رات کی تاریخی میں وہ کمرے میں موجود بالکونی میں کھڑی ہوئی وہ دور سے نظر آتے اونچے اونچے پہاڑوں کو دیکھ رہی تھی،، تیز رفتار میں ٹھنڈی چلتی ہوئی ہوا جب اُس کے بدن سے ٹکراتی تو پورے دن کی تھکاوٹ کا احساس کہیں ختم ہو جاتا۔۔۔ اس حویلی میں بسنے والے لوگ بھی روشانے کو ان پہاڑوں کی مانند لگتے،، سخت دل۔۔۔
کہنے کو تو شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی اس کے سگے نانا اور ماموں تھے مگر اُن دونوں نے ایک بار بھی اُسے رباب کی بیٹی سمجھ کر پیار سے گلے نہیں لگایا تھا
اس کو یہاں پر ضیغم کی بیوی کی حیثیت سے عزت دی جارہی تھی۔۔۔ نہ جانے وہ کبھی بھی اس کو رباب کی بیٹی کی حیثیت سے پیار کریں گے بھی کہ نہیں۔۔ یہ خلاہ روشانے کے دل میں موجود تھا۔۔۔ وہ اُداسی سے سوچتی ہوئی اپنے خالی کمرے کو دیکھ کر بالکونی سے کمرے میں آ کر بیڈ پر لیٹ گئی
آج رات کھانے کی ٹیبل پر کشمالا سب کے سامنے فیروز جتوئی سے کہہ چکی تھی کہ جب تک اُس کا بیٹا حویلی میں چند دن موجود ہے وہ کوئی اور کمرے میں اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لے۔۔روشانے نے جُھکا ہوا پلیٹ سے سر اٹھا کر سب کی طرف دیکھا تو کسی نے بھی کشمالا کی بات پر اعتراض نہیں کیا شاید وجہ یہ تھی کہ کشمالا کی طبیعت ناساز تھی اور وہ کافی حساس ہو رہی تھی۔۔ کھانے کے بعد سب کو قہوہ دے کر وہ ضیغم کے بیڈروم میں آ گئی تھی
بیگ سے اپنا موبائل نکالا تو اس پر زرین کی مسڈ کال شو ہو رہی تھی۔ ۔۔زرین سے بات کرکے اُسے ژالے کی طبعیت خرابی کا معلوم ہوا۔ ۔۔ بات کرنے کے بعد وہ اپنا موبائل واپس آف کرکے بیگ میں رکھ چکی تھی
روشانے نہیں چاہتی تھی اِس کے موبائل کو دیکھ کر دوبارہ کوئی فساد اٹھے۔۔۔ اُس کے کالج جانے پر بھی شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی نے کافی اعتراضات اٹھائے تھے
وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی کروٹیں بدل رہی تھی مگر اس کو نیند نہیں آرہی تھی،، اُسے بیڈ پر لیٹ کر ضیغم کی کمی کا احساس شدت سے ہوا۔۔۔ ایک ماہ میں ہی وہ اُس کی عادی ہو چکی تھی۔۔۔ ضیغم اِس وقت کمرے میں موجود نہیں تھا تو یہ احساس ہی اسے افسردہ کرنے لگا۔۔۔ روشانے دوبارہ جا کر بالکونی میں کھڑی ہوگئی۔۔۔ ابھی چند سیکنڈ ہی گزرے تھے تب اُس کی پشت پر کھڑے ہوئے وجود نے روشانے کو اپنے مضبوط بازوؤں میں گھیر لیا
“آپ یہاں کیوں آگئے ہیں”
وہ دیکھے بغیر ہی ضیغم کے لمس کو، اسکی خوشبو کو محسوس کر سکتی تھی۔۔۔ اپنی آنکھیں بند کرتی ہوئی ضیغم کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر بولی جو اُس کے پیٹ پر بندھے ہوئے تھے
“کیونکہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی مجھے بری طرح یاد کر رہا ہے”
ضیغم اپنے ہونٹ روشانے کے کان کے قریب لا کر سرگوشی کے انداز میں بولا۔۔۔ روشانے نے ضیغم کے بازو میں قید اُس کو مڑ کر دیکھا تو ضیغم نے آہستگی سے اُس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھے
“خیر ایسی تو کوئی بات نہیں تھی، آپ کون سے دور ہیں جو میں آپ کو یاد کروں گی،، دو کمرے کو چھوڑ تیسرے کمرے میں ہی تو آپ موجود تھے”
روشانے اپنی مسکراہٹ چھپاتی ہوئی ضیغم سے بولی تو ضیغم اُس کے گرد سے اپنے بازوؤں کو ہٹا کر گھورتا ہوا روشانے کو دیکھنے لگا
“اگر ایسی بات ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں”
ضیغم روشانے کو بولتا ہوا واپس جانے کے لیے مڑا
“سائیں پلیز میری بات تو سنیں مذاق کر رہی تھی میں۔۔ آپ کو اندازہ بھی نہیں کہ کتنا زیادہ مِس کر رہی تھی میں آپ کو”
وہ خفا ہو کر واپس جانے کے لیے مڑا تو روشانے جلدی سے اُس کے سامنے آتی ہوئی بولی اور جھٹ سے ضیغم کے سینے میں اپنا منہ چھپا لیا تاکہ وہ ناراضگی بھی برقرار نہ رکھ سکے
“اب تو میں بھی یہاں تب رکو گا،، جب تم مجھے اچھی طرح احساس دلاؤ گی کہ تم مجھے واقعی مِس کر رہی تھی”
ضیغم اپنے ہونٹوں پر آنے والی مسکراہٹ کو چھپاکر روشانے کو دیکھ کر بولا
وہ خود بھلا کونسا یہاں سے جانے والا تھا۔۔۔ شہر میں تو وہ آفس سے آنے کے بعد ہر وقت روشانے کے آس پاس موجود رہتا، آج تو اس نے صحیح سے اُس کا چہرہ تک نہیں دیکھا تھا۔۔۔ ضیغم کی بات سن کر روشانے اُس کے سینے سے سر اٹھا کر ضیغم کو گھورنے لگی
“آپ کو خود احساس ہونا چاہیے اپنی بیوی کی فیلنگز کا۔،۔۔۔ اب کیا بیوی خود احساس کرواتی ہوئی اچھی لگے گی”
روشانے نے بولتے ہوئے نازک سے ہاتھ کا مُکّا بنا کر ضیغم کے سینے پر مارا۔ ۔۔ اس کی ادا پر ضیغم دل کھول کر مسکرایا
وہ روشانے کو اپنے بازوؤں میں بھرتا ہوا بیڈ تک لایا۔ ۔۔۔ ہفتے بھر سے روشانے کے مڈ ٹرم چل رہے تھے جس کی وجہ سے وہ شرافت کا مظاہرہ کرتا ہوا، اُسے بالکل ڈسٹرب نہیں کر رہا تھا
“مامی کو کیا کہا آپ نے”
اس نے روشانے کو بیڈ پر بٹھایا تبھی روشانے بےساختہ ضیغم سے پوچھنے لگی
“وہ سو چکی ہیں ان کی فکر نہیں کرو”
ضیغم روشانے کو بتانے کے بعد اس پر جھُکتا ہوا اُس کے بال کھولنے لگا
“اگر وہ صبح جاگ گئی تو بہت ناراض ہو گیں”
ضیغم روشانے کے گلے میں پڑی ہوئی چین اتارنے لگا تو روشانے اپنا خدشہ ظاہر کرتی ہوئی بولی
“مجھ سے ناراض ہو گیں وہ میرا مسئلہ ہے،، تم پریشان مت ہو۔۔۔ میں نے پورے ہفتے تمہیں ڈسٹرب نہیں کیا اب تم مجھے ڈسٹرب مت کرنا”
ضیغم روشانے کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھتا ہوا اسے ریلیکس کرتا بولا۔۔۔ وہ جانتا تھا اور روشانے اُس کی ماں سے ڈرتی ہے لیکن اِس وقت وہ کوئی دوسری بات نہیں سوچنا چاہتا تھا۔۔۔
اپنی بات مکمل کر کے وہ روشانے کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر چکا تھا،، جس پر روشانے نے اپنی آنکھیں بند کی، وہ ضیغم کی سانسوں کو اپنی سانسوں میں اترتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔۔۔ ضیغم اُس کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھنسا کر روشانے کی سانسوں کی خوشبو سے اپنی سانسوں کو مہکا رہا تھا،
اب وہ روشانے کے ہونٹوں کو آزاد کرتا ہوا بے حد قریب سے روشانے کا چہرہ دیکھ رہا تھا، جو اس وقت اپنی آنکھیں بند کئے لیٹی تھی۔۔۔ ایک ماہ کے اندر وہ اس حد تک روشانے کا عادی ہو چکا تھا کہ اُس کی قُربت ضیغم کو اپنے اندر تک سکون کا احساس بخشتی تھی۔۔۔
اپنے چہرے پر ضیغم کی نظروں کی تپش سے روشانے نے آئستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔ وہ اس پر جُھکا ہوا غور سے روشانے کو دیکھ رہا تھا، روشانے اپنا ہاتھ ضیغم کے گال پر رکھا جسے تھام کر وہ روشانے کی ہتھیلی کو چومنے لگا
“ماں بہت زیادہ زیادتی کر جاتی ہیں تمہارے ساتھ، تم پلیز محسوس مت کیا کرو اُن کی باتوں کو،، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا رویہ ٹھیک ہو جائے گا”
ضیغم روشابے کا ہاتھ تھام کر، اپنا دوسرا ہاتھ اُس کے گال پر رکھتا ہوا بولا
“میں آپ کے خاطر برداشت کر سکتی ہوں سائیں آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہیے گا”
روشانے کے بولنے پر ضیغم نے پیار بھری مہر اس کے ماتھے پر سجائی۔ ۔۔۔
روشانے کا تھاما ہوا ہاتھ اپنے گرد ہائل کرتا ہوا وہ اس کی گردن پر جُھک چکا تھا۔۔۔ اب وہ اپنی سانسوں کو روشانے کے جسم کی خوشبو سے مہکا رہا تھا۔۔۔ ہفتے بھر کی دوری کا احساس وہ اپنے اور اُس کے ملاپ سے زائل کرنے کے موڈ میں تھا
کبھی کبھی وہ اُس کی دیوانگی اور وارفتگی پر بوکھلا سی جاتی تھی جیسے اِس وقت وہ اُس کی گردن پر جُھکا ہوا اُس کے ہوش اُڑا رہا تھا۔۔۔ روشانے نے آہستہ سے اپنی نیم وا آنکھیں کھولیں اور کمرے کی چھت کو دیکھنے لگی۔۔۔ وہ اپنا دوسرا ہاتھ بھی ضیغم کے گرد حائل کر چکی تھی
بے ساختہ روشانے کی نظر سامنے بالکونی میں موجود کھڑکی پر پڑی حیرت اور خوف کے مارے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔۔۔ وہ تیمور خان ہی تھا جو کہ اس وقت بالکونی میں کھڑا ہوا کھڑکی سے اندر کا منظر غضب ناک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
وہ چند دن پہلے اُس کے فلیٹ میں بھی آیا تھا روشانے اس کو کیسے بھول گئی تھی اُس نے جلدی سے ضیغم کے گرد سے اپنے دونوں ہاتھ ہٹائے۔ ۔۔۔ روشانے کو لگا اس کا دل ابھی بند ہوجائے گا
“سائیں پلیز پیچھے ہٹیئے”
روشانے لرزتی ہوئی آواز میں کھڑکی کی طرف دیکھ کر ضیغم سے بولی
ضیغم روشانے کی بات کا نوٹس لیے بغیر اُس کے بالوں میں پھنسائے ہوئے اپنے ہاتھ سے روشانے کا منہ آئستگی سے بند کر چکا تھا۔۔۔ تیمور خان خونخواہ نظروں سے روشانے کو دیکھ رہا تھا جبکہ روشانے آہستہ آہستہ نفی میں سر ہلانے لگی
“سائیں پلیز”
روشانے ضیغم کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے ہٹا کر ایک بار پھر بولی۔۔۔
شرمندگی کے مارے وہ اپنے دونوں ہاتھ ضیغم کے سینے پر رکھ کر اُسے پیچھے ہٹانے لگی مگر ضیغم اس وقت کسی اور ہی موڈ میں تھا وہ روشانے کے دونوں ہاتھ اپنے سینے سے تکیے پر رکھتا ہوا اس کی دونوں کلائیاں تھام چکا تھا
روشانے کی بے بسی انتہا کو چھونے لگی۔۔۔ اُس کا دل چاہا کے وہ ضیغم کو تیمور خان کی یہاں موجودگی کے بارے میں اگاہ کردے، اگر وہ ایسا کرتی تو تیمور خان کا اِس حویلی سے آج رات زندہ بچ کر جانا نا ممکن ہوتا۔۔۔ اگر اُسے سردار اسماعیل خان اور زرین کا خیال نہ ہوتا تو وہ ایسا ہی کرتی
“سائیں”
جب ضیغم اس کی گردن سے تھوڑا نیچے جھکا تب روشانے کو رونا آنے لگا۔ ۔۔ اس نے اپنے ہاتھ آزاد کروانے کی کوشش کی تو تیمور خان کھڑکی کے شیشے پر اپنی انگلی سے کراس کا نشان بنانے لگا
“سنائی نہیں دے رہا ہے آپ کو، کب سے بول رہی ہوں کہ دور ہو جائیں”
روشانے اُسے پیچھے دھکیلتی ہوئی خود بھی بیڈ سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔۔ ۔
اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا تبھی وہ غصے میں چیخی تھی۔۔۔ ضیغم پہلے اُسے حیرت ذدہ ہوکر دیکھنے لگا پھر دوسرے ہی پل اُس کے چہرے کے تاثرات غُصے میں تبدیل ہوئے۔۔۔ وہ بیڈ سے اٹھتا ہوا کمرے سے باہر نکلنے لگا۔۔ ۔ روشانے کو معلوم تھا کہ تیمور بھی یہاں سے جا چکا ہے۔۔۔ وہ خود بھی بیڈ سے اُٹھ کر ضیغم کے پاس آئی
“سائیں میری بات سنیں پلیز،، میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو اس لیے میں نے ایسا کہا”
روشانے نہیں چاہتی تھی کہ ضیغم اُس سے ناراض ہو کر کمرے سے جائے اِس لیے وہ بات بناتی ہوئی ضیغم سے بولی
ابھی وہ کچھ اور بھی بولتی ضیغم نے اس کا بازو پکڑ کر اسے پیچھے دھکا دیا جس سے روشانے دو قدم پیچھے ہوئی
“اب نہ میرے پیچھے آنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی مجھ سے بات کرنے کی ضرورت ہے”
وہ سخت لہجے میں روشانے سے بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا
****
رات والا منظر بار بار یاد اس کی آنکھوں کے سامنے آکر اُسے پاگل کئے دے رہا تھا جب اُسے خبر ملی کہ ضیغم جتوئی روشانے کو لے کر آج ہی اپنی حویلی پہنچا ہے،، تو وہ رات کے پہر روشانے سے ملنے کے غرض سے دشمنوں کی حویلی پہنچا۔۔۔ بہت احتیاط کے ساتھ ضیغم جتوئی کے کمرے کی بالکونی تک پہنچا تو اُسے اندر کی صورتحال کا ہرگز اندازہ نہیں تھا مگر وہ منظر دیکھ کر اُس کی آنکھوں سے شرارے نکلنے لگے
جب تیمور خان وہاں سے واپس جانے کا ارادہ کیا تب تک روشانے اُسے دیکھ چکی تھی،، روشانے کے چہرے پر شرمندگی کے ساتھ خوف بھی موجود تھا۔۔۔ تیمور خان چاہتا تھا روشانے خود ضیغم کو اپنے آپ سے دور کرے اس لیے نہ چاہتے ہوئے،، خود پر ضبط کرتے ہوئے وہ وہی کھڑا رہا۔۔۔ وہ شرمندہ تھی بے بس تھی اور اُسے دور ہٹا رہی تھی مگر وہ ضیغم جتوئی۔۔۔
تیمور خان کا خون کھولنے لگا اُس کے خاندان کی لڑکی جس کی پرورش اُس کے ماں باپ نے کی، جس کے ساتھ اس کا نکاح ہونے والا تھا اُس لڑکی کے ساتھ اُس کا دشمن۔۔۔ بے شک اب وہ روشانے کا شوہر تھا مگر تیمور خان کا دل چاہا وہ کمرے میں جاکر ضیغم جتوئی کے ٹکڑے کر دے۔۔۔ اُس سے پہلے کہ بات حد سے زیادہ آگے بڑھتی اور شرم کی دیوار قائم نہیں رہتی تیمور خان وہاں سے چلا آیا
رات بھر وہ شراب پیتا رہا تھا مگر اس کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا اب جبکہ وہ صبح بیدار ہوچکا تھا دماغ کو کئی طرح کی سوچ منتشر کئے دے رہی تھی،، شاید اُسے سب کچھ بھول جانا چاہیے۔۔۔ مطلب اپنے دشمنوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔۔۔ روشانے کو وہ یہاں لا کر کیا کرے گا،، بے شک وہ اِس خاندان کی لڑکی تھی لیکن اب روشانے کا مقدر اُس کے دشمنوں کا ٹھکانا بن چکا تھا۔۔۔ اب اُسے ساری باتیں فراموش کرکے اپنی ذات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔۔۔ تیمور خان کے اندر مثبت سوچو نے جنم لیا تو اپنے کمرے میں گھٹن کا احساس بڑھنے لگا، وہ کمرے سے باہر نکل آیا
“کیا کر رہی ہیں ژالے بی بی”
ملازمہ کو ژالے کے کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھ کر تیمور خان اُس سے پوچھنے لگا
“ابھی کھانا دے کر آئی ہوں مگر وہ لیٹی ہوئی آرام کر رہی ہیں”
ملازمہ نے تیمور خان کو بتایا تو تیمور خان نے ژالے کے کمرے کا رخ کیا
****
وہ ژالے کمرے میں آیا تو ژالے آنکھیں بند کئے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی
“محبت حاصل وصول کو سوچ سمجھ کر نہیں کی جاتی خان، وقت تو ژالے کے ہاتھ سے کب کا نکل گیا ہے۔۔۔ اس نے تمہیں تب سے اپنے دل میں بسایا ہے جب وہ خود اس جذبے سے واقف نہیں تھی”
ژالے کے الفاظ،، محبت کے اظہار کی صورت یاد کرکے تیمور خان کا دل بے اختیار دھڑکا
اور پھر میں نے روشانے کا نام لے کر، یہ تک نہیں سوچا کہ اس لڑکی کا دل کیسے ٹوٹا ہوگا۔۔۔ اگر میں اُس دن شراب کے نشے میں، میں اِس لڑکی کے ساتھ زیادتی کر بیٹھتا تو کھبی بھی سر اُٹھانے کے لائق نہیں رہتا۔۔۔ تیمور خان دل ہی دل میں اپنے اوپر ملامت کرتا ہوا بیڈ پر ژالے کے قریب آکر بیٹھا
روشانے پر نہ ہی وہ کوئی حق رکھتا تھا اور نہ ہی اُس کا اختیار تھا مگر اپنے سامنے لیٹے اِس وجود کے سارے حقوق اور اختیارات وہ اپنے نام کر چکا تھا جو کہ اس کی محبت کی دعویدار بھی تھی۔۔۔ تیمور خان گہری نظروں سے ژالے کا چہرہ دیکھنے لگا۔۔۔ اُسے لگا اگر آج ژالے اسے محبت سے اپنالے گی تو وہ ہمیشہ کے لئے ہر برے کام چھوڑ سکتا ہے۔۔۔ آج وہ نہ جانے خود کو کیوں بکھرا ہوا اور ٹوٹا ہوا محسوس کر رہا تھا
وہ ژالے کے چہرے کے قریب جھک کر اس کے ماتھے پر موجود زخم پر انگلی پھیرنے لگا۔۔۔ جب تیمور خان نے اپنے ہونٹ ژالے کے ماتھے پر رکھے، تو ایک سکوت سا سارے ماحول پر طاری ہوگیا۔۔۔ یہی عمل اُس نے دوبارہ دہرایا مگر اب کی بار اُس نے ژالے کے ماتھے کی بجائے اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں پر رکھے تھے
بخار کی تیزی کافی حد تک کم ہونے کے باوجود وہ کافی نقاہت محسوس کر رہی تھی اِس لیے اپنے ماتھے پر ہونٹوں کے لمس کے احساس سے کوشش کرنے کے باوجود آنکھیں نہیں کھول پائی لیکن جب یہی عمل اس کے ہونٹوں پر دہرایا گیا تو ژالے نے فوراً اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔ تیمور خان کو اپنے ہونٹوں پر جھکا ہوا دیکھ کر اُسے شدید جھٹکا لگا تھا۔۔۔ اپنے دونوں ہاتھ تیمور خان کے سینے پر رکھ کر اُسے پیچھے دھکیلتی ہوئی ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی
“کیا کرنے لگے تھے خان تم میرے ساتھ۔۔۔ اُس دن مجھے لوٹنے کی کوشش تکمیل تک نہیں پہنچی تو اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے یوں دن دہاڑے میرے کمرے کے اندر چلے آئے ہو۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس کمرے میں آنے کی نکل جاؤ، میں کہتی ہوں نکل جاؤ یہاں سے”
ژالے غصّے میں بری طرح ہانپتی ہوئی بولی
“جو اپنی چیز ہو اُن کو لوٹا نہیں جاتا۔۔۔ بس سارے اختیارات حاصل ہونے چاہیے، جو کہ نکاح کے بعد مجھے حاصل ہو چکے ہیں، اس کمرے میں آنے کی یا تمہیں چھونے کی کسی سے اجازت درکار نہیں ہے مجھے”
تیمور خان نے بولتے ہوئے ژالے کو اپنی باہوں میں بھرنا چاہا تو وہ بدک کر پیچھے ہوئی اور فوراً بیڈ سے نیچے اتر گئی
“اپنی حد میں رہو خان،، میں تمہیں اپنے آپ کو چھونے کی اجازت ہرگز نہیں دوں گی۔۔۔ اگر تمہیں ایسی کوئی ضرورت درکار ہے تو بے شک تم اپنی خواہش کے حصول کے لیے کسی دوسری عورت کے پاس جا سکتے ہو”
ژالے تیمور خان کو دیکھ کر غُراتی ہوئی بولی
“سوچ لو اگر آج میں کہیں اور چلا گیا،، تو تم اپنے ساتھ ساتھ اُس کی زندگی بھی برباد کرو گی،، جس کے پاس میں تمہاری ٹھوکر کھا کر جاؤنگا۔۔۔ آج خان خود تمہارے پاس آیا ہے۔۔۔ میرے اِس بکھرے وجود کو سمیٹ لو،، آج مجھے اپنا بنا لو ژالے۔۔۔ خان تاعمر پھر تمہارا ہی رہے گا”
وہ تھکے ہوئے انداز میں بولا تو ژالے اسکو دیکھ کر طنزیہ مسکرائی
“اوو تو تم روشانے کی یادوں کو بھلانے کے لئے میرے وجود کا سہارا لے رہے ہو،، ایک بات میری یاد رکھنا،، تم روشانے کو کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے۔۔۔ نہ اس کو حاصل کر سکتے ہو اور نہ اب مجھے پا سکتے ہو نکل جاؤ میرے کمرے سے”
ژالے تڑخ کر بولی تو تیمور خان سے اپنا غصہ روکنا محال ہوگیا وہ ایک دم بیڈ سے اُٹھ کر ژالے کے پاس آیا اور سختی سے اُس کے دونوں بازو پکڑے
“جس سے محبت کا دعوا کیا جائے اُس کے ساتھ ایسا سلوک جائز نہیں ہے۔۔۔ کہاں گئی اب وہ تمہاری محبت، جس کا تم نے مجھ سے میرے سامنے اعتراف کیا تھا”
تیمور خان ژالے کے دونوں بازوؤں کو جھنجھوڑتا ہوا پوچھنے لگا تو ژالے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ سجاتی ہوئی اُسے دیکھنے لگی
“کس محبت کی بات کر رہے ہو تم مجھ سے خان۔۔۔ اُس محبت کی جس کا گلا تم نے خود اپنے ہاتھوں سے گھونٹ کر مجھ سے میری ذات کا غرور چھیننا چاہا۔۔۔ وہ محبت تو اُسی دن مر چکی تھی جس دن تم نے مجھے طاقت کے نشے میں بری طرح روندھ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ اب میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے”
ژالے اپنے بازوؤں سے اس کے دونوں ہاتھوں جھٹکتی ہوئی بولی تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے مزید مشتعل ہوا
“میری محبت اپنے دل سے نکال کر اب کسے اپنے دل میں بسانے کا ارادہ رکھتی ہوں تم، اُس خرم کو۔۔۔ جبھی دوڑ دوڑ کر اُس کے پاس جاتی ہو۔۔۔ میں تمہیں کبھی بھی آزاد نہیں کروں گا چاہے تم کتنے ہی ہاتھ کر مار لو،، اُس خرم کو بھی دیکھ لوں گا اور اب روشانے کو بھی واپس اِس حویلی میں نہ لایا تو میرا نام تیمور خان نہیں”
اپنے آپ کو ٹھکرائے جانے پر وہ غُصے میں پاگل ہونے لگا جبھی وہ ژالے کو دھمکی دیتا ہوا اُس کے کمرے سے باہر نکل گیا
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...