شعیب تیار ہو کر ناشتے کے لئے میز پر آن بیٹھا تھا۔جبکہ اس کی والدہ زبیدہ خاتون کچن میں مصروف تھی۔برسوں سے یہی معمول تھا کہ ناشتہ کرتے ہی وہ گھر سے نکل جایا کرتا تھا،کیونکہ سورج طلوع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد اس کی امی کے پاس وہ لڑکیاں آنا شروع ہو جاتی تھیں جو ان سے سلائی کڑھائی سیکھتی تھیں۔ان ماں بیٹے کے درمیان ایک خاموش سمجھوتہ نجانے کب سے طے پاچکا تھا،جو چلتا چلا جا رہا تھا۔ وہ بہت چھوٹا تھا ،جب اس کے والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا۔اس کا باپ ایک مناسب عہدے پر فائز سرکاری ملازم تھا۔اس نے بھلے وقتوں میں ایسی جگہ گھر بنا لیا تھا جو اس وقت تو عام سا علاقہ تھا مگر وقت گذرنے کے ساتھ اب وہ کالونی پوش علاقہ سمجھتی جاتی تھی۔والد کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کی امی نے ہمت نہیں ہاری تھی۔چھت کا ہونا غنیمت تھا۔لیکن پینشن کے روپے اتنے نہیں تھے کہ وہ گھرداری چلانے کے بعد اپنے اکلوتے بیٹے کو وہ اعلیٰ تعلیم دلوا سکتیں ،جس کا خواب ان دونوں میاں بیوی نے کبھی دیکھے تھے۔اپنے شوہر کے خوابوں کی تکمیل کے لیے ،اس نے سلائی کڑھائی شروع کر دی۔جس سے ایک طرف اس کی آمدن میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب اس کی تنہائی کا مداوا ہو گیا۔کالونی اور آس پاس کے علاقوں کی لڑکیاں اس کے پاس آنے لگیں۔جس سے سارا دن ان کے گھر میں میلا لگا رہتا۔خواتین آجا رہی ہیں۔لڑکیاں چہک رہی ہیں۔سینے پرونے کا کام کر رہی ہیں۔آنا فاناً اس کے گھر کے کام بھی ہو رہے ہیں۔سہ پہر کے بعد ان کے آنگن میں خاموشی چھا جاتی۔تب وہ بھی گھر واپس آ جایا کرتا تھا۔پھر رات سوجانے تک دونوں ماں بیٹا خوب باتیں کرتے۔ماں اپنی خواہشیں دہراتی اور بیٹا روزانہ بڑا آدمی بننے کا عزم کرتا۔باپ کا خواب ، ماں کی خواہش بن کر اسے سننے کو ملے تو اسے اپنی زندگی کا مقصد مل گیا۔وہ اپنی تعلیم میں اس قدر محو ہوا کہ اردگرد کا ہوش ہی نہ رہا۔اس نے خود کو پڑھائی کے لئے وقف کر دیا ہوا تھا۔وہ سمجھ گیا ہوا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے ۔کالج دور میں آتے ہی وہ خود بھی تھوڑا بہت کمانے لگا تھا۔یوں ایک لگی بندھی زندگی بھی جس میں وہ خوش تھا۔تعلیم مکمل کرتے ہی اس نے سی ایس ایس کا امتحان دیا تو بڑے اچھے نمبروں میں پاس ہو گیا۔انٹرویو پاس کیا اور ٹرینگ مکمل کرلی ان دنوں وہ تعیناتی کے احکامات کا منتظر تھا ۔لیکن پھر بھی وہ معمول کے مطابق تیارہو کر ناشتے کی میز پر تھا۔کیونکہ اس نے گھر سے نکل جانے کا وقت ہو گیا تھا۔
’’شعیب پتر۔! یہ تمہیں تعیناتی کے آرڈر کب ملیں گے۔؟‘‘ناشتہ کر چکے تو چائے پیتے ہوئے اس کی امی نے پوچھا۔
’’بس جلد ہی مل جائیں گے۔۔مجھے خود بڑا انتظار ہے ۔‘‘وہ ہولے سے بولا
’’میں اس لئے پوچھ رہی تھی کہ اگر کہیں نزدیک تعیناتی ہوتی ہے تو پھر میں تیرے ساتھ نہیں جاؤں گی۔لیکن اگرکہیں دورتجھے جانا پڑا تو پھر میں تیرے ساتھ ہی جاؤں گی۔۔‘‘اس کی ماں نے جذب سے کہا۔
’’اور یہ جو آپ کی اتنی ساری فوج ہے،اس کا کیا کیا ہو گا۔‘‘اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’میں نے کر لیا ہے بندوبست ،ایک غریب بیوہ ہے۔اس کے حوالے کر جاؤں گی۔اب تو ویسے بھی مجھے ان کی ضرورت نہیں ۔تجھے بہت ساری ترقیاں ملیں،میری تو اب یہی دعا ہے۔‘‘اس نے پھر اسی جذب ہی سے کہا تھا۔
’’آپ ہی کی دعاؤں کے سہارے چلتا چلا جا رہا ہوں۔میری ماں دعا کرے اور وہ قبول نہ ہو ایسے کیسے ہو سکتاہے۔‘‘ اس نے خالی پیالی واپس رکھتے ہوئے کہا تو اس کی ماں کا دل بھر آیا۔تبھی وہ جلدی سے اٹھ گئی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی آنکھوں میں آئے خوشی کے آنسو اس کا بیٹا دیکھ لے اور یونہی پریشان ہو جائے۔شعیب اٹھا اور ا پنی پرانی بائیک لے کر باہر نکل گیا۔
اس کا رخ بھاء حمید کی ورکشاپ کی طرف تھا۔وہ ورکشاپ ریلوے اسٹیشن کی پچھلی جانب پھیلی ہوئی آبادی میں موجود ایک بڑی سی چاردیواری کے اندر تھی۔وہاں بھاء حمید اور دوسرے چند لوگوں کی ٹیکساں اور رکشے کھڑے رہتے تھے۔وہیں مکینک اور اس کام سے وابستہ دوسرے لوگ ہوتے تھے۔بھاء حمید نے اپنا چھوٹا سا دفتر بنایا ہوا تھا۔جہاں وہ سارا دن لوگوں سے گپیں لگاتے اور ملتے ملاتے گذار دیتا تھا۔وہ انہی کی کالونی میں رہتا تھا۔رکشے ٹیکسیاں ہونے کی وجہ سے خود کو ٹرانسپورٹر خیال کرتا تھا۔بنیادی طور پر شریف آدمی تھا لیکن جس دنیا سے تعلق رکھتا تھا،اس میں تھوڑی بہت غنڈہ گردی کرنا ہی پڑتی تھی۔شاید شعیب اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے کچھ اور کرتا اگر اسے بھاء حمید جیسا ہمدرد شخص نہ ملتا۔اس نے شعیب کو حساب کتاب لکھنے کے لیے رکھ لیا تھا اور باقاعدہ اس کی تنخواہ مقرر کر دی تھی۔کبھی شعیب کے والد نے اس کی بہت مدد کی تھی اور وہ اب تک اس کا احسان چکارہا تھا،اور ایسا کرتے ہوئے وہ بہت خوشی محسوس کرتا تھا۔شعیب بھی اس کے لئے کئی کام کر دیتا تھا،کبھی کسی دفتر کے اور کبھی کسی دفتر کے۔ وہ اس ماحول میں پوری طرح رچ بس گیا تو ڈرائیور نہ ہونے یا پیسوں کی ضرورت کے باعث وہ خود ٹیکسی یا رکشہ لے کر نکل جاتا۔کچھ نہ ہوتا تو ورکشاپ ہی کے ایک کمرے میں پڑا پڑھتا رہتایا پھر قریبی پارک میں چلا جاتا ۔ اگرچہ اس کامقصد ایک بڑا آفیسر بننا تھا تا ہم اسے شعور آگہی زمانے ہی کو برتنے سے ملی تھی۔روزانہ مختلف لوگوں سے ملنے ،ان سے واسطہ پڑنے کے باعث نہ صرف وہ زمانے کے تیور سمجھ چکا تھا بلکہ روّیے اسے بہت کچھ سمجھا چکے تھے۔ٹریئنگ کے دوران وہ کئی کئی دن ورکشاپ نہیں آ سکا تھا۔اس دن جب اس نے ورکشاپ میں اپنی بائیک روکی تو بھاء حمید اسے دیکھتے ہی کھل گیا۔
’’اوئے آ او شعیب،کیا حال ہے تیرا۔اب تو کبھی کبھی دکھائی دے جاتا ہے۔افسر بن گیا تو پھر کہاں آ سکے گا۔‘‘
’’کیوں پھر کیا ہو جائے گا۔‘‘شعیب نے اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’اُو نہیں یار،بندہ مصروف ہو جاتا ہے نا ۔میں یہ نہیں کہتا کہ تو ہمیں بھول جائے گا۔‘‘بھاء حمید نے جلدی سے اپنی بات کی تصیح کر دی۔پھر اپنے سامنے دھری اخبار اٹھا کر اسے دیتے ہوئے بولا،’’لے چل پکڑ اخباراور سنا خبریں،پتہ چلے کہ ملک کے حالات کیا چل رہے ہیں؟‘‘
’’بھاء مجھے یہ بتا،آپ کے اس طرح اخبار سننے سے ملک کے حالات درست ہو جائیں گے۔‘‘اس نے اخبار پکڑتے ہوئے کہا۔
’’بات تیری ٹھیک ہے ۔پر یار ہمیں معلومات ہوں گی نا حالات کے بارے تو ان کے درست ہو جانے کی امید بھی کر سکتے ہیں نااور جس شے کے بارے میں پتہ ہی نہیں،اس کی اُمید کہاں،چل تو سنا جلدی سے موٹی موٹی سرخیاں ،اتنے میں چائے آ جاتی ہے،پھر لگاتے ہیں گپیں۔‘‘اس نے خوشگوار لہجے میں کہا اور چھوٹے کو چائے لانے کے لئے آواز دے دی۔پھر بھاء خبریں سنتا رہا اور اپنی طرف سے ان پر تبصرے کرتا رہا۔شعیب نے وہاں چائے پی اور اپنی آئی ہو ئی ڈاک دیکھنے لگا۔ان میں کچھ ادبی رسالے تھے یا پھر لوگوں کے خط،جنہیں پڑھ کر وہ جواب دینے لگا۔اس کی ایک یہی دلچسپی تھی جیسے وہ چھپا کر رکھتا تھا۔وہ شاعری کرتا تھا لیکن قلمی نام سے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ اس کی ایک الگ سے شخصیت بھی ہے۔یہ دلچسپی بھی اسے یونہی ہو گئی تھی۔
شعیب جس پارک میں جا کر پڑھتا تھا۔وہیں ایک ادھیڑ عمر لکھاری نجمؔ شیرازی بھی آ جایا کرتے تھے۔دوپہر سے کچھ دیر پہلے پارک تقریباً سنسان ہوتا تھا۔ایسی خاموشی جو اس کی پڑھائی کیلئے بہت موزوں ہوتی تھیں۔وہ نجمؔ صاحب کو دیکھتا تھا جو اکثر تنہا آتا،خود میں الجھا رہتا اور پھر چلا جاتا۔ پہلے پہل تو شعیب نے اسے فاترالعقل ہی سمجھا تھا۔مگرآہستہ آہستہ دونوں میں علیک سلیک بڑھی تو نجمؔ صاحب ایک زبردست شاعر نکلے۔پھر معاملہ شناسائی سے بڑھا اور اس حد تک آ گیا کہ شعیب کو بھی شاعری میں دلچسپی ہونے لگی۔ایک دن اس نے پوچھ ہی لیا۔
’’سر جی۔!وہ کہتے ہیں نا کہ شاعری تب ہوتی ہے ،جب بندہ عشق میں ناکام ہو جائے۔تو نجمؔ صاحب جذبات اور احساسات۔۔۔۔‘‘
’’ارے میاں،کہاں کی لے بیٹھے ہو آپ،محبت میں ناکامی ہی وجہ شاعری نہیں ہے۔یہ تو آپ کی اپنی وسعت نگاہ ہے کہ آپ کہاں تک دیکھ سکتے ہیں ۔قدرت کے مناظر ہیں،فطرت ہے،کائنات ہے۔۔۔اور پھر یہ خود انسان،جو اپنے اندر ایک کائنات ہے۔۔۔اس کے روّیے ،اس کو ہی آپ شاعری میں لے آئیں تو آپ ساری زندگی مختص چند پہلو بھی غالباً پوری طرح بیاں نہیں کر پائیں گے۔‘‘انہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’چلیں ،یہ تو طے ہو گیا نا کہ کوئی نہ کوئی ٹارگٹ ،وجہ یا مقصد تو ہو گا نا ذہن میں، جس کے گرد شاعری گھومتی ہے۔لیکن ایک شے ہے ہی نہیں اور اس کے لئے شاعری کرتے چلے جانا۔۔‘‘اس نے باقاعدہ بحث چھیڑ دی۔
’’ارے میاں،روایتی باتیں کرتے رہیں،کس نے روکا ہے،لفظ جوڑنا اور ان سے مصرعے ترتیب دینا ،روایتی خیالات کو نئے نئے پیرہن دے دینا،یہ الگ بات ہے،آپ نے دریافت کیا کیا؟یہی دریافت ہی آپ کی شاعری کو انفرادیت بخشے گی۔‘‘
شعیب کو بنیادی نکتہ کیا ملا،وہ اس پر بہت کچھ سوچنے لگا،یہاں تک کہ ایک دن اس نے ایک نظم کہہ ڈالی،پھر جھجکتے ہوئے وہ نظم نجمؔ صاحب کو لا دکھائی۔انہوں نے بڑے شوق سے وہ نظم دیکھی اور پھر اونچی آواز میں پڑھنے لگے۔
خوابوں میں اتری ہوئی ایک موم بدن سی لڑکی نے
رات کے پچھلے پہر خاموش اور برف زدہ سے لمحوں میں
سردیوں میں دھوپ کے جیسے لہجے میں یوں خواب کہے
نہر کنارے بیٹھ کے پتھر پھینکوں میں بس پانی میں
تکتی رہوں ان دائروں کو جو بن جاتے ہیں پانی میں
چھوٹی سی دیواروں والے گاؤں کے کچے گھر میں،میں
بیٹھ کر چوتھی سیڑھی پر وائلن بجاتی تھک جاؤں میں
تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھوں پیڑ صنوبر کے نیچے میں
سفید گلاب کی پتی پتی دیر تلک کرتی رہوں میں
سبزے والے بڑے سے گھر میں،کاسنی رنگ کا جوڑا پہنے
گوندھ کے لمبی ساری چوٹی،آنکھیں خوب سجاؤں میں
سرخ سرخ سے گالوں والے بچوں کے سنگ کھیلوں میں
کھلی ہوئی کھڑکی میں بیٹھوں ،بادل دیکھوں اجلے اجلے
چاند شرارت سے آنکھ مارے ،ہنستی رہوں کتنے پہروں میں
اپنے خواب سنہرے کہہ کر کتنی دیر وہ روئی تھی
میں تو کچھ نہیں کہہ سکا اس کو،میری کیا لگتی تھی وہ
جسم کے بازار میں بیٹھی لذت بیچنے والی تھی وہ
میں تو دیکھ رہا تھا ،اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں
نظم پڑھنے کے بعد نجمؔ صاحب نے شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ وہ خواب ہیں جو ہر ایک لڑکی دیکھتی ہے۔یہ نیا پن ہے کہ ایک لڑکے نے لڑکی کے خوابوں کو محسوس کیا۔لیکن اس میں جو آخری والے مصرعے میں بات کہی گئی ہے ۔یہی ساری نظم کی نبیاد بن گیایعنی جبر،جو خوابوں کی تکمیل میں حائل ہوتا ہے۔یہ جبر جتنا زیادہ ہو گا،خواب اتنے ہی سنہری ہو ں گے۔احساس و جذبات میں بھیگے ہوئے خواب زندگی کو تازگی دینے کا سبب بنتے ہیں۔جسم بیچنے والی کے پاس کچھ نہیں خواب ہیں۔وہ بھی اندر سے ایک عورت ہے ۔چاہے وہ جتنی غلیظ ہے اور اس لڑکی کے خواب،جو معصوم اور پاکیزہ ہیں ۔ذرا اسے سوچو،تمہیں زندگی کی اصل روح دکھائی دے جائے گی۔‘‘
وہ نظم جو نجمؔ صاحب نے جذب سے پڑھی اور پھر اس پر تبصرہ کیا۔اسی نظم نے شعیب کی آئندہ شاعری کا رخ متعین کر دیا۔وہ سوچتا کہ لڑکیاں کیسے کیسے خواب دیکھتی ہیں۔کس طرح کی لڑکی کے خواب کیسے ہوتے ہیں ۔وہ خوابوں کی باتیں اپنی شاعری میں کرنے لگا تھا۔پھر اس نے ایک خیالی پیکر تراش لیا۔کئی ساری لڑکیوں کی خوبیاں اس ایک پیکر میں اکٹھی کر لیں۔چند دن اسے سوچتا رہا تو اس کا جی ایک دم سے اُوب گیا۔اس نے اس خیالی محبوبہ کو یوں ختم کر دیا جیسے بچے ریت کا گھروندہ توڑ دیتے ہیں۔ اسے ایک عام سی لڑکی سے ہمدردی تھی جواپنے اردگرد کے حالات سے فرار حاصل کر کے خوابوں میں پناہ تلاش کر لیتی ہے۔ شاید اس کے ذہن میں بچپن میں پڑھی ہوئی کہانی موجود تھی،جس میں ایک شہزادی ،ایک ظالم دیو کی قید میں ہوتی ہے۔کہانی پڑھ کر اسے بڑا غصہ آیا تھا کہ یہ دیو جو ہوتے ہیں،شہزادیوں کوہی کیوں قید کرتے ہیں۔ اسے شہزادی سے بڑی ہمددی ہوئی تھی۔اس نے سوچا کہ وہ اب اسی شہزادی کے لئے شاعری کرے گا۔وہ شعر کہتا اور نجمؔ صاحب کو دکھاتا،وہ پسند کرتا اور بڑے مزے سے مشورے دیتا۔ایک خیالی دنیا انہوں نے تراش لی تھی۔شعیب نے اپنا قلمی نام اختر رومانوی رکھ لیا اور اسی نام سے شائع بھی ہونے لگا۔پھر قارئین کی طرف سے تعریف و تنقید بھرے خطوط اور فون ملنے لگے۔کئی لوگ اس سے باتیں کرتے۔یوں ایک دلچسپ مشغلہ اس کے ہاتھ لگ گیا تھا۔شعیب ایک نیا کردار تخلیق کر کے اس کے مزے لینے لگا۔چند لوگوں کے سوا کسی کو معلوم نہیں تھا کہ شعیب ہی اختر رومانوی ہے۔شاید وہ بھاء حمید سے بھی اپنی شاعری چھپا جاتالیکن نجمؔ صاحب، جن سے وہ شاعری سیکھا کرتا تھا،ورکشاپ آنے لگے۔وہاں بیٹھ کر چائے پیتے ،گپ شپ لگاتے اور شاعری کے پر باتیں ہوتیں۔بھاء حمید ان دونوں کی باتوں پر ہنسا کرتا تھا۔وہ اس کی سمجھ سے بالاتر باتیں ہوتیں تھیں۔شاعری سے متعلق ساری ڈاک ورکشاپ کے پتے پر آتی تھی۔یوں شاعری شعیب کے گھر سے باہر ہی رہی۔ٹرئینگ کے ان دنوں میں شعیب نے بہت لکھا اور پھر اسی مناسبت سے شائع بھی ہوا۔اس کی زندگی میں جو ٹھہراؤ تھا۔خیالی دنیا میں پہنچ کر وہ بہت ہلچل محسوس کیا کرتا تھا۔یوں اس کی زندگی بڑے پر سکون انداز میں گذرتی چلی جارہی تھی۔
***
دوسرے دن کی شام ہی کو پیر سائیں کی طرف سے نادیہ کے لیے بلاوا آ گیا۔وہ اپنے آ پ کو سمیٹے ،اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لئے گول کمرے میں جا پہنچی۔پیر سائیں کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔وہ سلام کر کے ایک جانب کھڑی ہو گئی۔وہاں صرف دادی اماں بیٹھی ہوئیں تھیں۔کسی نے اسے وہاں بیٹھے کے لیے نہیں کہابلکہ اس کے سلام کرنے کے فوراً بعد ہی پیر سائیں گویا ہوئے۔
’’مجھے افسوس کے بیٹی کہ میں تمہیں،تمہاری خواہش کے مطابق تحفہ نہیں دے پا رہا ہوں،میں تمہیں کالج جانے کی اجازت نہیں دے سکتا،کیونکہ میں اپنی خاندانی روایات کے خلاف نہیں جا سکتااور نہ ہی کسی کو یہ روایات توڑنے کی اجازت دوں گا۔آئندہ تم بھی سوچ سمجھ کر اپنی خواہش کا اظہار کیا کرو۔اب تم جا سکتی ہو۔‘‘
لمحوں میں سنایا گیا فیصلہ سن کر وہ وہاں نہیں رکی۔سیدھی اپنے کمرے میں آ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔عورت ہونا کوئی جرم ہے کیا۔ہماری کوئی خواہش ،کوئی ارمان یا کوئی اُمید نہیں ہوتی۔ہمیں یہاں دیواروں کے بیچ قید کر کے آخر کیوں رکھا جا رہا ہے۔سوچ کا یہی سرا بنیاد بن گیا اور پھر نجانے وہ کتنی دیر تک روتی رہی۔کافی دیربعد اس کی دادی اماں اس کے پاس آئی اور دھیرے دھیرے تھپکنے لگی۔
’’یہ ہماری قسمت ہے بیٹی کہ ہم اس خاندان کا حصہ ہیں۔ہمیں اس حویلی میں اسی طرح ہی جینا ہے۔اسی طرح زندگی گذارنے سے سمجھوتہ کر لو،اسی طرح جینے کی عادت ڈالو،ورنہ زندگی بہت مشکل ہو جائے گی۔‘‘انہوں نے بھیگے ہوئے لہجے میں اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔نادیہ چونک گئی۔اس نے دادی اماں کے لہجے میں اتنی حسرت پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔نادیہ نے اپنے آنسو صاف کئے اور بڑے درد بھرے لہجے میں کہا
’’دادی اماں۔!میں اب کوئی خواہش نہیں کروں گی اور نہ کوئی گلہ میری زبان پر آئے گا۔کوئی شکوہ نہیں سنیں گی آپ۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ ان کے گلے لگ گئی۔یہی وہ لمحہ تھا جب اس کے لا شعورمیں بغاوت زدہ سوچ کنڈلی مار کر بیٹھ گئی۔
دن گذرتے چلے گئے ۔اگرچہ نادیہ بددل تھی لیکن وہ پہلے سے زیادہ کتابوں میں کھو گئی ۔وہ ہوتی ،اس کا کمرہ ہوتا،اس کی تنہائی ہوتی اور کتابوں کا ڈھیراس کے اردگرد جمع رہتا۔اس کی اپنی مخصوص ملازمہ پر نوازشیں بہت ہونے لگیں، جو باہر کی دنیا سے اس کا واحد رابطہ تھا۔وہی اسے نئی نئی کتابیں اور رسالے لا کر دیتی تھی یا پھر وہ چیزیں جن کی اسے ضرورت ہوتی تھی۔ایک دن ایسے ہی وہ ایک ادبی رسالہ پڑھ رہی تھی ۔ شاعری کے حصے میں ایک صفحے پر دو غزلیں ایسی تھیں جو اس کے دل کو چھو گئیں۔کیا اچھوتا پن تھا ان میں ۔اسے لگا جیسے کوئی اس کے خوابوں کو بڑے حسین انداز میں،لفظوں کے ریشمی غلاف میں سجا کر اسے پیش کر رہا ہو۔اس نے جتنی بار وہ شاعری پڑھی۔اتنی بار ہی وہ نئے نئے خیالوں میں کھو گئی۔کوئی شے کتنی پیاری ہو جاتی ہے۔یہ دل کو چھو جانے کے بعد کی کیفیت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔وہ شاعری اس کے دل کو چھو گئی تھی۔ اس نے شاعر کا نام پڑھا۔’’اختر رومانوی ،کیسا شاعرانہ نام ہے اس کا۔میں نے پہلے کبھی اس کا نام نہیں پڑھا؟‘‘ اس نے خود سے سوال کیا پھر اس کے جواب میں نادیؔ نے پرانے رسالوں میں اس کی شاعری تلاش کرنے لگی۔نادی کو کہیں کہیں اس کی شاعری دکھائی دی ،جسے پڑھنے سے اس کی تشنگی مزید بڑھ گئی۔وہ پہلے انہیں نظر انداز کر گئی تھی۔اب کی بار پڑھا تو اس کی کیفیات وہی ہونے لگی جو اس کی شاعری پڑھ کر پہلے دن ہوئی تھی۔ ایک دم سے وہ شاعر اسے بہت اچھا لگنے لگا۔چند دنوں میں اسے جتنی شاعری ملی، وہ سب اس نے اکٹھی کر لی۔زندگی کا ایک نیا پہلو اس کے سامنے وا ہو گیا تھا۔کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی اس کے خوابوں کو یوں کھول کھول کر بیان کر دے۔وہ اپنی تنہائیوں میں اسے سوچنے لگی۔یہاں تک کہ نادیؔ کے دل میںیہ خواہش شدت اختیار کر گئی کہ وہ اختر رومانوی سے رابطہ کرے۔دیکھیں تو سہی کہ گفتگو میں بھی وہ اس کے خوابوں کا ہاتھ تھامے ہوئے ہے مگر۔!فون کا حویلی میں آنا اور رکھنا اتنا ہی ہولناک تھا،جتنا وہ تصور کر سکتی تھی۔خط وغیرہ کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ اختر رومانوی سے رابطے کی خواہش نہ صرف بڑھتی چلی جا رہی تھی بلکہ اسے بے چین کئے ہوئے تھی،وہاں سیل فون رکھنے کا جرم بھی اسے دہلائے دے رہا تھا۔پھر خواہش جیت گئی۔شاید اس جیت میں اس کے لا شعور میں پڑی بغاوت نے بڑا ساتھ دیا تھا۔اس کی مخصوص نوکرانی نے ڈھیر ساری نوازشوں کے عوض اسے فون لا کر دے دیا۔ملازمہ ہی کے بیٹے نے فون پر اسے سیل استعمال کرنے کے سارے طریقے سمجھا دیئے۔پھر اس دوپہر اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ان رسالے والوں کو فون کر دیا۔جس میں اختر رومانوں کی شاعری چھپی ہوئی تھی۔کافی دیر باتوں کے بعد اسے اخترؔ کا نمبر مل گیا۔احساسِ جرم میں اسے یوں لگا جیسے وہ پل صراط سے گذری ہو،مگررابطہ نمبر مل جانے کی خوشی میں وہ سب کچھ نظر انداز کر گئی۔جس وقت وہ اختر رومانوی کے نمبر ملا رہی تھی،اس وقت جہاں ہاتھ کانپ رہے تھے ،وہاں دل بھی بڑی بری طرح دھڑک رہا تھا۔
’’ہیلو۔!کون بات کر رہا ہے۔‘‘دوسری جانب سے بھاری مردانہ آواز میں پوچھا گیا تو اس کے بدن میں پھیلتی ہوئی لہر نے اسے ساکت کر دیا۔خیالوں ہی خیالوں میں نجانے کتنی بار دہرائی گئی باتیں یوں صاف ہو گئیں جیسے کبھی لفظ اس کی دسترس ہی میں نہیں تھے۔’’ہیلو۔بھئی بولیں کون بات کر رہا ہے؟‘‘ دل چیر کر اتر جانے والے لہجے میں کوئی بڑے ماورائی اندازمیں پوچھ رہا تھا۔تبھی اسے ہوش آ گیا۔نادیؔ نے پورے وجود کی ہمتیں اکٹھی کئیں اور پوچھا۔
’’کیا آپ اختر رومانوی بات کر رہے ہیں؟‘‘اس نے محسوس کیا کہ اس کے کانپتے ہوئے لہجے میں لفظ تھر تھرا رہے ہیں۔
’’جی۔میں اختررومانوی بات کر رہا ہوں۔آپ کون؟‘‘ پھر اسی پر کشش لہجے میں پوچھا گیا۔
’’میں آپ کی ایک فین بات کر رہی ہوں۔آپ کی شاعری مجھے بہت پسند ہے ۔‘‘اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے تیزی سے کہہ دیا۔
’’زہے نصیب۔!کہ ہمارا بھی کوئی فین ہواا ور اس سے بڑی بات کہ میری شاعری آپ کو پسند آ گئی۔اس پر میں آپ کا شکریہ ہی ادا کر سکتا ہوں۔‘‘وہی دل کھینچ لینے والی آواز میں شوخی در آئی تھی۔
’’اس وقت میں آپ سے فقط دو باتیں پوچھنا چاہتی ہوں۔‘‘نادیؔ نے اعتماد سے کہا تھا۔
’’جی ،کہیے۔پوچھئے۔‘‘اس نے کہا۔
’’ایک بات تو یہ ہے کہ آپ کہاں کہاں شائع ہوتے ہیں۔میں آپ کی ساری شاعری پڑھنا چاہتی ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ کیا میں آپ سے کبھی کبھی بات کر سکتی ہوں۔‘‘اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے کہا۔
’’جی،میں ابھی آپ کو ان رسالوں کی فہرست بتائیے دیتا ہوں،جہاں جہاں میرا کلام شائع ہوتا ہے۔اور رہی دوسری بات تو یہ میری خوش قسمتی ہو گی کہ آپ مجھ سے بات کریں گی۔ہاں،جب میں مصروف ہوں گا تو آپ کی کا ل ریسو نہیں کر پاؤ ں گا۔‘‘اس نے بڑے خوبصورت انداز میں کہا اور چند رسالوں کے نام گنوا دیئے۔
’’جی ٹھیک ہے ۔باقی باتیں پھر بعد میں ہوں گی۔‘‘اس نے جلدی سے کہا اور کسی قسم کا کوئی الوداعی جملہ کہے بغیر ہی فون بند کردیا۔نادیؔ نے محسوس کیا کہ وہ پسینے میں بھیگ گئی ہے۔اسے خود پر قابو پاتے ہوئے کتنا ہی وقت لگ گیا۔وہ شام اور پھر رات سرشاری میں گذر گئی۔
پھر نادیؔ کا معمول بن گیا ۔پہلے پہل وہ تھوڑی سی بات کرتی رہی تھی۔پھر بات پھیلی تو باقاعدہ موضوعات پر گفتگو ہونے لگی۔رات کی تنہائیوں میں لمبی لمبی باتیں خوشگوار مسرتوں کا باعث بننے لگیں۔رنگوں اور خوشبو جیسی باتوں میں وہ اکثر بہک جایا کرتی تھی۔اسے خیال ہی نہ رہتا کہ وہ کس طرح کی باتیں کرتی چلی جا رہی ہے۔ایسے میں اخترؔ اسے سنبھال لیتا۔دن کے وقت جب وہ ان باتوں کو یاد کرتی تو عجیب سے احساس اس سے لپٹ جاتے۔صرف ایک بات اس کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوتی تھی۔اس نے اپنی پہچان اور تعارف نہیں دیاتھا۔اختر پر یہ واضح نہیں ہو پایا تھا کہ وہ کون ہے؟ نام تو اس نے نادیہ ہی بتایا لیکن کہاں سے بات کر رہی ہے یہ گول کر گئی۔یوں باتیں کرتے ہوئے انہیں کئی دن ہو گئے تھے۔نادیؔ کے لیے زندگی کا یہ پہلو اس قدر حسین بن گیا کہ اسے لگا جیسے یہی پہلو حاصل زندگی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...