وہ مایوس نہیں تھی لیکن اس وقت ناامیدی کے ایسے گھنے جنگل میں بھٹک چکی تھی جہاں سے نکلنے کا کوئی رستہ سجھائی نہ دے رہا تھا۔ بد قسمتی سے ایسی دلدل میں پاؤں ڈال چکی تھی جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہ آرہی تھی اور دور دور تک کوئی ایسا مسیحا نہ تھا جو اس کو کھینچ کر باہر نکال سکتا۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ کم فہم یا پڑھی لکھی نہ تھی بس ہوا یہ کہ وہ محبت کے بہلاوے میں آگئی اعتبار کی آخری حدوں کو چھو لیا اور خوابوں کی وادی میں اڑتی محبت کی رنگ برنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک بھنور میں دھنستی چلی گئی ہر بات سے بے پروا ہر رشتے سے لاتعلق اور پھر کیا ہوا پر خلوص رشتوں کو ٹھکرا کر اس نے جن رشتوں کی آغوش میں پناہ لی تھی جن کے سائے میں آ بیٹھی تھی انہوں نے اپنا اصلی روپ ظاہر کر دیا مطلب پرستی کے ان جعلی رشتوں کی اصلیت وہ اس وقت سمجھی جب انہوں نے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچی اور اس کو ضرورت اور مصیبت کے وقت تپتی دھوپ میں چھوڑ کر کنارہ کشی کر لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آج جن رشتوں کا اس نے مان توڑا تھا وہ بھی اس کا ساتھ دینے سے ہچکچانے لگے اس کے لیے تڑپ رہے تھے اس کا ساتھ دینا چاہتے تھے لیکن اس نے ان سب کو جو رسوائیاں دان کی تھیں وہ اتنی زور آور تھیں کہ ان کا پیار ہمدردی سب کچھ ماند پڑ رہا تھا ۔
” تم کیا سمجھتی ہو میری بیٹی کا بسایا گھر اجاڑ کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرکے اپنا گھر آباد کر لو گی؟ اگر یہ سمجھ رہی ہو تو تم سرا سر غلط سمجھ رہی ہو۔” وہ جو قسمت کی اس ستم
ظریفی پر نڈھال بیٹھی تھی بے اختیار سر اٹھا کر دیکھا تو بدرالنساء غصے سے دونوں ہاتھ کمر میں رکھے کھڑی اس پر برس رہی تھیں۔
” اونہہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بسا بسایا گھر ؟” وہ اپنی گیلی پلکوں کو دوپٹے کے کونے سے رگڑتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
” جو گھر بد نیتی اور دھوکے سے بسائے جائیں وہ زیادہ دیر تک آباد نہیں رہ سکتے۔آپ نے بھی دھوکے سے سب کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دھوکا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن یاد رکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔وہ نیتوں کے پھل دیتا ہے ٹھیک ہے میں خاموش ہوں کیونکہ آج میرے پاس کوئی ثبوت نہیں لیکن وہ خاموش نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔یہ آپ یاد رکھنا۔اس کو اللہ کی طاقت کا اندازہ تھا یقین تھا کہ وہ اس کا ساتھ دے گا۔ اس نے گناہ نہیں کیا پر غلطی کی اور وہ جانتی تھی کہ اللہ معاف کرنے والا ہے ۔ آج بھلے کوئی اس کے ساتھ نہیں لیکن جلد ہی سب اس کے ساتھ ہو گے۔ ابھی صحیح ٹائم نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے اس نے خاموش ہو جانے میں عافیت جانی ۔
” زیادہ ہوشیار نہ بنو اور نہ ہی مجھے کسی لیکچر کی ضرورت ہے تم اس وقت اس مصیبت سے کیسے نبٹوگی نہ سوچو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاکھانی لاج کی عزت کو کیسے بچانا ہے یہ سوچو۔” وہ تمسخر سے ہنستی ہوئی بولی۔
” خبردار جو آپ نے ایک لفظ بھی اور کہا تو۔۔۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔”
” چل ہٹ پیچھے اپنی حالت دیکھ پہلے ایسی حالت میں اتنا طیش تمہاری صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے آرام سے بیٹھو ۔ وہ اس کو پیچھے ہٹاتے ہوے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ زہر اگلتی اس کو زیر کرنے لگی۔
” کیا بات ہے چچی آپ کب آئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ابھی وہ کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ نسرین کمرے میں داخل ہوئی۔
” کچھ نہیں بیٹا ابھی آئی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔” وہ اس سے ملتے ہوے مکارانہ میں بولی تو وہ دانت پیس کر رہ گئی۔
” تم اس کا خیال رکھو دیکھوتو یہ سیب اسی طرح پڑے پڑے کالے ہو رہے ہیں۔” وہ نسرین کو ہدایت دیتی اس کی طرف دیکھتی باہر کی طرف بڑھ گئی تو اس کی بے چینیوں میں مزید اضافہ ہونے لگا۔
رات چاہے کتنی ہی کالی کیوں نہ ہو اس کا سویرا روشنی ہی لاتا ہے ۔اس کی بھی کالی رات کا اندھیرا آہستہ آہستہ روشنی کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اس کی آزمائش کے خاتمے کے وقت آگیا تھا۔وہ بے گناہ ہے اس نے گناہ نہیں غلطی کی ہے اس کا ثبوت مل چکا تھا۔
طویل انتظار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرب ناک لمحے ۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی ساتھی نہیں جس کے کندھے پر سر رکھ کر رو سکتی تسلی کے دو لفظ بول دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تنہائی اور رسوائی کے وہ پل صراط پر سے گزر کر اپنوں کی نظر میں سرخرو ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ وقت لگالیکن زندگی معمول پر آ رہی تھی لیکن اس کی زندگی ان خوابوں کے راہ گزر پر ایسی کھوئی کہ پھر اس کا نشان بھی نہ مل سکا۔تم تم نے دیکھی ہے وہ خوابوں کی راہ گزر؟
جس کی منزل تھی اجڑاہوا نگر……….
سر مئی شان تھی جس کے چاروں طرف
جس میں منظر جدائی کے تھے صف بہ صف
وصل کا سر بکف
بن گیا کرچیاں من کا نازک صدف
تم نے دیکھی ہے وہ خوابوں کی راہ گزر؟
سنگ ریزوں کی بارش ہوئی تھی جہاں
اور کومل سے جزبے برف بن گئے
پائمالی نے ان کو لہوکردیا
باوضوکردیا۔۔۔۔۔۔۔۔سرخرو کر دیا
آج بھی جو مسافر گیا اس طرف
اس نے پایا نہیں واپسی کا نشاں
اس کو ڈھونڈا فلک نے یہاں سے وہاں
تم نے دیکھی ہے وہ خوابوں کی راہ گزر؟؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...