اج پھر تو نے واہی بکواس کی شرمین کی بچی !!!!!
سمیعہ نے ایک ہاتھ شرمین کی کمر پر دھرتے ھوئے غصہ سے کہا تو شرمین بے ساختہ ھنس پڑی تو اس میں اب میرا کیا قصور ھے سمعی !!!
کہ جب بھی میری نظر اس منزل مقصود پر پڑتی ھے تو دل چاہتا ھے کہ کسی طرح اس حسین و جمیل اور خوابوں جیسی خوبصورت “منزل مقصود ” کو اندر سے بھی دیکھوں اور یہ خواہش ہر مرتبہ اتنی شدید ھوئ ہے کہ تمھارے چڑنے کے باوجود ہر مرتبہ زبان پھسل ہی پڑی ھے۔۔۔
آہستہ آہستہ چلتے ھوئے اور اس حسین بنگلے کو حسرت سے دیکھتے ھوئے شرمین نے بہت ہی سنجیدگی سے کہا تو سمعی کو اس خوابوں کی دنیا میں رہنے والی دیوانی سی لڑکی پر ڈھیر سارا پیار آگیا اور وہ مسکرا دی جب ھی تو میں تجھ سے کئی بار کہہ چکی ھوں کہ چل میں تجھے یہ گھر اندر سے بھی دکھادوں یہ کوئی مشکل کام تو ھے نہیں ۔
۔بس بیل بجا کر کہہ دینگے کہ “جناب آپ کا گھر دیکھنا ھے ” مگر تو بھی ایک ضدی اور دیوانی لڑکی ھے ڈر ڈر کر ہی کسی دن دم نکلے گا تیرا !!!
سمعی شرمین سے بات کرتے کرتے جھنجلا گئی۔۔۔۔
نہیں سمعی !!!
پاگل ھوئ ھے کیا ؟؟؟
اس گھر کے لوگ کیا کہیں گے ان لڑکیوں کا دماغ خراب ھے جو کسی کا گھر خواہ مخواہ بلاوجہ دیکھنے چلی آیئں۔۔
شرمین نے سلجھانے والے انداز میں کہا تو سمعی ناک سکوڑ کر چپ ھوگئ۔۔۔۔
شرمیں اور سمعی بچپن کی گہری دوست تھیں ان کیاآپس کی چھوٹی موٹی لڑایئوں اور نوک جھونک سے یہ دوستی اور بھی زیادہ پائیدار اور فولادی بن گئ تھی۔۔۔
دونوں کے گھر بھی قریب قریب تھے اور کالج بھی ایک تھا۔پیدل کا راستہ تھا۔اس لیے ھمیشہ دونوں ایک ساتھ ھی ٹھیلتی ٹھیلتی کالج جایا کرتی تھی۔۔۔۔
ان کے کالج کے ہی راستے میں ایک بہت خوبصورت اور آئیدیل قسم کا بنگلہ پڑتا تھا جسکا نام منزل مقصود ھے۔۔۔
اور خوابوں کی دنیا میں بسنے والی خوابوں کی ہی طرح حسین پیاری اور معصوم سی لڑکی شرمین کو یہ گھر اس حد تک پسند آیا تھا کہ وہ اس گھر کو اور قریب سے اقر اندر سے دیکھنے کی شدید تمنا دل میں بسائے وہ روز ہی یہاں سے گزرتی تھی۔اور رعز ھی اس تمنا میں شدت اجاتی تھی۔۔وہ کہتی تھی یہ میرا آئیدیل گھر ھے سمعی میں نے اکثر اس گھر کو خوابوں میں دیکھا ھے۔۔
اور جب کو آئیدل چیز حقیقت بن کر سامنے آجائے تو اس سے دور رہنا آسان نہیں ھوتا۔اور سمعی جیسی لاوابالی لڑکی جو جزبات سے بلکل عاری لڑکی اس کی گھیری گھیری باتیں سن کر ہمیشہ ہی ناک سکوھڑ کر اس کو جھٹک دیا کرتی اس کے پلے شرمین کی گھیری گھیری باتیں بلکل نا پڑتی تھی۔
۔سمعی کو بھی اپنی دوست کی حالت کا بخوبی اندازہ تھا اس لیے اس کو بنگلے والی سڑک سے لانے کے بجائے وہ ہمیشہ دوسری سمیت سے لا جانا چھاتی تھی۔
لیکن شرمین جیسی ضدی لڑکی سے ہار کر اس کی خوشی کی خاطر اس ہی روڈ سے جاتی جہاں وہ بنگلہ تھا۔۔مگر جیسی ھی وہ بنگل سامنے اتا تو سمعی اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھوس لیتی اور شرمین سے کئ قدم دور ھوجاتی۔اور شرمین اس کی یہ کیفیت دیکھ کر بے ساختہ ھنس پڑتی۔۔اور اس کی اس ہرکت پر پورا راستہ سمعی کو کوستی رہتی۔۔۔۔
اج میں تیری ایک بات نہیں سنو گی شرمین کہ بچی !!!
اج تجھے ہر قیمت پر میرے ساتھ دوسرے راستے سے جانا ھوگا۔۔۔بس۔میں ہر گز اس کمبخت اور مصیبت کی جڑ منزیل مقصود والے روڈ سے نہیں جاوں گی۔بس یہ میرا آخری فیصلہ ھے۔۔سمعی شرمین کے کمرے میں گھستے ھی ایک سانس میں بولتی چلی گئ۔اور شرمین کے تیزی سے چلتے ہاتھ روک گئے۔۔
کیا بقواس ھے سمعی میں کسی دوسرے راستے سے نہیں جاوں گئ۔۔۔۔
دیکھتی ھوں شرمین تو کیسے نہیں جاتی میرے ساتھ اج تجھے میری بات مانی پڑے گی بس ورنہ تیرا راستہ الگ اور میرا راستہ الگ۔سمعی نے غصہ سے ناک سکھڑ کر کہا۔۔۔اور دہپ سے کرسی پر بیٹھ گئ۔۔
اف میرے اللہ سمعی تو پلیز اب ایسی باتیں تو مت کر نا ۔۔
تو ہی تو میری ایک واحد اور سچی اور اچھئ دوست ھے سب تو دل توڑتے ھیں کم سے کم تو ھی دل خوش کرنے والی باتیں کیا کر سمعی۔تو تو ایسی باتیں نا کیا کر اگر تو نے بھی اپنا راستہ الگ کرلیا تو میں کہاں تک اکیلی جا سکوں گی سمعی؟
پلیز تم ناراض نا ھوا کرو پلیز۔۔مم
بتاو کہاں تک اکیلی جا سکوں گی ؟؟؟
شرمین کی گھیری اور بڑی بڑی انکھوں میں ایک دم ھی آنسوں اگئے۔۔۔سمعی شرمین کی انکھوں میں انسو دیکھ کر ایک دم تڑپ اٹھی اور شرمین کو گلے سے لگا کر ایک دم بولی۔۔۔
ارے پگلی میں تو مزاق کر رہی تھی تو رو مت میری جان میں صرف تجھے تنگ کر رہی تھی
بھلا تجھ سے الگ ھو کر میں جی سکتی ھوں کیا سمعی سے پیار سے شرمین کی آنسو پونچھتے ھوئے پوچھا۔۔
اور ہاں شرمین تو رویا نا کر جب میں تجھ سے اتنی محبت کرتی ھوں تو تجھے کسی کی محبت کی کیا ضرورت ھے۔۔۔؟
سمعی خود بھی اداس سی ھوگئ۔۔۔
تو شرمین آنسو پونچھ کر ایک دم معصومیت سے مسکرا دی۔۔۔
تو اب پھر نہیں کہے گی نا تو ؟؟
دوسرے راستے سے چلنے کو ؟
شرمین میں روندی آواز میں پوچھا تو سمعی اپنا سر تھام کر بولی۔۔۔
خدا کی بندی !!!!!
اپنے اس پاگل پن کو تو ختم کیوں نہیں کرتی ۔۔میں صرف اج ایک شرت پر اس راستے سے جاوں گی ورنہ نہیں۔۔
سمعی نے موقع سے فائدہ آٹھایا تھا۔۔
وہ کیا شرمین نے ایک دم پوچھا۔۔
۔اور کالج کا بیگ اٹھا کر کندھے پر ڈالا۔۔
وہ یہ مس شرمین جی کے اج جو میں کہو گی وہ اپ کو منانا پڑے گا۔۔۔۔
اور جو کچھ میں کروں گی وہ اپ مجھے کرنے دیں گی۔۔۔
اج میں تیری تمنا پوری کر کے چھوڑو گی تو بس جیسا میں کہوں تو ویسا کرنا! سمعی نے بھی بیگ تھام کر کمرے سے نکلتے ھوئے کہا۔۔۔
نہیں سمعی !!
ابھی شرمین کچھ بولنے ھی والی تھی کی سمعی سے روک دیا۔۔
سب شرمین !!!
میں شیں ختم بیٹا اب تمھارے اچھے بھی جایئں گے میرے ساتھ۔۔۔
اور جو تم نا گئ تو جاوں اکیلی جاوں میں نہیں جاتی۔۔۔
افوو بابا اچھا ٹھیک ھے۔۔۔۔شرمین نے سمعی کی ناراضگی کے ڈر سے ہامی بھر لی اور سمعی کا ہاتھ تھام کر بولی اچھا جو کرنا ھو وہ تم کرنا میں تو کچھ نہیں کروں گی۔۔۔!!
اور سمعی اس کی گھبراہٹ اور خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھ کر بے پناہ خوش ھوئ۔جب بھی کسی بات پر شرمین خوش ھوتی تو سمعی کو اپنی محنت رنگ لاتی نظر آتی تھی۔۔اور وہ بھی مزور ھوجاتی تھی۔۔۔۔
یہ اس کی ہی محنت تھی جو شرمین اب بات بات پر مسکرا دیا کرتی تھی۔۔خوش ھوتی تھی ھنستی تھی۔۔۔ورنہ شرمین جسیے خوش ہونا اور ھنسنا بھول ھی گئ ھوتی اگر سمعی اس کو قدم قدم پر نا سنبھالتی اسے اپنی محبت بھری بھاوں میں نا لیتی تو شرمین کا وجود اب تک باقی نا ھوتا۔۔۔۔۔
شرمین چھ عدد بہنوں کی 7وی بہن تھی اسے بڑی بہن عالیہ میں اور شرمین میں پورے چار سال کا فرق تھا ورنہ تمام بہنوں میں صرف دو دو سال کا فرق تھا۔۔۔
شرمین اپنے پورے خاندان میں منحوس مشہور تھی۔۔ماں باپ تک اس کی صورت سے بے زار رہا کرتے تھے….
تقریبوں میں پارٹیوں میں اس کی شمولیت بدشگونی کی علامت تھی۔۔
اور سب کچھ اس لیے تھا اس کی زات کو منحوس اس لیے کہہ دیا گیا تھا کیونکہ وہ چھ بہنوں کے بعد دنیا میں ائ تھی اور وہ بھی اس وقت جب اخری بہن کے بعد چار سال تک کوئی اولاد نہ ھونے کے بعد دوبارہ نصرت بیگم کا پیر بھاری ھوا تو “ان کو امید ھوئ کہ شایئد اس بار بار بیٹا ھو جائے اور یہ امید ان کو چھ بیٹیوں میں بھی تھی۔۔۔
لیکن شرمین کہ دافع میں ان کو یہ امید کچھ زیادہ تھی۔۔
تمام لوگوں نے بہت خوشی منائ ان کا خیال تھا کہ اللہ تعالی نے ان کی سن لی ھے۔۔اور اب چار سال کے بعد انشاءاللہ ضرور لڑکا ھوگا اس خاندان کا ولی عہد۔۔!!!!!!
دادی حضور نے خوب خوب بہوں کی خدمت کی۔۔۔نندوں نے بھابیوں کو ہل کر پانی نہ پینے دیا۔۔۔اور شوہر جمعیل صاحب نے بیوی کے ناز نخرے اٹھانے میں کوئی کثر نا چھوڑی تھی۔۔۔ان تمام احتماموں سے خود نصرت بیگم کو بھی یقین ھو سا چلا تھا کہ اس بار وہ ایک بیٹے کو جنم دیں گی۔
انہوں نے بھی مزاروں پر چادریں چڑھا کر منت مانی تھیں۔۔مگر اتنا سب کچھ کر کے بھی نتیجہ لڑکی کی صورت میں نکلا تو خاندان بھر میں ایک نفرت کی لہر ڈور گئ۔
۔۔۔نصرت بیگم نے اپنی معصوم سی بیٹی کو دیکھنے سے بھی انکار کردیا تھا۔۔۔اس بیٹی نے ان کو سب کی نظروں میں زلیل کروا دیا تھا۔۔۔باپ نے بچی کو ہر بیٹی کی طرح گود میں لے کر پیار تک کرنا گوراہ نا کیا۔۔۔۔
اور سونے پر سہوگہ یہ تھا کہ جب دادی جان کو علم ھوا تو صدمے سے ایسی بیمار پڑی کہ زیادہ عرصہ نہ جی سکیں اور لڑکی کی پیدائش کے چھ روز بعد ھی اللہ کو پیاری ھوگئ۔۔
اس واقعی نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔۔۔اور ماں باپ سمیت تمام پھوپیوں اور خاندان والوں نے اسے منحوس جیسے نام سے نواز دیا اور اسکا پہلا جو نام رکھا گیا تھا وہ منحوس تھا اور پھر یہ نام اس معصوم زات سے ایسا چپکا کہ پھر ہر واقعیا ہر موت کا ہر ھادثہ اور ہر نقصان صرف اور صرف اس بے گناہ معصوم لڑکی کی زات سے وابستہ کیا گیا۔۔اس کے پیرا ھونے کے بعد ڈاکٹر نے یہ بھی خبر دے دی تھی کہ نصرت بیگم اب کبھی دوبارہ ماں نہیں بن سکتی۔۔۔اور اس وجہ سے آئندہ لڑکے کی پیدائش کے امکانات بھی باقی نا رہے تھے۔۔۔
دادی کی موت ،پھوپا کا accident پاپا کا بزنس میں گھٹا اور بڑی بہن کی منگنی ٹوٹ جانا،پھوپی کی انکھ کا زائع ھونا غرض ہر فعل کی زمہ دار صرف اور صرف شرمین کو مانا جاتا تھا۔تمام بڑی بہونوں کو تو اس سے اللہ واسطے خا بیر تھا۔۔پھو پیوں کا کہنا تھا اس سے پہلے بھی 6 بیٹیاں ھوئ لیکن سب بگھوان تھیں ان کی پیدائش کوئی نا کوئی خوشخبری ہی لاتی تھی..
لیکن یہ لڑکی اس قدر منحوس تھی کہ اس کے پیدا ھوتے ھی خاندان کی خوشیاں غائب ھوگئ۔۔اور پورا خاندان برباد سا ھوگیا۔۔۔
بچپن سے انکھ کھول کر شرمین نے اپنے لیے صرف اور صرف نفرت ھی دیکھی تھی۔۔کبھی کسی نے دو بول پیار کے اس کو نا بولے تھے۔۔اتنا پیارا نام ھونے کے باوجود سب اس کو منحوس منحوس کے لقب سے پکارتے تھے ۔۔۔اسکا نام شرمین سمعی کی امی نے رکھا تھا تب شرمین صرف ایک ماہ کی تھی۔۔۔
سمعی کی امی نے بہت پیار سے شرمین کو گود میں اٹھا کر ماما پاپا سے کہا تھا کہ اپ کی یہ بیٹی تمام بیٹیوں سے منفرد اور خوبصورت ھے۔۔اسکا نام بھی اسکی طرح پیارا ھونا چاھیے۔۔اس لیے میں تو اج سے اسکو شرمین کے نام سے پکاروں گی۔۔اور یوں اسکا نام شرمین پڑ گیا تھا اور کسی کو اسکی اتنی فکر بھی نا تھی کہ کوئی اسکا نام بدلتا۔۔۔سمعی کی امی کے نصرت بیگم سے کاصے اچھے تعلقات تھے۔پڑوسن ھونے کے باوجود دونوں میں پیار تھا ۔۔۔۔
سمعی کی امی جانتی تھیں کہ گھر والوں کا اس بچی کے ساتھ انتہائ ظالمانہ رویہ ھے۔۔اس لیے وہ اس سے بہت زیادہ پیار کرتی تھی۔۔اور شرمین بھی ان سے بے حد مانوس ھوگئ تھی۔۔۔سمعی کی امی خالدہ بیگم نے کئ بار نصرت بیگم کو سمجھانے کی کوشش کی مگر بےسود وہ بہت پرانے خیالات کی ضدی اٹل قسم کی زیادہ رعب دار خاتون تھیں۔۔۔
وہ یہ مانتی تھیں کہ شرمین کے پیدا ھونا ان کے لیے منحوس ھے۔۔۔جزبات رحم دلی بیٹی کے لیے پیار ان وہ ان سب چیزوں سے محروم تھیں۔۔
اپنی رویات اور فیصلوں کے اگے وہ کسی کی نا ستنی تھیں۔۔ان کو کسی کے جزبوں کی کوئی پروا نا تھی۔۔
اس لیے خلدہ بیگم ہمیشہ ان کو سمجھانے میں ناکام رہتی تھیں۔۔۔۔
اور پھر ان ہی نفرتوں،محرومیوں مایوسی کے سہارے یہ ننھی سی شرمین وقت سے پہلے بڑی ھوگئ۔۔۔۔اور حد سے زیادہ سنجیدہ اور گم گو نکلی۔۔شرمین اکیلے بیٹھ کر گھنٹوں اپنے ساتھ ھونے والے سلوک پر روتی تھی۔۔
اگر تھوڑی سے توجہ اسے کسی کی حاصل تھی تو وہ صرف پاپا کی تھی لیکن وہ توجہ صرف اور صرف تعلیم کے غرض تک تھی۔۔۔اس کی تمام زمہداریا وہ باخوبی نبھاتے رتھے۔۔۔مگر شرمین کو کبھی پیار کرنا اپنے پاس بلانا اس سے اس کے دل کا حال پوچھنے کی پاپا نے بھی کبھی ضرورت نا سمجھی تھی۔۔۔۔۔
شرمین کے ماما پاپا نے اس کے لیے ایک آیا رکھ لی تھی جو بچپن سے اس کا خیال رکھتی تھیں۔۔۔کیونکہ نصرت بیگم اور ان کے شوہر کو اپنے 6 بیٹیوں کے ناز نخر اٹھانے سے فورصت نا تھئ۔۔۔۔۔
اور سچ تو یہ ھے کہ شرمین خو اپنے ماں سے زیادہ اس کے آیا سے محبت کرتی تھی۔۔۔کیونکہ جب سے اسنے ھوش سنبھالا تھا وہ ان ھی کو اپنا خیال رکھتے دیکھتی ائ تھی۔۔۔۔اس کو ماں والا پیار آیا نے دیا تھا۔۔
جب وہ اپنے بڑی بہنوں کے پاس جاتی جو ساری اس کو منحوس بول بول کر اپنے ساتھ نا کھیلاتی اور وہ آیا کی گود میں سر رکھ کر روتی رہتی۔۔۔۔پھر ایک دن اس کی دوستی پڑوس میں نئی انے والی سمعی سے ھوگئ۔۔۔
سمعی کو بھی یہ نازک نازک گڑیا جسیی لڑکی بہت اچھی لگی تھی۔۔۔پھر دونوں کی دوستی اس قدر پکی ھوگی۔۔۔۔کہ وہ دونوں ایک دوسرے میں مگن ھوگئ۔۔۔۔شرمین تو ایسی دوست پاکر بہت خوش تھی۔۔۔اور پھر آہستہ آہستہ وہ نفرتیں بھلا کر ھنسنا شروع ھوگئ تھی۔۔۔وہ زندگی میں پہلی بار سمعی کے سامنے ھی ھنسی تھی۔۔۔
دونون ایک دوسرے سے لڑتی بھی تھی۔۔۔۔ایک ساتھ کھلتی بھی تھی۔۔۔پہلے اسکول ساتھ جاتی تھی پھر اسکول کی جگہ کالج نے لے لی۔۔۔کھیلونوں اور گڑیاوں کی جگہ کتابوں نے لے لی پر ان کی دوستی ویسی ھی رہی ۔۔۔۔سمعی جسیی دوست ملنے کے بعد شرمین خود ھی خاندان والوں سے الگ رہنے لگی تھی۔۔۔
جب بھی خاندان سے کوئی اتا وہ خاموشی سے نکل کر سمعی کے گھر چلی جاتی بنا کسی سے کوئی بات کیے۔۔۔۔اور خاندان کی لڑکیاں اس کی خاموشی اور الگ تھلگ رہنے کو اس کا غرور اور حسن پر ناز سمجھتی تھی۔۔۔سب بولتی کے وہ بہت مغرور ھے اور بے حد حسین بھی۔۔۔لیکن اگر حسن منحوس ھو تو بد صورتی سے زیادہ گھناونا ھوتا ھے۔۔۔شرمین جب یہ سنتی تو بے بسی سے مسکرا دیتی اور ایا اس کی بے بسی پر افسوس کرتی رہے جاتی۔۔۔۔
شرمین بڑے ھوکر حسن کی دیوی نکلی تھی
۔۔بے حد گھنے لمبے سلکی بال۔۔بڑی بڑی جھیل جیسی انکھیں جن میں بے حد اداسی اور معصومیت تھی جو اس میں کشش پیدا کرتی تھی۔۔۔دودھ کے جیسا صاف رنگ۔۔۔۔کھڑی ناک۔۔۔۔
لیکن اس کی انکھین بولتی تھی جب بھی وہ انکھوں سے کسی کو دیکھتی تو مقابل دو پل کے لیے اس کی انکھوں میں کھو سا جاتا۔۔۔۔
کبھی کبھی سمعی اس کو مزاق میں کہا کرتی تھی ۔۔جب وہ سمعی کو کسی بات پر گھور خر دیکھتی۔۔تو سمعی فورن بولتی شرمین ایسے مت دیکھا کر قسم سے تیری انکھیں اتنی گھیری ھیں کے کسی دن میں ان میں پوری کی پوری ڈوب جاوں گی۔۔۔اور شرمین غصہ بھلا کر معصومیات سے ھنس دیتی۔۔۔۔نازک سی ناک جسے جب وہ غصہ سے سکھڑتی تھی تو اور بھی حسین لگتی تھی گلابی گلابی ھونٹ بے داغ رنگت اسکا حسن بلا شبہ لوٹ لینے کی حد تک پرکشش تھا۔۔جسم تھا کہ سانچے میں ڈھلا ھوا جو لباس پہن لیتی سج جاتا۔۔۔
مگر خاندان کے تمام لڑکے تک اس کے اس بے پناہ حسن سے خوف زیادہ رہا کرتے تھے۔۔۔۔
ان کو بچپن سے ہی یہ سمجھایا گیا تھا کہ بری سے بری چیز کی تمنا کر دینا مگر شرمین کا نام اپنے ھونٹوں تک نا لا۔۔۔۔
وہ چھوت کی بیماری کی طرحسب سے جدا ھوگئ تھی۔۔۔۔۔۔
اور اب اسے خود بھی اپنی منحوصیت پر یقین سا آگیا تھا۔۔۔۔۔اسے یقین تھا کے بڑے تایا اور پھوپو کا انتقال بھی ان کی دائمی بیماریوں کی وجہ سے نہیں بلکے اس کی وجہ سے ھوا ھے۔۔۔۔وہ شاہید بھائ منگنی میں چلی گئ تھی اس کا سایہ پڑ جانے سے انکا accident ھوگیا۔۔۔اس قسم کے بے شمار واقعات تھے جو صرف اور صرف اس کی شمولیت سے وجود میں ائے تھے۔۔۔۔اس لیے اسے تقاریب میں نہیں بلایا جاتا تھا اور اگر کوئی ہمدری میں بلا لیتا تو کوئی نا کوئی ایسی ناگہانیصیبت ٹوٹتی کہ اسے بھری محفل میں کوسنے سنے کو ملتا اس لیے اس نے خود ھی تمام دینا سے خود کو توڑ لیا تھا۔۔۔۔اس کی دینا یا تو اسکا کالج تھا یا پھر سمعی کا گھر جہاں وہ کم جایا کرتی تھی۔۔۔زیادہ تر سمعی اس کی طرف آجایا کرتی تھی۔۔۔سمعی کو اس کے سارے گھر والوں سے نفرت تھی۔۔۔
سمعی کا کہنا تھا کہ اگر وہ شرمین کی جگہ ھوتی تو اب تک کب کی مرچکی ھوتی۔۔۔۔ناجانے شرمین جیسی نازک لڑکی میں اتنی ہمت کہاں سے اگئ تھی۔۔اس کی پانچ بہنوں کی شادی ھوگئ تھیں اور ساری اپنے سسرال میں خوش تھیں۔۔۔ان کی شادیوں میں بھی شرمین نے اللہ سے گڑا گڑا کر نماز میں دعا مانگی تھی کہ کچھ غلط نا ھو جس کا الزام اس کو دیا جائے۔۔۔۔اور خود اس نےکافی حد تک یہ کوشش کی تھی کہ بہنوں پر اسکا سایہ نا پڑے۔۔۔تمام کام وہ چھپ چھپ کر کرتی جب بہنوں کی رخصتی کا وقت ایا اور سمعی اسے بلال لائے کہ او بہن سے مل لو تو اس نے ہر بار انکار کردیا ہی کہلوا دیا کہ اس وقت نہیں میں بعد میں مل لونگی۔۔۔اور کمرے میں بیٹھ کر بے تحاشہ روتی رہی جب کے بہنوں نے اس کو کبھی پیار سے دیکھا تک نہیں۔۔۔۔ان کی رخصتی وہ پر وہ ایسے بلک بلک کر روتی رہی جیسے ان بہنوں نے اس کو بہت پیار دیا ھو۔۔۔اور ان بہونوں کی شادیوں کا ہی موقع تھا۔۔۔۔جب امی نے پہلی بار اس کو اپنے پاس بلا کر بیٹھایا اور پیار کیا اور کہا تم نے اچھا کیا جو اس وقت تم نہیں ائ۔۔۔مجھے تمھاری یہ بات پسند ائ۔۔۔۔اور شرمین ماں کا پیار دیکھ کر خوشی سے دیوانی ھوگئ تھی۔۔۔کمرے میں اکر کافی دیر تک آیا کی گود میں سر رکھ کر مسکراری رہی۔۔۔۔۔۔اسی طرح ایک کے بعد ایک بہن کی شادی ھوتی گئ مگر اس کو کوئی دلچسپی نا تھی۔۔۔۔اور اب تو اس نے کالج بھی جوائن کرلیا تھا۔۔۔جب سے وہ کالج جانا شروع ھوئ تھی کافی خوش رہنے لگی تھی۔۔۔اس کے خوابوں میں بسنے والا ideal گھر مل گیا تھا جسکا نام بھی منزل مقصود تھا جسے دیکھ کر اس کو آحساس ھوتا تھا جسیے یہ اس کی منزل مقصود ھے۔۔۔۔last destination جہاں اس کی منحوسیت ختم ھوگی اور وہ آرام کرسکے گی۔۔۔۔مگر یہ حسرت اب تک حسرت ھی رہی تھی دل میں قید ابھی تک تو اس ideal گھر کو اندر سے دیکھنے کی تمنا بھی پوری نہ ھوئ تھی۔۔۔۔۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کہاں گم ھو شرمین بیگم ؟؟؟؟؟
تمھاری منزل مقصود اگئ ھے۔۔۔۔۔
سمعی نے شرارت سے شرمین کو ٹھوکا دیا اور شرمین بے ترتیب خیالوں سے چونک اٹھی اور نگاہیں اس بنگلے پر جم گئ۔۔۔۔
چلو آو۔۔۔۔۔۔
سمعی نے اسکا ہاتھ تھام کر بنگلے کے چھوٹے سے گیٹ کی طرف بڑھ گئ۔۔۔۔شرمین اس کو روکتی رہی ۔۔۔۔نہیں نہیں سمعی خدا کے لیے !!!!
ایسا نا کرو۔۔۔۔۔وہ اس حسین گھر کخ جوشیاں اور آرام اپنے منحوصیت سے نہیں چھینا چھاتی تھی۔۔۔
سمعی پلیز !!!!!!!!
شرمین بےحد بےبسی سے بولی اس کی آواز میں قرب اور آنسوں تھے۔۔۔۔۔
کسیی باتیں کر رہی ھو شرمین ؟؟؟
اتنا پڑھ لکھ خر بھی تم وہی جہالت کی بات کر رہی ھو۔۔۔تیرے جیسا حسن اور معصوم وجود کیسے کسی کے لیے منحوس ھوسکتا ھے۔۔۔۔عقل کی بات بھی کرلیا کرو کبھی شرمین۔۔۔۔
سمعی اسکی کیفیت اور اداسی دیکھ کر بولی۔۔اور جھنجلا کر کال بیل پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔
شرمین کی حالت غیر ھوئی جارہی تھی۔۔ دل ہی دل میں جتنی صورتیں اس کو یاد تھی وہ پڑھ رہی تھی۔۔۔۔جب کے سمعی اطمنان سے کھڑی تھی۔۔۔۔
ایک دم گیٹ کھلا اور پھر ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...