کچھ دیر باد پاکیزہ سٹَڈی روم میں گئی تو مِسٹر دانش سوفے پہ بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے۔ “آپ نے بُلایا بابا؟”
“جی میری جان۔ آجاؤ اندر”
پاکیزہ مِسٹر دانش کے سامنے پڑے سوفے پر بیٹھ گئی۔
“آج مہندی نہیں لگواؤ گی پاکیزہ؟” مِسٹر دانش بہت ہی نرم لہجے میں بولے۔
“نہیں موڈ نہیں آج مہندی لگوانے کا”
“تو پھر ایسا کرتے ہیں آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔ تمہیں تو سردیوں میں آئس کریم کھانا بہت پسند ہے نا۔ تمہارا فیورٹ ونیلا فلیور کھائیں گے۔ میری گڑیا کا موڈ بھی اچھا ہو جائے گا۔”
“نہیں بابا جان دل نہیں کر رہا۔ مجھے تو بہت نیند آئی ہے۔ آپ اپنے ساتھ عبداللہ کو لے جائیں۔ نہیں تو علی بھائی اور ذیشان بھائی کو لے جائیں”
“نہیں مجھے تو اپنی سِنڈریلا کے ساتھ جانا ہے”
“پھر کبھی چلیں گے بابا جان۔ ابھی تو میں بہت تھکی ہوئی ہوں اور بالکل نیند میں ہوں”
“چلو ٹھیک ہے۔ سو جاؤ لیکن ہنستی رہا کرو گڑیا۔ بہت اچھی لگتی ہو ہنستے ہوئے”
“اتنا ہنسوں گی تو لوگ کہیں گے کہ کولگیٹ ایڈورٹائز کر رہی ہے” پاکیزہ نے مِسٹر دانش کا موڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کی تھی اور پاکیزہ اور مِسٹر دانش دونوں ہی اس بات پہ کہکہا لگا کر ہنسنے تھے۔
“ہاں یہ بھی ٹھیک ہے” مِسٹر دانش ہنستے ہوئے بولے۔
“اچھا اب میں جاتی ہوں اپنے روم میں۔گُڈ نائٹ بابا جان”
“گُڈ نائٹ بیٹا”
اس کے بعد پاکیزہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور ابھی جا کر بیٹھی ہی تھی کہ پاکیزہ کا بڑا بھائی علی اس کے کمرے میں آگیا۔ سب لوگ پاکیزہ کو ہنسانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
“اوئے پاکیزہ آجا لونگ ڈرائیو پہ چلتے ہیں” علی نے پاکیزہ کے بال کھراب کرتے ہوئے کہا۔
“نہ کریں بھائی۔ ابھی نہیں جانا مجھے کہیں” پاکیزہ چِڑتے ہوئے بولی۔
ایویں نہیں جانا۔ ایک تو میں اپنے دوستوں کو چھوڑ کر تمہارے پاس آیا ہوں اور تم ہو کہ قدر ہی نہیں ہے کوئی۔ قدر کیا کرو بیٹا میری”
“اب بھائی کا میلو ڈرامہ شروع۔ آخر سیکھتے کہاں سے ہیں آپ یہ سب”
“میں سیکھتا نہیں سکھاتا ہوں۔ تمہیں بھی کلاسز چاہئیں ہوں تو آجانا۔ فری کلاسز دوں گا۔ کیا یاد کرو گی” علی نے ہنستے ہوئے کہا۔
“بہت مہربانی آپ کی لیکن مجھے نہیں لینی کوئی کلاسز۔ ایسی کلاسز لینا شروع کیں تو سارا کام ہی خراب ہو جانا ہے” پاکیزہ نے علی کو مزاق میں کندھے سے پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔
“نہ لو نہ لو۔ میرا کیا جاتا ہے۔ تمہارا ہی نقصان ہے۔”
پاکیزہ اور اس کے بھائی ایک دوسرے سے بہت مزاق کیا کرتے تھے اور وہ سب بہن بھائی کم دوست زیادہ لگتے تھے۔ اب پاکیزہ کا مُوڈ تھوڑا بہتر ہو گیا تھا۔
“اچھا ویسے بھائی میں آپ سے ایک بات پوچھوں کیا؟”
“نہیں”
“لیکن کیوں؟”
“تم ایک نہیں دو پوچھو”
“اب مزاق نہ کریں نہ۔ بات سُنیں میری”
“ہاں ہاں سُن رہا ہوں۔ بولو تم”
“لوگ ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے جاتے ہیں؟”
علی پاکیزہ کی بات سُن کر کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولنے لگا “ہماری زندگی میں بہت سے لوگ آتے ہیں۔ بہت سے نئے رشتے بنتے ہیں۔ اُن میں سے کئی لوگ تو ہمیں چھوڑ جاتے ہیں۔ کئی لوگوں کو ہم چھوڑ دیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ہمیشہ ساتھ نبھانے کے لئیے رشتے قائم کرتے ہیں کیونکہ وہ واقعی ہماری بہت پرواہ کرتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کو اللہ ہماری زندگی میں ایک خاص مقصد کے لئیے بھیجتا ہے۔۔”
علی یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔
“کیسا مقصد بھائی؟”
پاکیزہ کے سوال کرنے پر علی اپنی بات جاری کرتے ہوئے بولا “اللہ کچھ لوگوں کو ہماری زندگی میں بھیجتا ہی اسی لئیے ہے تا کہ وہ ہمیں بتا سکے کہ اُس واحد ذات کے سوا ہمارا کوئی اپنا نہیں ہے۔ اور یہ احساس بھی اللہ بہت خوش نصیب لوگوں کو عطا کرتا ہے جن کو وہ نیکی کی راہ دکھانا چاہتا ہے۔ اور جب لوگ ہمیں چھوڑ کر جاتے ہیں تو اس میں بھی ہمارا ہی فائدہ ہوتا ہے”
“فائدہ؟ وہ کیسے؟” پاکیزہ علی کی باتیں بہت خاموشی سے سُن رہی تھی۔
“جب کوئی ہمیں چھوڑ کر جاتا ہے تو پہلے پہل تو ہم بہت اُداس ہوتے ہیں۔اگر رشتہ مضبوط ہو تو ہمیں لگتا ہے ہم اس کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔ لیکن جب وہ جاتا ہے تو ہمیں سب کام حسبِ معمول کرنے پڑتے ہیں۔ تب ہمیں سمجھ آتا ہے کہ ہم کسی کے بغیر بھی رہ سکتے ہیں۔ پھر صبر حاصل کرنے کے لئیے اللہ سے دُعائیں کرتے ہیں۔ اس طرح اللہ کے قریب ہو جاتے ہیں۔ جب صبر آتا ہے تو اللہ کی عظمت پہ یقین بھی آجاتا ہے۔ اتنے سارے تو فائدے ہیں”
“اچھا اور کسی کی یاد کو دل سے نکالنا ہو تو کیا کرنا چاہئیے؟”
“یادیں کبھی نہیں جاتیں۔ مرتے دم تک نہیں۔ ہاں وقت کے ساتھ ساتھ دُھندلی ضرور ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے جینا تھوڑا آسان ہو جاتا ہے”
“تھینک یو سو مچھ بھائی۔ تھینک یو اتنا کچھ بتانے کے لئیے” پاکیزہ علی سے گلے مِل کر اسکا شکریہ ادا کرنے لگی۔
“تھینک یو کی ضرورت نہیں پاگل۔ بس خوش رہا کرو۔ چلو اب سو جاؤ نہیں تو کہو گی کہ میری تو نیند ہی پوری نہیں ہوئی”
“جی سونے لگی ہوں اب”
پاکیزہ لیٹ گئی اور علی اس پر کمبل دے کر کمرے سے باہر چلا گیا۔
سخت سردی تھی لیکن علی کی باتیں سُن کر پاکیزہ کے ہاتھ پاؤں بہت گرم ہو گئے تھے کیونکہ علی کی باتوں نے پاکیزہ پہ بہت گہرا اثر ڈالا تھا۔ اُسے شاید اب سب سمجھ آنے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد ا یک کال آئی۔ پاکیزہ نے موبائل پکڑ کر دیکھا تو ارزانش کی مسلسل کال آ رہی تھی۔ وہ کال کاٹ کر میسج کرنے لگی تو دیکھا کے ارزانش کے بہت سے میسج آئے ہوئے تھے۔
“جی بولیں۔” پاکیزہ نے کال اور میسج کی وجہ پوچھنے کے لئیے ارزانش کو میسج کیا۔
“پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ نے میسج دیکھ کے ریپلائی نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے کیا؟”
“سوری لیکن میں نے میسج دیکھا ہی نہیں۔ بس اسی لئیے ریپلائی نہیں کیا”
“چلیں آپ کہتی ہیں تو مان لیتے ہیں”
“اب بتائیں کیا کہنا تھا؟”
“وہ کہنا یہ تھا کہ۔۔” ارزانش نے ایک ادھورا میسج کیا تھا۔
“جی بولیں”
“بس چاند رات وِش کرنی تھی۔ اور کیا کہہ سکتا ہوں میں”
“اور بس اسی وجہ سے آپ نے میری نیند خراب کر دی”
“اوہ سوری! مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ آج بھی اتنی جلدی سو جائیں گی”
پاکیزہ نہیں چاہتی تھی کہ ارزانش سے دوستی کا مضبوط رشتہ قائم ہو۔ وہ کسی سے بھی کوئی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتی تھی۔
“اِٹس اوکے لیکن آئندہ خیال رکھئیے گا”
“جی ٹھیک ہے۔”
“اب سو سکتی ہوں میں؟”
“نہیں ابھی نہیں”
“لیکن کیوں؟”
“پہلے مجھے تو وِش کر دیں۔ نوٹ فیئر نا۔ میں نے وِش کیا لیکن آپ نے نہیں”
“چاند رات مبارک”
“شکریہ شکریہ۔ اب سو سکتی ہیں”
“خدا حافظ”
“خدا حافظ۔ ٹیک کیئر”
ارزانش سے بات کرنے کے بعد پاکیزہ سو گئی۔ عید کے تین دن بھی گھر میں ہی گزر گئے کیونکہ نہ تو پاکیزہ کی کوئی دوست تھی اور نہ ہی پاکیزہ کسی سے ملنا چاہتی تھی۔
_________
اب مُراد کا کچھ پتہ نہیں تھا کیونکہ آخری بار جب مُراد نے پاکیزہ کو بد دُعا دی تھی اس کے بعد پاکیزہ سے اس نے رابطہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور پاکیزہ بھی اپنے دن اور رات بمشکل گزار رہی تھی کیونکہ وہ اپنا درد کسی کو نہیں بتاتی تھی۔ سب کچھ خود ہی برداشت کر لیا کرتی تھی۔ یونیورسٹی میں بھی پاکیزہ کے چار سال پورے ہو چکے تھے۔ ہر طالبِ علم کنووکیشن کی تیاریوں میں مصروف تھا کیونکہ ان سب کو ڈگری ملنے والی تھی اور یہ ہر طالبِ علم کی زندگی کا کامیاب اور اہم ترین لمحہ ہوتا ہے۔ سب بہت خوش تھے اور پاکیزہ بھی بہت خوش تھی کیونکہ یہ ڈگری محض ایک ڈگری ہی نہیں تھی بلکہ یہ پاکیزہ کے خوابوں کی تعبیر تھی۔ وہ الیکٹریکل انجینئیر بننا چاہتی تھی جو اب وہ بن چکی تھی۔
آخر انتظار ختم ہوا اور کنووکیشن کا دن آگیا۔ سب طلباء وقت سے پہلے ہی وہاں موجود تھے لیکن ارزانش حسبِ معمول اس دن بھی دیر سے آیا تھا اور آ کر پاکیزہ کے قریب کھڑا ہو گیا۔
“ویسے آج آپ جیسے پڑھاکو بچوں کے ساتھ آج ہم جیسے نکموں کو بھی ڈگری مل ہی جائے گی” ارزانش پاکیزہ کے قریب آکر بولا۔ پاکیزہ ارزانش کو دیکھے بغیر اس کی بات کا جواب دینے لگی۔
“بہت بولتے ہیں۔ تھکتے نہیں ہیں کیا؟”
بس یہی ایک کام تو ہے جس پہ ہمیشہ آن ڈیوٹی رہتی ہوں” ارزانش ہنستے ہوئے بولا۔
پاکیزہ اس کی بات سُن کر مُسکرانے لگی۔
“چلیں آپ ہنسی تو”
“آپ کو کس نے کہا کہ میں ہنسی ہو؟” پاکیزہ نے ارزانش کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“اب آپ کے نقاب میں اتنی طاقت کہاں کہ آپکی خوبصورت ہنسی کی شدت چھپا سکے” ارزانش نے شعر کہنے کے انداز میں یہ بات کی تھی۔
“آپ مزاق کم اور کام کی بات زیادہ کیا کریں۔ یہ شعر و شاعری پاس ہی رکھیں” پاکیزہ کی زبان کم اور آنکھیں زیادہ بول رہی تھیں۔
“اتنا غصّہ کیوں ہوتی ہیں؟ وہ تو آپ کی آنکھیں صاف بتا رہی تھیں کہ آپ مُسکرا رہی ہیں” ارزانش نے پاکیزہ کی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“سامنے سٹیج کی طرف دیکھیں گے تو زیادہ بہتر ہو گا”
“سْن لیتے ہیں آپکی بات۔ کیا یاد کریں گی”
“نہ بھی سُنیں گے تو مجھے فرق نہیں پڑنے والا”
اب ارزانش کا رویہ تھوڑا سا بدل گیا اور وہ ظاہر نہ کرواتے ہوئے بولا “اچھا ہے۔ فرق پڑنا بھی نہیں چاہئیے۔ ایویں فرق پڑنے سے اداسی چھا جاتی ہے۔”
پاکیزہ نے ارزانش کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔آخر کار سب کو ڈگریاں ملنا شروع ہو گئیں۔ کنووکیشن کے بعد سب ہی بہت زیادہ خوش نظر آ رہے تھے اور خاص طور پر پاکیزہ بہت خوش تھی کیونکہ اسکا خواب اب تکمیل کو پہنچ گیا تھا۔ ابھی پاکیزہ ہال سے نکلی ہی تھی کہ ارزانش اس کے سامنے آگیا اور اسکا راستہ روک لیا۔
“ایک منٹ بات سُنیں” ارزانش مغلوب انداز میں بول رہا تھا۔
“جی بولیں”
“آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے مجھے”
“جی کہیں”
“نہیں ابھی نہیں”
“تو پھر کب؟”
“رات کو۔ رات کو پلیز آپ میری کال ریسیو کر لیجئیے گا۔ میں آپکو بار بار تنگ نہیں کروں گا”
“لیکن آپ۔۔”
ارزانش پاکیزہ کی بات کاٹتے ہوئے بولا “پلیز منع مت کیجئیے گا۔ میں زیادہ دیر بات نہیں کروں گا۔ اگر ضروری بات نہ ہوتی تو فورس نہیں کرتا”
“جی ٹھیک ہے۔ کر لوں گی ریسیو”
“تھینک یو۔ تھینک یو سو مچھ”
“کوئی بات نہیں”
اس کے بعد پاکیزہ گھر چلی گئی۔ وہ سب کچھ مُراد کو بتانا چاہتی تھی۔ اتنا سب ہونے کے باوجود وہ اپنی خوشی سب سے پہلے اس سے بانٹنا چاہتی تھی لیکن اس کی میسج کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو پا رہی تھی۔ وہ ہمیشہ انباکس کھول کر مُراد کے میسج کا انتظار کیا کرتی کہ شاید اس کا کوئی میسج آجائے لیکن یہ تو ممکن ہی نہیں تھا۔ میسج آنے پہ بھی تو وہ مُراد سے سخت لہجے میں بات کیا کرتی تھی۔ وہ چاہتی کیا تھی اسے یہ خود کو بھی معلوم نہیں تھا۔ دن گزرا تو چاند نے تاروں بھرے آسمان میں اپنی جگہ بنا لی۔ پاکیزہ نے ارزانش سے بات کرنے کی حامی بھری تھی لیکن وہ اس بات سے بے پرواہ ہو کر بیڈ پہ بیٹھی ڈائری لکھ رہی تھی۔
“کاش ہم دونوں ساتھ ہوتے۔ کتنا اچھا ہوتا نا مُراد۔ آپ کتنا خوش ہوتے میری ڈگری ملنے پر۔ پھر اسی خوشی میں ہم ہمیشہ کی طرح ڈھیر ساری باتیں کرتے۔ آپ کتنا فورس کرتے تھے نہ بات کرنے کے لئیے کہ پلیز تھوڑی دیر اور بات کر لو۔ آج بھی کریں نہ۔ اور سب سے زیادہ مزہ تو تب آتا تھا جب آپکو تصویروں کے لئیے ویٹ کرواتی تھی۔ دیر بعد دکھانے پہ کتنی تعریف کیا کرتے تھے میری۔ مجھے وہ سب بہت اچھا لگتا تھا” اس بار پاکیزہ کے رونے کی آواز اس کے کانوں تک نہ پہنچ سکی کیونکہ اس بار اس کا وجود نہیں بلکہ اسکا دل رو رہا تھا۔
اس نے ڈائری رکھ کر موبائل پکڑا تو ارزانش کی بہت ساری کالز آئی ہوئی تھیں۔ اس نے فوراً ارزانش کو بیک کال کی تو ارزانش نے کال کاٹ دی۔ پاکیزہ تھوڑا حیران ہوئی لیکن کچھ ہی لمحوں بعد اس نے پھر کال کی۔
“السلام علیکم” ارزانش آواز سے بہت ہی خوش لگ رہا تھا۔
“وعلیکم السلام”
“کیسی ہیں آپ؟”
“اللہ کا شکر ہے۔ آپ کیسے ہیں؟”
“میں بہت پیارا” ارزانش یہ کہہ کر ہنسنے لگا۔
“آپ نے کچھ کہنا تھا”
“جی جی کہنا تھا نہیں کہنا ہے”
“تو بولیں”
“مجھے کہنا یہ تھا کہ۔۔”
“جی کہیں” پاکیزہ ارزانش کی ادھوری بات جاننے کے لئیے بولی۔
ارزانش کچھ دیر خاموش رہا اور پھر کہنے لگا “میں۔۔ اب کیسے کہوں سمجھ نہیں آ رہا۔ آپ۔۔۔ آپ میری محرم بنیں گی؟”
پاکیزہ کے دائیں کان سے ہوتی ہوئی یہ بات جب اس کی سماعت کوٹکرائی تو پاکیزہ پتھرا سی گئی۔ کچھ دیر دونوں طرف خاموشی رہی۔
“آپ سُن رہی ہیں نا پاکیزہ؟”
ارزانش کی آواز سُن کر پاکیزہ نے ہوش بحال کرتی ہوئے کہا “آپ ایسا مزاق کیسے کر سکتے ہیں ارزانش؟ ایسی باتیں مزاق میں نہیں کہی جاتیں۔ بہت بُرا مزاق تھا یہ”
“میں مزاق نہیں کر رہا پاکیزہ۔ میں نے چاہے زندگی میں جتنے بھی مزاق کئیے ہوں لیکن خدا کی قسم میں آج مزاق نہیں کر رہا۔ اس شب کے چاند، تارے، کبھی نہ ختم ہونے والا گہرا آسمان اور یہ اندھیرا۔ سب آپ کے نام کی طرح میری محبت کی پاکیزگی کے گواہ ہیں”
پاکیزہ بالکل خاموش تھی۔ وہ یہ پتہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔
“خاموش کیوں ہیں؟ کچھ تو بولیں پلیز۔”
ارزانش کے بولنے کے باوجود دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔
“اب ہونٹ دُبانا بند کریں اور پہلے بات کا جواب دیں”
“پاکیزہ کی حیرت اب آسمان کو چھو چکی تھی۔ اُس کے اندر ایک سناٹا چھا گیا تھا۔
“اگر آپکو جواب دینے کے لئیے وقت چاہئیے تو لے لیں۔ آرام سے سوچئیے گا اس بارے میں کیونکہ یہ میری زندگی کا سوال ہے۔ اس کو بھی مزاق مت سمجھئیے گا نہیں تو میری زندگی مزاق بن کر رہ جائے گی۔ اور ہاں۔ اُنگلی منہ سے باہر نکالیں۔ ناخن چبانے سے میری باتوں کے جواب نہیں ملیں گے”
اب پاکیزہ نے کال کاٹ دی تھی۔ اس نے منہ سے انگلی نکال دی اور سوچنے لگی کہ ارزانش نے یہ سب اتنے یقین سے کیسے کہہ دیا۔ اسے کیسے پتا چلا۔ وہ اتنی درستگی سے کیسے بتا سکتا ہے۔ بہت سارے سوال پاکیزہ کے دماغ میں گھومنے لگے جس میں سے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اُسے محبت ہوئی کب۔ اُسے محبت ہوئی کیسے۔ کوئی کیسے ایک مُردہ روح لڑکی و پسند کر سکتا ہے۔
ارزانش نے پاکیزہ کو اسکی وہ سب عادات سے آگاہ کیا تھا جن کو ارزانش کے بتانے سے پہلے تک وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔ کچھ لمحوں کے لئیے اس کی باتیں مزاق سمجھ بھی لیتی لیکن ان سب باتوں کے بعد پاکیزہ کو یہ بالکل مزاق نہیں لگ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کیا ہو گیا ہے اور وہ کیا کرے۔ سوچتے سوچتے وہ راستہ تلاش کرنے کے لئیے تہجد پڑھنے لگی۔
“اے پروردگار! یہ مُشکلات کب تک رہیں گی۔ کب ختم ہو گا یہ سب۔ میں کیسے نکلوں اس سب سے۔ مدد فرما”
اگلی رات کو ارزانش پاکیزہ کو میسج کرتا رہا لیکن پاکیزہ نےکوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر بعد پاکیزہ کی کلاس فیلو لاریب کا میسج آیا۔
“پاکیزہ ٹیرس پہ آؤ”
“لیکن کیوں؟”
“تم آؤ تو۔ ٹیرس پہ جا کر چاند دیکھو ابھی۔ پلیز جلدی جاؤ”
پاکیزہ ٹیرس پہ گئی اور آسمان کی طرف دیکھا۔ چاند تو معمول کے مطابق ہی تھا۔ وہ واپس جانے لگی تو اس کی نظر نیچے پڑی۔
ایک گاڑی کے آگے ارزانش نیلی شرٹ اور کالی پینٹ میں ملبوس کھڑا تھا۔ ایک ہاتھ میں بہت سارے سرخ رنگ کے دل کی شکل کے غبارے اور دوسرے ہاتھ میں ایک ڈبی تھی۔
اس کے آگے گلاب کے پھول کی پتیاں ایک بڑے سے دل کی شکل میں ترتیب دی گئیں تھیں۔ پاکیزہ کو ٹیرس پہ کھڑے بھی سب واضح نظر آرہا تھا۔
ارزانش آگے بڑھا اور ان پتیوں کے گھیرے میں آ گیا۔ غبارے ہوا میں چھوڑ دئیے اور گھٹنوں کے بَل بیٹھ گیا۔ پاکیزہ ٹیرس پہ کھڑی حیران کُن نظروں سے سب دیکھ رہی تھی۔ ارزانش نے ڈبی کھولی جس میں ایک بہت خوبصورت انگوٹھی تھی اور اوپر پاکیزہ کی طرف بڑھائی۔
پاکیزہ نے جب یہ سب دیکھا تو کچھ کہے سُنے بغیر اپنے کمرے میں واپس چلی گئی۔ کمرے میں جاتے ہی کمرہ بند کر لیا اور دروازے کو ٹیک لگاتے ہوئے زمیں پہ بیٹھ کر رونے لگی۔ یہاں تک کہ پاکیزہ کی ہچکی بندھ گئی۔ وہ مُراد کے علاوہ کبھی کسی کی نہیں ہو سکتی تھی۔ اُسکی روح ابھی بھی مُراد کی محبت کے سُرور سے پوری طرح باہر نہیں آئی تھی۔
اگلے دن پاکیزہ نے ارزانش کو کال کی اور تلخ لہجے میں کہنے لگی کہ “مجھے آئیندہ کے بعد کوئی کال یا میسج مت کیجئیے گا۔ میں نہیں کرتی کسی سے کوئی محبت اور نہ ہی مجھے اس سب پہ یقین ہے۔ اپنا ٹائم ویسٹ کرنا بند کریں”
اور ارزانش کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کال کاٹ دی۔
اس کے بعد کئی دن تک ارزانش کے کسی میسج یا کال کا کوئی جواب نہ دیا۔ ارزانش پاکیزہ کو ہر منٹ بعد کال یا میسج کرتا۔ وہ پاکیزہ کے پیار میں پاگل ہو گیا تھا۔ ارزانش کے گھر میں پاکیزہ کے بارے میں صرف اس کی چھوٹی بہن ہانیہ کو پتا تھا۔ ہانیہ نے اسے بہت سمجھایا کہ اگر وہ نہیں مانتی تو چھوڑ دو اُسے۔ بھول جاؤ لیکن وہ شاید اپنے دل کے ہاتھوں بہت مجبور تھا۔ جب پاکیزہ نے کئی دن تک کوئی میسج یا ریپلائی نہ کیا تو ارزانش بیمار رہنے لگا۔ اسکو بہت تیز بخار ہو گیا جو اُترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ارزانش کے گھر والے بہت پریشان تھے کیونکہ وہ لڑکا جو کبھی چپ ہی نہیں کرتا تھا اب کئی دن سے کچھ بول ہی نہی رہا تھا۔ ارزانش کی امی نے اس سے بہت دفع پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے لیکن اس نے نہیں بتایا۔ آخر اس کی چھوٹی بہن ہانیہ نے سب اپنی امی کو بتا دیا کیونکہ وہ اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی تھی اور اسے اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔
مِسِز عالمگیر نے ارزانش سے پاکیزہ کے گھر کا پتہ پوچھا اور ارزانش نے بتا دیا۔
اگلے ہی دن مِسِز عالمگیر مِسٹر عالمگیر اور اپنی بیٹی ہانیہ کے ساتھ پاکیزہ کے گھر چلی گئیں۔ جب اُن کے گھر کی گھنٹی بجائی تو دروازہ پاکیزہ کی امی نے کھولا۔
“آپ۔۔ آپ لوگ کون؟ سوری لیکن میں نے پہچانا نہیں۔”
“میں ارزانش کی ماما ہوں، یہ میری چھوٹی بیٹی ہانیہ اور یہ ارزانش کے پاپا” ارزانش کی امی نے مِسٹر عالمگیر اور ہانیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“اوہ السلام علیکم۔ آئیں آپ اندر” پاکیزہ کی امی مِسِز عالمگیر، ہانیہ اور مِسٹر عالمگیر کو اپنے ساتھ ڈرائینگ روم میں لے گئیں۔ رسمی سلام دُعا کے بعد ارزانش کی امی کہنے لگیں “میرا بیٹا آپکی بیٹی پاکیزہ سے بہت پیار کرتا ہے اور وہ اس کے بغیر بری حالت میں ہے۔ نہ تو کچھ کھا رہا ہے اور نہ ہی کچھ پی رہا ہے۔ کئی دن سے اسے تیز بخار ہے اور میں بہت پریشان ہوں۔ یقین مانیں وہ آپ کی بیٹی کو بہت خوش رکھے گا اور کبھی کوئی کمی نہیں آنے دے گا۔ میرا بیٹا دل کا بہت صاف ہے”
“جی میں آپکی بات سمجھ سکتی ہوں لیکن اس بارے میں مجھے کچھ نہیں پتا تھا۔ ارزانش کافی دفع میرے گھر بھی آیا لیکن ایسا کچھ نہیں لگا۔ مجھے لگا کہ بس فرینڈز ہیں دونوں” پاکیزہ کی امی بہت ہی نرم اور خوش اخلاق لہجے میں بول رہی تھیں۔
“مجھے بھی سب کل ہی پتا چلا ہے لیکن شاید پاکیزہ نہیں مان رہی۔ پلیز آپ اسے اس رشتے کے لئیے راضی کر لیجئیے۔ یہ دونوں کے لئیے ہی بہت اچھا ہو گا” ارزانش کی امی ارزانش کی وجہ سے بہت پریشان تھیں۔
“آپ فکر نہ کریں۔ میں پوری کوشش کروں گی پاکیزہ کو منانے کی۔ آگے جو اللہ کو منظور ہوا۔”
“جی ٹھیک ہے۔ یہ میری طرف سے شگُن رکھ لیں” ارزانش کی امی نے بیگ سے سونے کے کڑے نکالے اور پاکیزہ کی امی کو دیتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے ساتھ بہت ساری مٹھائیاں بھی لے کر آئیں تھیں۔
“اسکی کوئی ضرورت نہیں۔ پہلے رشتہ تو پکا ہونے دیں”
“نہیں پلیز آپ رکھ لیں اور پوری کوشش کیجئیے گا”
اتنے میں مِسٹر عالمگیر بولنے لگے “اب ہم چلتے ہیں۔”
پاکیزہ کی امی ان کو روکتے ہوئے کہنے لگیں “آپ نے تو کچھ کھایا پیا بھی نہیں۔ کچھ دیر رک جائیں۔ کھانا کھا کر چلے جائیے گا”
“نہیں بہت مہربانی لیکن ارزانش کی طبیعت نہیں ٹھیک اسی لئیے مجھے تھوڑی جلدی ہے۔اب تو اُمید ہے کہ آنا جانا لگا رہے گا” ارزانش کی امی جواباً بولیں۔
“جی ٹھیک ہے”
“اچھا جی خدا حافظ”
“خدا حافظ”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...