ائیر پورٹ پر اسے ڈرائیور لینے آیا تھا حویلی آنے پر اس کا شاندار استقبال ہوا تائی اماں، امی، بی بی اور چھوٹے شاہ سائیں سے ملنے کے بعد وہ کچھ دیر آ رام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔
بابا اور تایا ابا اس وقت زمینوں پر تھے اور چاچو زیادہ تر شہر والے بنگلے میں ہی رہتے تھے تو اس وجہ سے ان سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔
حنا اور مریم اپنے سسرال میں تھیں اور ندا لاہور ہاسٹل میں رہتی تھی وڈے شاہ سائیں اور چھوٹی بیگم کا چند سال قبل انتقال ہو چکا تھا۔
بستر پر لیٹتے ہی اسے نیند آنے لگی تھی بوجھل پلکوں کو بمشکل جھپکتے ہوئے اس نے بیگ سے اپنا سیل فون نکالا اور کچھ ٹائپ کرنے لگی۔
’’میں حویلی پہنچ گئی ہوں۔‘‘ لکھنے کے بعد اسے سینڈ کر دیا تھا پھر اس کی آنکھ مما کے جگانے پر ہی کھلی تھی وہ اسے لنچ کے لئے بلانے آئی تھیں وہ کچھ دیر کسل مندی سے لیٹی رہی پھر اٹھ کر شاور لیا اور چینج کرنے کے بعد باہر نکل آئی۔
بریانی، مٹن قورمہ اور فرائی فش، میز پر ساری اس کی فیورٹ ڈشز تھیں۔
’’واؤ مما یو آر سو سویٹ۔‘‘ وہ خوش ہو کر بولی۔
’’اب محض چکھنے پر اکتفا نہیں کرنا ڈٹ کر کھانا دیکھو تو کتنی سی شکل نکل آئی ہے وہاں کیا کچھ کھانے کو نہیں ملتا تھا۔‘‘
’’افوہ میں ڈائیٹ پر ہوں۔‘‘ فریال نے اس کے احتجاج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوسری بار بھی اس کی پلیٹ بھر دی تھی۔
’’یہ ڈائیٹ وائیٹ چھوڑو اور اپنی صحت کا خیال رکھو چند دنوں تک بیاہ کر دوسرے گھر چلی جاؤ گی دلہن بن کر کیا روپ آئے گا۔‘‘ اس کی پلیٹ میں فرائی فش کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے جیسے رعنا کے سر پر بم پھوڑا تھا، وہ ہونق پن سے ان کی شکل دیکھنے لگی۔
’’میری شادی۔‘‘
’’دو تین پرپوزل آئے ہوئے ہیں تمہارے بابا کہہ رہے تھے رعنا آئے گی تو اس سے پوچھ کر فائنل کر لیں گے۔‘‘ بابا اور تایا ابا کی آمد پر ان کی گفتگو ادھوری رہ گئی تھی۔
’’کیسا ہے میرا بیٹا۔‘‘ وہ انہیں دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اس کا کتنا دل چاہا تھا کہ وہ اس کے سر پہ ہاتھ رکھیں اسے سینے سے لگائیں اس کی پیشانی پر بوسہ دیں، مگر وہ اپنی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ چکے تھے۔
’’ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
’’ایگزیم کیسے ہوئے۔‘‘ انہوں نے اگلا سوال پوچھا۔
’’اچھے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے تابعداری سے جواب دیا۔
’’یہ ہابیل شاہ نے نیا رواج ڈال دیا ہے اب تمہارے بعد، ندا بھی یونیورسٹی چلی گئی ہے مجھے تو لڑکیوں کی اتنی تعلیم کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا مگر وہ ہمیشہ اپنی من مرضی کرتا ہے اور ہم ہمیشہ یہی سوچ کر خاموش رہتے ہیں کہ کہیں وہ ایسا نہ سمجھے کہ ہماری اولاد پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ تایا ابو پھر سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگے تھے۔
’’لالہ نے بڑی قربانی دی ہے اس حویلی کے لئے۔‘‘ فریال کے منہ سے بے ساختہ ہی پھسلا تھا رعنا نے چونک کر اسے دیکھا پھر تایا ابا کو جو ان کی بات پر اثبات میں سر ہلا رہے تھے اور بابا نہ جانے کیوں انہیں بہت گم صم اور ملول سے لگے تھے۔
٭٭٭
لنچ کے بعد وہ یونہی عقبی برآمدے میں چکر لگا رہی تھی جب اس نے حلیمہ کو ٹرے میں کھانا رکھے لاؤنج کے آخری کارنر میں اسی مقفل کمرے کی سمت جاتے دیکھا جو جانے کتنے برسوں سے بند تھا وہ غیر ارادی طور پر تھوڑا سا آگے جھک آئی اب وہ پھپھو کے کمرے کے باہر کھڑی تھی رعنا لپک کر اس کی راہ میں حائل ہوئی۔
’’کہاں جا رہی ہو۔‘‘ اس کا انداز سرسری تھا۔
’’آپا کے لئے کھانا لے جا رہی ہوں۔‘‘ وہ سادگی سے بولی۔
’’اچھا مجھے دو میں لے جاتی ہوں۔‘‘ رعنا نے اس کے ہاتھ سے ٹرے لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔
’’آپا کا حکم ہے کہ ملازمہ کے سوا گھر کا کوئی فرد ان کے کمرے میں نہ آئے۔‘‘ رعنا کے گھورنے پر اس نے جلدی سے اپنی حرکت کی وضاحت دی تھی۔
’’رعنا۔‘‘ فریال اسے ڈھونڈتے ہوئے وہیں چلی آئی تھیں پھر اسے حلیمہ کے راستے میں حائل دیکھ کر ٹھٹک گئیں۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’بی بی جی آپا کے کمرے میں کھانا لے جانا چاہتی ہیں۔‘‘
’’تم جاؤ۔‘‘ انہوں نے حلیمہ کو جانے کا اشارہ کیا۔
’’اور رعنا تم میرے ساتھ آؤ۔‘‘ اب وہ اس سے مخاطب تھیں رعنا منہ پھلا کر رہ گئی۔
’’مما ہم کیوں پھپھو کے کمرے میں نہیں جا سکتے وہ کیوں ہم سے ملنا پسند نہیں کرتیں۔‘‘
’’بھئی ان کی مرضی ہے۔‘‘ وہ صاف ٹال گئیں۔
’’اور تم یہ دیکھو میں نے تمہارے لئے کچھ زیور نکالے ہیں تم پسند کر لو۔‘‘ وہ اپنی الماری سے مخملی کیس کے سات ڈبے اٹھا لائی تھی۔
’’یہ نیکلس دیکھو ہیروں کا ہے۔‘‘ وہ اس کی عدم دلچسپی کی بنا پر خود ہی کھول کھول کر اس کے سامنے رکھ رہی تھی یا پھر شاید اپنی باتوں میں الجھا کر وہ اس کے سوالوں سے بچنا چاہ رہی تھی، رعنا نے بے دلی سے سارے ڈبے بند کر کے ایک جانب رکھ دئیے۔
’’مما سونم آنٹی نے چاچو کو کیوں چھوڑ دیا تھا۔‘‘ بغیر کسی تمہید کے وہ ڈائریکٹ اپنے موضوع پر آئی تھی اور اس اچانک استفسار پر اس نے فریال کو چونکتے ٹھٹکتے اور پھر واضح طور پر اس کی رنگت کو بدلتے ہوئے دیکھا تھا، اس کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا تھا۔ یہ تاثرات گواہ تھے کہ وہ لاعلم نہیں تھی۔
’’کون سونم؟‘‘ اگلے ہی پل وہ خود کو کمپوز کر چکی تھیں مگر لہجے کی ہکلاہٹ پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا۔
’’چاچو کی وائف۔‘‘ اس کا اطمینان قابل دید تھا فریال نے کچھ کہنے کو لب وا کیے مگر اس نے ٹوک دیا۔
’’مما پلیز اب یہ مت کہیے گا کہ ہابیل شاہ نے تو شادی ہی نہیں کی میں ان کی وائف اور بیٹے سے مل کر آ رہی ہوں۔‘‘
’’تم سچ کہہ رہی ہو۔‘‘ فریال نے اسے شانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا ان کی آنکھوں میں بے یقینی اور تعجب کے رنگ تھے لہجے سے خوشی چھلکی پڑ رہی تھی، رعنا سوچ میں پڑ گئی اسے امید نہیں تھی کہ سونم آنٹی کا ذکر حویلی والوں کے لئے اتنی خوشی کا باعث ہو گا۔
’’جی ماما میں اور راہب کلاس فیلو تھے۔‘‘ ان کے رد عمل سے ہی رعنا کو حوصلہ ملا تھا اور وہ سب کچھ بتاتی چلی گئی تھی راہب کی خواہش بھی، فریال ساری بات سن کر سوچ میں پڑ گئی۔
’’ہمارے لئے اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہو گی کہ تم چھوٹے لالہ کی بہو بنو لیکن بیٹا سونم کو شاید یہ رشتہ قبول نہ ہو اگر ایسا ہوا تو تم ان کی خواہش کا احترام کرنا اور راہب کو سمجھا دینا۔‘‘
’’کیوں مما، یہ سب کیا کہانی ہے میں نے پھپھو کی کتاب میں راہب حیات احمد کی تصویر دیکھی تھی اب آپ مجھ سے کچھ نہیں چھپائیں گی آپ کو بتانا ہی ہو گا۔‘‘ اس کا اصرار بڑھتا ہی جا رہا تھا فریال نے آنکھیں میچتے ہوئے ان دنوں کو سوچا جو حویلی پر قیامت بن کر آئے تھے، وہ کتنا روئی تھی زنبیل شاہ کے لئے … سونم کے لئے … روشنی کے لئے اور سب سے بڑھ کر چھوٹے لالہ کے لئے اس کے رشتوں کی تو ساری مالا ٹوٹ کر بکھر گئی تھی اور پھر انہوں نے رعنا سے کچھ بھی نہیں چھپایا تھا، آگہی واقعی عذاب ہوتی ہے سب سننے کے بعد اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کاش وہ بے خبر ہی رہتی اس کا چہرہ دھواں دھواں سا ہو رہا تھا اندر کہیں گھٹن سی اتر آئی تھی وہ دل پر اپنے بابا کے گناہ کا بوجھ لئے اپنے کمرے میں چلی آئی۔
اسے سونم آنٹی کا اپنے نام پر چونکنا یاد تھا شاید وہ بھی اسے پہچان چکی تھی اسی لئے تو ٹیبل سے اٹھ کر چلی گئی تھیں اور میں نے راہب سے پوچھا ہی نہیں کہ آنٹی نے مجھ سے ملنے کے بعد کیا کہا تھا، اس کے موبائل کی بیل بجی راہب کی کال تھی، اس نے بے دلی سے فون ایک جانب رکھ دیا فی الحال تو اس کا کسی سے بھی بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا وہ صرف جی بھر کر رونا چاہتی تھی۔
٭٭٭
بائیس سال… بائیس سال بیت گئے تھے وہ جس کے بغیر ایک لمحہ ایک پل نہیں رہ سکتی تھی اس کو دیکھے ہوئے بائیس برس جانے کس طرح گزار دئیے تھے آج اسے دیکھا تھا تو ایسا لگا تھا کہ جیسے یہ بائیس برس ان کے درمیان کبھی آئے ہی نہیں تھے وہ آج بھی اس مقام پر کھڑی تھی جب وہ آخری بار ان سے ملنے آیا تھا جب وہ یہ سمجھی تھیں کہ وہ ان کے بھائی کی تعزیت کرنے آیا ہے انہیں حوصلہ دینے اپنی چاہت کا اعتبار سونپنے اور اپنے تحفظ کا احساس دلانے آیا ہے مگر وہ تو…
’’یہ جو بھی ہوا مجھے اس کا افسوس ہے لیکن زنبیل شاہ کو تو تم جانتی ہو وہ کتنا جذباتی انسان ہے بس ایسے ہی غصے میں آ کر اس نے …‘‘ وہ بات ادھوری چھوڑ کر کچھ پل رکا۔
’’تمہیں اپنے بھائی کو سمجھانا چاہیے تھا کہ کم از کم مجھے تو اس سارے معاملے سے بے خبر نہ رکھتی، خیر اب کیا فائدہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا میں تم سے کہنے آیا ہوں کہ تم لوگ عدالت سے مقدمہ واپس لے لو کیونکہ میں تمہیں اسی صورت میں گھر لے جا سکتا ہوں ورنہ…‘‘
’’ورنہ…‘‘ سونم نے بے خوف نظروں سے اسے دیکھا۔
’’ورنہ مجھے تمہیں چھوڑنا پڑے گا۔‘‘ چھن سے اس کے وجود میں کچھ ٹوٹا تھا اور اس کی ذات کے پرخچے اڑ گئے تھے وہ کیس واپس لے کر ہابیل شاہ کو اس گاؤں اس حویلی کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ آئی تھی۔
اور آج اتنے برسوں بعد انہوں نے دوبارہ اسے دیکھا تھا وہ گروسری کا سامان لینے سپر مارکیٹ آئی تھیں جب ان کی نگاہ اپنے قریب کاؤنٹر کے پاس کھڑے شخص سے الجھی، وہ بھی انہیں دیکھ چکا تھا کیا نہیں تھا اس کی آنکھوں میں، شکوہ، محبت، امید، وہ ایک قدم پیچھے ہٹی تھیں اور پھر پلٹ گئی تھیں ان کا سارا سامان کاؤنٹر پر رہ گیا تھا، ان کے رخسار مکمل طور پر بھیگ چکے تھے اور دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا، یہ اتفاق تھا حادثہ تھا کہ سازش۔
٭٭٭
’’مما تو ڈیڈ کو دیکھتے ہی واپس پلٹ گئیں۔‘‘ راہب کو افسوس سا ہوا۔
’’تم جو یہ فلمی سین کریٹ کروانے کی کوشش کر رہے ہو نا تو میں تمہارے جنرل نالج کے لئے تمہیں بتا دوں کہ یہ زندگی ہے کوئی فلم یا ڈرامہ نہیں جس میں تم اپنا مند پسند سین ایڈ کروا لو اور نہ ہی تم ڈائریکٹر ہو کہ ہر کوئی تمہارے اشاروں پر چلے۔‘‘ وہ اچھی خاصی بد مزہ ہوئی تھی جس پر اس نے راہب کو خوب لتاڑا تھا جس کا آئیڈیا تھا کہ ڈیڈ کو اچانک مما کے سامنے لائیں گے پھر جو اُن کا رد عمل ہو گا اس کے مطابق اگلا لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔
’’میری بڑی بی بننے کی کوشش نہ کرو سوچو اب کیا کرنا ہے۔‘‘
’’اب ہمیں اپنے گھر لے کر چلو۔‘‘
’’اس سے کیا ہو گا۔‘‘
’’ان کے درمیان جو غلط فہمیاں ہیں وہ ایک دوسرے کی بات سن کر ہی دور ہو سکتی ہیں۔‘‘
’’اور ان کے درمیان کیا غلط فہمیاں ہیں۔‘‘ راہب نے ابرو اچکائے۔
’’مجھے کیا پتہ۔‘‘ وہ بے ساختہ نظریں چرا گئی۔
’’مجھے پہلے مما سے بات کرنی چاہیے ایسے تو وہ بہت خفا ہو جائیں گی۔‘‘
’’وہ خفا نہیں ہوں گی۔‘‘
’’یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو۔‘ اس نے الٹا سوال پوچھا۔
’’مجھے الہام ہوا ہے۔‘‘ وہ زچ ہو اٹھی۔
’’اچھا اب غصہ تو نہ کرو منہ پھلا کر تم بہت بری لگتی ہو۔‘‘ راہب نے اس کے چہرے پہ جھولتی لٹ کھینچی تو دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے مزید برہمی سے بولی۔
’’اپنی حد میں رہا کرو۔‘‘
’’اور میری حدود کیا ہیں آؤ پہلے یہ طے کر لیں۔‘‘ اسے جیسے رعنا کو چڑانے میں مزہ آ رہا تھا۔
’’بکو مت اور چلو۔‘‘ وہ اپنا بیگ اٹھا کر رخ موڑ گئی۔
’’راہب تم میری ہیلپ کرو گے نا۔‘‘ ہابیل شاہ نے بڑی پر امید نظروں سے اسے دیکھا تھا مگر اس نے فوراً آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔
’’جی نہیں آپ اپنا مقدمہ خود لڑیں گے اور میں اپنا…‘‘ بات کو معنی خیز سا رنگ دے کر اس نے کن اکھیوں سے رعنا کو دیکھا تھا جو ان شوخیوں سے قطع نظر مکمل لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہر جھانکنے لگی تھی۔
’’تمہارا مقدمہ بھی برخوردار میرے مقدمے کی کامیابی پر ڈیپنڈ کرتا ہے۔‘‘ وہ بھی باور کروانا نہیں بھولے تھے۔
٭٭٭