۔
”تم سے ثانیہ نے تحریم کے بارے میں کوئی بات کی ہے؟‘‘
“وہ……”
”مجھے جواب چاہیے۔ ثانیہ نے تم سے زریاب اور تحریم کے رشتے کی بات کی ہے؟‘‘ صباحت انتہائی غصے میں تھی ۔
حجاب نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’جی‘‘
صباحت برقی سرعت سے ٹیلی فون کی طرف لپکی ۔ حجاب فون کے آگے کھڑی ہوگئی۔ ”پلیز اماں اس سے کچھ نہ کہیے ۔”
صباحت سر پکڑ کر کرسی پر بیٹھ گئی ۔حجاب صباحت کے لئے پانی لے کر آئی ۔
“یہ پانی پی لیں ۔ ہم اس موضوع پر بعد میں بات کر یں گے۔” صباحت نے پانی کا گلاس میز پر رکھتے ہوۓ حجاب پر گہری نظر ڈالی ۔
’’تم تو انسان کے معیار کو دولت کے ترازو میں نہیں پرکھتی تھی تو آج ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو۔‘‘
“میں ایسا نہیں سوچتی مگر میری بہنیں ایسا سوچتی ہیں۔ ان کی نظر میں انسان کی سب سے بڑی خوش قسمتی امیر ہونا ہے اور ہم کسی کی سوچ پر پہرے نہیں بٹھا سکتے ۔ آپ مجھے صرف یہ بتائیں کہ جو کچھ ثانیہ نے ان لوگوں کے بارے میں اور زریاب کے بارے میں بتایا ہے، وہ سب سچ ہے؟‘‘
حجاب کے اس سوال پر صباحت جھوٹ نہ بول سکی ۔ ’’ہاں وہ سب سچ ہے ۔ زریاب واقعی بہت اچھا اور کامیاب لڑ کا ہے۔ لیکن مجھے فیضان پسند نہیں آیا۔ وہ زریاب کے لئے تحریم کا ہاتھ مانگ لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن عائشہ بیگم تمہارے رشتے کے بدلے میں تحریم اور زریاب کا رشتہ کرنا چاہتی ہیں ۔ بس تم مجھے ان باتوں میں مل الجھاؤ تحریم کے نصیب ہوں گے تو اسے کوئی اور رشتہ مل جاۓ گا۔ مجھے فی الحال تمہارے بارے میں سوچنا ہے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں کل ہی عائشہ بیگم کو انکار کر دوں گی۔تم ایسا کرو چائے بنا دو تبھی اس سر درد سے چھٹکارا ملے گا”
حجاب کچن میں چائے بنانے لگی تو وہ گہری سوچ میں ڈوبی رہی ۔
چائے تیار ہوگئی تو وہ دو کپ اٹھاۓ سٹینڈ کی طرف بڑھی تو کپ پہلے ہی سے کسی نے چولہے کے پاس رکھے ہوۓ تھے۔
’’یہ کپ یہاں کس نے رکھے۔‘‘ وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ چینی کا ڈبہ ہوا میں تیرتا ہوا سنک پر آ کر ٹک گیا۔حجاب نے کمر پر ہاتھ کس کے چاروں طرف نظر دوڑائی ۔ ’’اذہاد! چپ چاپ سامنے آ جاؤ ۔‘‘
”بالکل نہیں آج تو میں تمہارے ساتھ کچن کے کام میں مدد کروں گا۔ آج سامنے نہیں آؤں گا۔ اچھا چلو کے گا گا۔ اچھا چلو اندازہ لگاؤ کہ میں کس طرف ہوں ۔اگر تم نے مجھے چھو لیا تو میں سامنے آ جاؤں گا ۔‘‘
’’اگر یہ بات ہے تو ٹھیک ہے۔‘‘ حجاب نے گردن اکڑاتے ہوۓ کہا۔
اذہاد نے ایک ہی وقت میں کتنے ہی برتنوں کو ہوا میں معلق کر دیا۔ حجاب کبھی کسی برتن کے قریب جاتی اور کبھی کسی ۔ اذہاد کچن کے مختلف حصوں سے مختلف آوازیں پیدا کرتا رہا جس سے حجاب کبھی کسی جگہ جاتی اور کبھی کسی کیبنٹ پر سر رکھ کے کھڑی ہوگئی جگہ ۔ بالاآخر کچن کے ایک کیبنیٹ پر سر رکھ کے کھڑی ہو گئی
’’ تم آخر جیت گئی ۔‘‘ کسی نے حجاب کے کان میں سرگوشی کی ۔
ایک ہی ساعت میں حجاب کا سراذہاد کے کندھے پر تھا۔ خود کواذہاد کے اتنا قریب پا کر وہ خود میں سمٹ کر رہ گئی۔ اذہاد نے مسکراتے ہوۓ حجاب کی طرف دیکھا “تم نے مجھے ڈھونڈ ہی لیا”
حجاب نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا۔ ’’وہ اماں چائے کا انتظار کر رہی ہیں۔”
“ٹھیک ہے پھر ملیں گے” یہ کہہ کر اذہاد غائب ہو گیا حجاب چائے لے کر صباحت کے پاس گئی تو تحریم بھی صباحت کے پاس بیٹھی ہوئی تھی ۔
“اچھا ہوا تم خود آ گئی میں تمہاری چائے بھی بنا لائی ہوں” حجاب نے ٹرے میز پر رکھی
تحریم نے خاموشی سے چائے کا کپ لے لیا ورنہ وہ ضرور کوئی نا کوئی مذاق کر لیتی
تھی کسی نہ کسی بات پر ہنسا دیتی تھی ۔ مگر آج اس کے چہرے پر عجیب اداسی تھی ۔
چاۓ کا کپ حجاب نے ہونٹوں سے لگایا تو ایک سپ لیتے ہوۓ بولی۔
“چاۓ تو مز یدار ہے تو پینے والوں کے چہرے ایسے کیوں اترے ہوۓ ہیں ۔‘‘ حجاب نے ترچھی نظروں سے تحریم کی طرف دیکھا۔
تحریم نے برا سا منہ بنایا۔
’’آپ نے چاۓ مجھ سے پوچھے بغیر بنادی ، میں تو ابھی سونا چاہتی تھی۔‘‘ حجاب اس کے قریب بیٹھ گئی ۔
“تو کوئی بات نہیں میں دو کپ پی لوں گی تم آرام کرلو۔‘‘
“تھینکس” یہ کہہ کرتحریم خاموشی سے چاۓ چھوڑ کے چلی گئی۔
صباحت تحریم کا ناروا رویہ محسوس کر کے سوچ میں پڑ گئی ۔ حجاب نے ماں کا دھیان بدلنے کے لئے ٹی وی آن کرلیا صباحت بظاہر تع مسکراتی رہی پھر وہ حجاب سے پوچھے بغیر نہ رہ سکی
“تم نے یا ثانیہ نے تحریم کو زریاب کے رشتے کے بارے میں بتا تو نہیں دیا”
“نہیں اماں! ہم نے تو تحریم سے اس بات کا تذکرہ نہیں کیا۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ وہ ایسی ہی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ‘‘حجاب نے ماں کی تسلی دی
مگر پھر بھی صباحت نے کہا۔
“تم باتوں باتوں میں پوچھنا شاید اس نے تمہاری اور ثانیہ کی باتیں سن لی ہوں ویسے اسکو اگر اس بات کا علم ہو بھی گیا ہے تو اسے کہہ دینا میں انکار کر رہی ہوں وہ بھی ثانیہ کی طرح گاڑیوں اور بنگلے
کے خواب نہ دیکھے۔اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دے ۔‘‘
حجاب دھیرے سے بولی۔ “گریجویشن تو اس سال مکمل ہو جائے گی اگر کوئی اچھا رشتہ مل جائے تو ہم اسکی منگنی کر سکتے ہیں۔‘‘ صباحت کرخت لہجے میں بولی ۔
“یہ بات مجھے بار بار کیوں دہرانی پڑ رہی ہے کہ ابھی مجھے صرف تمہارے بارے میں سوچنا ہے پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے، اب میں مزید دیر کر کے اور گناہ گار نہیں ہوسکتی ‘‘
صباحت کی باتوں سے حجاب خاموش تو ہوگئی مگر اپنے دل و دماغ میں اٹھنے والے بھونچال کو نہ روک سکی۔ جس قدر خاموش رہتی، ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا تلاطم بڑھتا جاتا۔
تحریم سے کوئی بات کئے بغیر وہ مغرب کی نماز کے بعد چھت پر چلی گئی تحریم سے پہلے وہ خود سے کچھ سوال
کرنا چاہتی تھی کہ بہن کی خوشیوں کے لئے وہ اس قربانی کے لئے تیار ہے یا نہیں۔
درحقیقت تو فیصلہ حجاب کو کرنا تھا۔ وہ چھت پر بچھی چار پائی پر لیٹ گئی ۔اسے اکثر بغیر بستر اور تکیے کے اس طرح لیٹنا بہت اچھا لگتا تھا۔ آسمان ستاروں سے بھرا ہوا تھا۔ حجاب آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے خود سے باتیں کر رہی تھی ۔
’’میری مٹھی سے تو وقت ریت کی طرح پھسل گیا ہے تو میں اپنی بہن کی خوشی کے آڑے کیوں آؤں ۔ثانیہ ٹھیک کہتی ہے کہ مجھے اب فیضان جیسے لڑکوں کے ہی رشتے آئیں گے۔ مجھے اپنی مرضی کے رشتے کی خواہش کا حق نہیں ہے۔ ویسے بھی میں نے ابا جی سے وعدہ کیا تھا کہ میں ہمیشہ اپنی چھوٹی بہنوں کا خیال رکھوں گی اور اب تحریم کی خوشیاں میرے فیصلے کی منتظر ہیں۔ مگر میرا وہ دوست جو ہر مشکل فیصلے میں میرے ساتھ ہوتا تھا وہ کہتا ہے کہ فیضان ذہنی مریض ہے میں جانتی ہوں کہ اذہاد کوئی بات ایسے ہی بے وجہ نہیں کہتا یقینا وہ فیضان کے گھر گیا ہوگا، اس نے ایسا کچھ دیکھا ہو گا مگر یہ تو مجھے ثانیہ نے بھی بتایا ہے بیوی کے مرنے کے بعد فیضان میں چڑ چڑا پن آ گیا ہے۔ سب یہی کہتے تھے کہ فیضان شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گا۔ اگر وہ ذہنی مریض ہوتا تو اتنا بڑا بزنس کیسے سنبھالتا۔‘‘ حجاب ان سوالوں میں الجھی ہوئی تھی کہ سیڑھیوں سے قدموں کی آواز آئی۔ حجاب اٹھ کے بیٹھ گئی۔ “تحریم ! آ جاؤ چھت پر بیٹھنا اچھا لگ رہا ہے ۔‘‘
حجاب نے تحریم کو سامنے دیکھ کر کہا تو تحریم ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے چلتی ہوئی حجاب کے پاس بیٹھ گئی تحریم نے انتہائی سنجیدگی سے حجاب کی طرف دیکھا
“سوری آپ میرے لیئے چائے لائی تھی اور میں نے ایسے ہی۔۔۔۔”
کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔اس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان مت ہو کرو” حجاب نے تحریم کا ہاتھ دھیرے سے دبایا۔ تھی ۔
حجاب نے اس کے چہرے پر گہری نظر ڈالی ۔ ’’ کوئی بات ضرور ہے ۔تم تو اس طرح سنجیدہ نہیں ہوتی۔ مجھے نہیں بتاؤ گی۔”
تحریم نے حجاب کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑالیا۔
“کوئی فائدہ نہیں، آج کل ہر کوئی اپنے بارے میں سوچتا ہے کسی دوسرے کے بارے میں سوچنے کی کسے
فرصت ہے‘‘
حجاب نے تعجب سے تحریم کی طرف دیکھا۔ “یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو۔ اگر تمہارا اشارہ میری طرف ہے تو میں نے ہمیشہ پہلے تمہارے بارے میں سوچا ہے پھر اپنے بارے میں….. مجھ سے کہاں کوئی غلطی ہوئی ہے جو تم ایسی باتیں کر رہی ہو ۔‘‘
تحریم کے دل کی کڑواہٹ اس کی زبان تک آ گئی وہ کھڑی ہوگی۔اس کی زبان سے جیسے انگارے برسنے لگے۔
“یہ گھر جہاں میں کھڑی ہوں یہ گھر نہیں ہے ۔ حسرتوں کی قبر ہے۔ یہاں زندگی کی رعنائیاں نہیں۔ سوگ کی سرسراہٹیں ہیں دل میں اٹھنے والے ارمانوں کو ہونٹوں تک آنے سے پہلے ہی ختم کر دینے کا حکم صادر ہو جا تا ہے۔‘‘
حجاب کے جسم میں سرتا پا جیسے کپکپی دوڑ گئی ۔اس نے تحریم کو شانوں سے پکڑا۔
’’اپنی زبان کو لگا دو، کیا اناپ شناپ بول رہی ہو ۔‘‘
تحریم کے من میں یہ جوالا مکھی نہ جانے کب سے سلگ رہی تھی جو آج وہ لفظوں کے انگارے برسارہی تھی ۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ حجاب کے آگے باندھ لئے۔
“ہمیں اب نہیں جینا تمہارے رحم وکرم پر ۔اماں کے ہر وقت کے طعنوں سے کہ تمہاری 25000 روپے کی تنخواہ سے میں گھر چل رہا ہے۔ ہماری عزت نفس ختم ہوگئی ہے تم شادی کر کے اپنا گھر بساؤ۔ ہم خود کوسنبھال سکتے ہیں۔” تحریم کے جملوں کے طمانچے نے ایک لمحے میں ہی حجاب کی وفا اور قربانیوں کا مان ریز در ریزہ کر دیا۔
حجاب نے آنسو بھری آنکھوں سے تحریم کو دیکھا اور کانپتے لبوں سے بولی
”تمہارے دل میں آخر ہے کیا….”
پہلے تحریم کوئی جواب دیے بغیر جانے لگی پھر سیڑھیوں کے قریب جا کر رک گئی اور حجاب کی طرف دیکھا۔
’’اس غریب خانے سے جان چھڑانے کی کوئی صورت نکلی تھی تو تمہارے نخرے آڑے آ گئے حجاب صاحبہ یہ عمر تمہارے نخرے کرنے کی نہیں، فوری فیصلہ لینے کی ہے ۔” یہ کہہ کر تحریم تیز تیز سیٹرھیاں پھلانگتی ہوئی نیچے اتر گئی۔۔
تحریم کے رویے نے جیسے حجاب کو نڈھال کر دیا۔ وہ گھنٹوں کے بل بیٹھ گئی اور بلک بلک کر رونے لگی ۔
“تحریم یہتم کیا کہہ گئی ۔اے میرے رب! اگر کسی کو میری ضرورت نہیں تو مجھے موت دے دے۔‘‘
حجاب کے لب خشک ہونے لگے۔ کوئی ہاتھوں میں مٹی کا پیالہ لے کر اس کی طرف بڑھا۔ حجاب نے پانی سے بھرے مٹی کے پیالے کو تھامتے ہوۓ نظر اوپر اٹھائی تو اس کے سامنے وہی غمگسار دوست تھا جو ہمیشہ اس کے آنسو پونچھتا تھا۔ حجاب نے پانی منہ کو لگا کر لب تر کیے۔ ”تم کیوں نہیں مجھے دوسروں کی طرح اپنے حال پر چھوڑ دیتے؟ تم کیوں میرے آنسو پونچھتے ہو ‘‘
اذہاد مٹی کا پیالہ زمین پر رکھ کر حجاب کے قریب بیٹھ گیا۔
“کیونکہ میں انسان نہیں ہوں، خونی رشتوں کو چھوڑ کر بے جان چیزوں سے دل نہیں لگا تا میں خواہشات کا غلام نہیں، میں تو آزاد پنچھی ہوں۔ جہاں محبت ملی وہیں بسیرا کرلیا۔‘‘
حجاب نے پھر وہی سوال اذہاد سے کیا جو اس کی زبان پر کئی بار آ تا تھا۔ “سب انسان تو ایسے نہیں ہوتے ۔ تو پھر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔‘‘
اذہاد نے اس کے چہرے پر بکھری ہوئی لٹوں کو پیچھے کیا۔
“حجاب! جس انسان کو خدانے بنایا وہ تو وفا کا پیکر تھا۔ رشتے صرف نام کے لئے نہیں نبھاۓ جاتے تھے۔۔ وہ لوگ ایک دوسرے کا دم بھرتے تھے مگر اب معاشرے میں ان اچھائیوں کا فقدان ہے ۔ اکثر دوسروں کے لئے جینے والے لوگ تنہا رہ جاتے ہیں۔ تم نے اپنوں کے لئے بہت کچھ کیا مگر تمہیں بدلے میں کیا ملا، یہ خرافات جوتحریم کہہ گئی ہے ۔اپنی زندگی کا تم پر بھی کچ حق ہے ۔تم ہر دفعہ اپنی ذات کی نفی نہیں کرسکتی”
حجاب کے آنسو تھے جور کنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ وہ سر جھکاۓ گلوگیر لہجے میں بولی ۔
’’اذہاد! آج کی رات مجھے تنہا چھوڑ دو، مجھے اپنے من سے لڑنا ہے جس کی محبت میرے اپنوں کو زنجیروں کی طرح لگنے لگی ہے ۔ اس حجاب سے سوال کرنے ہیں جو اپنی بہنوں کی کامیابی کے خواب دیکھتے دیکھتے زندگی کی حقیقتوں سے دور ہوگئی۔ میں نہیں جانتی کہ رات کی اس جنگ میں کامیابی کس کی ہوگی ۔ مگر تم مجھے کمزور کر دیتے ہو، آج کی رات مجھے تنہا چھوڑ دو ۔‘‘ اذہاد نے حجاب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور دھیرے سے بولا ۔
’’فیصلہ کرتے ہوئے یادرکھنا کہ تمہارا یہ دوست چاہتا ہے کہ تم فیضان کے رشتے سے انکار کر دو‘‘
حجاب سر جھکاۓ خاموش رہی۔ اس نے اذہاد کی بات کا جواب نہیں دیا، جب اس نے سراو پر اٹھایا تو اذہاد غائب ہو چکا تھا۔ حجاب نیچے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
رات کے کھانے تک حجاب اپنے کمرے میں بند رہی۔ صباحت نے جب کھانے کے لئے بلایا تو اس نے کھانے کے لیئے منع کر دیا
صباحت نے تحریم کی طرف دیکھا جو بے اعتنائی سے کھانا کھانے میں مصروف تھی
’’ حجاب کو کیا ہوا ہے کھانا کیوں نہیں کھا رہی ‘‘
“پتہ نہیں۔ آپ خود پوچھ لیں ۔‘‘ تحریم نے کہا۔
صباحت ، حجاب کے پاس گئی تو حجاب بے ترتیبی سے بستر پر براجمان تھی ۔ تکیہ سر کے نیچے کے بجائے سر کے اوپر رکھا ہواتھا ۔ صباحت نے تکیہ اس کے سر پر سے ہٹایا
“یہ کونسا ڈھنگ ہےلیٹنے کا ہیئر برش بھی بستر پر ہے کتابیں بھی گری پڑی ہیں، چادر کہیں ہے اورتم کہیں، کیا بات ہے…. ‘‘
حجاب آنکھیں ملتے اٹھ بیٹھی
“پتہ نہیں اچانک پیٹ میں درد شروع ہو گیا میرا کچھ بھی کھانے کا من نہیں ہے، اس لئے لیٹ گئی پلیز آپ مجھے سونے دیں بہت غنودگی سی ہے طبیعت میں”
صباحت اس کے بکھرے بال سنوارنے لگی
’’ایسے خالی پیٹ کیسے سوجاؤ گی، میں تمہارے لئے سلائس اور دودھ لاتی ہوں”
نجاب کے منع کرنے کے باوجود صباحت اسکے لیئے دودھ اور سلائس رکھ کر چلی گئی اس نے بے دلی سے سلائس اور دودھ لیا اور دوبارہ بستر پر لیٹ گئی ۔صباحت کے سامنے اس نے نیند کا بس بہانہ بنایا تھا، اس کی آنکھیں تو سوچوں کے سراب میں کہیں کھو گئیں تھیں۔ چند ساعتوں میں وہ راستہ بھٹک گئی تھی، اس کی منزلیں بے راہ ہوگئی تھیں ۔ ایک ہی پل میں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ اس کے پیروں تلے کی زمین بھی اس کی اپنی نہیں ہے۔ آج کی رات اسے اپنی زندگی کا بہت بڑا فیصلہ کرنا تھا۔ وہ اٹھ کے کمرے میں چہل قدمی کرنے لگی ۔ کسی ایک فیصلے تک پہنچنے کے لئے کئی وسوسوں نے اسے کمزور کر دیا۔اس کے ذہن نے اسے بار بار یہی مشورہ دیا کہ اسے ایک بار اس فیملی سے مل لینا چاہیے، اس کے بعد وہ کوئی فیصلہ لے، کیونکہ یہ فیصلہ دو زندگیوں کا تھا۔ بالآخر حجاب ، نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ مسز آفتاب زیدی کی پوری فیملی سے ایک بار ملے گی پھر ہی کوئی حتمی فیصلہ کرے گی۔ وہ بستر پر دراز ہوگئی۔ فیصلہ کرنے بعد سوچوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔ اس کا دل نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے لگا۔
’’اماں اور دونوں بہنیں اس بات پر متفق ہیں کہ زریاب کا رشتہ تحریم کے لئے ہر طرح سے Perfect ہے ۔ اور فیضان کا رشتہ اماں کے خیال میں میرے لئے موزوں نہیں کیونکہ وہ عمر میں مجھ سے بڑا اور نفسیاتی مریض بھی ہے۔۔۔ میرے فیضان کے گھر جانے سے یہ صورتحال بدل نہیں جائے گی ۔ بلکہ وہاں جانے کے بعد رشتے کے لئے ہاں کرنے سے اماں یہ سمجھیں گی کہ ان کی کوٹھی کی شان و شوکت دیکھ کر میرے بھی قدم ڈگمگا گئے ہیں۔ حجاب کے دماغ کی رگیں جیسے پھٹنے لگیں، وہ اپنے سر کو پکڑ کے اٹھ بیٹھی۔ جب ہر حال میں سمجھوتہ مجھے ہی کرنا ہے تو اتنا سوچنا کیا، ویسے بھی ابھی ابھی تو آزمائشوں سے گزری ہوں ، میں کب تک اپنے نصیب سے لڑوں گی۔‘‘ سوچوں میں ڈوبی ہوئی حجاب تکیے میں سر چھپا کے لیٹ گئی۔ یہ دردبھری رات اس نے جیسے انگاروں پر گزاری۔
اگلی صبح سب کچھ حسب معمول تھا مگر حجاب کے لئے ایک رات میں جیسے بہت کچھ بدل گیا تھا۔ خود کو ایک نئے سفر کے لیئے تیار کرنے سے اس کا برتاؤ یکسر بدل گیا تھاوہ ناشتے پر بھی خاموش سنجیدہ اور کھوئی کھوئی سی تھی کون کیا بات کر رہا ہے ۔اس کا دھیان نہیں تھا۔
صباحت گھر کی چیزیں سمیٹنے لگی تو اس نے تحریم سے حجاب کے بارے میں پوچھا ’’حجاب کہاں ہے ۔‘‘
’’اپنے کمرے میں ہوگی ۔‘‘ تحریم نے کشن پر کپڑا چڑھاتے ہوۓ کہا۔ ۔۔
تم سے کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا ۔ تحریم نے چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ بات ٹال دی ۔
“میں کچن کے برتن سمیٹ آؤں ‘‘
’’اچھا! حجاب کو بلا کر لاؤ ، پھر اپنے کام کرتی رہنا۔‘‘ صباحت نے تحریم کو جاتے ہوئے روکا۔
’’میں بلاتی ہوں حجاب کو” یہ کہہ کر حریم حجاب کے کمرے میں گئی اور اسے صباحت کا پیغام دیا۔ تھوڑی دیر بعد حجاب ،صباحت کے پاس آئی تو صباحت ہاتھ میں تیل کی بوتل لے کر بیٹھی تھی ۔
’’ادھر آؤ میرے پاس ، میں تمہارے سر کی مالش کر دوں۔‘‘ صباحت کے کہنے پر حجاب خاموشی سے آلتی پالتی مارکر زمین پر بیٹھ گئی۔
صباحت نے اس کے سر پر تیل ڈالا اور انگلیوں کی مدد سے مالش کرنے لگی ۔
’’آج تو آرام سے بیٹھ گئی مالش کرانے ورنہ تم تو کئی بہانے بناتی ہو۔ کوئی الجھن ہے، اس طرح پر یشان کیوں نظر آ رہی ہو۔‘‘
حجاب یہی سوچ رہی تھی کہ وہ ماں سے فیضان کے رشتے کے بارے میں کیسے بات کرے لیکن صباحت کے بات چھیڑنے پر حجاب نے بات کہنے کی ہمت کی وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی
“اماں میں اپنی زندگی کی یکسانیت سے تھک گئی ہوں دل چاہتا ہے ملازمت چھوڑ کر دوسری لڑکیوں کی طرح گھر سنبھالوں ‘‘
صباحت نے شرارت سے حجاب کے سر پر تھپکی دی “یہ گھر سے مرادکون سا گھر ہے..”
حجاب بالوں کو اکٹھا کرتے کھڑی ہوگئی پھر وہ صباحت کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔
’’اماں میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں لیکن آپ نے میری بات پوری سننی ہے” صباحت نے ٹشو سے اپنے ہاتھ صاف کئے ۔
’’ایسی کون سی بات ہے۔ جس نے تمہیں اتنا پریشان کر رکھاہے”
صباحت کے اس طرح پوچھنے پر حجاب کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے اپنی نمدار آنکھوں سے ماں کی طرف جھا نکا، جن میں بے شمار سوال تھے۔ دل چاہ رہا تھا کہ ماں بغیر کہے ہی اس کے دل کی بات سمجھ لے مگر صباحت جیسے اس کے غم سے انجان تھی ۔اس نے پیار سے تجاب کے چہرے کو چھوا ۔
” کیا بات ہے حجاب ۔۔ ”
’’اماں آپ فیضان کے رشتے کے لئے ہاں کہہ دیں۔”
“یہ تم کیا کہہ رہی ہوں، میں نے بتایا تھا نہ کہ وہ لڑکا بڑی عمر کا ہے۔ مجھے وہ تمہارے لئے موزوں نہیں لگا۔‘‘
صباحت نے پریشان کن لہجے میں کہا۔
حجاب نے ماں کا ہاتھ تھاما۔ ’’ آپ میری اماں ہیں اس لئے ایک طرفہ سوچ رہی ہیں آپ کو میرے بالوں میں چمکتے چاندی کے تارنظر نہیں آ ر ہے۔ اب میرے لئے فیضان کی عمر کے اشخاص کے رشتے آئیں گے اور اگر یہ رشتہ ٹھکرا کر میں کسی اور جگہ بھی کر لیتی ہوں تو یہ غم میرے لیئے سوہان روح ہوگا کہ میں اپنی بے سہارا ماں پر ایک بیٹی کا بوجھ ڈالے نیا گھر بسانے چلی ہوں”
“بس بیٹی تم نے بہت زمہ داری اٹھا لی ہماری اب تم اپنا گھر بساؤ تمہارا اچھی جگہ رشتہ کرنے کے بعد میں تحریم کے لیئے رشتہ ڈھونڈوں گی تم تحریم کی فکر مت کرو اپنی زندگی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرو” صباحت نے اسے سمجھایا
“اماں مجھے اس بات سے کوئی فرض نہیں پڑتا کہ فیضان کی عمر زیادہ ہے اور رہی بات انکے چڑچڑے پن کی تو مجھے خود پر بھروسہ ہے بقول انکی امی کے میں انکا ادھورا پن ختم کر سکتی ہوں انکی امی کے کہنے کے مطابق جس طرح کے حالات سے وہ گزرے ہیں، انسان ایسا ہو جاتا ہے مگر جب ایسے انسان کو خوشیاں اور پیار ملے تو وہ بدل جا تا ہے۔ مسز آفتاب زیدی چاہتی تو سچائی چھپا بھی سکتی تھی مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ بھی چاہتی ہیں کہ کوئی لڑکی ان کے بیٹے کو پھر سے خوشیاں دے۔ اگر ہم دونوں کا رشتہ ایک گھر میں ہو جا تا ہے تو آپ دونوں بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں گی اور میں بھی اس فکر سے آزاد ہو جاؤں گی کہ میرے بعد تحریم کا کیا ہوگا۔ اماں مجھے ایک پرسکون گھر اور تحفظ دینے والا خاوند چاہیے۔ بس اس سے زیادہ اور کوئی حسرت نہیں۔ میں اپنی اس زندگی سے اب تنگ آ گئی ہوں۔ مجھے بھی اپنا گھر چاہیے، ہرلڑ کی کی طرح میں بھی گھر بسانا چاہتی ہوں۔”
یہ سب کہتے ہوۓ حجاب ندامت کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی تھی اس کے لئے یہ سب کہنا آسان نہیں تھا مگر آج کوئی فیصلہ لینے کے لئے یہ سب ضروری تھا۔
صباحت کا دل تیزی سے دھڑ کنے لگا تھا اس کے لئے حجاب کی گفتگو خلاف توقع تھی اس کے لئے تو حجاب صبر و تحمل کی مثال تھی اور وہ ہر فیصلے کے لئے حجاب پر خود سے زیادہ بھروسہ کرتی تھی اور آج حجاب اس کے فیصلے کے خلاف جارہی تھی ۔
صباحت نے حجاب کے شانوں پر ہاتھ رکھے۔ ”تم نے جو کچھ کہا میں ٹھنڈے دماغ سے ان باتوں پر غور کروں گی، بس اتنا بتا دو کہ یہ سب تم نے کسی دباؤ میں تو نہیں کیا تم سے کسی نے کوئی ایسی بات تو نہیں کی کہ تم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہو۔ مجھے بس یہ تسلی چاہیے کہ یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہے یا نہیں ۔“
حجاب نے بھیگی آنکھوں سے ماں کی عمر رسیدہ آنکھوں میں جھانکا جن میں نور دھندلا پڑ رہا تھا
“اماں یہ میرا اپنا فیصلہ ہے کسی نے مجھ سے کچھ نہیں کہا یہ سب باتیں میں نے بمشکل کہی ہیں آپ سے لیکن یہ میرے دل کی سچائی ہے کہ میں تھک گئی ہوں میں یہی چاہتی ہوں کہ آپ مسزآفتاب زیدی سے بات کریں اس رشتے کی لیئے ہاں کہہ دیں” یہ سب کہہ کر حجاب اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
وہ اپنے ڈھیلے وجود کے ساتھ دھڑام سے بیڈ پر گری وہ سسک رہی تھی آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نا لیتے تھے
“اماں مجھے معاف کر دو مجھے خود نہیں پتا میرے اس فیصلے کا انجام کیا ہوگا”
اچانک کسی پرندے کے پر پھڑپھڑانے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ جھرجھری لے کر آنسو پونچھتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔
بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر وہی کبوتر بیٹھا تھا جسے اکثر حجاب دانہ ڈالتی تھی اور جس کے پنجے میں حجاب کا پہنایا سبز چھلا تھا ایک ساعت کے لیئے حجاب اپنا غم بھول گئی اور اپنے ہاتھ کبوتر کی طرف بڑھائے
”تم یہاں کمرے میں کیسے آئے ‘‘ کبوتر اس کے ہاتھ سے نکل کر کمرے سے باہراڑ گیا۔ حجاب بھی اس کے پیچھے دوڑتی ہوئی باہر صحن میں آ گئی ۔
کبوتر صحن کی منڈیر پر بیٹھا تھا۔ حجاب دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھی تو وہ چھت کی دیوار پر جا بیٹھا۔ حجاب اس کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں پھلا نگتے ہوۓ چھت پر چڑھ گئی۔ کبوتر دیوار سے اڑ کر حجاب کے قدموں کے قریب پھر نے لگا۔ حجاب نے مسکراتے ہوۓ اپنے ہاتھ اس کبوتر کی طرف بڑھاۓ۔
کیسی بے وقوف ہوں تمہارے پیچھے پیچھے بھاگ رہی ہوں اور دانہ تولیا نہیں ۔‘‘حجاب نے کبوتر کو چھوا تو جیسے اس نے اپنا ہاتھ انگاروں میں ڈال لیا۔ اس کا ہاتھ جھلس گیا۔اس نے چیختے ہوئے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا تو کبوتر نے اذہاد کا روپ لے لیا۔ اذہاد پتھر کی مورتی کی طرح سیدھا کھڑا تھا۔ اس کے جسم کے گرد جیسے نہ دکھائی دینے والی آگ بھڑک رہی تھی ۔ جسم کو جھلسا دینے والی حرارت نے حجاب کو اذہاد سے بہت دور کر دیا۔ وہ الٹے قدموں پیچھے چلتی ہوئی مبہوت نظرں سے اذہاد کو دیکھتی رہی۔
اذہاد آج وہ اذہاد نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں سے انگارے برس رہے تھے۔
حجاب خود پر قابو نہ رکھ سکی تو چلائی
“اذہاد یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ مجھے بہت ڈرلگ رہا ہے۔ ”
اذہاد گرجا ”میں نے کہا تھا نہ حجاب کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی اور اس بار بھی اپنی زندگی کو داؤ پر لگایا تو تم اپنا دوست کھو دو گی۔ مجھے اپنی دوستی پر مان تھا کہ تم میری بات کا یقین کرو گی مگر فیضان کے رشتے کے لئے ہاں کر کے تم نے میرا یہ مان تو ڑ دیا۔ آج میں تمہیں منانے کا موقع بھی نہیں دوں گا۔ تمہارا دیا ہوا بہت ساغم لے کر میں جارہا ہوں۔” حجاب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
“ایسا نہ کہو اذہاد تمہارے بغیر میں تنہا رہ جاؤں گی تم ہی میرے سچے دوست ہوں ۔ مجھے چھوڑ کر مت جاؤ جو چاہے سزا دو مگر مججے تنہا مت چھوڑو”
حجاب اذہاد کے قریب جانے لگی مگر انگاروں کی غیبی حالے سے اسکا جسم جھلسنے لگا اور وہ بے بس ہو کر زمین پر گر کر رونے لگی سکی آنکھوں کے سامنے ہی چند ساعتوں میں اذہاد کا جسم روشنی کی شعاع میں تبدیل ہو کر آسمان میں غائب ہو گیا۔
حجاب اونچی اونچی آواز میں رونے لگی صباحت صحن میں آئی تو حجاب کے رونے کی آواز سن کر تیزی سے سیٹرھیاں چڑھ گئی۔ حجاب کو اس طرح بے حال زمین پر گرتے دیکھ کر صباحت کا سینہ دھک سے رہ گیا۔
’’حجاب میری بیٹی! یہ کیا حال بنا رکھا ہے کیا ہو گیا ہے تمہیں…. تحریم ایک گلاس گرم دودھ لے کر آؤ۔‘‘
صباحت نے حجاب کے ٹھنڈے ہاتھوں کو ملتے ہوۓ تحریم کو آواز دی ۔ تحریم گرم گلاس کا دودھ لے آئی۔
•●•●•●•●•●•●•●•●•
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...