ایک دن بھائی اور بھابھی شاپنگ سے واپس آ رہے تھے، کہ راستے میں انکی کار ایک ٹرک سے ٹکرا گئی، دونوں کی موقع پہ ہی دیتھ ہو گئی،
ہوسپٹل پہنچا تو روتا ہوا موحد میری گود میں دے دیا گیا۔
میری دنیا اجڑ چکی تھی کہ ماں باپ تو بہت پہلے داغ مفارقت دے چکے تھے اسی بھیا نے پالا پوسا، پڑھایا لکھایا کسی قابل بنایا، بھابھی بھی جب آئی، ماں بن کر آئی۔۔۔
میں ایک بار پھر یتیم ہو چکا تھا اور یہ معصوم۔۔۔۔۔ اسے تو کچھ خبر ہی نہ تھی کہ اس پہ کیا قیامت بیت چکی ہے میری گود میں آنے کے بعد سے مسکرا رہا تھا میرے ساتھ لاڈ کر رہا تھا،۔۔۔ اور میرے آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہ تھے۔۔۔۔
بھائی کے احسانات چکانے کا وقت آ چکا تھا۔۔۔ جس طرح انہوں نے اپنی جوانی مجھ پہ لوٹائی، اب میری باری تھی۔
یہ ایک بہت مشکل کام تھا، اتنے سے بچے کی دیکھ بھال آسان کہاں ہوتا ہے، ماں کے علاوہ بھلا کون اسے بخوبی کر سکتا ہے، مجھے اس کی ماں بننا پڑا۔
سوچا تھا کہ اب جلد شادی کر لوں گا اور حفضہ اسکی زمہ داری اٹھا لے گی۔
پہلے تو محبت کے نشے میں کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہمارے تو خیالات ہی یکسر مختلف ہیں۔۔۔۔ پہلے وہ جو کہتی، جو چاہتی میں کرتا چلا جاتا۔۔۔۔ اسکی ہاں میں ہاں ہی ملائی۔
وہ زندگی انجوائے کرنا چاہتی تھی، وہ خوابوں میں جینے والی لڑکی، زندگی کو خواب سا حسین دیکھنے کی خواہاں۔۔۔۔
وہ جو اتنی جلدی اپنے بچے کی ذمہ داری نہیں اٹھانا چاہتی، میرے بھائی کے بچے کے لئے کیسے تیار ہوتی۔۔۔۔۔
میں نے اسے مجبور نہیں کیا، خاموشی سے اسے راہ بدل لینے دی۔۔۔۔۔ اسے ہر محبت سے آزاد کر دیا کہ شاید ہم ایک دوسرے کے لیے بنے ہی نہ تھے تبھی قسمت نے یہ چال چلی۔
اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا
وہ اپنے خوابوں سے کسی طور دستبردار نہیں ہو سکتی تھی،
وہ چلی گئی اپنی مرضی کی دنیا بسانے۔ اور میں اپنے موحد کے ساتھ تنہا رہ گیا۔
پھر اسکے بعد کوئی اچھا ہی نہیں لگا۔
کار زور دار بریک کے ساتھ رکی۔
عائشہ نے آنکھیں رگڑ کر صاف کیں جو کہ آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں تو پتہ چلا کہ پیپلز کالونی آ چکی تھی۔
آگے کا راستہ بتا دیں میم۔۔۔۔ ریحان نے ماحول کی سوگواری دور کرنی چاہی۔
بس آپ مجھے یہیں اتار دیں، میں چلی جاؤں گی، عائشہ نے دروازہ کھولا۔
ایک کپ چائے کا بھی نہیں پوچھیں گی۔۔۔۔ ریحان کے کہنے پہ وہ تذبذب کا شکار ہوئی۔
جسٹ جوکنگ میم۔۔۔۔ ریحان نے اسے کشمکش سے نکالا۔
میم میں سوچ رہا ہوں کہ ایسے آپ کے لیے مشکل ہو جائے گی، اگر آج میں نہ آتا تو آپ کو کافی دیر ہو جاتی گھر پہنچنے میں، کچھ اور سوچنا چاہیے۔۔۔۔
اوکے آپ سوچ کر بتا دیجیے گا۔۔۔ عائشہ کہہ کر اتر گئی۔
%%%%%%%%%%%%%
چاچو میم عائشہ اتنی بھی بری نہیں ہیں۔۔۔۔ موحد نے گیند چاچو کی طرف اچھالتے ہوئے کہا۔
بری۔۔۔ بری تو وہ بالکل بھی نہیں ہیں۔۔۔۔ ریحان نے اسے آنکھیں دکھائی۔
ہاں بہت اچھی ہیں، کائنڈ ہارٹ۔۔۔۔۔۔ ٹڈ۔۔۔۔۔ موحد نے زور دے کر کہا۔ اس دن کافی رو رہی تھیں، وہ آپ کی لائف سٹوری سن کے۔۔۔۔۔
اوو موحد کے بچے تو تم سو نہیں رہے تھے۔۔۔۔۔ ریحان نے بال اسے کھینچ کے ماری اور وہ جمپ لگا کر بچ نکلا تھا۔
پھر ریحان اسکے پیچھے پیچھے اور وہ آگے آگے۔۔۔۔
فضا قہقہوں سے گونج رہی تھی۔
%%%%%%%%%%%%%
عائشہ کا معصوم سا چہرہ، من موہنی مسکراہٹ۔۔۔۔ اور موتی جیسے آنسو اسے سونے نہیں دے رہے تھے، موحد اسکے پہلو میں لیٹا کب کا سو چکا تھا، اس نے وال کلاک کی طرف دیکھا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔۔۔۔
کیا وہ جاگ رہی ہو گی۔؟
سائڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر اس نے ڈائل کر ڈالا۔
ہیلو۔۔۔۔ آگے سے جمائی روکتے ہوئے کہا گیا،
کیا آپ جاگ رہی ہیں؟ ریحان نے شرمندہ ہوتے ہوئے پوچھا۔
کیا آپ نے یہ پوچھنے کے لیے فون کیا ہے۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ وہ میں نے پوچھنا تھا کہ پھر کیا سوچا آپ نے۔۔۔ ریحان نے جلدی سے مدعا بیان کیا۔
کس بارے میں۔۔۔۔۔ عائشہ چونکی تھی۔
موحدکو پڑھانے کے بارے میں۔۔۔۔ رئحان نے گھبرا کر صفائی دی۔
اوووو۔۔۔۔۔۔ عائشہ نے سانس خارج کی۔
دیکھ لیں، آپ کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔ ویسے۔۔۔۔۔
کیا آپ ہوم ٹیوشن دے سکتی ہیں، دیکھیے اگر آپ کو کوئی پرابلم ہو تو موحد آ جایا کرے گا آپ کی طرف۔۔۔۔ ریحان نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
ویسے تو میں ٹیوشن پڑھاتی ہی نہیں، اور اپنے سٹوڈنٹس کو تو بالکل بھی نہیں۔۔۔۔ عائشہ نے سست روی سے کہا۔
پلیز۔۔۔۔۔۔ ریحان کے کہنے پہ وہ مسکرا سی دی۔
اوکے، آپ موحد کو بھیج دیجیے گا۔
عائشہ نے کال کاٹ دی۔
یا ہووووو۔۔۔۔۔ ریحان جذبات میں نعرہ لگا بیٹھا۔ موحد کسمسانے لگا تو اس نے اسکی پیشانی چوم لی اور اسکے ساتھ لیٹ کر بانہوں کے حصار میں لے لیا۔
%%%%%%%%%%%%%
خالہ میں ذرا شاور لے لوں،میں نے ایک ٹیوشن لی ہے۔
تھوڑی دیر میں آتا ہو گا موحد۔۔۔۔۔ اسے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیجیے گا۔
عائشہ کہہ کر واش روم میں گھس گئ۔
موحد آ گیا ہے بیٹا۔۔۔جلدی سے آ جاؤ
، عائشہ کو باہر آتا دیکھ کر خالہ نے آواز دی۔
وہ جلدی جلدی دوپٹہ لے کر آ گئی۔
السلام علیکم، کیسے ہو موحد۔۔۔۔ کس کے ساتھ آئے ہو، اسے تنہا دیکھ کر اس نے دلگرفتی سے پوچھا۔
ڈرائیور کے ساتھ میم۔
چاچو کیوں نہیں آیے، وہ پوچھا چاہتی تھی، پر مناسب نہیں لگا۔
اسے برے دل سے پڑھاتی رہی، ساتھ میں عذیر بھی بیٹھ گیا دو گھنٹے بعد باہر ہارن کی آواز سنائی دی۔۔۔۔ موحد کا کام پورا ہو چکا تھا، اس نے بیگ پیک کیا اور جانے کے لیے ریڈی ہو گیا۔
کون آیا ہے لینے، عائشہ نے پیچھے سے آواز لگائی۔
ڈرائیور۔۔۔۔۔ وہ باہر نکل گیا۔
عائشہ دل مسوس کے رہ گئی۔
%%%%%%%%%%%%
عائشہ عذیر اور موحد دونوں کو ایک ساتھ ہی پڑھا لیا کرتی، آج بھی دونوں کو پڑھا رہی تھی، دل کچھ اداس اداس سا رہنے لگا تھا۔ پر اداسی کی وجہ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
خالہ بھی بارہا کہہ چکی تھیں کہ تم کچھ دنوں سے اداس لگ رہی ہو، بیٹی کوئی پریشانی ہے تو مجھ سے کہو، میں تمہاری ماں سی ہوں۔۔۔۔
پر وہ ہنس کر ٹال رہی تھی کہ وجہ تو اسے خود بھی معلوم نہ تھی۔
باہر ہارن کی آواز سنائی دی، ساتھ ہی گھنٹی بھی بج گئی۔
کون ہے عذیر بیٹا دیکھنا ذرا۔۔۔۔ عائشہ نے کتاب پہ نظریں جمائے ہی کہا۔
تھوڑی دیر میں عذیر کے ساتھ ریحان بھی اندر آ رہا تھا۔
اسے دیکھ کر عائشہ کے چہرے پہ خوبصورت رنگ بکھر گئے۔
آپ۔۔۔۔ آئیے بیٹھیے۔۔۔۔۔
ریحان ایک طرف صوفے پہ بیٹھ گیا۔
ابھی موحد کا تھوڑا کام باقی ہے، اس نے دل کی دھڑکن پہ بمشکل قابو پا کر کہا۔
اب سے اپنی اداسی کی وجہ سمجھ میں آنے لگی تھی۔
کوئی بات نہیں، آئی کین ویٹ۔۔۔۔
وہ موحد کو پڑھانے لگی۔
عذیر بھی کلرنگ بک کھولے، کلر کر رہا تھا۔
اتنے میں خالہ چائے کی ٹرے لئے اندر داخل ہوئیں۔
آپ نے کیوں ذحمت کی خالہ جان، عائشہ نے آگے بڑھ کر انکے ہاتھ سے ٹرے لے لی۔۔۔ حالانکہ وہ دل ہی دل میں انکی بہت مشکور ہوئی۔
خالہ سلام دعا کر کے باہر نکل گئیں۔
اور وہ چائے سرو کر کے واپس اپنی جگہ آ بیٹھی۔
کن آکھیوں سے ریحان کو دیکھ رہی تھی جو کہ چائے کو بھر پور انجوائے کر رہا تھا۔
بہت پیارا بچہ ہے، آپ تو کہہ رہی تھیں کہ میں کسی کو ٹیوشن نہیں پڑھاتی۔۔۔۔ ریحان نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
عائشہ کا حلق خشک سا ہوا۔
یہ اپنا بچہ ہے۔
اووو ویری کیوٹ۔
ویسے بھانجا ہے کہ بھتیجا۔۔۔۔ دوسرا سوال تھا کہ تیر۔۔۔۔۔
اب کی بار آنکھوں اور حلق دونوں میں کانٹے چھبتے محسوس ہونے لگے۔
یہ میرا بیٹا ہے۔۔۔۔۔ کہتے ہوئے عائشہ کی آواز رندھی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...