“اسلام علیکم ” ڈائینگ ٹیبل پر رات کا کھانا کھایا جارہا تھا وہ سب ہی روفہ کے منتظر تھے جو عشاء کی نماز پڑھنے کی وجہ سے لیٹ آئی تھی ۔۔۔
” اب ہم اس نواب زادی کی وجہ سے کھانا روک کر بیٹھے رہیں۔۔کہ محترمہ تشریف کا ٹوکراہ کب لے کر آئیں اور کب ہم کچھ ٹھونس سکیں ۔۔۔”
جلیس نے فودیل کی تپتی سرگوشی پر آبرو اچکا کر نفی میں سر ہلایا ۔۔۔
” بھائی جان شاید آپ اس چیز سے واقف نہیں ہیں جس محترمہ کی آپ بات کر رہے ہیں اس گھر کی مالکن ہے وہ میں یاد دلاتا جاوں تمہیں ۔۔۔”
جلیس کی کمینی سی مسکراہٹ اس کا دل جلا گئی ۔۔
فضا کی رنگت اس کی آمد سے کھل گئی تھی اپنی بیماری ہی بھول بیٹھیں تھیں ۔۔
” بیٹھو بیٹے یہاں ۔۔۔پروین کھانا ڈال کر دو ۔۔اور بتاو پھر کیسا گزرا آپ کا دن یقینا بور ہی ہوئی ہو گی مصروفیت جو کوئی نہیں ہے ویسے میں نے ایڈمیشن کا سب پتا وغیرہ کر لیا ہے کل آپ میرے ساتھ چلنا تاکہ جلد ہی آگے کی کاروائی بھی مکمل ہوجائے ۔۔۔”
عالم نے بات شروع کی ۔۔۔
” آپ رہنے دیں میں خود ڈال لوں گی ۔۔ٹھیک ہے چلی جاوں گی ۔۔”
پہلا جملہ پروین کو بولا جو اس کی پلیٹ میں کھانا ڈالنے کو تھی ۔۔سب نے حیرت سے اس کو دیکھا جو خود ہی اپنی پلیٹ میں چاول اور دوسری پلیٹ میں بروسٹ ڈال رہی تھی ۔۔جبکہ اس گھر کے کسی فرد نے آج تک خود سے پانی کا گلاس بھی جگ سے ڈال کر پینے کی زحمت نا کی ۔۔
” اب اتنا بھی کیا بندہ ڈارمے باز ہو یہ سب سگھڑ پن چاچو اور چاچی کے سامنے نمبر بنانے کے لیے ہے ۔۔وہ تو پہلے ہی اس کے شیدائی ہیں مزید کی کسر کہاں بچتی ہے ۔۔”
فودیل کے کان میں گھس کر ترتیل نے بھڑاس نکالی اس نے آنکھ کے اشارے سے بہن کو چپ رہ کر کھانا کھانے کو بولا البتہ ہائیسم نے ایک سنجیدہ سی نگاہ اس پر ضرور ڈالی ۔
” بیٹا یہ فورک لے لو ۔۔ایسے کیوں کھا رہی ہو ہاتھ ضرور گندے کرنے ہیں یہ لو ٹیشو “۔۔
فضا نے اس کو بروسٹ ہاتھ سے کھاتے دیکھ کر ٹوکا ۔۔
” مجھے آپ لوگ یہ بتائیں میں کوئی عجوبہ ہوں جو سب کھانے سے ہاتھ روک کر مجھے گھورنے میں وقت برباد کر رہے ہیں ۔۔بڑے مجھے ٹوکنے میں لگے ہیں اور باقی لوگ میرے بارے میں غیبت کر کے ایک دوسرے کو سر گوشیوں سے فیض یاب کر رہے ہیں ۔۔۔اگر یہ ہی سب کرنا ہے تو میں آتی ہی نہیں ہوں کھانا کھانے ”
پلیٹ میں مرغے کی بوٹی پٹخ کر سب کو باری باری گھورا خاص کر ترتیل اور فودیل کو یہ دونوں بھائی بہن زہر لگتے تھے اس کو ۔۔۔
” ایسی تو کوئی بات نہیں ہے بچے کوئی بھلا کیوں تمہاری برائی کرے گا ۔۔بیٹی ہو تم اس گھر کی ۔۔اور تم نے یہ بات کیوں کی ہے کہ ٹیبل پر کھانے نہیں آو گی یہ بات تو صحیح نہیں ہے نا بیٹے اب کوئی نہیں ٹوکے گا آپ کو چلو شاباش سیانوں کی طرح کھانا کھاو ۔۔”
” آپ کو کس نے کہہ دیا ہے کہ میں بڑی سیانی ہوں میری سہیلی مجھے الٹی کھوپڑی کی کہتی ہے ۔۔اور میں یہ تو کبھی برداشت نا کروں کہ ٹولیوں میں بیٹھ کر آپ کی اگلی نسل مجھ پر نقص نکالے جو کہنا ہے میرے سامنے کہو ۔میں نے منہ توڑ جواب نا دیا تو روفہ عالم نا کہے کوئی مجھے ۔۔”
عالم کی شفقت ٹپکتے لہجے کو کسی خاطر میں لائی تھی ۔۔
” اور ہاں مامو ایک تو جب بھی نکلا ماموں ہی منہ سے نکلا ۔مطلب بابا میں کل خود ہی چلی جاوں گی اپنے ایڈمیشن کے لیے ۔۔۔ پچھلے کچھ عرصے سے یہ سب کھجل خرابی خود ہی سہتی آئی ہوں ۔۔زندگی میں اتنے دھکے کھا لئیے ہیں کہ اب کسی آسائیش کی نا تو طلب ہے نا ضرورت ۔۔۔”
سب کے فق چہروں کو نظر انداز کیئے کرسی کھسکاتی یہ جا وہ جا ہوئی ۔۔۔۔۔
” پڑ گئی سب کو ٹھنڈک مل گیا سکون ۔۔آپ سب لوگ اپنے آپ کو سیدھے کر لو تو بہتر ہے میں کرنے پر آیا نا کسی کے حق میں اچھا نہیں ہونا اور تم فضا وہ جیسے رہنے چاہتی رہنے دو یہ اپر کلاس کے چونچلے نہیں پسند اس کو ۔۔کانٹے چھری سے کھاو رومال سے منہ ہر نوالے کے بعد صاف کرو ملازمہ سے پانی ڈلواو ۔۔۔اگر وہ یہاں رہنے کو راضی ہو ہی گئی ہے تو چین لینے دو اس کو ۔۔”
فضا بالاوجہ ہی شرمندہ ہوگئی تھیں ۔۔۔ہائیسم اور جلیس بے چارے مفت میں ہی رگڑے گئے تھے ۔۔
” کیا بندی ہے یار ویسے ۔۔مطلب ہر چیز پر نظر تھی اس کی ایویں ہی تو ٹاپ نہیں کر لیا کوئی تو دم خم ہے ۔۔۔میں تو فین ہوگیا قسمے ۔۔”
جلیس منہ کھولے ان تینوں کو دیکھ کر بولا عالم اور فضا اٹھ کر جا چکے تھے ۔۔۔
” زیادہ بکواس نا کر۔۔۔اپنی تخریب کاریاں اس پر نا آزمانہ کہیں ایسا نا ہو تمہارا چھوٹا سا منہ ہی توڑ کر رکھ دے اور ہمیں پتا چلے کے جلیس عالم کوچ کر گئے ہیں ۔۔”
ہائیسم اس کو دھموکا جڑ کر کہتا ہوا اٹھ گیا ۔۔
” صحافی صاحب اب آپ چنگی طرح ٹھونس لینا ۔۔کیا تھا اگر تم کھانے کا بیڑہ غرق نا ہی کرتے ۔۔وہ بے چاری بھی بھوکی ہی چلی گئی ۔۔۔”
جلیس کی روفہ کے لیے پرواہ ترتیل کو سلگا گئی تھی ۔۔ایک نظر چارد میں ڈھکے اپنے بے جان بازو کو دیکھ کر بائیں ہاتھ سے ٹیبل کا سہارہ لے کر اٹھ کر چلی گئی ۔۔جلیس جانے کیوں اس کو خود سے میلوں فاصلے پر لگتا تھا ۔۔۔
” یار فادی وہ آیاز رحمان کو لائیو شو آنے کی کال تمہاری سیکٹری نے کی ہے یا نہیں اور مجھے اپنے شو کی ویئور شپ کی فائل بھی دو ”
سراج اس کے آفس میں آتے ہی بولنے لگے ۔۔۔
” خیرت ہے چاچے سے کٹ کھا کر آئے ہو نواسے اتنی سڑیل شکل کیوں بنائی ہے ۔۔ایک تو بالوں اور مونچھوں نے تمہاری مت ماری ہوئی ہے اوپر سے منہ بھی ڈینگا کیا ہوا ہے ۔۔”
سراج کا مسخرا پن اسے ایک آنکھ نا بھایا ۔۔
” نا کرو نانا ایک تو دماغ کی تاریں ویسے ہی شارٹ ہوئی پڑی ہیں اوپر سے تیلیاں لگانے سے باز نا آنا آپ ۔۔۔”
سراج کا قہقہہ پورے آفس میں گونجا تھا ۔۔۔
” نا وہ کون سی ایسی مخلوق پیدا ہوگئی جس نے تمہاری داماغ کی وائیرنگ کے ساتھ چھیڑ کھانی کر دی ۔۔”
اب بھی لہجے میں شرات واضح تھی وہ پھر تپ اٹھا ۔۔
” وہ ہے نہیں روفہ عالم نام کی ڈائین بلا چڑیل ۔۔اچھی خاصی جھاڑ پلا دی چاچو نے اس کی وجہ سے ۔بیٹی کیا واپس مل گئی اور کچھ دیکھ ہی نہیں رہا روفہ یہ روفہ وہ روفہ نا ہوگئی ملکہ الیزبتھ ہوگئی ۔۔پینڈو نا تو ۔۔”
” بری بات ہے فادی ایسے نہیں بولتے ۔۔بہن ہے تمہاری گھر کی عزت ہے بولنے سے پہلے کچھ خیال کرو ۔۔”
بہن لفظ پر تو وہ بدک اٹھا ۔۔۔زور زور سے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔
” کوئی بہن وہن نہیں ہے میری ۔۔بہن ہوگی وہ اپنے بھائیوں کی ۔۔مجھے ایک بہن ہے بہت ہے ۔۔بلاوجہ کی مزید رشتے داریاں ۔جائیں نانا جاکر اپنے آفس میں بیٹھیں ۔۔۔ایویں نا مجھے مزید گرم کریں ۔۔۔”
ایک کراری چپیڑ اس کے سر پر مار کر سراج اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔۔۔فودیل بلبلا کر ضبط ہی کرتا رہ گیا ۔۔۔
” تیرے ساتھ ایسی ہی ہونا چائیے ۔۔اب جلدی ہاتھ چلاو سست انسان نہیں تو اس مہینے کی تنخواہ میں سے پورے دس ہزار کاٹوں گا ۔۔”
منہ پر ہاتھ پھیر کر وارننگ دی فودیل افسوس سے دیکھ کر رہ گیا ۔۔۔
” اتنے کنجوس نانا بھی کسی کو نا ملیں ۔۔خود ہزاروں کے سگار پھونک دتیے ہیں اور نواسے کی پائی پائی کا حساب کتاب ۔۔اللہ مالک ہے اوپر بیٹھا سب دیکھ رہا ہے وہ ۔۔”
ایک بار پھر قہقہہ لگا کر سراج آفس چلے گئے ۔۔فودیل بھی ان کی باتیں یاد کرکے ہنس پڑا ۔۔نانا سے بہترین دوست اس کو آج تک نا ملا تھا ۔۔۔۔۔
کتاب ہاتھ میں پکڑے فضا یوں ہی خلاوں میں گھور رہی تھیں ۔۔کبھی بیڈشیٹ کے ڈیزائین پر انگلی پھیرنے لگتیں کبھی ورقوں کو الٹ پلٹ کرنے لگتیں ۔۔۔
” کیا بات ہے فضا اتنی بے چین کیوں ہو ۔۔کب سے دیکھ رہا ہوں کوئی بات ہے تو بتاو یوں دل ہی دل میں کون سی سوچیں پال رہی ہو۔۔”
فائل پر قلم سے لکھتے ہاتھ روک کر براہراست پوچھنے لگے ۔۔فضا انہیں ایک نظر دیکھ کر چہرہ جھکا گئیں ۔۔۔
” عالم ایک سال گزر گیا روفہ کو یہاں آئے اب بھی وہ اتنی اچھی طرح سے نہیں گھل مل پائی جیسے ہونا چائیے تھا اور ایک سال تو گزر گیا اس کی گریجوویشن کا ۔۔اگلے سال اس کا بی اے ہوجائے گا ۔۔پھر مزید دو سال کا ایم اے اور پھر شادی کے بعد وہ یہاں سے چلے جائے گی ۔۔کیا بس چار سال ہی گزارے گی ہمارے ساتھ ۔۔اور کیا پتا اس کی پڑھائی کے دوران ہی کوئی اچھا رشتہ آجائے اور ہمیں اس کی شادی کرنی پڑجائے ۔۔۔”
فضا کی آنکھوں کی نمی پر وہ دھیما سا مسکرا دئیے ۔۔ہاتھ بڑھا کر ان کی پیشانی پر ہونٹ رکھ کر اپنے کندھے سے لگا لیا ۔۔۔
” یار کیوں پریشان ہوتی ہیں میرا وعدہ ہے آپ سے وہ کبھی ہمیں چھوڑ کر نہیں جائے گی یہاں ہی رہے گی ۔۔۔میں نے جلیس کے ساتھ اس کا نکاح یا پھر کم ازکم منگنی کا سوچ لیا ہے میں کافی دنوں سے اس بارے میں سوچ رہا تھا ۔۔جلیس ایک بہترین ہمسفر ثابت ہو گا مجھے پورا یقین ہے اپنے شیر جوان پر ۔۔”
” عالم جلیس کے ساتھ روفہ کا ۔۔آپ کے دماغ میں یہ خیال کیسے آیا ۔۔مانا کہ وہ اچھا بچہ ہے میں نے پالا ہے اسے مگر وہ اس خاندان کا تو نہیں ہے ۔۔اور آپ نے ان دونوں سے پوچھے بغیر ہی یہ فیصلہ لے لیا ۔۔۔”
عالم کی پر جوش آواز پر فضا نے بے یقینی سے ان کے کندھے سے اپنا سر اٹھا کر پوچھا ۔۔بات تو واقعی ہی حیرت والی تھی ۔۔۔۔
” یہ کیا بات کی ہے آپ نے فضا ۔۔کم از کم مجھے آپ سے یہ امید نا تھی ۔۔جانتی ہے نا روفہ کے جانے کے بعد جلیس کے بچپنے نے ہی آپ کو سنبھلنے میں مدد دی تھی ۔۔میں جتنا بھی آپ کو سنبھال لیتا اولاد کی کمی تو پوری نہیں ہو سکتی تھی ۔۔وہ آپ ہی تھی نا جس نے بے رحمی سے ہمارے دروازے پر پھینکے ہوئے ایک سال کے بچے کو اپنے آنچل میں چھپایا تھا ۔۔تو پھر اب یہ بے اعتباری کیسی ۔۔میں فیصلہ کر چکا ہوں ۔۔۔روفہ سے بات بھی کر لی اس کو کوئی اعتراض نہیں ہے میرے فیصلے سے بس جلیس سے پوچھنا باقی ہے ۔۔۔”
وہ بڑے مطمئین تھے ۔۔سالوں بچھڑی اولاد نظروں کے سامنے اس ہی گھر میں رہتی اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیئے تھا ۔۔
” آپ میری بات کو غلط رخ تو مت دیں عالم مجھے اعتراض نہیں ہے بس بچوں کی مرضی شامل ہو میری اتنی سی خواہش ہے دونوں ہی میرے بچے ہیں دونوں ہی جان سے بڑھ کر عزیز ہیں ۔۔مگر آج کل جلیس کی حرکتیں کچھ مشکوک سی ہیں آپ اس سے اچھی طرح پوچھ لیں پہلے یہاں معاملہ ہماری بیٹی کا ہے عالم ۔۔وہ راتوں کو دیر سے آنے لگا ہے ۔۔۔بالکہ آپ ابھی پوچھیں میرے سامنے ۔۔”
عالم کا ماتھا ٹھنکا تھا ۔۔یہ تو خود بھی کچھ دنوں سے غور کر رہے تھے جلیس رات کو دیر سے آنے لگا تھا جبکہ آفس سے پورے چھ بجے رفو چکر ہو جاتا تھا ۔۔۔
” نجمہ سے کہہ کر بلاو زرا اس کو ابھی پوچھ لتیے ہیں صاحب زادے کے کیا ادارے ہیں ۔۔۔”
کچھ سوچ کر فضا کو بلانے کا بولا دوٹوک بات کر ہی لینی چاہئے تھی ۔
” بابا بلایا آپ نے آجاوں میں اندر ؟؟”
خوش اخلاقی سے مسکرا کر دروازے کے اندر جھانک کر بولا ۔۔
” آو آو بیٹا جی آپ کے ہی منتظر ہیں ۔۔آئیے ۔۔۔۔”
اندر آتے ہی ٹیبل پر پڑی کاجو کی پلیٹ سے مٹھی بھر کاجو لے کر دو دانے منہ میں ڈالے عالم سر ہلا کر ہنسے ۔۔۔
” آج کیا کام پڑ گیا مجھ سے آپ کو ۔۔آفس میں تو آپ نے کوئی ذکر بھی نہیں کیا تھا اب اچانک ہی حاضری لگوادی ”
کاجو چباتے مسخرے پن سے کہا فضا نے اس کی شرٹ کا کالر ٹھیک کرکے ماتھے سے بال سنوارے۔۔
” شادی کے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا ؟؟ کچھ سوچا ہے کہ نہیں کوئی پسند وغیرہ تو نہیں ہے نا ؟؟”
چشمہ ناک کے آخری کونے پر ٹکا کر چشمے کے اوپر سے آنکھیں سکوڑ کر تفتیشی انداز میں سوال کیا ۔۔۔
” بابا پسند کا تو پتا نہیں ابھی مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ”
سر کجھا کر ڈواں ڈول سے کام لیا ۔۔اس ٹاپک سے وہ صاف اپنا دامن بچا رہا تھا ۔۔
” میں اور فضا چاہتے ہیں کہ تمہارا روفہ سے رشتہ طے کر دیا جائے اگر تمہیں کوئی اعتراض نا ہو تو ۔۔ویسے ہونا تو نہیں چائیے مجھے لگتا ہے ہو گا بھی نہیں ۔۔”
کاجو کھاتے جبڑے ایک دم ساکت ہوئے ۔حلق میں کاجو کا دانہ جیسے پھنس گیا تھا ۔۔ہڑبڑی میں پانی کا گلاس منہ کو لگا یا ۔۔عالم اس کے ایک ایک انداز کو نظروں کی گرفت میں لیئے ہوئے تھے ۔۔
” با۔۔۔بابا ۔۔۔وہ دراصل بات کچھ یوں ہے کہ ۔۔۔میرے ساتھ ۔۔۔میرا مطلب ہے کہ ۔۔۔اب میں کیسے بتاوں ۔۔وہ میں نکاح کر چکا ہوں دو ہفتے پہلے ہی ۔۔”
فضا اور عالم کے بے یقین سفید چہروں کو دیکھ کر جلدی سے دونوں کے قدموں میں بیٹھا ۔۔
” بابا قسم لے لیں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔میں ایسے بالکل بھی نہیں کرنا چاہتا تھا مگر میرے دوست کی بہن کے ساتھ ایک فلمی سین ہوگیا ۔۔یا یوں کہہ لیں کہ مقدر میں ایسے ہی لکھا تھا ۔۔سجاد کی بہن کی منگنی ہونے والی تھی مگر اس کا منگیتر فرار ہوا قاتل تھا پولیس نے موقع پر ریٹ ماری اور گرفتار کر کے لے گئے ۔۔سجاد کے ابو کو اٹیک آیا اور موقع واردات پر میں ہی موجود تھا تو انہوں نے ہاتھ جوڑ کر مجھے بلی کا بکرا بنا دیا اور پکڑ کر مسجد میں نکاح پڑھوا دیا ۔۔ان دنوں آپ دونوں ٹور پر روفہ کے ساتھ دبئی گئے ہوئے تھے اس لیے بتا نہیں پایا ۔۔اب معاف کردیں مجھے ۔۔روفہ ایک اچھا انتخاب تھی مگر افسوس کہ میں اس قابل نہیں کہ آپ کی خواہش کا احترام کر سکوں ”
وہ دونوں کیا کہتے سناٹے کی زد میں آئے بس عجیب نگاہوں سے جلیس کو دیکھنے لگے جو فضا کی گود میں سر رکھے عالم کا ہاتھ پکڑ کر زمین پر بیٹھا ملتجی ہو رہا تھا ۔۔۔۔