رات کا پہلا پہر تھا اور وہ ابھی تک بستر پر لیٹ نہ سکی تھی۔ دل کسی طور پر اس انہونی کو قبول نہیں کر رہا تھا۔ کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کیوں زرغم نے ایسا ؟ یہ وہ گتھی تھی جس کو وہ صبح سے رات کے اس پہر تک مسلسل سلجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اپنی کوئی بھی کج ادائی اس کے ذہن میں نہ آ رہی تھی پھر زرغم نے کن وعدہ خلافیوں کی بنا پر انتہائی قدم اٹھایا ؟ وہ سمجھ نہ پا رہی تھی. اب مسلسل سوچ سے دماغ کی رگیں پھٹنے لگی تھیں ۔ سوچنے کی صلاحیت بھی دم توڑ رہی تھی ۔ اس نے ایک نظر آسمان پر چاند کو دیکھا اور ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ بیڈ کی جانب بڑھ گئی۔ اب تھوڑا ریسٹ کر لینا ہی عقل مندی ہو گی اور وہ بستر پر لیٹ کر آنکھیں موندے سونے کی کوشش کرنے لگی۔
” بیلہ بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” نجانے کتنے پل بیتے جب خدیجہ بوا کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں تو سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔
” بوا میرا سر بہیت درد کر رہا ہے ۔ ” وہ اٹھتے ہوئے مدھم لہجے میں بولی تو خدیجہ بوا اس کے پاس آکر اس کے بال سمیٹنے لگیں۔
” آپ اٹھو فریش ہو میں ناشتہ لاتی ہوں ناشتہ کر کے ٹیبلیٹ لو پھر سر میں آئل لگاتی ہوں ۔ ” خدیجہ بوا اس کو اٹھاتے ہوئے بولی تو وہ سراثبات میں ہلاتے ان کا ہاتھ پکڑے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کچھ دیر بعد تولیے سے منہ صاف کرتی دھیمی رفتار سے چلتی اپنے کمرے میں داخل ہو رہی تھی کہ موبائل کی بجتی گھنٹی نے قدم یک دم روک دئیے پھر اسی رفتار سے چلتی موبائل کی طرف بڑھی تو انجانا نمبر دیکھ کر لمحہ بھر چونکی اور پھر آف کا بٹن پش کر دیا کہ نجانے کون ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس وقت موڈ ایسا نہیں تھا کہ وہ کسی انجان سے مغز ماری کی جائے ۔ موبائل واپس رکھ کے پلٹی ہی تھی کہ بپ کی آواز پر پھر چونکی۔
میسج اوپن کرتے ہی حیران رہ گئی۔ ” یہ کون ہے ؟”
لیکن وہ واپس میسج کرنے کے لیے قطعی انڑسٹڈ نہیں تھی۔
موبائل واپس رکھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی اور سوچوں کے محور ایک بار پھر وہی دشمن جاں تھا۔
” کیوں کیا ایسا زرغم عباسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کس جرم کی سزا دی؟” وہ بھیگی پلکوں کے ساتھ دل ہی دل میں اس سے ہمکلام تھی لیکن وہ سن ہی کہاں رہا تھا ۔
” کیا محبت کرنا ایسا جرم ہے کہ اس کی یہ سزا دی جائے زرغم عباسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کہاں کمی رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کیا غلط کیا؟” بہیتے آنسوؤں کے ساتھ وہ دل ہی دل میں اس سے لڑ رہی تھی کہ موبائل کی بجتی گھنٹی نے اس کے غصیلے جزبات اور باغیانہ سوچ کو منتشر کر دیا۔
” ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔” نمبر دیکھے بنا ہی اس نے ” یس ” کا بٹن پش کر دیا۔
” کک۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟” اس کو اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا تھا۔
” زرغم عباسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ” دوسرے پل ہی آنسو صاف کرتی اپنے جزبات پر قابو پاتی وہ کرخت لہجے میں بولی۔
” کیسی ہو بیلہ؟” وہ مدھم لہجے میں دریافت کر رہا تھا۔
” دوبارہ میرا نام نہ لینا زرغم اور نہ ہی مجھے فون کرنا۔”
کہہ کر بیلہ نے موبائل سوئچ آف کر دیا۔
” کیا بات ہے بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” خدیجہ بوا آئل کی بوتل اٹھائے اس کے کمرے میں آئیں تو بیلہ دونوں ہاتھ بیڈ پر لٹکائے ٹانگیں لٹکائے بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی۔
” بیلہ بیٹا کیا ہوا سب ٹھیک ہے ناں؟” ان کے آنے پر بھی وہ اس حصار سے نہ نکلی تو خدیجہ بوا کی تشویش لاحق ہوئی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اس سے پوچھنے لگیں تو وہ چونک اٹھی۔
” کچھ نہیں بوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس یونہی ۔ ” وہ بھرائی آواز میں بولی تو خدیجہ اس کے پاس بیٹھ کر اس کو تسلیاں دینے لگیں۔
” خدیجہ بوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ان کے کندھے پر سر رکھے وہ پھر سے بولی۔
” ہاں بولو میرا بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا بات ہے؟” وہ اس کا ہاتھ سہلاتے ہوئے بولیں۔
” بوا ایک بات پوچھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچ بتائیں گی ناں ؟” وہ ان کی طرف دیکھتی ہوئی بولی تو انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھااور سراثبات میں ہلا دیا۔
” بوا زرغم عباسی کون ہے؟ لاکھانی لاج سے اس کا کیا رشتہ ہے بوا ؟” وہ ان کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی ۔ لیکن خدیجہ بوا نظریں چرائے بیٹھی تھیں ۔
ایسی بات نہیں ہے بیلہ بیٹا آپ اپ سیٹ ہیں اس لیے اس طرح کے وسوسے ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔
آپ آرام کرو نیند آئے تو سو جاؤ جب جاگو گی تو مائنڈ فریش ہو جائے گا۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ کو بس ہمت سے کام لینا ہو گا ۔ ” خدیجہ اس کو سمجھاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں ۔
” بوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیلہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر روکا۔
” ٹھیک ہے بوا میں مانتی ہوں سب ٹھیک ہو گا زرغم کو کوئی ضروری کام ہو گا تبھی وہ اس وقت گیا بابا کو یہی ٹھیک لگا ہو گا کہ زرغم کو جانے کی اجازت دے دی جائے لیکن بوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زرغم عباسی کا لاکھانی لاج سے کیا رشتہ ہے؟ وہ اس وقت کیوں گیا اور کسی نے کچھ نہیں کہا؟ نہ ہی کوئی اس کے خلاف بول رہا ہے ۔” بیلہ خدیجہ بوا سے وہ سوال پوچھ رہی تھی جس کا ذکر برسوں نہیں ہوا تھا۔ اور نہ ہی کسی کو اس بات کو کریدنے کی اجازت تھی لیکن بیلہ آج ان سوالوں کو دہرا رہی تھی زرغم عباسی کا لاکھانی لاج کے مکینوں سے کیا رشتہ ہے ۔
” پلیز بوا میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی وعدہ کرتی ہوں ۔ مجھے جاننا ہے بوا پلیز ۔ ” خدیجہ کا ہاتھ پکڑے وہ ان کے سامنے کھڑی منت بھرے لہجے میں بول رہی تھی تو خدیجہ کا دل پسیجنے لگا۔ تو اس کا ہاتھ پکڑ کر سہلاتے ہوئے بولی اس کو بیڈ پر بیٹھا کر خود بھی بیٹھ گئیں۔
نجانے کتنے گھنٹے بیت گئے تھے سینکڑوں پل بنا آہٹ کیے گزرتے چلے جا رہے تھے سورج اپنی کرنیں سمیٹے مغرب کی جانب رواں دواں تھا وہ ندامتوں میں گھری اپنے بستر پر اوندھے لیٹے مسلسل سوچے جا رہی تھی لیکن سوچوں کی گتھی اس قدر الجھ چکی تھی کہ کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا لیکن گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کا مدھم سا دیا اچھی خاصی روشنی کر دیتا ہے وہ بھی اس دیے کو ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھی لیکن سفر کہاں سے شروع کرے؟ منزل کی نشاندہی کون سا رستہ کر رہا ہے؟ وہ بے خبر تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باہر سے دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ چونکی تھی امید کی ڈور کا سرا بھی چھوٹ گیا تھا اب وہ مکمل بیدار تھی۔
” ساریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سو رہی ہو کیا؟ اٹھو کھانا کھا لو ۔” فاطمہ لاکھانی کھانے کی ٹرے ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھیں۔
لیکن ساریہ آنکھیں بند کیے اسی طرح پڑی رہی فاطمہ کچھ دیر کھڑی اس کے جاگنے کا انتظار کرتی رہیں اور پھر واپس چلی گئیں۔ دروازہ دوبارہ بند ہونے کی آواز کے ساتھ ہی اٹھ بیٹھی ۔ سامنے ہی ٹیبل پر رکھی ٹرے پر نظر پڑی تو اٹھ کر اس کے پاس جا کھڑی ہوئی ۔ گلاس میں پانی ڈال کر گھونٹ بھرا تو پیاس کی شدت کا اندازہ ہوا ۔ نوالہ توڑنے کو ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ فاطمہ لاکھانی دودھ کا گلاس لیے اندر داخل ہوئیں تو یکدم ہی اس کا دل اچاٹ ہو گیا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔
” یہ لو دودھ پی لو صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے ۔”
فاتحانہ مسکان کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑ کر دودھ کا گلاس اس کو تھمایا تو وہ ان کو دیکھ کر رہ گئی۔
” مما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اس نے گلاس پکڑے بیڈ کی جانب بڑھتے ان کو پکارا۔ تو فاطمہ سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھنے لگیں۔
” مما مجھے یوں قید کرنے سے کیا میں زرغم سے رابطہ کر سکوں گی؟ اگر میں باہر نکلوں گی بیلہ یا خدیجہ بوا سے ملوں گی تو ہی کسی طرح زرغم کا پتہ چل سکے گا ناں کہ وہ کہاں ہے؟ مجھے یقین ہے کہ زرغم بیلہ سے ضرور رابطہ کر کے اپنی صفائی دینے کی کوشش کرے گا اور آپ تو جانتی ہے کہ بیلہ مجھ سے ہر بات شئیر کرتی ہے۔” وہ کنکھیوں سے فاطمہ کو دیکھتی بول رہی تھی اور پل بھر میں ساریہ کے اندر اطمینان کی لہر سی دوڑ گئی فاطمہ کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ ساریہ کے اس پوائنٹ سے متفق ہیں۔ انہوں نے اس کو دیکھا تو اس نے دودھ کا گلاس منہ سے لگا لیا۔
” ہاں ٹھیک ہے لیکن یاد رکھنا تم نے زرغم کو اپنی طرف راغب کرنا ہے اس کو اپنی محبت کا یقین دلانا ہے ۔ مجھے پتہ ہے کہ تم سے کتنی محبت کرتی ہو بس اس کو بھی اس بات کا یقین دلانا ہے ۔ پھر دیکھنا تم کیسے ڈھیر ساری خوشیاں ملے گی۔ وہ مسکراتے ہوئے پلٹ گئیں ۔ تو ساریہ کی نظروں نے دور تک اس کا تعاقب کیا۔
” ماں کا دل بھی کتنا عجیب ہوتا ہے اپنی اولاد کی خوشیوں کے لیے کسی اور کے خوابوں کے محل کو مسمار کرنے کے لیے کیا کر گزرتی ہے لیکن اپنی اولاد کی پلک پر آ نسو کا ایک قطرہ تک نہیں دیکھ سکتی ۔ ایک عورت کتنی ہی بری ہو لیکن ایک ماں اپنی اولاد کے حق پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیتی.” ساریہ دروازے پر نظریں جمائے اپنی ماں کے بارے میں سوچے جا رہی تھی۔
” میری ماں بھی ایک ایسی عورت ہے جس نے اپنے ساتھ ہوا ہر ستم برداشت کیا لیکن میرے لیے وہ آخری حدوں تک جا رہی ہے لیکن یہ غلط ہے میری ماما کو یہ سمجھنا ہو گا کہ زرغم میرا نہیں ہے وہ دل پر پتھر رکھے خود کلامی کرتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور قدم باہر کی جانب بڑھا دئیے ۔ تو دل میں جہاں بے شمار ٹیسیں اٹھ رہی تھیں وہاں ایک اطمینان کی لہر بھی موجزن تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...